قاری سیف اللہ پاکستان کے اہم سیاسی واقعات میں بڑا کردار رہا

قاری سیف اللہ پاکستان کے اہم سیاسی واقعات میں بڑا کردار رہا

بینظیر بھٹو اورپرویز مشرف پر قاتلانہ حملوں، ناکام فوجی بغاوت میں بھی نام آیا نائن الیون کے بعد امریکی حملے کا سامنا کرنے کے بجائے پہلے ہی پاکستان واپس آگیا 2010 سے 2015 تک ایک صوفی سلسلے کی خانقاہ میں درویشی کا روپ اپنایا پرانے دوستوں کی فرمائش پر ایک بار پھر سرگر م ہوا، رواں سال جنوری میں مارا گیا

(تجزیاتی رپورٹ ، ماجد صدیق نظامی) افغان حکومت کی جانب سے جس قاری سیف اللہ اختر کی موت کی تصدیق کی گئی ہے وہ پاکستان کے اہم سیاسی واقعات میں بڑا کردار رہا ہے ، دو مرتبہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلانہ حملوں ، جنرل مشرف پر قاتلانہ حملے اور ایک ناکام فوجی بغاوت میں کالعدم حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ سیف اللہ اختر کا نام آیا۔ اسامہ بن لادن اور ملا عمر سے قریبی تعلقات رکھنے والے 58 سالہ عسکری کمانڈر کی زندگی ریاست کی پیچیدہ پالیسیوں کی عکاس رہی۔ کبھی جیل کبھی رہائی، کبھی گوشہ نشینی کبھی متحرک، کبھی افغانستان میں جہاد تو کبھی پاکستان میں دہشت گردی ہر حوالے سے سیف اللہ اختر کا نام آیا۔ سیف اللہ اختر نے 2010 سے 2015 تک لاہور کے نواح میں ایک صوفی سلسلے کی خانقاہ میں درویش کا روپ اپنائے رکھا، لیکن ملا محمد عمر کی وفات کے بعد نئے بننے والے سیٹ اپ میں پرانے دوستوں کی فرمائش پر ایک بار پھر سرگرم ہوا۔ پاکستان میں متحرک رہنے کے کچھ عرصہ بعد افغانستان میں امریکی و افغانی افواج کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔ 2004 میں جنرل مشرف پر حملے کے الزام میں گرفتار ہونے والے سیف اللہ اختر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد سے تین ماہ پہلے رہا کیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ رہائی بھی ایسے ہوئی کہ پوٹھوہار کی پہاڑیوں میں ایک کار سے اتار دیا گیا۔ 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں واشگاف الفاظ میں قاری سیف اللہ اختر کو کراچی میں اپنے اوپر ہونے والے حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور الزام عائد کیا کہ سانحہ کارساز کرانے میں پرویز مشرف کے ساتھیوں اور قاری سیف اللہ اختر کا گٹھ جوڑ تھا اور اسی لئے قاری کو بطور خاص رہا کیا گیا تاکہ وہ مجھے نشانہ بنا سکے ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد فروری 2008 میں قاری سیف اللہ کو دوبارہ حراست میں لے لیا گیا جبکہ بے نظیر بھٹو کے حامیوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسے گرفتار نہیں بلکہ حفاظتی تحویل میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں سیف اللہ اختر کو انسداد دہشت گردی عدالت کراچی میں پیش کیا گیا اور دوسری سماعت میں ہی ضمانت پر رہائی مل گئی۔ رہائی کے بعد خبریں سامنے آئیں کہ وہ وزیرستان جا چکا ہے اور وہاں سے اپنے گروپ کی قیادت کر رہا ہے ۔ 2010 میں جنوبی پنجاب سے ایک بار پھر گرفتاری ہوئی ، لیکن نوے دن بعد ہی پنجاب حکومت کے احکامات پر دوبارہ رہا ہو گیا۔ اس کے وکیل حشمت حبیب کی جانب سے بیان حلفی عدالت میں جمع کرایا گیا کہ سیف اللہ اختر کا دہشت گردانہ سرگرمیوں سے کوئی تعلق نہیں اور اب وہ ایک صوفی سلسلے سے وابستہ ہو کر تصوف پر عمل پیرا ہے ۔ ماضی پر نظر ڈالی جائے تو سیف اللہ اختر نے ایک مرتبہ پہلے بھی بے نظیر بھٹو کی جان لینے کی کوشش کی اور ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1995 میں آپریشن خلافت کے نام سے ہونے والی ناکام فوجی بغاوت میں جن سویلین لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سیف اللہ اختر سر فہرست تھا ۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے سیف اللہ اختر کو ہتھیاروں کی فراہمی اور 30 کمانڈوز لانے کا ٹاسک دیا ، لیکن سیف اللہ اختر کو کوہاٹ کے گرین ہوٹل کی پارکنگ میں مقامی پولیس نے ہتھیاروں سمیت گرفتار کر لیا ۔ پہلے پہل یہ کہا گیا کہ یہ ہتھیار کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے جمع کئے گئے تھے لیکن بعد ازاں تحقیقات میں سازش کا بھانڈا پھوٹ گیا ۔ منصوبہ یہ تھا کہ میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی اسٹاف کار کی آڑ میں تیس لوگ کمانڈوز کی وردیوں میں کور کمانڈر کانفرنس پر حملہ کرکے جی ایچ کیو پر قبضہ کریں گے ، اس کے بعد خاتون وزیر اعظم کو قتل کر کے خلافت کا اعلان کریں گے ۔ (قابل ذکر بات یہ ہے کہ جنرل عباسی کی تقریر مفتی سعید نے لکھی، جو آج کل تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن ہیں اور عمران ریحام شادی کے نکاح خواں تھے )۔ بغاوت کیس سے رہائی کے بعد سیف اللہ اختر افغانستان میں طالبان دور حکومت میں ملا عمر کا معتمد خاص بھی رہا ، لیکن نائن الیون کے بعد امریکی حملے کا سامنا کرنے کے بجائے پہلے ہی پاکستان واپس آگیا۔ یہاں سے قاری سیف نے متحدہ عرب امارات روانہ ہو کر وہاں اپنا سیٹ اپ قائم کیا۔ دو ہزار چار میں جنرل مشرف پر حملے کے الزام میں پاکستانی حکومت کی درخواست پر اماراتی حکومت نے گرفتار کر کے پاکستان روانہ کیا، لیکن یہاں نہ تو کسی عدالت میں پیش کیا گیا اور نہ ہی کوئی مقدمہ قائم کیا گیا ۔ اب دو دن قبل افغانستان کے ادارے نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سیکیورٹی نے تصدیق کر دی کہ کالعدم حرکت الجہاد الاسلامی کے سربراہ سیف اللہ اختر کو جنوری میں افغانستان کے صوبہ غزنی میں ایک آپریشن کے دوران مار دیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں