شیخی نہیں , معقول حکمرانی !
محترم وزیر اعظم ! آج کے پاکستان میں آپ کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ آپ کرپشن ختم کرنے اور ترقی یقینی بنانے کے وعدے پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک آئے ہیں۔
(امتیاز گل ) محترم وزیر اعظم ! آج کے پاکستان میں آپ کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے ۔ آپ کرپشن ختم کرنے اور ترقی یقینی بنانے کے وعدے پر سوار ہوکر اقتدار کے ایوانوں تک آئے ہیں۔ آپ کی شخصیت کے سحر، یکسوئی اور امور خارجہ کے حوالے سے واضح سوچ نے علاقائی معاملات میں ملک کی رابطہ کار حیثیت بحال کی ہے ۔ اس سے پاکستان میں چند دوست ممالک کی طرف سے سرمایہ کاری کا امکان بھی توانا ہوا ہے ۔ چین نے پہلے ہی پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے حوالے سے اچھی خاصی سرمایہ کاری کر رکھی ہے جو شدید بحرانی کیفیت سے دوچار پاکستانی معیشت کے لیے بے حد ضروری تھی۔ چند وزراء کی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے اسلام آباد اور بیجنگ کے درمیان غلط فہمیاں پروان چڑھیں اور سی پیک کی ٹرین کے رکنے کا خدشہ پیدا ہوا۔ پس پردہ سفارت کاری کے ذریعے اس نقصان کے ازالے کی کوششیں بہت حد تک کامیاب رہی ہیں تاہم چینیوں میں پائی جانے والی بدمزگی برقرار ہے ۔ سی پیک سے وابستہ منصوبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوچکی ہے ۔ خطرات صرف حکومت کیلئے نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے پاکستان کیلئے ہیں۔ اس کا سبب سادہ ہے ، یہ کہ پاکستان کے حکومتی ڈھانچے میں بصیرت اور مختلف منصوبوں کے حوالے سے اربوں ڈالر کو بروئے کار لانے کی صلاحیت نہیں۔ سی پیک کے حوالے سے ابتدائی منصوبہ بندی چینیوں نے کی ہے جبکہ پاکستانی وزرا اور بیورو کریسی نے انہیں کئی ماہ تک پریشان رکھا تھا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے روشن امکانات غیر بار آور ثابت ہوسکتے ہیں اگر ڈی ایم جی بابو صورت حال پر اثر انداز ہوں، التوائی حربے اختیار کیے جائیں، ٹال مٹول سے کام لیا جائے اور جہاں بھرپور ذہانت اور غیر معمولی تیزی سے اقدامات کی ضرورت ہو وہاں روایتی نوعیت کی منصوبہ بندی اور نظام الاوقات سے کام لیا جائے ۔ ایسی بیورو کریسی سے کیا امید رکھی جائے جو ایک دوست ملک کی طرف سے تعاون کے معاہدے کی تجویز پر بروقت رسپانس دینے میں ناکام رہی۔ ہفتوں تک بیرون ملک متعلقہ افراد پاکستانی فیڈ بیک کے منتظر ہی رہے مگر بابوؤں نے ، جو کمپیوٹرز کو مشکل ہی سے ہاتھ لگاتے ہیں، سرمائے کو ترسے ہوئے ملک میں نئی سرمایہ کاری کے لیے کلیدی سمجھی جانے والی دستاویزات کا جواب دینے کے حوالے سے پائی جانے والی حساسیت اور نزاکت محسوس ہی نہ کی۔ محترم وزیر اعظم! آپ کیوبا کے انقلابی لیڈر فیڈل کاسترو نہیں اور نہ ہی پاکستان کمیونسٹ کیوبا ہے جہاں کئی عشروں تک ایک پارٹی کا آمرانہ اقتدار رہا۔ اور نہ آپ شی جن پنگ ہیں جن کا چینی کمیونسٹ پارٹی کی صفوں میں آگے بڑھنے کا عمل اس وقت شروع ہوا تھا جب وہ صرف 15 سال کے تھے ۔ اور نہ ہی پاکستان شی جن پنگ کی سربراہی میں آگے بڑھتے ہوئے چین کے مماثل ہے ۔ نہ آپ انتہائی دائیں بازو کے شیو سینک ہیں جیسا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی ہیں۔ اور نہ پاکستان بھارتی معاشرے کو خانوں میں بانٹنے والے ذات پات کے نظام سے آلودہ ہے ۔ اور آپ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان جیسے بھی نہیں جنہیں سیاسی اعتبار سے اب تک چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔ اور نہ آج کا پاکستان ترکی کی طرح سیاسی اعتبار سے حالت محرومی میں ہے ۔ مگر خیر، آپ میں ملک کے معاملات کو درست کرنے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے درکار یکسوئی اور جوش و جذبہ ہے ۔ یہی سبب ہے کہ جناب وزیر اعظم آپ کو ایک ایسے ملک میں اپنے لیے الگ اور منفرد مقام پیدا کرنا ہوگا جہاں معاملات کو جوں کا توں رکھنے کی خواہش مند قوتیں(پی پی پی، ن لیگ اور ان کی طویل المیعاد معاون بیورو کریسی) بھی اپنا کام کر رہی ہیں۔ تبدیلی کی مخالف قوتیں پی ٹی آئی کی ناتجربہ کاری، اندرونی مخاصمت، کرپشن پر آپ کے ذہن کی سوئی کے اٹک جانے اور اپوزیشن کے mode والی حکمرانی کو خوب کیش کرا رہی ہیں۔ آپ کو کرپشن کے حوالے سے بڑی بڑی باتوں کا سلسلہ روک کرحکمرانی کا معیار بلند کرنے پر متوجہ ہونا ہے اور محض منصوبہ سازی کو ترجیح نہیں دینی بلکہ ان ٹیکنوکریٹس اور ماہرین کی فہرست بھی تیار کرنی ہے جو آپ کو (1)منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرانے میں مدد دیں،(2) مہارتوں میں اضافہ کرنے کے قومی سطح کے پروگرام ہنگامی بنیاد پر شروع کرنے کے حوالے سے حکومت کی رہنمائی کریں۔ متوقع فنڈز کو بروئے کار لانے کے حوالے سے اس کی کلیدی اہمیت ہے ،(3) منصوبہ بندی اور نظم و نسق کے حوالے سے حکومتی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے میں مدد دیں۔ ترقی کے حوالے سے تحریک پانے کے لیے خلیجی ریاستیں اچھی مثال ہیں جہاں کے حکمرانوں نے غیر ملکی ماہرین اور مشیروں کی مدد سے صحراؤں کو معاشی نخلستان میں تبدیل کیا۔ ترقی کے لیے چین جیسے دوستوں کو بھی رہنما بنایا جاسکتا ہے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی قومی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے تحریک دی جاسکتی ہے ۔ بہت سے پاکستانی بیرون ملک اپنے شعبے کے کلیدی عہدوں پر تعینات ہیں۔اگر بیورو کریسی کے شکنجے سے دور رکھ کر انہیں ملک کی خدمت کا موقع دیا جائے تو وہ وطن عزیز کو مکمل طور پر تبدیل کرنے میں بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔