حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں (تجزیہ: سلمان غنی)
پاکستان کی سیاسی بدقسمتی ہے سیاست چمکانے کیلئے الزام تراشی کا سہارا لیا جاتا ہے اچھا ہوتا کورونا پر سیاست کی بجائے مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کر کے آگے بڑھا جاتا
(تجزیہ: سلمان غنی) کورونا وائرس کے اثرات کے نتیجہ میں بڑھتی ہوئی اموات نے ملک میں تشویش کی صورتحال طاری کر رکھی ہے تو دوسری جانب حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الزام تراشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہے ۔ خصوصاً سندھ کے محاذ پر سندھ حکومت کی کورونا پر کارکردگی اور جواباً تحریک انصاف کی قیادت خصوصاً بعض وفاقی وزرا کے الزامات کی روش نے یہاں محاز آرائی کی ایسی صورتحال پیداکر رکھی ہے کہ جس میں انہیں کوئی سیاسی فائدہ ہو یا نہ ہو البتہ کورونا کے متاثرین اور خصوصاً ریلیف کا عمل براہ راست متاثر ہوتا نظر آرہا ہے ۔وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور اپوزیشن لیڈر شمیم نقوی کورونا پر پیدا شدہ صورتحال کے حوالے سے ایک طرف جہاں ہاتھ جوڑتے ہوئے اس وقت سیاست نہ کرنے کی بات کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری جانب ان کی جانب سے الزام تراشی کی روش بھی جاری ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر آخر سیاست کیا ہے ۔ اس صورتحال میں سندھ کے محاذ پر محاذ آرائی اور تناؤیہ ظاہر کر رہا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو ہضم کرنے کیلئے تیار نہیں اور ایک دوسرے کی کارکردگی کے دعوے ایکسپوز کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ حکومتوں کو اپنا کام کرنے دیا جاتا ۔اس طرح سیاسی جماعتیں اس کے کارکن کا براہ راست عوام سے رابطہ بھی ہوتا اور عوام بھی ان کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ۔ پاکستان کی بڑی سیاسی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ عوام کے نام پر سیاست کرنے والے اپنی سیاست چمکانے کیلئے خدمت کے محاذ کو سرگرم کرنے کی بجائے الزام تراشی کا سہارا لیتے ہیں جس سے ایک طرف تو سیاسی انتشار اپنے عروج پر پہنچا ہے تو دوسری جانب سیاسی جماعتیں آہستہ آہستہ عوام سے کٹتی چلی جاتی ہیں اور آج کی صورتحال بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں۔ خصوصاً سیاسی محاذ پر جتنے لیڈر الزام تراشی کی روش اختیار کرتے نظر آ رہے ہیں اگر ان کی عوامی سطح پر متاثرین کورونا کے حوالے سے کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہوگی اور وہ اپنے بیانات اور الزماات کی بنیاد پر یہ سمجھتے نظر آتے ہیں کہ جیسے ملکی سیاست کا بوجھ انہوں نے اٹھا رکھا ہے اور سیاست ان کی وجہ سے چل رہی ہے ،ان کی اکثریت ان موقع پرستوں پر مشتمل ہے جو کوئی واضح نظریات نہیں رکھتے اور ہر آنے والی حکومت میں کسی نہ کسی انداز میں داخل ہو کر وقت کے حکمران کی خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعہ سیاسی مخالفین کو للکارتے اور ان پر دھاڑتے نظر آتے ہیں اور وقت بدلنے کے ساتھ ہی اس کشتی سے چھلانگ لگا کر دوسری راہ لیتے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہوتا جبکہ حکومت کے لوزر ہونے کے چانس اس لئے زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کے پاس گنوانے کیلئے بہت کچھ ہوتا ہے ۔ کورونا وائرس اور اس کے اثرات اتنی جلد ختم ہونے والے نہیں۔ یہ ٹی ٹوئنٹی نہیں پورا ٹیسٹ میچ ہے ۔ اچھا ہوتا کہ اس پر سیاست چمکانے اور ایک دوسرے کو دیوار سے لگانے اور بے نقاب کرنے کی پالیسی اختیار کرنے کی بجائے مشترکہ لائحہ عمل کا تعین کر کے آگے بڑھا جاتا ۔ لاک ڈاؤن کہیں سخت ہے کہیں نرم اور حکومتوں کا اس پر اپنا اپنا نکتہ نظر ہے تو ہم آنے والے کل میں کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے ۔