پاور سیکٹر سے متعلق رپورٹ پبلک کرنیکی منظوری اہم پیش رفت
کمیشن کی ذمہ داری ایسے شخص کو دینے کا فیصلہ جو 90روز میں رپورٹ دے گا وزیراعظم اور حکومت کااصل امتحان‘ دیکھنا یہ ہے وہ واقعتاً مافیاز کی گرفت کر پاتے ہیں
(تجزیہ: سلمان غنی) وفاقی کابینہ کی جانب سے پاور سیکٹر سے متعلق رپورٹ پبلک کرنے کی منظوری کے اقدام کو بجلی کی پیداوار، اس کی فراہمی اور قیمتوں کے تعین کے عمل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے جس کے ہے اور کتنے میں عوام کو فراہم کی جاتی ہے اور کب تک پاکستان بجلی کے ان پرائیویٹ منصوبوں کے ہاتھوں یرغمال بنا رہے گا اور عوام مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہوں گے ۔ کابینہ ذریعے پتہ چل سکے گا کہ حکومت کو آئی پی پیز کے ذریعے بجلی کن قیمتوں پر خریدنا پڑتینے اس حوالہ سے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا اور اس کی ذمہ داری ایسے شخص کو دینے کا فیصلہ کیا جس کی ساکھ پر دو آرا نہ ہوں اور نہ تحقیقاتی کمیشن نوے روز کے اندر تحقیقاتی رپورٹ اور اپنی سفارشات دینے کا پابند ہوگا لہٰذا مذکورہ کمیشن کی تشکیل اور اس حوالہ سے رپورٹ اوپن کرنے کے فیصلہ کے حوالہ سے سوالات یہ اٹھ رہے ہیں کہ حکومت کو یہ اقدامات کرنے کی ضرورت کیونکر پیش آئی اور کیا وجہ ہے کہ بجلی بنانے والی کمپنیاں ازسر نو قیمتوں کی تعین پر مذاکرات کیلئے تیار نہیں۔ ماضی کی حکومتوں نے اس پر نظرثانی کی ضرورت کیونکر محسوس نہیں کی۔ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ معاہدے ملکی معیشت اور عوام پر بوجھ بنیں گے اور پاکستان زیادہ دیر تک ان کا متحمل نہ ہو سکے گا لیکن اس وقت کی حکومت نے انتہائی مشکل شرائط پر یہ معاہدے کر ڈالے ۔اس وقت کی اپوزیشن مسلم لیگ ن کی تھی اور ان معاہدوں پر ن لیگ نے آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا او راعلان کیا تھا کہ ان کی برسراقتدار آنے کے بعد وہ ان معاہدوں پر نظرثانی کریں گے ۔ لیکن وہ یہ بات بتانے سے احتراز برتتے رہے کہ ان معاہدوں کو سٹیٹ کی جانب سے گارنٹی دی گئی تھی اور یہی وجہ تھی کہ 30 سال تک انتہائی مہنگی بجلی ان بجلی ساز اداروں سے خرید کر نیشنل گرڈ میں ڈالی جاتی رہی اور ہر دور کا اشرافیہ بجلی ساز اداروں کے اشرافیہ کو سپورٹ کرتا رہا ۔کچھ رپورٹس میں یہ کہا گیاکہ یہ بجلی ساز ادارے اپنی لاگت سے بہت زیادہ منافع کما چکے ہیں اور کما رہے ہیں اور کوئی بھی ان کو چیلنج کرنے اور ان پر ہاتھ ڈالنے کیلئے تیار نہیں اور اب بھی حکومت کی جانب سے اس حوالہ سے بنائی جانے والی کمیٹی اس کی سفارشات کو کابینہ میں لانے اور اس پر کمیشن کی تشکیل کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ آنے والے وقت میں یہ بجلی ساز ادارے سٹیٹ کی جانب سے دی جانے والی گارنٹی کو بنیاد بنا کر دنیا کی مختلف ممالک میں کورٹس سے رجوع کر سکتے ہیں ۔ان کا یہ بھی کہناہے کہ اس سارے عمل کے باعث عام آدمی کو بوجھ اٹھانا پڑا ہے ۔ ملکی معیشت پر اس کے اثرات ہوتے ہیں لہٰذا اب ہم ان کے متحمل نہیں ہو سکتے اور کمیشن کی سفارشات پر اس کی سپرٹ کے مطابق عمل پیرا ہوں گے ۔ حکومت کی جانب سے بعض اقدامات ایسے ہو رہے ہیں جن کے براہ راست اثرات اشرافیہ پر آئیں گے اور پاکستان کی بڑی سیاسی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ عوام کے نام پر برسراقتدار آنے والی حکومتوں کے ادوار میں عوامی مفادات کے تحفظ کے تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومتوں کو ان مافیاز اور اشرافیہ کے دباؤ میں آتے دیکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امیر امیرتر بنتا گیا اور غریب غریب تر ہوتا گیا لیکن اس سارے عمل کی وجوہات تلاش نہ کی گئیں۔ یہاں مافیاز دن بدن طاقتور ہوتے گئے لہٰذا اصل امتحان خود وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کا ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ واقعتاً مافیاز کی گرفت کر پاتے ہیں۔ سکینڈلز میں ملوث گردن میں قانون کا شکنجہ کسا جاتا ہے اور اب بجلی کی پیداوار کیلئے پرائیویٹ کمپنیوں سے ہونے والے معاہدوں اور ان معاہدوں کیلئے ملنے والے کک بیکس کے ذمہ داران بے نقاب ہوتے ہیں اور کیا واقعتاً حکومت ان کے گرد شکنجہ کس پاتی ہے ۔ یہ حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے ،دیکھیں حکومت کیسے سرخرو ہوگی۔