سیاست میں مافیا کا راج ختم کرینگے : خوش قسمت ہوں معاشرے کیلئے ذمہ داری ملی، مدینہ کی طرح ملک کو فلاحی ریاست بنانا زندگی کا مقصد : عمران خان

سیاست میں مافیا کا راج ختم کرینگے : خوش قسمت ہوں معاشرے کیلئے ذمہ داری ملی، مدینہ کی طرح ملک کو فلاحی ریاست بنانا زندگی کا مقصد : عمران خان

20سالوں میں میری کئی بار کردار کشی کی گئی،سکینڈلز اور جعلی خبریں سامنے لا ئی گئیں ،زندگی میں بہت سی کامیابیاں سمیٹیں مگر دھچکے بھی لگے ،امیر وہ جو ضمیر کا سودا نہیں کرتا ، خدا نے جدوجہد کی طاقت دی ، کامیابی اختیار میں نہیں، انا سب سے زیادہ تباہ کن خصلت ، مفاد کیلئے سیاست میں نہیں آیا ،انٹرویو ،وزیر اعظم آج جہلم میں یونیورسٹی کا افتتاح کرینگے

اسلام آباد( نیوز ایجنسیاں، دنیا نیوز )وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستانی سیاست میں مافیا ز کا راج ہے ،اشرافیہ اور مافیا کی اجارہ داری کو ختم کریں گے ، ہمیں قانون کو سپریم بنانا ہو گا ۔خوش قسمت ہوں معاشرے کیلئے ذمہ داری ملی ، ریاست مدینہ کی طرح ملک کو فلاحی ریاست بنانا زندگی کا مقصد ہے ، بیس سالہ جدوجہد میں بہت سے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا، طاقتور لوگ میری کردارکشی کیلئے سکینڈلز اور جعلی خبریں سامنے لائے ، با ضمیر شخص کسی کے سامنے نہیں جھکتا، نہ ہی اپنی غیرت کا سودا کرتا ہے ، قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا،عزت دار شخص کو کبھی خود کو ذلت میں نہیں ڈالناچاہئے ، مذہب کے معاملے میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی۔امریکی اسلامی سکالر حمزہ یوسف کے ساتھ آن لائن گفتگو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مذہب کے معاملے میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کی جاسکتی، خدا نے ہمیں جدوجہد کرنے کی طاقت دی ، کامیابی یا ناکامی ہمارے اختیار میں نہیں، پاکستان کے وسائل پر اشرافیہ کے قبضہ ہے ، قانون کی عدم موجودگی سے عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات سمیت بے پناہ صلاحیتوں سے محروم ہے اور پاکستان ترقی نہیں کر سکا ،قانون کی حکمرانی نہ ہو تو کوئی معاشرہ کبھی بھی اپنی صلاحیتوں کو حاصل نہیں کر سکتا، ہم پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس کی بنیاد ہمارے نبیؐ کی ریاست مدینہ کے تصور پر تھی،سیاست میں آیا تو مافیاز کا سامنا ہوا، گزشتہ 20 سالوں میں میری کئی بار کردار کشی کی گئی، میری بے عزتی کیلئے جعلی خبریں لگوائی گئیں، عزت دار شخص کو کبھی خود کو ذلت میں نہیں ڈالناچاہئے ، میرے نزدیک امیر وہ ہے جو ضمیر کا سودا نہیں کرتا۔ وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مسئلہ وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ تھا جس نے عوام کو طبی وسائل، تعلیم اور انصاف سے محروم کردیا، قانون کی حکمرانی کا فقدان ہے جس کی وجہ سے پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔وزیراعظم نے کہا کہ مہذب معاشرے کا بنیادی اصول قانون کی حکمرانی ہے جہاں طاقتور بھی قانون کے سامنے یکساں طور پر جوابدہ ہوتا ہے ۔انہوں نے وضاحت کی کہ ترقی پذیر ممالک میں سب سے بڑا مسئلہ قانون کی حکمرانی اور امیر اور غریب کے لئے امتیازی قوانین کی عدم موجودگی ہے ۔نبی کریم ؐ کی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کے لئے اس طرح کام کرو جیسے تم ہمیشہ زندہ رہو گے اور آخرت کے لئے اس طرح کام کرو جیسے کل مر جاؤ گے ۔وزیر اعظم نے کہا کہ آج انسان جو کچھ کرے گا اس کے اثرات آنے والی نسلوں پرمرتب ہوتے ہیں۔عمران خان نے کہا کہ زیادہ تر ترقی پذیر دنیا میں حکمران اپنے مفاد اور پیسہ کمانے کے لئے اقتدار میں آتے ہیں اور وہ اپنے ایمان کی وجہ سے سیاست میں آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میرے پاس سب کچھ تھا، میں ایک سپورٹس سٹار کے طور پر پہلے ہی ملک کا بڑا نام تھا اور میرے پاس بہت پیسہ تھا، اس لئے میرے لیے وزیر اعظم بننے کیلئے 22 سال تک جدوجہد کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ مجھے یقین تھا کہ معاشرے سے متعلق میری ذمہ داری ہے کیونکہ مجھے دوسروں سے زیادہ دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ تمام مذاہب کے مطابق انسان کو زندگی میں ملنے والے فوائد اور مراعات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا،وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ذاتی مفادات یا اقتدار کے فوائد حاصل کرنے کے لئے سیاست میں نہیں ہیں،خدا نے ہمیں جدوجہد کرنے کی طاقت دی ہے ، ہم کامیاب ہوں یا نہ ہوں یہ ہمارے بس میں نہیں ۔عمران خان نے کہا کہ جب حضرت محمد ؐ نے مدینہ کی ریاست قائم کی تو آپ نے ان لوگوں کی صلاحیتوں کو اْجاگر کیا جو سب کے سب رہنما بن گئے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد کو معیاری تعلیم تک رسائی حاصل ہے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان میں جدوجہد کی جیت پاکستانی عوام کی صلاحیتوں کو نکھار دے گی اور دوسرا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا ہے ۔عمران خان نے کہا کہ حکومت نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فلاحی پروگرام شروع کیا کیونکہ ہمارا مقصد لوگوں کو غربت سے نکالنا، وسائل پیدا کرنا اور اسے پھیلانا اور اشرافیہ اور مافیاز کی اجارہ داری کو توڑنا ہے ۔عمران خان نے کہا کہ میری بے عزتی کیلئے جعلی خبریں لگوائی گئیں، مجھے یقین تھا کہ کوئی بھی شخص میری بے عزتی نہیں کرسکتا یہ لوگ کچھ بھی کرلیں، غیرت کا جذبہ انسان کی بہت اچھی خصوصیت ہے ۔انہوں نے کہا کہ دوسری جانب میں نے تقریباً دو دہائیوں تک بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ لیا اور اس عرصہ میں آپ بہت سے اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہیں یہ بھی آپ کو کافی سکھاتا ہے ، جب آپ ناکامی سے دوچار ہوتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں آپ اپنی ذات کا تجزیہ کرتے ہیں، جب آپ اس اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہیں ، جب آپ عروج پر جاتے ہیں تو اور پھر کوئی دھچکے لگتے ہیں ،20سالوں میں مجھے بھی بہت سے دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ میں نے بہت سی کامیابیاں بھی سمیٹیں مگر بہت سے دھچکے بھی لگے ، کسی شخص پر مذہب یا ایمان کے معاملے میں زبردستی کی جاسکتی ہے کیونکہ میرے نزدیک ایمان کی دولت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عنایت ہوتی ہے ۔ ہر کسی کو ایمان کی دولت نصیب نہیں ہوتی اور جب آپ اس دولت سے مالا مال ہو جائیں توزندگی کے بارے میں آپ کا نقطہ نظر مکمل طور پر بدل جاتا ہے ، کیونکہ آپ کو یقین ہو جاتا ہے کہ کامیابی ، عزت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے کسی انسان میں سب سے زیادہ تباہ کن خصلت ہوسکتی ہے وہ انسان کی انا ہے ، اگر آپ انا کو قابو میں نہیں رکھتے تو یہ بہت تباہ کن ہو سکتی ہے اور میں نے دیکھا ہوا ہے کہ اس نے انسانوں کو تباہ کردیا، سچا ایمان آپ کی انا کو پوری طرح قابو میں رکھتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے کہ تین چیزیں اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں، پہلی چیز عزت اور ذلت ہے جب تک اللہ تعالیٰ نہ چاہے کوئی آپ کو ذلیل نہیں کرسکتا اور نہ ہی عزت دے سکتا ہے ، دوسرا یہ کہ آپ کو زندگی میں کتنا رزق یا دوسرے لفظوں میں کتنا پیسہ ملے گا آپ زندگی میں کتنا پیسہ کما لیں گے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے آپ فقط کوشش کرسکتے ہیں، یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے کرنا ہے کہ آپ کتنا امیر ہوں گے ، اور تیسرا زندگی اور موت ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ، میری نظر میں یہی تین پہلو ہمیں تشویش میں مبتلا کرتے ہیں، ہم مرنے سے ڈرتے ہیں، ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں کہ ہماری بے عزتی نہ ہوجائے یا ہم اپنے ذرائع معاش سے محروم نہ ہو جائیں ، میری رائے میں جب آپ کے پاس ایمان کی دولت اور آپ کو کامل یقین ہوکہ وہ چیزیں جوآپ میں سب سے زیادہ خوف پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں ،سیاست میں مافیاز ہیں، لوگ سیاست میں آنے سے ڈرتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ یا تو وہ مارے جائیں گے یا ان مافیاز کے ہاتھوں مار کھائیں گے ، پہلا خوف تو درحقیت مرنے کا تھا اور دوسرا بے عزت ہونے کا تھا کیونکہ وہ طاقتور لوگ تھے ، آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ 20سالوں کے دوران میری کردار کشی کی گئی، چیزیں نکال کر میرے خلاف لائی گئیں۔میرا یقین تھا کہ کہ کوئی انسان میری بے عزتی نہیں کرسکتا چاہے وہ جو مرضی کہتے رہیں، اور دوسرا زندگی اور موت میرے ہاتھ میں نہیں ، مرجانے کا یہ ڈر بھی انسان کی صلاحیتوں کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے اور یہ انسانوں کے صلاحیت کے مطابق کامیابیاں حاصل کرنے کے راستے میں رکاوٹ ہے لیکن اہم بات جو آپ نے کہی تھی وہ فخرہے ، مجھے اپنی زندگی میں یہ احساس بھی ہوا کہ غیرت کا جذبہ انسان کی سب سے بڑی خصوصیات میں سے ایک ہے اور ہماری زبان میں اسے غیرت کہتے ہیں، یہ انسان کی ایک زبردست خصلت ہے ، مجھے یاد ہے کہ میرا گھر تعمیر ہورہا تھا اور یہ سال کا گرم وقت تھا، میں گھر کودیکھ رہا تھا سورج شعلے برسا رہا تھا ، مزدور کا م میں مصروف تھے اور وہاں ایک نوجوان لڑکاتھا جس کی قمیض پسینے سے شرابورتھی اور ایک لمحے کے لئے بھی کام سے نہیں رکا جبکہ دیگر سایہ دار جگہوں پر سستاتے تھے اور پانی کا ایک گلاس پیتے تھے اور پھر کام کرتے تھے ،دن کے اختتام پر جب اس نے کام ختم کیا تو میں اس کے پاس گیا اسے پیسے د ئیے جواس کیلئے کافی بڑی رقم تھی ، تواس نے مجھ سے کہا سرآپ نے مجھے یہ رقم کیوں دی، تومیں نے اس سے کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ تم کیسے کام کرتے ہو، اس پر اس مزدور نے کہا کہ جو کام میں نے کیا اس کی اجرت مجھے ملے گی اور آپ اپنی رقم واپس لے لیں، اس عام مزدور کیلئے میرے دل میں جو عزت آج ہے وہ بہت سے ان امیر لوگوں سے بہت زیادہ ہے جن سے میں اپنی زندگی میں ملا ہوں، جن میں یہ والی غیرت اور وقار موجود نہیں، آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ایسے لوگ جن میں عزت ووقار کا مادہ ہوتا ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیا ان کے پاس پیسہ ہے یا نہیں، وہ ضرور عزت کماتے ہیں اورآپ ان کی عزت کرتے ہیں،انسان کے اندر مال و دولت نہیں غیرت بہت ضروری ہے ، با ضمیر شخص کسی کے سامنے نہیں جھکتا ۔انہوں نے کہا کہ میرٹ نہ ہو تو اشرافیہ وسائل پر قابض ہو جاتی ہے ، ملک سے اشرافیہ اور مافیا کی اجارہ داری کو ختم کریں گے ۔ان کا کہنا تھا بہت کم سیاستدان ایسے ہیں جو انسانیت کی خدمت کا جذبہ لے کر میدان میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ترقی پسند ملکوں میں ذاتی فائدہ ہی ان کے پیش نظر ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے بہت کم لوگ نیلسن منڈیلا کی طرح ہوتے ہیں جن کے پیش نظر عظیم مقصد کا حصول ہوتا ہے ۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسی عظیم مقصد کیلئے قربانیاں دیں۔ موت کا خوف ہی کامیابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ عزت نفس سب سے بڑی خصوصیت ہے ۔ کچھ لوگوں کے پاس پیسہ ہوتا ہے لیکن وقار نہیں۔ ادھر وزیراعظم عمران خان سنگ بنیاد رکھنے کے 25 ماہ بعد آج ضلع جہلم میں‘‘القادر یونیورسٹی’’ کا افتتاح کریں گے ۔القادر یونیورسٹی میں تصوف اور روحانیت پر مبنی تعلیم دی جائے گی۔اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم بھی پڑھائے جائیں گے ، القادر یونیورسٹی کا ایک بلاک مکمل ہوگیا ہے جبکہ مزید 2بلاکس کی تعمیر جاری ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں