بلوچستان کا مسئلہ سنگین ،مینگل کے استعفے کا تجزیہ ضروری

 بلوچستان کا مسئلہ سنگین ،مینگل کے استعفے کا تجزیہ ضروری

(تجزیہ:سلمان غنی) بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے سربراہ سردار اختر مینگل کے قومی اسمبلی سے استعفیٰ کے اعلان کو بلوچستان کے حالات اور اس کی ٹائمنگ کے حوالہ سے اہم قرار دیا جاسکتا ہے ۔

 استعفیٰ کا تجزیہ ضروری ہے کہ وہ اس میں کیا حق بجانب ہیں اور بلوچ قیادت نے خود بلوچستان کے مسائل کے حوالہ سے سنجیدگی ظاہر کی اور بلوچستان میں اگر احساس محرومی ہے تو اسکا ذمہ دار کون ہے ۔ بلوچستان کے مسائل کو سٹیک ہولڈرز نے بلوچ قیادت کے ساتھ بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کی اور ریاستی طاقت کی بنا پر حکومتی رٹ کے قیام کا مسئلہ ایک وقت اور ایک حد تک تو کامیاب رہا مگر اب یہ مسئلہ سنگین اور تشویشناک بنتا نظر آرہا ہے ۔وسائل بھی تھے حکومتی طاقت بھی تو پھر بلوچستان سے احساس محرومی کیونکر ختم نہیں ہو پایا۔ البتہ جہاں تک اختر مینگل ان کے تحفظات اور ان کے استعفیٰ کا تعلق ہے تو مینگل خاندان کی سیاست حکومت اور وفاق سے گلے شکوؤں کی سیاست رہی ہے وہ حکومتوں کا حصہ بھی رہے اور حکومتوں سے باہر بھی وہ اپنی سیاست کو بلوچستان تک محدود رکھتے ہوئے بلوچستان کے ایشوز کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی سیاسی اہمیت کو قائم رکھتے رہے ہیں ۔دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بلوچ قیادتوں خصوصاً قوم پرست جب حکومت میں ہوں تو انہیں اسلام آباد سے شکوے شکایات نہیں رہتے اور جب وہ حکومت سے باہر ہوں تو پھر سے انہیں شکایات شروع ہوجاتی ہیں ۔

بلوچستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں جو برسر اقتدار ہوتا ہے تو وہ دوسروں کو مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے بلکہ دوسروں کو غدار قرار دیا جاتا ہے جبکہ اس صورتحال کا تدارک نہیں ہوتا بات بنتی نظر نہیں آرہی آج کی بلوچ حکومت تسلیم کرتی ہے کہ وفاق پھر تعاون کررہا ہے اور پنجاب بھی اور بلوچستان میں ترقی کے عمل پر گامزن ہیں تو پھر اختر مینگل کو یہ سب کچھ نظر نہیں آرہا ،آج اگر اختر مینگل خود محرومیوں کی، مسائل کی بات کررہے ہیں تو اس کا جواب بھی بلوچستان کی حکومت کو دینا چاہیے اب صرف یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی کہ اختر مینگل خود پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ جہاں تک اختر مینگل کو تقریر کرنے سے روکنے اور اجلاس کے اندر کا تعلق ہے تو ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔ اختر مینگل خضدار سے ایم این اے بھی بنے ، مینگل قبیلہ کے سربراہ تو ہیں وہ پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم حکومتوں کا حصہ بھی رہے ہیں ،مطلب یہ کہ وہ آئین کے تحت جمہوری وسیاسی سسٹم کا حصہ رہے اور ان سے تو مسائل کے حل کیلئے معاونت لی جانی چاہیے کہ کیا انہیں مایوس ہونا چاہیے اور وہ استعفیٰ پر مجبور ہوں استعفیٰ کی قبولیت کا عمل بھی محض جمع کروانے یا اعلان کرنے سے نہیں اس کیلئے باقاعدہ طریقہ کار ہے استعفیٰ کے حوالہ سے سپیکر قومی اسمبلی سے ملاقات کر کے اس کی تصدیق کرنا ہوتی ہے لہٰذا ابھی یہ آپشن موجود ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی ان سے استعفیٰ کی واپسی کا کہیں اور وہ مان لیں اس لئے کہ اختر مینگل کا استعفیٰ بلوچستان کے حالات میں بہتری کے حوالہ سے اچھا نہیں ہوگا لہٰذا ان کے استعفیٰ کی واپسی کیلئے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں