فضل الرحمن کا خطاب قوم کی آواز ،اراکین نے خاموشی سے سنا

فضل الرحمن کا خطاب قوم کی آواز ،اراکین نے خاموشی سے سنا

(تجزیہ: سلمان غنی ) بلوچستان کے سلگتے حالات دہشت گردی کے رجحانات اور ملکی موجودہ صورتحال پر جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے قومی اسمبلی میں خطاب کو جرأت مندانہ ، حقیقت پسندانہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان کے خیالات سے عیاں تھا کہ وہ بلوچستان کے زمینی حقائق سے بھی آگاہ ہیں اور خیبرپختونخوا میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے پس پردہ عوامل پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے اپنے خطاب  کے ذریعہ اپنا نہیں بلکہ سیاسی قیادت کا کیس بھرپور انداز میں لڑا ،وہ ایک مذہبی جماعت کے امیر ہیں لیکن ان کا خطاب موجودہ پریشان کن حالات میں قوم کی آواز معلوم ہوتا ہے یہی وجہ کہ قومی اسمبلی میں ان کے خطاب کوخاموشی سے سنا گیا ا ور انہوں نے جب گھمبیر صورتحال سے نکلنے کیلئے پارلیمنٹ کے کردار کی بات کی تو ایوان میں موجود تمام اراکین نے ڈسک بجاکر اس کا خیر مقدم کیا۔ ایک طرف جہاں وہ ریاست کے بعض معاملات پر تشویش ظاہر کرتے نظر آرہے تھے تو دوسری جانب وہ اپنی فوج پر اعتماد کی بات بھی کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ان کا زور اس بات پر تھا کہ سارے اختیارات ریاست کے پاس نہیں حکومت اور پارلیمنٹ کے پاس ہونے چاہئیں،انہیں اپنے اختیارات کے استعمال کا حق ہونا چاہیے ،سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا ، پنجاب کو اپنے وسائل پر اختیار ہونا چاہیے اور وسائل عوام پر خرچ ہونے چاہئیں ۔آج اگر اسلام آباد سے فیصلہ درست ہوتا ہے اور پالیسیاں محفوظ اور مؤثر تشکیل پاتی ہیں تو دہشت گردی کا سدباب بھی ہوسکتا ہے اور سی پیک پر پوری طرح عملدرآمدبھی ممکن ہوگا، بلوچستان کے حالات کی درستی قومی ضرورت ہے اور یہاں طاقت کے استعمال کی بجائے مسائل کا سیاسی حل نکالا جائے ،یہی درست ہوگا ۔ آج کا پاکستان نیو کلیئر پاکستان ہے ہمیں اپنی طاقت اور قوت پر اعتماد ہے لیکن یہ طاقت اور قوت دشمن کیخلا ف استعمال ہونی چاہیے ۔ اور جہاں مسائل سیاسی ہیں وہاں حل بھی سیاسی ہونا چاہیے اور جب تک ہم معاشی طاقت نہیں بنیں گے ، بحرانوں کا خاتمہ ناممکن ہے اور مقاصد پاکستان کی تکمیل نہیں ہوپائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں