صوابی جلسہ :آج پتہ چلے گا پی ٹی آئی میں کتنا دم خم ہے

صوابی جلسہ :آج پتہ چلے گا پی ٹی آئی میں کتنا دم خم ہے

(تجزیہ:سلمان غنی) پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی لیڈر شپ کی رہائی اور حکومت کے خاتمہ کیلئے جاری احتجاجی حکمت عملی کے تحت آج صوابی میں احتجاجی جلسہ ہورہا ہے جس کے حوالہ سے اطلاعات یہ ہیں کہ یہاں پارٹی قیادت موجودہ حالات میں اپنے نئے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی ۔

جہاں تک احتجاج اور احتجاجی تحریک کا سوال ہے تو یہ دراصل جیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی کا پارٹی پر دباؤ ہے اور جو جو بھی انہیں مل کر آتا ہے وہ باہر آکر یہی کہتا  نظر آتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی حکومت کے خاتمہ کیلئے سیاسی دباؤ بڑھانے کا کہتے ہیں لیکن جیل میں بیٹھے بانی پی ٹی آئی کو شاید جیل سے باہر کے حالات اور زمینی حقائق کا ادراک نہیں اور شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ ملک کے اندر احتجاج اور احتجاجی کیفیت کسی ایک اعلان یا اقدام سے برپا نہیں ہوتی اس کیلئے تنظیمی اور سیاسی صلاحیت اور قوت درکار ہوتی ہے جس کا بڑی حد تک جماعت کے اندر فقدان نظر آتا ہے ۔ پی ٹی آئی کی احتجاجی سیاست پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں سب سے زیادہ سر گرم وزیر اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈا پور ہیں ۔اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ وہ صرف پختونخوامیں احتجاجی جلسوں اور ریلیوں پر اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔احتجاجی تحریک پختونخوا تک محدود ہے اس کا دائرہ کار سندھ ، بلوچستان یا پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں کیونکر نظر نہیں آتا ۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ایک نفسیاتی کیفیت سے دو چار ہے اس کیفیت میں آج صوابی کے احتجاج کو رسمی احتجاج تو کہا جائے گا لیکن یہ احتجاج کسی بڑے احتجاج کا پیش خیمہ نہیں بنے گا ۔بتایا جارہا ہے کہ اس قرارداد میں ملکی حالات کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے حکومت کیخلاف چارج شیٹ لائی جائے گی اور پھر کسی نئی تاریخ کا اعلان کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ اس تاریخ تک بانی پی ٹی آئی کی رہائی یقینی نہیں بنتی اور ہمارے ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کے خلاف انتقامی ہتھکنڈوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا جاتا تو پھر ہم ملک بھر میں سڑکوں پر آئیں گے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ بات تو اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ جماعت اور اسکی لیڈر شپ بڑے احتجاج بارے اپنی لیڈر شپ بانی پی ٹی آئی کی امیدوں پر پورا نہیں اتری اور اس کی اور بہت سی وجوہات کے ساتھ ایک بڑی وجہ خود جماعت کے اندر یکسوئی نہ ہونا ہے ۔ لہٰذا آگے کس طرح چلنا ہے ،احتجاجی آپشن کو بروئے کار لانا ہے یا سیاسی حکمت عملی کے تحت ریاستی اداروں سے مفاہمانہ روش اختیار کرنی ہے اس حوالہ سے آج کے احتجاج کا فیصلہ ہوگا اور پتہ چلے گا کہ جماعت میں کتنا دم خم ہے اور پیش رفت کب اور کیسے ہوگی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں