سوشل میڈیا کو ضابطے میں لانے میں تاخیر کی گنجائش نہیں
(تجزیہ:سلمان غنی) دہشتگردی کے رحجان کے ساتھ ڈیجیٹل دہشتگردی کا عمل ریاست کیلئے بڑے چیلنج کی صورت اختیار کرتا نظر آ رہا ہے ،حکومت اور اداروں کی جانب سے اسکے سدباب کیلئے اعلانات و اقدامات کے باوجود یہ مذموم عمل جاری ہے۔۔۔
اسکی بڑی وجہ بیرون ملک سے جاری پراپیگنڈا مہم ہے جس کا بڑا مقصد ریاست کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کیلئے اداروں کو ہدف تنقید بنانا اور اسکی ساکھ پر اثر انداز ہونا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ایپکس کمیٹی اجلاس میں جہاں دہشتگردی کیخلاف جاری آپریشن اور اسکی نتیجہ خیزی پر غور و غوض ہوا وہاں سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے فیک نیوز اور سوشل میڈیا کے ریاست کیخلاف استعمال کے سدباب کیلئے ممکنہ وسائل بروئے کار لانے اور اس کیلئے درپیش عوامل کا قلع قمع کرنے کا عزم ظاہر کیا گیا۔پاکستان میں ایسی تنظیمیں اور این جی اوز موجود ہیں جو سوشل میڈیا کا سہارا لیکرملکی مفادات سے کھیلتی نظر آ رہی ہیں اور ان میں سے اکثر وہ ہیں جنہیں یہاں اس مذموم کردار کیلئے بیرون ملک سے بھاری فنڈ فراہم کئے جاتے ہیں۔ ویسے تو حکومت سوشل میڈیا پر زہریلا پراپیگنڈا کرنیوالوں کیخلاف قانونی کارروائی کیلئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن رولز کی منظوری دے چکی ہے جسکے تحت ایسے مذموم عمل کا حصہ بننے والوں کیخلاف کارروائی ہوگی اور کسی حد تک یہ کام شروع ہے لیکن عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اس رحجان میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تعلیم کے فقدان پر بغیر سوچے سمجھے سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات کو دوسروں تک بھجوانے کا رحجان عام ہوا ہے ۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک روز میں دو کروڑ کے قریب میسجز فوٹیجز اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھیجی جاتی ہیں ،اس رحجان کے سدباب کیلئے اب جنگی بنیادوں پر کام کی ضرورت ہے اور اس بارے سرگرم اداروں کی اہلیت بڑھانے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ضروری ہوگا بنیادی ذمہ داری حکومت کی ہے ، ضروری ہے کہ اس حوالے سے اعلانات سے زیادہ اقدامات بروئے کار لائے جائیں اب سوشل میڈیا کو ضابطے میں لانے میں مزید تاخیر کی گنجائش نہیں رہی قومی سلامتی اور مفادات کو ہر قیمت پر فوقیت ملنی چاہئے ۔