بانی پی ٹی آئی ،اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات،کمیٹیاں بے اختیار

بانی پی ٹی آئی ،اسٹیبلشمنٹ میں مذاکرات،کمیٹیاں بے اختیار

تجزیہ:سلمان غنی حکومت اپوزیشن مذاکراتی عمل کے پس پردہ رابطوں کی تصدیق کے بعد فرنٹ ڈور رابطوں کا مستقبل ڈانواں ڈول نظر آ رہا ہے ، خصوصاً حکومتی مذاکراتی ٹیم کے رکن عرفان صدیقی کے ردعمل نے مذاکراتی عمل پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔

بلاشبہ حکومت اپوزیشن مذاکراتی عمل کا آغاز سیاسی تناؤ اور ٹکراؤ کی کیفیت کے خاتمہ کیلئے تھا اور فریقین کو بٹھانے کیلئے کسی تیسری پارٹی کا اثر و رسوخ بھی تھا ،مقصد سیاسی جمود توڑنا اور دنیا کو یہ دکھانا تھا کہ اہم قومی ایشوز پر سیاسی قوتیں ایک میز پر بیٹھنے کو تیار ہیں ،اب حکومت سمجھ رہی ہے کہ پی ٹی آئی مذاکراتی عمل کی بجائے کہیں اور دیکھ رہی ہے تو پھر اس کا کیا جواز ہے ،پی ٹی آئی جن پس پردہ رابطوں پر پھولی نہیں سما رہی ان کا مقصد تو پختونخوا کے سلگتے حالات ا ور انسداددہشتگردی پر ملکر چلنا تھا، سپہ سالار نے سیاسی قیادت کو دہشتگردی بارے اپنے اقدامات اور نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے تعاون طلب کیا تھا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں سیاسی قیادت فوج کی پشت پر کھڑی ہو تاکہ دہشتگردی کی جڑیں کاٹی جا سکیں ۔سیاسی قوتیں وہی سرخرو ہوتی ہیں جو اپنے سیاسی ایجنڈا بارے یکسو اور سنجیدہ ہوں جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا سوال ہے تو اسے ریاست کے مفاد کو دیکھنا ہوگا ، آئندہ چند روز میں پتہ چل جائے گا کہ پی ٹی آئی کے پس پردہ رابطے نتیجہ خیز ہوتے ہیں یا انہیں فرنٹ ڈور پر چلنے والے مذاکراتی عمل سے ہی راستہ بنانا پڑے گا، پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کیلئے بڑا امتحان یہی ہوگا کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام میں سنجیدہ ہے یا پھر سے وہ کسی چور دروازے کی تلاش میں ہے ،مذاکراتی عمل پر گہری نظر دوڑائی جائے تو دونوں جانب کی کمیٹیاں بااختیار نہیں، انہیں ہر مرحلہ اور ہر نکتہ پر اپنی قیادتوں سے مشاورت کرنا پڑ رہی ہے تحریک انصاف بانی کے بغیر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں اور حکومتی کمیٹی اسٹیبلشمنٹ سے پوچھے بغیر کوئی یقین دہانی نہیں کرا سکتی اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مذاکرات بالواسطہ طور پر بانی پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہو رہے ہیں اور اس تاثر میں حقیقت کیا ہے یہ جلد ظاہر ہو جائے گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں