حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات پر اوس پڑ گئی ؟

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات پر اوس پڑ گئی ؟

پی ٹی آئی میں مذاکرات اور مزاحمت پر تفریق، حکومت گرین سگنل کی منتظر

(تجزیہ:سلمان غنی)

حکومت اور اپوزیشن میں سیاسی ایشو پر مذاکرات کیلئے اتفاق رائے کے باوجود ابھی اس ضمن میں کوئی پیشرفت دیکھنے میں نہیں آ رہی جبکہ دوسری جانب اپوزیشن کی بڑی جماعت تحریک انصاف میں عملی طور پر مزاحمت اور مذاکرات کی تفریق نظر آ رہی ہے ایک طرف بانی پی ٹی آئی کی نامزد کردہ قیادت محمود اچکزئی ،علامہ ناصر عباس ، بیرسٹر گوہر مذاکرات کے خواہاں نظر آ رہے ہیں تو دوسری جانب پختونخوا کے وزیراعلیٰ مزاحمت کیلئے سٹریٹ پاور کو منظم کرتے دکھائی دے رہے ہیں اور خود بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خاں مذاکراتی عمل سے یکسر انکاری نظر آ رہی ہیں ۔

جن کا کہنا ہے کہ جو مذاکرات کی بات کرتا ہے وہ بانی کے ایجنڈا پر نہیں ۔ایسے میں مذاکرات کی بیل کیسے منڈھے چڑھے گی اور کیا محمود اچکزئی اور انکی ٹیم سے مذاکراتی عمل کو بانی اور انکی جماعت سے مذاکرات سمجھا جائے اور یہی وہ کنفیوژن ہے کہ جس سے حکومت دوچار ہے اور انکی جانب سے کمیٹی کا اعلان بھی نہیں ہو رہا ۔بانی کی سیاست اور حکمت عملی پر نظر دوڑائی جائے تو وہ زیادہ مذاکرات کے حامی نہیں رہے اور وہ معاملات کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتے ، کسی بھی ایشو پر حتمی فیصلے کا اختیار انکے پاس ہی ہوتا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت 2024میں انتخابات سے قبل مذاکرات پر انکا طرز عمل تھا اور انہوں نے خود اپنی ہی ٹیم کے مذاکراتی عمل کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ فلاں تاریخ تک ا سمبلیاں توڑیں اور اب بھی انکی ٹویٹس گواہ ہیں کہ ایک جانب تو وہ سیاسی قوتوں کو تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں اور دوسرا وہ فیصلہ سازوں سے مذاکرات کی بات کرتے نظر آتے تھے ۔

ویسے تو یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ کیا پاکستان کی مقتدرہ ایسے کسی مذاکراتی عمل کی خواہاں ہے ؟ ماہرین کے خیال میں حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر مذاکراتی عمل پر پیشرفت نہیں کر سکتی اور اصل سوال یہی ہوگا کہ کیا اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کی ضرورت محسوس کرتی ہے ،اسی بنا پر کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس حوالے سے پیشرفت کرتی نظر نہیں آ رہی جہاں تک مفاہمت کیلئے سرگرم پی ٹی آئی کے منحرفین فواد اور انکے ساتھیوں کا تعلق ہے تو انکی جانب سے وزیراعظم شہبازشریف سے اپیلوں کا عمل بھی نتیجہ خیز نظر نہیں آ رہا جنہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ حکومت کوٹ لکھپت جیل میں بند مخدوم شاہ محمود قریشی، محمود الرشید، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر چیمہ و دیگر کو رہا کر کے مذاکراتی عمل آگے چلائے ۔

حکومت سمجھتی ہے کہ کوٹ لکھپت جیل کے اسیر مفاہمت کے خواہاں تو ضرور ہیں مگر وہ پی ٹی آئی کے ایجنڈا سے بالا تر ہو کر کوئی بات سننے اور کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے کیونکہ وہ اس سے پہلے منحرفین کا سیاسی انجام دیکھ چکے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چھوڑ کر جانے والے بھی اپنا سیاسی سلسلہ پی ٹی آئی سے جوڑنا چاہتے ہیں ۔لہذا وقت گزرنے کے ساتھ مذاکراتی عمل کیلئے کوششوں پر اوس پڑی نظر آ رہی ہے اور فی الحال سیاسی دھند غالب ہے لیکن کیا سیاسی محاذ پر تناؤ یاٹکراؤ کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ماہرین کی رائے یہ ہے کہ جب تک حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مذاکرات کیلئے گرین سگنل نہیں ملتا اس حوالے سے پیشرفت ممکن نہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں