ماڈلنگ میںعمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف
خوب صورتی ہی معیار ہو ‘صلاحیتیں ہی پیمانہ ٹھہریں یا چانس ملنے تک بات ہوتو شوبز کی دنیا تسخیر کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں‘لیکن ان سب پر حاوی تقدیر بھی ہے جو ساتھ دے تودروازہ کھلتا چلا جاتا ہے ورنہ وہ ایک چہرہ جو چھوٹی اسکرین نے متعارف کروایا‘ بڑی اسکرین پر اتنی شان سے حکمرانی نہ کرتا ۔ بابرہ شریف نے شو بز میںاپنی آمد کے بارے میں بتایا کہ مجھے اداکاری کا شوق بالکل نہیں تھا اور جس وقت میں اسکرین پر آئی اس وقت میری عمر اتنی بھی نہیںتھی کہ میں جان سکتی کہ میرا شوق کیا ہے۔ واشنگ پائوڈر کے کمرشل سے میری پہچان ہوئی۔ ٹی وی ڈرامے میری فلم میں آنے کی وجہ نہیں بنے تھے میںنے ٹی وی پر کوئی خاص کام بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی فلم والوں نے مجھے کاسٹ کرتے ہوئے یہ دیکھاتھا کہ میں ٹی وی ڈرامے میں کام کرچکی ہوں۔نہ تو میرا کوئی یادگار ٹی وی ڈرامہ تھا اور نہ کوئی یادگار کردار جس کی پرفارمنس سب کو یاد رہے ۔ فلم والوںکومیرے کمرشل نے متاثر کیاتھا۔ ایک سوال پرکہ ایک ماڈل کی عمر دس سے پندرہ سال تک ہی ہوتی ہے لیکن آپ اب بھی ماڈلنگ میں ایک کامیاب ماڈل ہیں؟ بابرہ شریف نے کہا کہ فلموں میںکام کے دوران تو ماڈلنگ کی طرف کم توجہ رہی تھی۔ لیکن پھر 2003ء میں بہترین ماڈل کاایوارڈحاصل کرنے کے بعد ماڈلنگ کی طرف زیادہ توجہ دی اور اس کے بعد سے اب تک میں اس فیلڈ میں ہوںاورمیںنے ثابت کیا کہ ماڈلنگ میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ایک سوال پر کہ جب آپ رومانٹک فلموں میں کام کررہی تھیں شمیم آرا نے آپ میں کیاخاص بات دیکھی کہ آپ کو ’’مس ہانگ کانگ ‘‘جیسی ایکشن فلم میںکاسٹ کرلیا؟ بابرہ نے بتایا کہ ’میرا نام ہے محبت‘شبانہ‘ پیار کاوعدہ اور مہمان میں کامیابی کے بعد ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’سلاخیں‘‘میںمجھے بھر پور پرفارمنس کا موقع ملا لیکن رومانٹک فلموں میں کام کرنے بعد شمیم آرا باجی کی فلم ’’ مس ہانگ کانگ‘‘ میں مجھے فائیٹ کے ساتھ اپنی ڈریسنگ میں بھی تبدیلی لانا پڑی جس کو دیکھنے والوں نے بے حد پسند کیا اور اس کے بعد شمیم آرا باجی کی مس سیریز میں کام کیا جس میں ’’مس کولمبو‘‘میں مجھے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی۔ہمارے ایک سوال پر کہ کیاوجہ ہے شمیم آرا نے مس سیریز کے بعد جو کامیاب فلمیں بنائیں ان میں آپ کو شامل نہیں کیا ‘آج بھی لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں؟بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ فلم انڈسٹری میںایک اصول ہے کہ ہیرو یا ہیروئن ٹاپ پر ہوں تو ان کے ساتھ رشتے قائم کرلیے جاتے ہیںتاکہ کام باآسانی چلتا رہے۔ شمیم آرانے بھی مجھے بیٹی بنایاتو میں نے ان کے ساتھ بہت اچھا کام کیا میری ان کے ساتھ فلمیںکامیاب رہیں لیکن آخری فلم ’’لیڈی کمانڈو‘‘کے دوران ان کی شادی ہوگئی اور میں نے بھی فلموں میں کام کم کر دیا اس لیے میں ان کے ساتھ کام نہ کر سکی لیکن میں ان کا احترام کرتی رہی۔ آج کل وہ شدید بیمار ہیں میری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کرآئیں۔ آج کل ہمارے فن کار بھارتی فلموں میں کام کرنے وہاں جارہے ہیں اور آپ کودلیپ کمار نے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی تھی اس بارے میںبتائیں؟ بابرہ شریف نے کہاکہ جب یہاں فلمیںنہیں بن رہی ہیں تو یہ کہاں کام کریں‘لیکن چند منٹ کے کرداروں میںاپنے آپ کو ضائع کرنا کہاںکی دانش مندی ہے۔ہاں اگر یہاں فلمیں بن رہی ہوتیں تو پھر بھارتی فلموںمیں کام کرکے یہاں کی فلموں میں کام حاصل کرنا آسان ہوتا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ہمارے دور میں حکومت کی ویزا پالیسی سخت تھی ہم وہاں کی فلموں میںکام نہیں کرسکتے تھے اور وہاں کا کوئی اداکار بھی پاکستانی فلموں میں کام نہیں کرسکتاتھا ۔ایسی کئی فلمیں جن میں پاکستانی فن کاروںنے بھارتی فلموں میں کام کیا اور بھارتی اداکاروں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا یہاں ریلیز نہ ہوسکیں۔جہاں تک میری بھارتی فلم میں کام کرنے کی بات تھی تو میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش دلیپ کمار صاحب نے کی تھی۔انہوں نے میری فلم’’سلاخیں‘‘ دیکھی تھی۔ وہ اپنی فلم ’’راستہ‘‘ کے نام سے بنارہے تھے جس میں ان کا کردار ایک چالیس سالہ شخص کا تھا جو بیس سال کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیدائش کے دوران وہ لڑکی مر جاتی ہے۔ وہ شخص جوبہت پیار کرنے والا ہوتا ہے ۔ بیوی کے مرنے کاصدمہ برداشت نہیں کرپاتا اور اپنے ہی بیٹے کے خون کا پیاسا ہوجاتاہے۔حالاں کہ اس کردار کے لیے بھارت میں اور بھی کئی اداکارائیں موجود تھیں لیکن دلیپ کمار صاحب کا کہناتھا ان کا کردار جتنی شدت سے تبدیل ہوتا ہے اور جس چیز کے لیے میں نگیٹیوہوتا ہوں وہ چیز بھی جان دار ہونی چاہیے اور میرے(بابرہ شریف) کے چہرے پر وہی معصومیت‘ خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر صلاحیتیں ہیں۔ لیکن افسوس ہوا کہ میں اس فلم میں کام نہ کرسکی۔ ہمارے سوال پر کہ شائقین اب بھی آپ کوفلموںمیں دیکھناچاہتے ہیں کیا آپ فلم میںکام کریںگی؟ بابرہ کا کہناتھا کہ میں خود بھی کام کرنا چاہتی ہوںاگر کوئی فلم ساز مجھے اچھا کردار دے گا تو میں ضرور کام کروںگی۔ویسے کچھ دنوں پہلے ایک معروف فلم ساز و ہدایت کارنے مجھے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ہے ‘کردار بھی اچھاہے ‘ہوسکتا ہے میں اس کو قبول کرلوں اور میرے مداح مجھے ایک بار پھر سلور اسکرین پر دیکھ سکیں۔فلمی صنعت کے موجودہ بحران کو ختم کرنے کے بار ے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم اچھے ہدایت کارنہیں پیداکرسکے جوہدایت کار تھے انہوں نے اپنا فن دوسروںمیںمنتقل نہیں کیا۔انور کمال پاشا‘ایس سلیمان‘جاویدفاضل سے لے کر سید نور تک ہی ہمیں ہدایت کار نظر آتے ہیںجب کہ شباب کیرانوی (مرحوم) نے بھی صرف اپنے صاحبزادوں کو ہی فلموںمیںچانس دیا لیکن اب جو چند ہدایت کارفلمیںبنارہے ہیں جیسے شہزاد رفیق اور شعیب منصور میرے خیال میںان کا کام دوسرے ہدایت کاروںسے مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں کامیاب بھی ہیں۔ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ فن کاروںکی بھی کمی رہی ہے ۔ہماری انڈسٹری میںبیک وقت دو یا تین ہی فنکار رہے ہیں جن میں مقابلے کا رجحان نہ ہونے کے برابرتھا ۔بھارتی فلموں کے سوال پربابرہ شریف کا کہناتھا کہ ہم بھارتی فلموں کے سحر میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے ہیں کہ وہی اچھائی برائی کا پیمانہ بن کر رہ گئی ۔بھارتی فلموں سے ہماری فلموں کا مقابلہ کرنا بڑی بے وقو فی ہے ۔ بھارت کی فلم انڈسٹری اس وقت دنیا بھر میںپہلے نمبر پر ہے اور اب یہ ہالی ووڈ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وہاں وسائل ہیں ‘ سرمایہ ہے اور بہت بڑا سرکٹ ہے اور اب انہوں نے اپنی فلمیں دنیا بھر میںریلیز کرنا شروع کردی ہیں چند سالوں سے بھارتی فلمیں ہمارے سینمائوں پر بھی ریلیز کی جارہی ہیں جس سے بھارتی پروفیشن ازم کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بڑے بڑے فلم ساز فلمیںبناتے تھے اب بھارتی فلموں کو ریلیز کرکے منافع کمارہے ہیں اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے کہ جس فلم انڈسٹری میں نہ کہانی نویس منفرد کہانی دے سکیں نہ ہدایت کار معیاری ڈائریکشن دے سکیں اور نہ ہی فن کار تو پھر کس طرح فلم ساز اپناپیسہ انڈسٹری میں لگائے کہ جس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اتنی محنت کرنے کے بعد اس کی فلم کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟ بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ میں روزانہ گھر میںڈانس کرتی ہوںجس سے چاق چوبند رہتی ہوں۔ وزن کو کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ بھی کرتی ہوں لیکن ایکسر سائزکرنے میں اپنے آپ میںایک توانائی محسوس کرتی ہوں۔اپنے ملک کی سیاست کے بارے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ آج کل ملک کے موجودہ حالات نے ہر محب وطن شخص کی طرح مجھے بھی پریشان کررکھا ہے ۔ اس ملک کو حقیقی اور ایماندارقیادت کی ضرورت ہے جو عوام کو اس مشکلات سے نکالنے میںان کی مددکرسکیں۔ ہمارے سوا ل پر کہ آپ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ کیا پریشانیاںمحسوس کرتی ہیں ؟ بابرہ شریف نے کہا کہ یہ مردوںکا معاشرہ ہے اور ان کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو بھی عورت اپنی پروفیشنل لائف میں آتی ہے تواسے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر یہ ثابت قدم ہے توساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں جو کہ میرے ساتھ ہوا۔ کیا آپ کو کبھی اپنے پروفیشن پر پچھتاوا یا شرمندگی ہوئی؟ بابرہ شریف نے کہا کہ نہیںمیں نے بہت سوچ سمجھ کر اداکاری کی فیلڈ میںقدم رکھاتھا اور میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک گم نام لڑکی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے گی اور شوبز میں اتنی عزت ملے گی۔بابرہ شریف کا شمار اپنے دور کی ایک ورسٹائل اداکارہ میںہوتا ہے۔ ان کا فنی سفربھی بڑا دل چسپ ہے۔بابرہ کی دو بہنیں فردوس اورفاخرہ ٹیلی ویژن ڈراموںاور اسٹیج پر وگراموں میںحصہ لے رہی تھیں مگر بابرہ کو اداکاری کا بالکل بھی شوق نہیںتھا۔اکثر ایسا بھی ہوتاتھا کہ یہ اپنی بہنوں کے ہمراہ ٹیلی ویژن اسٹیشن چلی جاتی تھیں ۔ایک دفعہ یہ اپنی بہن کے ساتھ تھیں کہ ڈرامہ پروڈیوسر کی نظر ان پر پڑی اور چہرے مہرے سے اداکاری کا اندازہ لگا کر ڈرامے میں حصہ لینے کے لیے کہا مگر بابرہ بجائے خوش ہونے کے یہ سن کر اداس ہوگئیں۔ ان کی بہن نے بتایا کہ وہ فلم اور ٹی وی کے نام سے بھاگتی ہے۔ اور بات وہیںختم ہوگئی۔لیکن چند دنوں بعدبابرہ شریف کو معروف ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی نے ڈرامہ’’مس فوراوکلاک‘‘کے مختصر کردار میں کاسٹ کرلیا۔ڈرامہ سیریل ’’کرن کہانی‘‘ بابرہ شریف کا تعارف بن گیا۔اسی دوران ہدایت کار نذیر صوفی نے انہیں اپنی فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘کے لیے منتخب کرلیا۔اس فلم میں ان کے ساتھ ایک نیا اداکارتنویر تھا۔اس فلم کانام بدل کر’’ایک اور ایک گیارہ‘‘ رکھ دیاگیا لیکن یہ فلم مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہ ہوسکی۔1972ء کی بات ہے جب ٹیلی ویژن پر ایک واشنگ پائوڈر کے کمرشل نے ان کوبے حد شہرت دی اور اس کو دیکھتے ہوئے فلمساز شمیم آر ااور ہدایت کار ایس سلیمان نے ان کو فلم ’’بھول‘‘ میں کاسٹ کرلیاجس میںندیم‘شبنم اور ممتاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور بابرہ شریف کا پیئر مزاحیہ اداکار منور ظریف (مرحوم) کے ہمراہ تھا۔اس فلم کے بعد بابرہ کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن جب ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’میرا نام ہے محبت ‘‘میں یہ ٹی وی اداکار غلام محی الدین کی ہیروئن بنیں تو بہترین اداکاری پر انہیں ہیروئین کے طور پرمانا جانے لگا۔ انہوں نے150سے زائد فلموں میںہیروئن کے کردار ادا کیے۔اور ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی رہیں۔ بابرہ شریف کو آج بھی شائقین فلموںمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ فیشن شوٹس پرتوجہ دے رہی ہیں۔ ان سے ان کی فنی زندگی پر بات چیت ہوئی جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔