ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

اسپیشل فیچر

تحریر :


خوب صورتی ہی معیار ہو ‘صلاحیتیں ہی پیمانہ ٹھہریں یا چانس ملنے تک بات ہوتو شوبز کی دنیا تسخیر کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں‘لیکن ان سب پر حاوی تقدیر بھی ہے جو ساتھ دے تودروازہ کھلتا چلا جاتا ہے ورنہ وہ ایک چہرہ جو چھوٹی اسکرین نے متعارف کروایا‘ بڑی اسکرین پر اتنی شان سے حکمرانی نہ کرتا ۔ بابرہ شریف نے شو بز میںاپنی آمد کے بارے میں بتایا کہ مجھے اداکاری کا شوق بالکل نہیں تھا اور جس وقت میں اسکرین پر آئی اس وقت میری عمر اتنی بھی نہیںتھی کہ میں جان سکتی کہ میرا شوق کیا ہے۔ واشنگ پائوڈر کے کمرشل سے میری پہچان ہوئی۔ ٹی وی ڈرامے میری فلم میں آنے کی وجہ نہیں بنے تھے میںنے ٹی وی پر کوئی خاص کام بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی فلم والوں نے مجھے کاسٹ کرتے ہوئے یہ دیکھاتھا کہ میں ٹی وی ڈرامے میں کام کرچکی ہوں۔نہ تو میرا کوئی یادگار ٹی وی ڈرامہ تھا اور نہ کوئی یادگار کردار جس کی پرفارمنس سب کو یاد رہے ۔ فلم والوںکومیرے کمرشل نے متاثر کیاتھا۔ ایک سوال پرکہ ایک ماڈل کی عمر دس سے پندرہ سال تک ہی ہوتی ہے لیکن آپ اب بھی ماڈلنگ میں ایک کامیاب ماڈل ہیں؟ بابرہ شریف نے کہا کہ فلموں میںکام کے دوران تو ماڈلنگ کی طرف کم توجہ رہی تھی۔ لیکن پھر 2003ء میں بہترین ماڈل کاایوارڈحاصل کرنے کے بعد ماڈلنگ کی طرف زیادہ توجہ دی اور اس کے بعد سے اب تک میں اس فیلڈ میں ہوںاورمیںنے ثابت کیا کہ ماڈلنگ میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ایک سوال پر کہ جب آپ رومانٹک فلموں میں کام کررہی تھیں شمیم آرا نے آپ میں کیاخاص بات دیکھی کہ آپ کو ’’مس ہانگ کانگ ‘‘جیسی ایکشن فلم میںکاسٹ کرلیا؟ بابرہ نے بتایا کہ ’میرا نام ہے محبت‘شبانہ‘ پیار کاوعدہ اور مہمان میں کامیابی کے بعد ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’سلاخیں‘‘میںمجھے بھر پور پرفارمنس کا موقع ملا لیکن رومانٹک فلموں میں کام کرنے بعد شمیم آرا باجی کی فلم ’’ مس ہانگ کانگ‘‘ میں مجھے فائیٹ کے ساتھ اپنی ڈریسنگ میں بھی تبدیلی لانا پڑی جس کو دیکھنے والوں نے بے حد پسند کیا اور اس کے بعد شمیم آرا باجی کی مس سیریز میں کام کیا جس میں ’’مس کولمبو‘‘میں مجھے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی۔ہمارے ایک سوال پر کہ کیاوجہ ہے شمیم آرا نے مس سیریز کے بعد جو کامیاب فلمیں بنائیں ان میں آپ کو شامل نہیں کیا ‘آج بھی لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں؟بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ فلم انڈسٹری میںایک اصول ہے کہ ہیرو یا ہیروئن ٹاپ پر ہوں تو ان کے ساتھ رشتے قائم کرلیے جاتے ہیںتاکہ کام باآسانی چلتا رہے۔ شمیم آرانے بھی مجھے بیٹی بنایاتو میں نے ان کے ساتھ بہت اچھا کام کیا میری ان کے ساتھ فلمیںکامیاب رہیں لیکن آخری فلم ’’لیڈی کمانڈو‘‘کے دوران ان کی شادی ہوگئی اور میں نے بھی فلموں میں کام کم کر دیا اس لیے میں ان کے ساتھ کام نہ کر سکی لیکن میں ان کا احترام کرتی رہی۔ آج کل وہ شدید بیمار ہیں میری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کرآئیں۔ آج کل ہمارے فن کار بھارتی فلموں میں کام کرنے وہاں جارہے ہیں اور آپ کودلیپ کمار نے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی تھی اس بارے میںبتائیں؟ بابرہ شریف نے کہاکہ جب یہاں فلمیںنہیں بن رہی ہیں تو یہ کہاں کام کریں‘لیکن چند منٹ کے کرداروں میںاپنے آپ کو ضائع کرنا کہاںکی دانش مندی ہے۔ہاں اگر یہاں فلمیں بن رہی ہوتیں تو پھر بھارتی فلموںمیں کام کرکے یہاں کی فلموں میں کام حاصل کرنا آسان ہوتا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ہمارے دور میں حکومت کی ویزا پالیسی سخت تھی ہم وہاں کی فلموں میںکام نہیں کرسکتے تھے اور وہاں کا کوئی اداکار بھی پاکستانی فلموں میں کام نہیں کرسکتاتھا ۔ایسی کئی فلمیں جن میں پاکستانی فن کاروںنے بھارتی فلموں میں کام کیا اور بھارتی اداکاروں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا یہاں ریلیز نہ ہوسکیں۔جہاں تک میری بھارتی فلم میں کام کرنے کی بات تھی تو میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش دلیپ کمار صاحب نے کی تھی۔انہوں نے میری فلم’’سلاخیں‘‘ دیکھی تھی۔ وہ اپنی فلم ’’راستہ‘‘ کے نام سے بنارہے تھے جس میں ان کا کردار ایک چالیس سالہ شخص کا تھا جو بیس سال کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیدائش کے دوران وہ لڑکی مر جاتی ہے۔ وہ شخص جوبہت پیار کرنے والا ہوتا ہے ۔ بیوی کے مرنے کاصدمہ برداشت نہیں کرپاتا اور اپنے ہی بیٹے کے خون کا پیاسا ہوجاتاہے۔حالاں کہ اس کردار کے لیے بھارت میں اور بھی کئی اداکارائیں موجود تھیں لیکن دلیپ کمار صاحب کا کہناتھا ان کا کردار جتنی شدت سے تبدیل ہوتا ہے اور جس چیز کے لیے میں نگیٹیوہوتا ہوں وہ چیز بھی جان دار ہونی چاہیے اور میرے(بابرہ شریف) کے چہرے پر وہی معصومیت‘ خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر صلاحیتیں ہیں۔ لیکن افسوس ہوا کہ میں اس فلم میں کام نہ کرسکی۔ ہمارے سوال پر کہ شائقین اب بھی آپ کوفلموںمیں دیکھناچاہتے ہیں کیا آپ فلم میںکام کریںگی؟ بابرہ کا کہناتھا کہ میں خود بھی کام کرنا چاہتی ہوںاگر کوئی فلم ساز مجھے اچھا کردار دے گا تو میں ضرور کام کروںگی۔ویسے کچھ دنوں پہلے ایک معروف فلم ساز و ہدایت کارنے مجھے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ہے ‘کردار بھی اچھاہے ‘ہوسکتا ہے میں اس کو قبول کرلوں اور میرے مداح مجھے ایک بار پھر سلور اسکرین پر دیکھ سکیں۔فلمی صنعت کے موجودہ بحران کو ختم کرنے کے بار ے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم اچھے ہدایت کارنہیں پیداکرسکے جوہدایت کار تھے انہوں نے اپنا فن دوسروںمیںمنتقل نہیں کیا۔انور کمال پاشا‘ایس سلیمان‘جاویدفاضل سے لے کر سید نور تک ہی ہمیں ہدایت کار نظر آتے ہیںجب کہ شباب کیرانوی (مرحوم) نے بھی صرف اپنے صاحبزادوں کو ہی فلموںمیںچانس دیا لیکن اب جو چند ہدایت کارفلمیںبنارہے ہیں جیسے شہزاد رفیق اور شعیب منصور میرے خیال میںان کا کام دوسرے ہدایت کاروںسے مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں کامیاب بھی ہیں۔ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ فن کاروںکی بھی کمی رہی ہے ۔ہماری انڈسٹری میںبیک وقت دو یا تین ہی فنکار رہے ہیں جن میں مقابلے کا رجحان نہ ہونے کے برابرتھا ۔بھارتی فلموں کے سوال پربابرہ شریف کا کہناتھا کہ ہم بھارتی فلموں کے سحر میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے ہیں کہ وہی اچھائی برائی کا پیمانہ بن کر رہ گئی ۔بھارتی فلموں سے ہماری فلموں کا مقابلہ کرنا بڑی بے وقو فی ہے ۔ بھارت کی فلم انڈسٹری اس وقت دنیا بھر میںپہلے نمبر پر ہے اور اب یہ ہالی ووڈ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وہاں وسائل ہیں ‘ سرمایہ ہے اور بہت بڑا سرکٹ ہے اور اب انہوں نے اپنی فلمیں دنیا بھر میںریلیز کرنا شروع کردی ہیں چند سالوں سے بھارتی فلمیں ہمارے سینمائوں پر بھی ریلیز کی جارہی ہیں جس سے بھارتی پروفیشن ازم کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بڑے بڑے فلم ساز فلمیںبناتے تھے اب بھارتی فلموں کو ریلیز کرکے منافع کمارہے ہیں اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے کہ جس فلم انڈسٹری میں نہ کہانی نویس منفرد کہانی دے سکیں نہ ہدایت کار معیاری ڈائریکشن دے سکیں اور نہ ہی فن کار تو پھر کس طرح فلم ساز اپناپیسہ انڈسٹری میں لگائے کہ جس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اتنی محنت کرنے کے بعد اس کی فلم کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟ بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ میں روزانہ گھر میںڈانس کرتی ہوںجس سے چاق چوبند رہتی ہوں۔ وزن کو کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ بھی کرتی ہوں لیکن ایکسر سائزکرنے میں اپنے آپ میںایک توانائی محسوس کرتی ہوں۔اپنے ملک کی سیاست کے بارے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ آج کل ملک کے موجودہ حالات نے ہر محب وطن شخص کی طرح مجھے بھی پریشان کررکھا ہے ۔ اس ملک کو حقیقی اور ایماندارقیادت کی ضرورت ہے جو عوام کو اس مشکلات سے نکالنے میںان کی مددکرسکیں۔ ہمارے سوا ل پر کہ آپ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ کیا پریشانیاںمحسوس کرتی ہیں ؟ بابرہ شریف نے کہا کہ یہ مردوںکا معاشرہ ہے اور ان کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو بھی عورت اپنی پروفیشنل لائف میں آتی ہے تواسے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر یہ ثابت قدم ہے توساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں جو کہ میرے ساتھ ہوا۔ کیا آپ کو کبھی اپنے پروفیشن پر پچھتاوا یا شرمندگی ہوئی؟ بابرہ شریف نے کہا کہ نہیںمیں نے بہت سوچ سمجھ کر اداکاری کی فیلڈ میںقدم رکھاتھا اور میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک گم نام لڑکی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے گی اور شوبز میں اتنی عزت ملے گی۔بابرہ شریف کا شمار اپنے دور کی ایک ورسٹائل اداکارہ میںہوتا ہے۔ ان کا فنی سفربھی بڑا دل چسپ ہے۔بابرہ کی دو بہنیں فردوس اورفاخرہ ٹیلی ویژن ڈراموںاور اسٹیج پر وگراموں میںحصہ لے رہی تھیں مگر بابرہ کو اداکاری کا بالکل بھی شوق نہیںتھا۔اکثر ایسا بھی ہوتاتھا کہ یہ اپنی بہنوں کے ہمراہ ٹیلی ویژن اسٹیشن چلی جاتی تھیں ۔ایک دفعہ یہ اپنی بہن کے ساتھ تھیں کہ ڈرامہ پروڈیوسر کی نظر ان پر پڑی اور چہرے مہرے سے اداکاری کا اندازہ لگا کر ڈرامے میں حصہ لینے کے لیے کہا مگر بابرہ بجائے خوش ہونے کے یہ سن کر اداس ہوگئیں۔ ان کی بہن نے بتایا کہ وہ فلم اور ٹی وی کے نام سے بھاگتی ہے۔ اور بات وہیںختم ہوگئی۔لیکن چند دنوں بعدبابرہ شریف کو معروف ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی نے ڈرامہ’’مس فوراوکلاک‘‘کے مختصر کردار میں کاسٹ کرلیا۔ڈرامہ سیریل ’’کرن کہانی‘‘ بابرہ شریف کا تعارف بن گیا۔اسی دوران ہدایت کار نذیر صوفی نے انہیں اپنی فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘کے لیے منتخب کرلیا۔اس فلم میں ان کے ساتھ ایک نیا اداکارتنویر تھا۔اس فلم کانام بدل کر’’ایک اور ایک گیارہ‘‘ رکھ دیاگیا لیکن یہ فلم مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہ ہوسکی۔1972ء کی بات ہے جب ٹیلی ویژن پر ایک واشنگ پائوڈر کے کمرشل نے ان کوبے حد شہرت دی اور اس کو دیکھتے ہوئے فلمساز شمیم آر ااور ہدایت کار ایس سلیمان نے ان کو فلم ’’بھول‘‘ میں کاسٹ کرلیاجس میںندیم‘شبنم اور ممتاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور بابرہ شریف کا پیئر مزاحیہ اداکار منور ظریف (مرحوم) کے ہمراہ تھا۔اس فلم کے بعد بابرہ کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن جب ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’میرا نام ہے محبت ‘‘میں یہ ٹی وی اداکار غلام محی الدین کی ہیروئن بنیں تو بہترین اداکاری پر انہیں ہیروئین کے طور پرمانا جانے لگا۔ انہوں نے150سے زائد فلموں میںہیروئن کے کردار ادا کیے۔اور ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی رہیں۔ بابرہ شریف کو آج بھی شائقین فلموںمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ فیشن شوٹس پرتوجہ دے رہی ہیں۔ ان سے ان کی فنی زندگی پر بات چیت ہوئی جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

مصنوعی مٹھاس :دل اور دماغ کیلئے خاموش خطرہ

حالیہ سائنسی تحقیق نے عوامی صحت سے متعلق ایک نہایت تشویشناک پہلو کو اجاگر کیا ہے۔ تحقیق کے مطابق شوگر فری مصنوعات میں استعمال ہونے والا مصنوعی میٹھا نہ صرف دل بلکہ دماغ کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ برسوں سے وزن کم رکھنے اور شوگر کے متبادل کے طور پر استعمال ہونے والی یہ مٹھاس اب طبی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ اس نئی تحقیق نے اس تاثر کو چیلنج کیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس مکمل طور پر محفوظ ہے، اور یوں صارفین کیلئے یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا سہولت اور ذائقے کی خاطر صحت کو خطرے میں ڈالنا دانش مندی ہے؟۔نئی تحقیق میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مصنوعی مٹھاس سے تیار کردہ کاربونیٹڈ مشروبات کا باقاعدہ استعمال دل اور دماغ کو نقصان پہنچنے کے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔''ایسپرٹیم‘‘(Aspartame) جو ڈائٹ مشروبات و دیگر کھانے والی اشیاء میں پایا جاتا ہے، طویل عرصے سے کینسر، بلند فشارِ خون اور فالج جیسے امراض کے خدشات سے منسلک سمجھا جاتا رہا ہے۔اب ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ اس مادے کی زیادہ مقدار نہ صرف دماغ بلکہ دل کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔چوہوں پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسپرٹیم کی زیادہ مقدار دل کے مرض ''کارڈک ہائپر ٹرافی‘‘ کے خطرے میں تقریباً 20 فیصد اضافے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ اس کیفیت میں دل کے پٹھے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں میں تیز رفتاری سے کمی بھی دیکھی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ جانوروں میں جسمانی چربی تقریباً پانچویں حصے تک کم ہو گئی۔جریدے بایومیڈیسن اینڈ فارماکو تھیراپی میں شائع ہونے والی تحقیق میں سان سیباسٹیان کے سنٹر فار کوآپریٹو ریسرچ اِن بایومیٹیریلز سے وابستہ محققین نے حکام پر زور دیا کہ ایسپرٹیم کے موجودہ استعمال سے متعلق رہنما اصولوں پر نظر ثانی کی جائے۔محققین کے مطابق: ''ایسپرٹیم واقعی چوہوں میں چربی کے ذخائر کو 20 فیصد تک کم کرتا ہے، مگر اس کی قیمت دل کے ہلکے بڑھاؤ اور ذہنی کارکردگی میں کمی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔اگرچہ یہ مصنوعی مٹھاس چوہوں میں وزن کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ دل میں مرضیاتی تبدیلیاں اور ممکنہ طور پر دماغ پر منفی اثرات بھی سامنے آتے ہیں‘‘۔''یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ منظور شدہ مقدار میں بھی ایسپرٹیم اہم اعضا کی کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، لہٰذا انسانوں کے لیے اس کے محفوظ استعمال کی حد پر ازسرِنو غور کرنا مناسب ہوگا۔‘‘تحقیق کے دوران چوہوں کو جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 7 ملی گرام ایسپرٹیم کی خوراک دی گئی۔ یہ خوراک ہر دو ہفتے بعد مسلسل تین دن تک دی جاتی رہی۔اس کے مقابلے میں عالمی ادارہ صحت (WHO)، یورپی میڈیسن ایجنسی اور امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق انسانوں کیلئے یومیہ محفوظ حد جسمانی وزن کے ہر کلوگرام کے حساب سے 50 ملی گرام سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ایک سال پر محیط مشاہدے کے دوران ایسپرٹیم استعمال کرنے والے چوہوں میں دل کی پمپنگ صلاحیت میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ بائیں وینٹریکل میں یہ کمی 26 فیصد جبکہ دائیں وینٹریکل میں 20 فیصد ریکارڈ کی گئی۔محققین نے یہ بھی پایا کہ دل کے دائیں اور بائیں وینٹریکلز کو جدا کرنے والی موٹی عضلاتی دیوار (سیپٹل کَروَیچر) میں 25 فیصد کمی واقع ہوئی۔ مطالعے کے مطابق چوہوں میں ''اعصابی و رویّاتی تبدیلیوں‘‘ کے آثار اور ''دماغ میں ممکنہ مرضیاتی تبدیلیاں‘‘ بھی دیکھی گئیں۔ تاہم سائنس دانوں نے تحقیق کی چند حدود کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ مطالعے کا دورانیہ محدود تھا اور اس حوالے سے طویل المدتی تحقیق کی ضرورت ہے۔دوسری جانب انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) نے نتائج کی تشریح میں احتیاط برتنے پر زور دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ان نتائج کو براہِ راست انسانوں پر لاگو نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل سویٹنرز ایسوسی ایشن (ISA) کے ڈائریکٹر جنرل لاوراں اوجرنے ڈیلی میل کو بتایا: ''انسان اور چوہوں کے درمیان اہم جسمانی فرق، جیسے کہ میٹابولزم، عمر کا دورانیہ، دل کی ساخت اور دماغ میں توانائی کا استعمال، اس تحقیق کے نتائج کی مطابقت کو محدود کرتے ہیں۔خاص طور پر، چوہوں میں جسمانی وزن اور چربی میں کمی انسانی کلینیکل ٹرائلز کے شواہد سے مطابقت نہیں رکھتی، جو ظاہر کرتے ہیں کہ ایسپرٹیم اور دیگر کم یا صفر کیلوری سویٹنرز بذاتِ خود جسمانی وزن پر اثر انداز نہیں ہوتے۔یہ زیادہ تر وزن کے انتظام میں مدد کر سکتے ہیں کیونکہ یہ شوگر کی مقدار کم کرتے ہیں اور یوں مجموعی توانائی کی مقدار میں کمی لاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ''دل اور عصبی رویّے میں ہونے والی تبدیلیاں بھی عمر رسیدہ چوہوں میں دیکھی گئی، جس سے یہ علیحدہ کرنا مشکل ہے کہ یہ اثرات ایسپرٹیم کی وجہ سے ہیں یا عمر رسیدگی کی معمولی علامات ہیں۔ایسپرٹیم پر بے شمار سائنسی تحقیقات ہو چکی ہیں اور اسے عالمی فوڈ سیفٹی حکام نے محفوظ قرار دے کر منظوری دی ہے۔ اس سے قبل بھی مصنوعی مٹھاس اور کینسر کے تعلقات کے حوالے سے تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ یہ خدشات 2023ء میں شدت اختیار کر گئے جب عالمی ادارہ صحت (WHO) نے ایسپرٹیم کو انسانوں کیلئے ممکنہ طور پر سرطان پیدا کرنے والا قرار دیا تھا۔

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

انٹرنیٹ کی رفتار افریقی ممالک سے بھی کم: برطانوی شہری ڈیجیٹل عدم مساوات کا شکار

براڈبینڈ بلیک اسپاٹ میں پھنسے ایک لاکھ 30ہزار گھرانے آن لائن دنیا سے محرومبرطانیہ کے ہزاروں گھرانے آج بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی رفتار بعض افریقی ممالک جیسے لیبیا، کیمرون اور نمیبیا سے بھی کم ہے۔ تحقیق کے مطابق تقریباً ایک لاکھ 30 ہزار برطانوی گھروں کو ''براڈبینڈ بلیک اسپاٹ‘‘ کا سامنا ہے، جہاں آن لائن تعلیم، کام اور تفریح کے مواقع محدود ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل عدم مساوات ملکی ترقی اور روزمرہ زندگی پر منفی اثر ڈال رہی ہے، اور یہ صورتحال شہری و دیہی علاقوں کے درمیان تکنیکی تقسیم کو مزید بڑھا رہی ہے۔برطانیہ میں ہر شخص کو قانونی حق حاصل ہے کہ اسے کم از کم 10 ایم بی پی ایس (میگابِٹس فی سیکنڈ) کی ڈاؤن لوڈ اسپیڈ ملے ، جو عام طور پر ٹی وی پروگرامز کو آن لائن دیکھنے کیلئے کافی سمجھی جاتی ہے۔اس حد سے کم رفتار پر ویڈیو مواد بار بار رُکے گا، جبکہ زیادہ تصاویر والے ویب صفحات لوڈ ہونے میں زیادہ وقت لیں گے۔ تاہم انگلینڈ کے ایسے علاقوں کی ڈیلی میل کی تجزیاتی رپورٹ، جنہیں براڈبینڈ کے ''بلیک اسپاٹس‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر کرتی ہے کہ ویسٹ ڈیون کے 9 فیصد گھروں کو فکسڈ لائن کنکشن کے ذریعے یہ اسپیڈ مل ہی نہیں سکتی۔گزشتہ ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، اوسط ڈاؤن لوڈ اسپیڈ لیبیا میں 10.7 ایم بی پی ایس، کیمرون میں 11.9 ایم بی پی ایس اور نمیبیا میں 15.6 ایم بی پی ایس ریکارڈ کی گئی۔ جنگ سے تباہ حال ملک شام (3.4 ایم بی پی ایس) سپیڈ ٹیسٹ کے مطابق دنیا میں سب سے آخر میں رہا۔ سنگاپور نے سب سے زیادہ 400.68 ایم بی پی ایس کی رفتار کے ساتھ پہلا مقام حاصل کیا۔ برطانیہ میں انٹرنیٹ اسپیڈ کی اوسط 147.4 ایم بی پی ایس رہی۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اب بھی 72 ہزار رہائشی مقامات ایسے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی رفتار 5 میگا بِٹس فی سیکنڈ (Mbps) تک بھی دستیاب نہیں ہے۔ ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (universal service obligation) (USO) کے تحت، جسے 2020ء میں نافذ کیا گیا، صارفین کو یہ قانونی حق حاصل ہے کہ وہ مناسب براڈبینڈ کنکشن کا مطالبہ کر سکیں، بشرطیکہ اس کیلئے درکار ممکنہ کام کی لاگت 3,400 پاؤنڈ سے زیادہ نہ ہو۔ اس معیار کے مطابق مناسب براڈبینڈ کی تعریف یہ ہے: ''ڈاؤن لوڈ اسپیڈ 10 Mbps جبکہ اپ لوڈ اسپیڈ 1 Mbps ہو‘‘۔ہاؤس آف کامنز لائبریری کے مطابق، یہ رفتار صارفین کو یہ سہولت دیتی ہے کہ وہ ایک ہی وقت میں فلمیں اسٹریمنگ کر سکیں، ویڈیو کالز کر سکیں اور ویب براؤزنگ کر سکیں۔ اس رفتار کے ساتھ، ایک گھنٹے کی ہائی ڈیفینیشن (HD) ویڈیو ڈاؤن لوڈ کرنے میں تقریباً 13 منٹ لگتے ہیں۔جب اوفکام کے اعداد و شمار کا تجزیہ مقامی انتظامیہ کی سطح پر کیا گیا تو ویسٹ ڈیون کے بعد ٹوریج (Torridge) کا نمبر آیا، جہاں 8.5 فیصد گھروں کو 10 Mbps کی رفتار دستیاب نہیں تھی۔ٹاپ فائیو میں شامل دیگر علاقے یہ تھے:مِڈ ڈیون... 6.2فیصد ایسٹ لنڈزی (لنکن شائر) ... 4فیصد ویسٹ لنڈزی (لنکن شائر)... 4فیصددوسری جانب، 39 کونسلز ایسے بھی تھے جہاں کسی بھی مقام پر انٹرنیٹ کی رفتار ''یونیورسل سروس آبلیگیشن‘‘ (USO) کی مقررہ حد سے کم نہیں تھی۔اوفکام کے اعداد و شمار کے مطابق براڈبینڈ سہولیات کو مزید چھوٹے علاقوں میں بھی پرکھا جا سکتا ہے، جنہیں ''مڈل سپر آئوٹ پٹ ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے محلوں پر مشتمل ہوتے ہیں جہاں اوسطاً 10ہزار افراد رہتے ہیں۔ ملک کا سب سے خراب علاقہ Lympne اور Palmarsh پایا گیا، جہاں 51 میں سے 47 گھروں یعنی 92.2فیصد کو 10 Mbps ڈاؤن لوڈ اسپیڈ تک رسائی حاصل نہیں تھی۔ماہرین کے مطابق انگلینڈ کے براڈبینڈ مسائل کی جڑ 1992ء میں مارگریٹ تھیچر کی حکومت کے دور میں ایک منصوبہ جاتی غلطی تھی۔

کالج کے لڑکے

کالج کے لڑکے

یوں تو ان کی کاشت ہر موسم، ہر آب و ہوا اور ہر ملک میں کی جاتی ہے۔ لیکن آپ جانئے ہر ملک کی روایات الگ الگ ہوتی ہیں اور اسی میں شان ہے۔ ہمارے ملک کی شان چونکہ سب سے الگ ہے لہٰذا دنیا بھر میں لڑکوں کی کاشت کے اعتبار سے ہمارا ملک سب سے زرخیز واقع ہوا ہے۔ یہاں کے باشندوں نے بنجر مقامات پر بھی ان کی کاشت کرکے ملک کو زرخیز و مالامال کردیا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ ماہرین کا خیال ہے ''زیادہ غلّہ اگاؤ‘‘ کی تحریک کو جب سے ''زیادہ لڑکے پڑھاؤ‘‘ میں سمویا گیا ہے تب سے یونیورسٹیاں لڑکوں سے کھچاکھچ بھرنے لگی ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم ''حوالی طلبا‘‘ کی ہے جو اسی نام سے مشہور بھی ہے، خود ان طلبا کے بارے میں اب تک یہ طے نہیں کہ واقعی ان کا وجود ہے بھی یا صرف 'حوالے کی کتابوں‘ کی طرح حوالے ہی حوالے ہیں۔ ان طلبا کو یونیورسٹی کے ناخدا، لارڈ، منکر نکیر اور کراماً کاتبین بھی کہا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی میں ہونے والے کھیل تماشے، مشاعرے، قوالی، پکے گانے، ہلے پھلکے پروگرام، جلسے، جلوس وغیرہ کے یہ سولہ آنے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان کے نام سے یونیورسٹی بھر واقف ہوتی ہے۔ آس پاس کے موچی ان کے نام لے کر اپنی دکانیں سڑکوں کے کنارے جماتے ہیں۔ بات بات میں ان کی تصاویر اور بیانات اخبارات، ہینڈبلس اور لیف لیٹس میں اچھلتے نظر آتے ہیں۔ مگر یہ خود نظر نہیں آتے گوکہ ان کا ذکر ہوتا ہے۔ تمام انتظامی امورمیں ان کا خاص و عام ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ تخت رہے یا تختہ کے قائل ہوتے ہیں۔ مگر کچھ دشمنوں کا شک ہے کہ یہ لوگ فاترالعقل اور بوہیمین ہوتے ہیں جبکہ ہمارا شک ہے کہ بات کچھ اور ہے اور جو شاید خود ہم بھی نہیں جانتے ورنہ آپ سے کیا پردہ تھا۔ان طلبا کی پہچان یہ ہے کہ یہ آپ کو ہر وقت چلتے پھرتے نظر آئیں گے۔ مگر ان کے چلنے کے راستے مقرر ہیں۔ اگر آپ کو ان کی تلاش آنکھ بند کرکے کرنا مقصود ہے تو ہماری رائے میں آپ کامن روم کے سامنے چلے جائیے۔ یہی ایک پرفضا مقام ہے جہاں یہ لوگ موقع پاتے ہی تبدیل آب وہ ہوا کی غرض سے پہنچ جاتے ہیں۔ ویسے یہ شام کو حضرت گنج میں ہوا خوری کرتے نظر آئیں گے جہاں یہ میل روز، ایروز، کوالٹی اور اسی طرح کے انگریزی ہوٹلوں میں نقرئی قہقہوں سے اپنے کھوکھلے قہقہے ملاتے ہوں گے۔ اگر آپ کو ان کی تمیز کرنا مقصود ہے تو آپ اپنی آنکھیں کھول کر ان کو بجائے تلاش کرنے کے ٹٹولئے یہ کہیں نہ کہیں زور زور سے کسی اہم مسئلے پر کسی نیم ریٹائرڈ قسم کے بزرگ سے بحث کرتے ہوں گے۔ ان کے پیچھے بہت سے عقیدت مندوں کا ہجوم ہوگا۔ خاص بات یہ ہوگی کہ سب ان کا نام جانتے ہوں گے اور عام بات یہ ہوگی کہ یہ خود کسی کا نام نہ جانتے ہوں گے۔ یہ آپ کو کسی نہ کسی لیڈر یا پروفیسر وغیرہ کو کسی ہونے والی میٹنگ کی صدارت کیلئے اکساتے ہوئے ملیں گے۔ ہر تقریب میں آپ بہ آسانی ان کو صدر کے دائیں بائیں دیکھ سکتے ہیں۔تمام مقابلے غالباً انہی طلباء کیلئے کروائے جاتے ہیں۔ امتحانات میں فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس شاید انہی نے جاری کروایا تھا۔ غرض یہ کہ وہ محفل محفل نہ ہوگی جہاں یہ پالا نہ مارلے جائیں۔ ہر لکھا پڑھی کے کام میں ان کا نام سب سے اوپر ہوگا یا سب سے نیچے مگر ہوگا ضرور۔ یہ تھوڑا سا فرق جو فرسٹ کلاس اور تھرڈ کلاس میں پیدا ہوجاتا ہے، وہ ان طلبا کی ستم ظریفی نہیں بلکہ خیالات کا ٹکراؤ ہے کیونکہ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ٹاپ اوپر سے یعنی ٹاپ سے کیا جائے اور کچھ کا خیال ہے کہ ٹاپ نیچے سے یعنی باٹم سے کیا جائے۔ ان کا اعتقاد اسی بات پر ہے کہ ناک ناک ہی ہوتی ہے خواہ اِدھر سے پکڑ لو یا ادھر سے۔ باقی جو کسر ٹاپ کرنے میں رہ جاتی ہے وہ یہ طلبا، ٹیپ ٹاپ سے پوری کرلیتے ہیں۔ ان کے ٹیپ ٹاپ کرنے کے بھی دو طریقے ہیں۔ کچھ طلبا کا خیال ہے کہ ''اعلیٰ خیالات سادہ زندگی‘‘ جبکہ بقیہ طلبا کا قول ہے کہ نہیں نہیں ''اعلیٰ زندگی اور سادہ خیالات‘‘ ہونا چاہیے۔ مگر پروفیسر اوٹ پٹانگ کا خیال ہے کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ خیالات اور زندگی میں کس کو اعلیٰ اور کس کو سادہ ہونا چاہیے۔طلباء کا دوسرا گروہ پہلے والے گروہ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی زندگی اعلیٰ پسند کرتاہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ان کے جوتوں میں جو شیشے سے زیادہ چمک دار ہوتے ہیں بہ آسانی اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں۔ یہ نہایت اعلیٰ قسم کے سوٹ پہنے ہوتے ہیں جو ٹاٹ، چمڑے یا کینویس وغیرہ کے معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے چہروں کے بارے میں ہم آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آپ کو ان کے منہ پر کریم، پاؤڈر اور اسنو ملے گا مگر چہرہ نہیں ملے گا۔ مگر ہاں اگر آپ نہار منہ صبح سویرے ان کا منہ دیکھنا گوارا کریں تو ممکن ہے ان کے چہرے کا درشن ہوجائے۔ان طلبا کے بات چیت کے طریقے ان کے کھانے پینے کے طریقوں سے مختلف ہوتے ہیں مگر پھر بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات نہیں کریں گے بلکہ کھاجائیں گے۔ جب کسی مسئلہ پر بات چیت ہوگی تو ایسا ظاہر کریں گے کہ بس ان کے جانے کی دیر ہے۔ گئے نہیں کہ مسئلہ حل ہوا۔ حالانکہ ان سے مسئلہ حل ہونا ایک دوسرا مسئلہ ہوگا مگر چونکہ ان کو بات چیت کرنے اور خطاب کرنے کی لت ہوتی ہے اس وجہ سے ہمیشہ صرف بڑے بڑے مسائل کوہاتھ لگاتے ہیں اور بات کرنے میں برابر ہاتھ پیر ہلانے، گھونسا دکھانے، گردن ہلانے، کندھے اچکانے اور منھ چڑھانے سے بھی نہیں چوکتے۔

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

حکایت سعدیؒ:وقت کی نزاکت

کسی مالدار بخیل کا بیٹا بہت سخت بیمار ہو گیا۔ دوا دارو کرنے کے باوجود بھی بخار کا زور نہ اترا تو کسی نیک دل شخص نے اسے مشورہ دیا کہ قرآن مجید ختم کراؤ یا بکرے کا صدقہ دو۔یہ سن کر مالدار بخیل سوچ میں پڑ گیا اور پھر بولا کہ قرآن مجید ختم کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ منڈی دور ہے اور آنے جانے میں بہت وقت ضائع ہو گا۔اس کی یہ بات سن کر نیک آدمی نے کہا ''قرآن مجید ختم کرنا اس لیے پسند آیا کہ قرآن اس کی نوک زبان پر ہے اور روپیہ اس کی جان میں اٹکا ہوا ہے۔حاصل کلام: بخیل وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھنے کی بجائے ہمیشہ دولت کو دیکھتا ہے۔ خواہ دولت نہ خرچ کر کے نقصان ہی اٹھانا پڑے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!ساقی: ہر فن مولااداکار (1986-1925ء)

٭...ساقی 2 اپریل 1925ء کو عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام عبدالطیف بلوچ تھا۔٭... وہ پاکستان کے واحد اداکار تھے جنہوں نے اپنے کریئر کا آغاز ہالی وڈ کی فلم ''بھوانی جنکشن‘‘ سے کیا۔٭... 1955ء میں وہ لاہور میں ایک فلمی پروڈکشن یونٹ کے ساتھ بطور اسسٹنٹ وابستہ ہوئے۔ ٭...پاکستان میں ان کی پہلی فلم ''التجا‘‘ تھی جو 1955ء میں ریلیز ہوئی۔٭... 1958ء میں ''لکھ پتی‘‘ میں نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو آئے۔ پھر اس کے بعد ''سسی پنوں‘‘ اور ''بمبئے والا‘‘ میں کام کیا۔٭... 1959ء میں ان کی فلم ''ناگن‘‘ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے سپیرے کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم سپرہٹ ثابت ہوئی اور ساقی کی اداکاری کوبے حد سراہا گیا۔٭... 1960ء میں ''رات کے راہی‘‘ اور پھر 1965ء میں ''ہزار داستان‘‘ میں بھی انہوں نے چونکا دینے والی اداکاری کی۔٭... ان کی یادگار فلم ''لاکھوں میں ایک‘‘ 1967ء میں ریلیز ہوئی۔ ہدایتکار رضامیر کی اس فلم کو پاکستان کی عظیم ترین فلموں میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔٭...ساقی نے500 سے زیادہ اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبان کی فلموں میں کام کیا۔٭... ساقی گیارہ زبانیں جانتے تھے اور ان جیسی صلاحیتوں کا حامل کوئی اور دوسرا اداکار پاکستانی فلمی صنعت کو نہیں ملا۔ ٭...ساقی نے کریکٹر ایکٹر اور ولن کے کرداروں میں بھی پذیرائی حاصل کی۔٭... انہوں نے ''پاپی‘‘ اور'' ہم لوگ‘‘ کے نام سے ذاتی فلمیں بھی بنائیں لیکن یہ باکس آفس پر کامیاب نہ ہوسکیں۔ ٭...ان کی مشہور فلموں میں ''الہ دین کا بیٹا، تاج اور تلوار، بارہ بجے ، میں نے کیا جرم کیا، عورت ایک کہانی، شہید، موسیقار، زرقا، ایک منزل دو راہیں، بیٹی، شطرنج، نہلے پہ دہلا، ایک دل دو دیوانے، وہ کون تھی، نغمہ صحرا، نصیب اپنا اپنا، یوسف خان شیربانو اور میرا گھر میری جنت‘‘ شامل ہیں۔ ٭...پشتو فلموں کی ناموراداکارہ یاسمین خان سے انہوں نے شادی کی ۔٭...22 دسمبر 1986ء کو یہ شاندار اداکار اس دارفانی سے کوچ کرگیا۔ وہ پاکستانی فلمی صنعت کا بیش قیمت اثاثہ تھے۔ بطور اداکار اور بطور انسان وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ساقی کی اہم فلمیں و کردارشہید1962ء:گونگے کا کردارلاکھوں میں ایک1967ء:پٹھان ٹرک ڈرائیورزرقا1969ء:عرب بدو کا کردارگھرانہ1973ء:وفادار گھریلو ملازمناگن1959ء:سپیرے کا کردار 

آج کا دن

آج کا دن

ایکسریز کا پہلا تجربہ1895ء میں آج کے روز جرمن معالج ولہیم رونجن نے پہلا کامیاب ایکس رے لیا۔ رونجن کی دریافت نے طبی تشخیص میں انقلاب برپا کیا۔ آج، ایکس ریز مشینیں ہڈیوں کے فریکچر، دانتوں کی خرابی اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال ہوتی ہیں۔ ان کی خدمات سائنس کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ان کا نام اس دریافت کے ساتھ ہمیشہ کیلئے جڑا ہوا ہے اور ایکس ریز کو اکثر ''رونجن ریز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔سنکیانگ زلزلہ1906ء میں آج کے روز چین کے شہر سنکیانگ میں 7.9 شدت کا زلزلہ آیا۔ زلزلے کے جھٹکے صبح 8 بجے محسوس کئے گئے۔ اس زلزلے کا مرکز چین کے صوبے سنکیانگ کے ماناس کاؤنٹی میں واقع تھا۔ ایک اندازے کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 280 سے 300 افراد ہلاک ہوئے اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے۔ یہ اپنے وقت کے سب سے زیادہ خطرناک قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔مسلم لیگ کا ''یوم نجات‘‘23 دسمبر 1939ء کو آل انڈیا مسلم لیگ نے ''یوم نجات‘‘ منایا۔یہ ''یومِ نجات‘‘ ایک روزہ جشن تھا جو قائد اعظمؒ کی اپیل پر ہندوستان بھر میں منایا گیا۔ اس کی قیادت مسلم لیگ کے صدر محمد علی جناحؒ نے کی۔ اس دن کا مقصد حریف کانگریس پارٹی کے تمام اراکین کے صوبائی اور مرکزی دفاتر سے استعفے پر خوشی منانا تھا، جو اس بات پر احتجاجاً دیے گئے تھے کہ انہیں برطانیہ کے ساتھ دوسری جنگ عظیم میں شامل ہونے کے فیصلے پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام 1944ء میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ویتنام کی ''پیپلز آرمی‘‘ کا قیام عمل میں آیا تاکہ انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) پر جاپانی قبضے کی مزاحمت کی جا سکے۔ یہ فوج انڈوچائنا (موجودہ ویتنام) میں جاپانی افواج کے خلاف لڑنے کیلئے تشکیل دی گئی۔ اس کا مقصد ویتنام کی آزادی کیلئے جدوجہد کرنا اور جاپانی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنا تھا۔ اس فوج کا قیام ویتنام کے قوم پرست رہنماؤں کی جانب سے ویتنام کی خود مختاری کی جنگ میں اہم سنگ میل تھا۔کروز جہاز حادثہ1963ء میں آج کے روز مشہور کروز جہاز لاکونیا پرتگال کے علاقے مادیرا سے تقریباً 290 کلومیٹر شمال میں حادثے کا شکار ہوا۔ یہ جہاز تفریحی سفر کیلئے روانہ ہوا تھا، لیکن اچانک آگ لگنے سے جہاز میں شدید تباہی پھیلی۔ جہاز میں سوار مسافر اور عملہ شدید خطرے میں آ گئے۔ جہاز کے عملے اور قریبی کشتیاں موقع پر پہنچ کر لوگوں کی مدد کرنے کی کوششیں کر رہی تھیں، مگر حادثے کی شدت بہت زیادہ تھی۔اس المناک واقعے کے نتیجے میں 128 افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ آگ کی وجہ سے جہاز کا بڑا حصہ جل کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے بعد بین الاقوامی سطح پر جہازوں میں آگ سے بچاؤ کے اقدامات اور حفاظتی قوانین کو مزید سخت کیا گیا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے المیہ سے بچا جا سکے۔