ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

اسپیشل فیچر

تحریر :


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

خوب صورتی ہی معیار ہو ‘صلاحیتیں ہی پیمانہ ٹھہریں یا چانس ملنے تک بات ہوتو شوبز کی دنیا تسخیر کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں‘لیکن ان سب پر حاوی تقدیر بھی ہے جو ساتھ دے تودروازہ کھلتا چلا جاتا ہے ورنہ وہ ایک چہرہ جو چھوٹی اسکرین نے متعارف کروایا‘ بڑی اسکرین پر اتنی شان سے حکمرانی نہ کرتا ۔ بابرہ شریف نے شو بز میںاپنی آمد کے بارے میں بتایا کہ مجھے اداکاری کا شوق بالکل نہیں تھا اور جس وقت میں اسکرین پر آئی اس وقت میری عمر اتنی بھی نہیںتھی کہ میں جان سکتی کہ میرا شوق کیا ہے۔ واشنگ پائوڈر کے کمرشل سے میری پہچان ہوئی۔ ٹی وی ڈرامے میری فلم میں آنے کی وجہ نہیں بنے تھے میںنے ٹی وی پر کوئی خاص کام بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی فلم والوں نے مجھے کاسٹ کرتے ہوئے یہ دیکھاتھا کہ میں ٹی وی ڈرامے میں کام کرچکی ہوں۔نہ تو میرا کوئی یادگار ٹی وی ڈرامہ تھا اور نہ کوئی یادگار کردار جس کی پرفارمنس سب کو یاد رہے ۔ فلم والوںکومیرے کمرشل نے متاثر کیاتھا۔ ایک سوال پرکہ ایک ماڈل کی عمر دس سے پندرہ سال تک ہی ہوتی ہے لیکن آپ اب بھی ماڈلنگ میں ایک کامیاب ماڈل ہیں؟ بابرہ شریف نے کہا کہ فلموں میںکام کے دوران تو ماڈلنگ کی طرف کم توجہ رہی تھی۔ لیکن پھر 2003ء میں بہترین ماڈل کاایوارڈحاصل کرنے کے بعد ماڈلنگ کی طرف زیادہ توجہ دی اور اس کے بعد سے اب تک میں اس فیلڈ میں ہوںاورمیںنے ثابت کیا کہ ماڈلنگ میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ایک سوال پر کہ جب آپ رومانٹک فلموں میں کام کررہی تھیں شمیم آرا نے آپ میں کیاخاص بات دیکھی کہ آپ کو ’’مس ہانگ کانگ ‘‘جیسی ایکشن فلم میںکاسٹ کرلیا؟ بابرہ نے بتایا کہ ’میرا نام ہے محبت‘شبانہ‘ پیار کاوعدہ اور مہمان میں کامیابی کے بعد ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’سلاخیں‘‘میںمجھے بھر پور پرفارمنس کا موقع ملا لیکن رومانٹک فلموں میں کام کرنے بعد شمیم آرا باجی کی فلم ’’ مس ہانگ کانگ‘‘ میں مجھے فائیٹ کے ساتھ اپنی ڈریسنگ میں بھی تبدیلی لانا پڑی جس کو دیکھنے والوں نے بے حد پسند کیا اور اس کے بعد شمیم آرا باجی کی مس سیریز میں کام کیا جس میں ’’مس کولمبو‘‘میں مجھے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی۔ہمارے ایک سوال پر کہ کیاوجہ ہے شمیم آرا نے مس سیریز کے بعد جو کامیاب فلمیں بنائیں ان میں آپ کو شامل نہیں کیا ‘آج بھی لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں؟بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ فلم انڈسٹری میںایک اصول ہے کہ ہیرو یا ہیروئن ٹاپ پر ہوں تو ان کے ساتھ رشتے قائم کرلیے جاتے ہیںتاکہ کام باآسانی چلتا رہے۔ شمیم آرانے بھی مجھے بیٹی بنایاتو میں نے ان کے ساتھ بہت اچھا کام کیا میری ان کے ساتھ فلمیںکامیاب رہیں لیکن آخری فلم ’’لیڈی کمانڈو‘‘کے دوران ان کی شادی ہوگئی اور میں نے بھی فلموں میں کام کم کر دیا اس لیے میں ان کے ساتھ کام نہ کر سکی لیکن میں ان کا احترام کرتی رہی۔ آج کل وہ شدید بیمار ہیں میری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کرآئیں۔ آج کل ہمارے فن کار بھارتی فلموں میں کام کرنے وہاں جارہے ہیں اور آپ کودلیپ کمار نے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی تھی اس بارے میںبتائیں؟ بابرہ شریف نے کہاکہ جب یہاں فلمیںنہیں بن رہی ہیں تو یہ کہاں کام کریں‘لیکن چند منٹ کے کرداروں میںاپنے آپ کو ضائع کرنا کہاںکی دانش مندی ہے۔ہاں اگر یہاں فلمیں بن رہی ہوتیں تو پھر بھارتی فلموںمیں کام کرکے یہاں کی فلموں میں کام حاصل کرنا آسان ہوتا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ہمارے دور میں حکومت کی ویزا پالیسی سخت تھی ہم وہاں کی فلموں میںکام نہیں کرسکتے تھے اور وہاں کا کوئی اداکار بھی پاکستانی فلموں میں کام نہیں کرسکتاتھا ۔ایسی کئی فلمیں جن میں پاکستانی فن کاروںنے بھارتی فلموں میں کام کیا اور بھارتی اداکاروں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا یہاں ریلیز نہ ہوسکیں۔جہاں تک میری بھارتی فلم میں کام کرنے کی بات تھی تو میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش دلیپ کمار صاحب نے کی تھی۔انہوں نے میری فلم’’سلاخیں‘‘ دیکھی تھی۔ وہ اپنی فلم ’’راستہ‘‘ کے نام سے بنارہے تھے جس میں ان کا کردار ایک چالیس سالہ شخص کا تھا جو بیس سال کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیدائش کے دوران وہ لڑکی مر جاتی ہے۔ وہ شخص جوبہت پیار کرنے والا ہوتا ہے ۔ بیوی کے مرنے کاصدمہ برداشت نہیں کرپاتا اور اپنے ہی بیٹے کے خون کا پیاسا ہوجاتاہے۔حالاں کہ اس کردار کے لیے بھارت میں اور بھی کئی اداکارائیں موجود تھیں لیکن دلیپ کمار صاحب کا کہناتھا ان کا کردار جتنی شدت سے تبدیل ہوتا ہے اور جس چیز کے لیے میں نگیٹیوہوتا ہوں وہ چیز بھی جان دار ہونی چاہیے اور میرے(بابرہ شریف) کے چہرے پر وہی معصومیت‘ خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر صلاحیتیں ہیں۔ لیکن افسوس ہوا کہ میں اس فلم میں کام نہ کرسکی۔ ہمارے سوال پر کہ شائقین اب بھی آپ کوفلموںمیں دیکھناچاہتے ہیں کیا آپ فلم میںکام کریںگی؟ بابرہ کا کہناتھا کہ میں خود بھی کام کرنا چاہتی ہوںاگر کوئی فلم ساز مجھے اچھا کردار دے گا تو میں ضرور کام کروںگی۔ویسے کچھ دنوں پہلے ایک معروف فلم ساز و ہدایت کارنے مجھے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ہے ‘کردار بھی اچھاہے ‘ہوسکتا ہے میں اس کو قبول کرلوں اور میرے مداح مجھے ایک بار پھر سلور اسکرین پر دیکھ سکیں۔فلمی صنعت کے موجودہ بحران کو ختم کرنے کے بار ے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم اچھے ہدایت کارنہیں پیداکرسکے جوہدایت کار تھے انہوں نے اپنا فن دوسروںمیںمنتقل نہیں کیا۔انور کمال پاشا‘ایس سلیمان‘جاویدفاضل سے لے کر سید نور تک ہی ہمیں ہدایت کار نظر آتے ہیںجب کہ شباب کیرانوی (مرحوم) نے بھی صرف اپنے صاحبزادوں کو ہی فلموںمیںچانس دیا لیکن اب جو چند ہدایت کارفلمیںبنارہے ہیں جیسے شہزاد رفیق اور شعیب منصور میرے خیال میںان کا کام دوسرے ہدایت کاروںسے مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں کامیاب بھی ہیں۔ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ فن کاروںکی بھی کمی رہی ہے ۔ہماری انڈسٹری میںبیک وقت دو یا تین ہی فنکار رہے ہیں جن میں مقابلے کا رجحان نہ ہونے کے برابرتھا ۔بھارتی فلموں کے سوال پربابرہ شریف کا کہناتھا کہ ہم بھارتی فلموں کے سحر میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے ہیں کہ وہی اچھائی برائی کا پیمانہ بن کر رہ گئی ۔بھارتی فلموں سے ہماری فلموں کا مقابلہ کرنا بڑی بے وقو فی ہے ۔ بھارت کی فلم انڈسٹری اس وقت دنیا بھر میںپہلے نمبر پر ہے اور اب یہ ہالی ووڈ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وہاں وسائل ہیں ‘ سرمایہ ہے اور بہت بڑا سرکٹ ہے اور اب انہوں نے اپنی فلمیں دنیا بھر میںریلیز کرنا شروع کردی ہیں چند سالوں سے بھارتی فلمیں ہمارے سینمائوں پر بھی ریلیز کی جارہی ہیں جس سے بھارتی پروفیشن ازم کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بڑے بڑے فلم ساز فلمیںبناتے تھے اب بھارتی فلموں کو ریلیز کرکے منافع کمارہے ہیں اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے کہ جس فلم انڈسٹری میں نہ کہانی نویس منفرد کہانی دے سکیں نہ ہدایت کار معیاری ڈائریکشن دے سکیں اور نہ ہی فن کار تو پھر کس طرح فلم ساز اپناپیسہ انڈسٹری میں لگائے کہ جس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اتنی محنت کرنے کے بعد اس کی فلم کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟ بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ میں روزانہ گھر میںڈانس کرتی ہوںجس سے چاق چوبند رہتی ہوں۔ وزن کو کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ بھی کرتی ہوں لیکن ایکسر سائزکرنے میں اپنے آپ میںایک توانائی محسوس کرتی ہوں۔اپنے ملک کی سیاست کے بارے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ آج کل ملک کے موجودہ حالات نے ہر محب وطن شخص کی طرح مجھے بھی پریشان کررکھا ہے ۔ اس ملک کو حقیقی اور ایماندارقیادت کی ضرورت ہے جو عوام کو اس مشکلات سے نکالنے میںان کی مددکرسکیں۔ ہمارے سوا ل پر کہ آپ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ کیا پریشانیاںمحسوس کرتی ہیں ؟ بابرہ شریف نے کہا کہ یہ مردوںکا معاشرہ ہے اور ان کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو بھی عورت اپنی پروفیشنل لائف میں آتی ہے تواسے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر یہ ثابت قدم ہے توساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں جو کہ میرے ساتھ ہوا۔ کیا آپ کو کبھی اپنے پروفیشن پر پچھتاوا یا شرمندگی ہوئی؟ بابرہ شریف نے کہا کہ نہیںمیں نے بہت سوچ سمجھ کر اداکاری کی فیلڈ میںقدم رکھاتھا اور میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک گم نام لڑکی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے گی اور شوبز میں اتنی عزت ملے گی۔بابرہ شریف کا شمار اپنے دور کی ایک ورسٹائل اداکارہ میںہوتا ہے۔ ان کا فنی سفربھی بڑا دل چسپ ہے۔بابرہ کی دو بہنیں فردوس اورفاخرہ ٹیلی ویژن ڈراموںاور اسٹیج پر وگراموں میںحصہ لے رہی تھیں مگر بابرہ کو اداکاری کا بالکل بھی شوق نہیںتھا۔اکثر ایسا بھی ہوتاتھا کہ یہ اپنی بہنوں کے ہمراہ ٹیلی ویژن اسٹیشن چلی جاتی تھیں ۔ایک دفعہ یہ اپنی بہن کے ساتھ تھیں کہ ڈرامہ پروڈیوسر کی نظر ان پر پڑی اور چہرے مہرے سے اداکاری کا اندازہ لگا کر ڈرامے میں حصہ لینے کے لیے کہا مگر بابرہ بجائے خوش ہونے کے یہ سن کر اداس ہوگئیں۔ ان کی بہن نے بتایا کہ وہ فلم اور ٹی وی کے نام سے بھاگتی ہے۔ اور بات وہیںختم ہوگئی۔لیکن چند دنوں بعدبابرہ شریف کو معروف ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی نے ڈرامہ’’مس فوراوکلاک‘‘کے مختصر کردار میں کاسٹ کرلیا۔ڈرامہ سیریل ’’کرن کہانی‘‘ بابرہ شریف کا تعارف بن گیا۔اسی دوران ہدایت کار نذیر صوفی نے انہیں اپنی فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘کے لیے منتخب کرلیا۔اس فلم میں ان کے ساتھ ایک نیا اداکارتنویر تھا۔اس فلم کانام بدل کر’’ایک اور ایک گیارہ‘‘ رکھ دیاگیا لیکن یہ فلم مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہ ہوسکی۔1972ء کی بات ہے جب ٹیلی ویژن پر ایک واشنگ پائوڈر کے کمرشل نے ان کوبے حد شہرت دی اور اس کو دیکھتے ہوئے فلمساز شمیم آر ااور ہدایت کار ایس سلیمان نے ان کو فلم ’’بھول‘‘ میں کاسٹ کرلیاجس میںندیم‘شبنم اور ممتاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور بابرہ شریف کا پیئر مزاحیہ اداکار منور ظریف (مرحوم) کے ہمراہ تھا۔اس فلم کے بعد بابرہ کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن جب ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’میرا نام ہے محبت ‘‘میں یہ ٹی وی اداکار غلام محی الدین کی ہیروئن بنیں تو بہترین اداکاری پر انہیں ہیروئین کے طور پرمانا جانے لگا۔ انہوں نے150سے زائد فلموں میںہیروئن کے کردار ادا کیے۔اور ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی رہیں۔ بابرہ شریف کو آج بھی شائقین فلموںمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ فیشن شوٹس پرتوجہ دے رہی ہیں۔ ان سے ان کی فنی زندگی پر بات چیت ہوئی جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

دنیا کی چند خوبصورت مسجدیں

الصالح مسجد صنعاء یمنالصالح مسجد صنعاء میں رمضان کے مبارک مہینے (ستمبر2008ء میں کھول دی گئی تھی۔ یہ مسجد صنعاء شہر میں اسلامی تعمیرات کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔ یمن کے سابق صدر عبداللہ صالح نے اپنے ذاتی خرچ سے یہ مسجد تعمیر کروائی۔ یہ مسجد اپنے عالیشان چھ میناروں اور پانچ گنبدوں کی وجہ سے بہت شہرت کی حامل ہے۔ اس مسجد کے دو بڑے مینار328فٹ اور چار چھوٹے مینار67فٹ بلند ہیں۔مرکزی گنبد 130فٹ بلند ہے۔ مسجد کا کل رقبہ 27300مربع میٹر ہے جبکہ بڑے مرکزی ہال کا رقبہ13596مربع میٹر ہے۔ ہال کی چھت 24میٹر بلند ہے۔ مرکزی ہال میں 44 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ خواتین کیلئے علیحدہ انتظام کیا گیا ہے۔ مسجد کی تعمیر میں مقامی یمن کا پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ اس مسجد کے ڈیزائن کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ یمن کے روایتی فن تعمیر اور جدید فن تعمیر کو اس طرح یک جا کردیا گیا ہے کہ مسجد کے حسن میں گرانقدر اضافہ ہو گیا ہے۔سلطان عمر علی سیف الدین مسجد برونائی شاہی مسجد سلطنت برونائی کے دارالحکومت بندرسری بیگوان میں واقع ہے۔ یہ ایشیائی بحرالکاہل کے خطے کی ایک خوبصورت مسجد شمار کی جاتی ہے اور برونائی کے 28ویں حکمران سلطان عمر علی سیف الدین سوم کے نام سے موسوم ہے۔ دنیائے اسلام کی یہ قابل دید مسجد 1958ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر میں مغل اور اطالوی فن تعمیر کا عکس نمایاں ہے۔یہ مسجد ایک مصنوعی جھیل میں تعمیر کی گئی ہے۔ مسجد کے مرمریں مینار، نہری گنبد، سرسبز درخت، رنگ برنگ پھولوں سے لدے لان اور ان کے درمیان اٹھیلیاں کرتے ہوئے سینکڑوں فوارے، جنت اراضی کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ پاس ہی دریا کے اوپر مسجد میں داخل ہونے کیلئے ایک خوبصورت طویل پل بنایا گیا ہے۔ مسجد کے ایک طرف جھیل ہی میں ایک خوبصورت پل بحری جہاز کے مشابہ بنایا گیا ہے جس میں قرأت کے مقابلے منعقد کئے جاتے ہیں۔ مسجد کے مینار 171 فٹ بلند ہیں۔ لفٹ کے ذریعے ان کے اوپر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مسجد کا بڑا گنبد خالص سونے سے مزین ہے۔ اس میں استعمال ہونیوالا سنگ مر مر اٹلی سے، سنگ خارا شنگھائی سے، فانونس برطانیہ سے اور ہال میں بچھانے کیلئے قالین سعودی عرب سے منگوائے گئے تھے۔مسجد الکبیر کویتمسجد الکبیر ملک کی ایک خوبصورت اور سب سے بڑی مسجد ہے اس کو سرکاری مسجد کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ اسلامی فن تعمیر کا ایک خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کا کل رقبہ 45ہزار مربع میٹر ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد 1979ء میں رکھا گیا اور یہ 1986ء میں مکمل ہوئی۔ اس کی تعمیر پر 14ملین کویتی دینار خرچ ہوئے۔ مسجد کا مرکزی ہال 236میٹر لمبا اور اتنا ہی چوڑا ہے۔ ہال میں قدرتی روشنی کیلئے 144کھڑکیاں نصب کی گئی ہیں۔21 دروازے ساگوان کی لکڑی کے ہیں۔ مسجد کے گنبد 141فٹ اونچا ہے جس کے اندر اسماء الحسنیٰ نہایت خوبصورتی سے تحریر کئے گئے ہیں۔ مسجد کا واحد مینار243فٹ اونچا ہے۔اس مسجد میں دس ہزار حضرات اور ایک ہزار خواتین بیک وقت نماز ادا کر سکتے ہیں۔ مسجد سے ملحقہ ایک لائبریری بھی بنائی گئی ہے، نیز صحن کے سامنے چھ سو کاروں کی پارکنگ کا انتظام بھی موجود ہے۔الا مین مسجد، بیروت لبنان یہ مسجد بیروت شہر کے مرکز میں واقع میدان شہداء میں تعمیر کی گئی ہے۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق جریری کے ہاتھوں 2002ء میں رکھا گیا تھا ۔ مسجد کا افتتاح رفیق حریری کے صاحبزادے سعد حریری نے 17اکتوبر 2008ء کو کیا یہ مسجد 2007ء میں مکمل ہو چکی تھی۔ اس کا ڈیزائن استبول کی سلطان احمد مسجد سے متاثر ہو کر تیار کیا گیا تھا۔ مسجد کے گنبد اور مینار ہو بہو سلطان احمد مسجد کی نقل ہیں۔ اس کا کل رقبہ 115178مربع فٹ ہے۔ یہ مسجد یوں تو استنبول کی نیلی مسجد( سلطان احمد مسجد) کی عکاسی کرتی ہے لیکن اس کی تعمیر میں ڈیزائنر نے لبنانی فن تعمیر کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔مسجد کے چاروں مینار 236 فٹ بلند ہیں جو مسجد الحرام کے میناروں کے ڈیزائن سے متاثر ہو کر بنائے گئے ہیں جبکہ ان میں استعمال ہونے والا پتھر بھی سعودی عرب سے منگوایا گیا ہے۔مسجد کے مرکزی ہال میں اتنے شاندار فانوس لٹک رہے ہیں کہ جب وہ جلتے ہیں تو ہال بقعۂ نور بن جاتا ہے۔  

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

عظیم مسلم سائنسدان علم ہندسہ کے ماہرحجاج بن یوسف مطر

حجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ میں کمال رکھتے تھے، انہوں نے دوبڑے کام کئے۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے ایک جامع کتاب علم ریاضی میں مرتب کی۔ دوسرا کام اس کا قدیم دور کی مشہور کتاب ''المجسطی‘‘ کو اصلاح اور نظرثانی کے بعد (ایڈٹ کر کے) مرتب کیا۔ابتدائی زندگیحجاج بن یوسف بن مطر علم ہندسہ کے ماہر تھے۔ اس فن میں انہوں نے کمال پیدا کیا۔ حجاج بن یوسف دیہات کے باشندہ تھے، والدین تو کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن حجاج نے اپنے شوق اور اپنی محنت سے اچھی تعلیم حاصل کی، پھر دیہات کے تنگ دائرے سے نکل کر786ء میں بغداد آ گئے اور یہیں بس گئے۔حجاج نے بغداد کے علمی ماحول سے پورا پورا فائدہ اٹھایا اور بغداد کی علمی صحبتوں سے مستفید ہو کر اپنی قابلیت اور استعداد میں اچھا اضافہ کر لیا۔ حجاج نے ہارون الرشید اور مامون الرشید دونوں کا روشن دور دیکھا تھا، مگر وہ خاموش علمی کام کرتا رہا۔علمی خدمات اور کارنامےحجاج ایک بلند پایہ ریاضی دان تھے۔ اس نے دو بنیادی کام کئے، ایک تو علم ہندسہ یعنی جیومیٹری کا کام تھا اور دوسرا علم ہیئت سے متعلق تھا۔ انہوں نے ان دونوں علوم کو نئے ڈھنگ سے فروغ دیا۔ جیومیٹری میں انہوں نے نئے نئے انکشاف کئے اور اپنا ایک حلقہ بنا لیا۔ اس وقت علم ہندسہ میں اس کا کوئی ہمسر نہ تھا۔علم ہندسہ میں ایک جامع کتاب ''مقدمات اقلیدس‘‘ کے نام سے اس ریاضی دان نے مرتب کی۔ یہ ریاضی دانوں پر بہت بڑا احسان ہے۔دوسرا کارنامہ اس کا علم ہیئت سے متعلق ہے۔ قدیم زمانے کی مشہور کتاب ''المحسبعیٰ‘‘ کو اصلاح اور تصحیح کے ساتھ نئی ترتیب سے اس نے مرتب کیا اور اس علم کو نئے انداز سے فروغ دیا۔ اہل یورپ نے حجاج کی دونوں کتابوں سے فائدہ اٹھایا۔ ''مقدمات اقلیدس‘‘ کا ترجمہ ملک ڈنمارک سے 1893ء میں شائع کیا گیا تھا۔ اس کی کتابیں بیسویں صدی تک مدارس کی زینت بنی رہیں۔ حجاج نے اور بھی بہت سی کتابیں ریاضی پر لکھی ہیں۔ 

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

رمضان کے پکوان:ہمت میلو

اجزاء:بکری کا گوشت ،بغیرہڈی کاڈیڑھ کلو ،کالی مرچ کٹی ہوئی آدھا کھانے کا چمچ،نمک حسب ذائقہ،برائون سرکہ آدھی پیالی،سویا ساس دوکھانے کے چمچ،ادرک کچلی ہوئی ایک چائے کا چمچ،چینی ایک کھانے کا چمچ،کارن فلور ایک کھانے کا چمچ،لیموں دوعدد،سویٹ کارن ایک ٹن، اخروٹ باریک کٹے ہوئے ایک کھانے کا چمچ،کشمش ایک کھانے کا چمچ،بادام باریک کٹے ہوئے ڈھائی کھانے کے چمچ، کوکنگ آئل دوکھانے کے چمچ،مارجرین ایک کھانے کا چمچ ترکیب :سب سے پہلے گوشت میں نمک، کالی مرچ ادرک سویا سا، سرکہ، چینی، لیموں اچھی طرح لگاکر کانٹے کے ساتھ گودلیں تاکہ مصالحہ اندر تک چلا جائے۔ چارپانچ گھنٹے کیلئے مصالحہ لگاکر رکھ لیں۔ ایک بڑی دیگچی میں اتنا پانی ڈالیں کہ گوشت گل جائے، پھر ہلکی آنچ میں پکنے کیلئے رکھ دیں، جب پانی سوکھ جائے تو پھر کوکنگ آئل اور ایک پیالی پانی میں کارن فلور ملاکر دیگچی میں ڈال دیں تاکہ گاڑھی گاڑھی ساس بن جائے۔ سارا میوہ اور کارن ایک فرائنگ پین میں بلوبینڈ مارجرین کے ساتھ ہلکا ہلکا تل لیں۔ دیگچی میں ڈال کر ہلکی آنچ میں دم پر رکھ دیں۔ مقدار:یہ ڈش چھ افراد کے لیے کافی ہے۔  

حکایت سعدیؒ :شکر

حکایت سعدیؒ :شکر

بیان کیا جاتا ہے، ایک درویش سمندر کے کنارے اس حالت میں زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے جسم پر چیتے کے ناخنوں کا لگا ہوا ایک زخم ناسور بن چکا تھا۔ اس ناسور کی وجہ سے درویش بہت تکلیف میں مبتلا تھا مگر اس حالت میں بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا۔اس سے سوال کیا گیا کہ اے مرد خدا! یہ شکر کرنے کا کون سا موقع ہے؟ درویش نے جواب دیا، میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ مصیبت میں مبتلا ہوں معصیت میں نہیں۔ تو نے سنا نہیں کہ اللہ والے گناہ کے مقابلے میں مصائب کو پسند کرتے ہیں۔ جب عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل خانے میں ڈلوا دینے کی دھمکی دی تو انھوں نے فرمایا تھا کہ اے اللہ، مجھے قید کی مصیبت اس گناہ کے مقابلے میں قبول ہے جس کی طرف مجھے بلایا جا رہا ہے۔ درویش نے مزید کہ اللہ والوں کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر حالت میں اپنے رب کو راضی رکھنے کی تمنا کرتے ہیں۔مجھے قتل کرنے کا دیں حکم اگرنہ ہو گا مجھے اپنی جاں کا ملالمیں سوچوں گا کیوں مجھ سے ناراض ہیں ستائے گا ہر وقت بس یہ خیالاس حکایت میں حضرت سعدیؒ نے انسان کے اس بلند مرتبے کا حال بیان کیا ہے جب وہ ہر بات کو من جانب اللہ خیال کرتا ہے اور ہر وقت اس خیال میں رہتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے کس طرح راضی ہو گا۔ یہی وہ روحانی منزل ہے جب انسان کو سچا اطمینان اور سچی راحت حاصل ہوتی ہے اور وہ خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے۔٭...٭...٭

آج کا دن

آج کا دن

''ایکسپلورر3‘‘لانچ کیا گیا1958ء میں امریکہ نے''ایکسپلورر3‘‘ سیٹلائٹ لانچ کیاتھا۔یہ ''ایکسپلورر‘‘ پروگرام کا دوسرا کامیاب لانچ تھا۔''ایکسپلورر 3‘‘کی ساخت اس سے پہلے خلا میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹ ''ایکسپلورر1‘‘سے بہت زیادہ مشابہ تھی۔''ایکسپلورر 3‘‘کا مقصد فوجی آپریشن یا جنگ کے دوران فوجی ذرائع ابلاغ کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جا سکے۔اس سیٹلائٹ کو امریکی بحریہ کیلئے بھی استعمال کیا گیا تاکہ سمندر میں موجود جہازوں کے ساتھ زمینی رابطہ برقرار رکھا جا سکے۔ وینزویلا میں شدیدزلزلہ 1812ء میں وینز ویلا میں26مارچ کو 4 بج کر37منٹ پر 7.7شدت کا زلزلہ آیا۔اس کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ جس جگہ یہ زلزلہ آیا وہا ں ایک نئی جھیل وجود میں آ گئی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً 20ہزار افراد ہلاک ہوئے ۔اس حادثے کے فوراً بعد امریکہ کی جانب سے وینزویلا کیلئے امدادی سامان سے لیس جہاز پہنچے، جن میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ امریکہ کی جانب سے 50ہزار امریکی ڈالر کی مالی امداد بھی کی گئی۔ سکاٹ لینڈ:سگریٹ نوشی پر پابندی 2006ء کو آج کے دن سکاٹ لینڈ میں عوامی مقامات اور ریسٹورنٹس میں سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ اس نئے قانون اور پابندی کے مطابق کوئی بھی شخص کسی عوامی مقام، ہوٹل یا پارک میں سگریٹ نہیں پی سکے گا۔ اپنے گھر میں یا خصوصاً تمباکو نوشی کیلئے بنائے گئے سموکنگ ایریا میں سگریٹ پینے کی کوئی پابندی نہیں ہو گی۔ اگر کوئی اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہوا پکڑا گیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ نیوزی لینڈ: بدترین حادثہ نیوزی لینڈ کے جنوبی آئی لینڈ کے علاقے گرے ماؤتھ میں موجود کوئلے کی کان میں دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کان میں کام کرنے والے65مزدور لقمہ اجل بنے۔ یہ واقعہ1896ء میں آج کے دن پیش آیا۔ نیوزی لینڈ ایک پر امن ترقی یافتہ ملک ہے اور وہاں اس طرح کے حادثا ت معمول کی بات نہیں۔ اس حادثے کو نیوزی لینڈ کا بدترین انڈسٹریل سانحہ قرار دیا جاتا ہے۔ 

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

ابابیل عجیب و غریب اور منفرد پرندہ

کائنات جس قدر خوبصورت ہے اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور حیران کن بھی ہے۔ اگر بات اس کائنات کی مخلوق کی، کی جائے تو اس کا صحیح شمار انسان کی بساط سے باہر ہے۔ اس روئے زمین پر رینگنے والے کیڑوں سے لے کر ، چرند پرند ، آسمانوں پر اڑتے پرندوں سے لے کر سمندر کی تہوں میں حرکت کرتی مخلوق کا صحیح شمار انسان کے بس سے باہر ہے۔ عقل، انسان کیلئے اگرچہ رب کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے جو اسے دیگر تمام مخلوقات سے افضل کرتی ہے لیکن دور جدید میں انسان ''ستاروں پہ کمند‘‘ ڈالنے کے باوجود بھی ابھی رب کی بنائی کائنات کے لاتعداد رازوں کی تہہ تک نہیں پہنچ سکا ہے۔ ابابیل کے بارے تو سوچتے ہوئے انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ دس ماہ تک باآسانی لگاتار پرواز کر سکتا ہے۔یہ اور ایسے ہی لاکھوں اور محیر العقول جانداروں بارے سائنس دان کھوج لگانے میں لگے ہوئے ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنس دان اس عجیب و غریب پرندے ''ابابیل‘‘ پراب تک کیا تحقیق کر سکے ہیں جس کا تذکرہ قرآن شریف میں بھی ملتا ہے۔ ابابیل ، چڑیا کی طرح کا ایک چھوٹی جسامت کا نازک سا پرندہ ہے لیکن چڑیا اور اس قبیل کے دیگر جانوروں کے برعکس اس کے پر زیادہ لمبے ہوتے ہیں۔ شاید ان پروں کے پیچھے قدرت کا یہ راز پوشیدہ ہے کہ یہ دیگر پرندوں کی نسبت طویل اور انتہائی بلندی پر سفر کرنے والا پرندہ ہے۔ قدرت نے اس پرندے کے پروں کی ساخت کچھ اس طرز پر بنائی ہے کہ ہلکی سی ہوابھی اسے خودبخود آگے دھکیلتی رہتی ہے۔اس پرندے کی عمومی لمبائی 18 سے 20 سنٹی میٹر کے قریب ہوتی ہے۔ اس کے پر سیاہ اور سینے کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے پنجے نہایت نازک اور کمزور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ زمین پر زیادہ آسانی سے نہیں بھاگ سکتا لیکن اس کے پس پردہ بھی شاید قدرت کی یہ مصلحت کارفرما ہے کہ یہ درختوں کی ٹہنیوں اور بجلی کی تاروں پر زیادہ آسانی سے بیٹھ سکتا ہے۔ابابیل فطرتاً پرانے گنبدوں ، کھنڈرات، پہاڑوں کی چٹانوں ، درختوں کے تنوں کے اندر اور اکثر ویران جگہوں پر اپنا مٹی کا گھونسلا بنا کر رہنے کی عادی ہے۔ یہ زیادہ تر اپنے گھونسلے گیلی مٹی اور گھاس کو باقاعدہ لیپ دے کر بناتے ہیں۔ ان کے بارے مشہور ہے کہ یہ ستر اسی سال تک اپنا گھونسلا نہیں چھوڑتے اور یہ جہاں بھی ہوں ہر دفعہ اپنے ہی گھونسلے میں آکر انڈے دیتے ہیں۔ابابیل کو باقی پرندوں کے مقابلے میں جو انفرادیت حاصل ہے وہ یہ کہ ابابیل شاید واحد پرندہ ہے جو متواتر اپنی اڑان جاری رکھنے کے سبب دوران پرواز نہ صرف اپنی نیند پوری کر لیتا ہے بلکہ دوران پرواز ہی اپنی خوراک بھی کھاتا رہتا ہے۔ چونکہ دوران پروازیہ اپنی چونچ کو کھلا رکھتا ہے جس کی وجہ سے فضا میں اڑتے کیڑے مکوڑے خود بخود اس کے منہ کے اندر اس کی خوراک کا سبب بنتے رہتے ہیں۔ اس کی عمومی غذا کیڑے مکوڑے ہی ہوتے ہیں۔یہ پرندہ بھی نر اور مادہ دونوں شکلوں میں پایا جاتا ہے۔عمومی طور پر یہ دونوں (نراور مادہ )ایک ساتھ اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ شاذ ہی یہ اکیلے پرواز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ پرندہ زیادہ تر جھنڈ کی شکل میں پرواز کرتا ہے۔ عربی میں ابابیل کو '' خطاف‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عربی زبان میں ابابیل کے معنی جھنڈ یا گروہ کے ہی ہیں۔ یہ پرندہ سب سے زیادہ ہجرت کرنے والا پرندہ ہے۔ یہ لیبیا، شام اور ایران کے علاقوں سے پورپی ممالک، سوڈان سے جنوبی افریقہ اور عراق کے شہر موصل میں ہجرت کرتے ہیں۔ گئے زمانوں میں تو جس علاقے کے اوپر سے آواز نکالتا یہ پرندہ گزر جاتا اسے بارش کی پیش گوئی سے تعبیر کیا جاتا۔ اکثر واقفان حال اس بات کی تصدیق بھی کرتے ہیں کہ ایسا اکثر و بیشتر صحیح ہی ہوا کرتا تھا۔ ابابیل اور جدید تحقیق ابابیل کو سوئفٹ بھی کہتے ہیں ، جبکہ اس کی ایک نسل کو ''الپائن سوئفٹ‘‘ کہا جاتا ہے جبکہ عام ابابیل کو '' ایپس ایپس‘‘ کہا جاتا ہے۔ سوئفٹ اور الپائن نسل کے ابابیلوں کی اوسط عمر بیس سال بتائی جاتی ہے۔آج سے چند سال پہلے سویڈن یونیورسٹی نے اپنی ایک طویل تحقیق کے بعد بتایا تھا کہ ابابیل مسلسل حالت سفر میں رہتا ہے ماسوائے اپنے انڈے دینے کے عرصے کے۔ ابابیل گلائیڈنگ کرتے وقت اکثر اپنی نیند پوری کر لیتے ہیں یہ زمین سے اتنی بلندی پر چلے جاتے ہیں کہ سوتے وقت اچانک زمین سے ٹکرانے کا خطرہ انہیں نہیں رہتا۔ ابابیل پرواز کرتے وقت اپنی توانائی بچانے کے لئے گلائیڈنگ کرتا ہے یعنی کچھ دیر پر ہلانے کے بعد انہیں کھلا چھوڑ دیتا ہے اور یوں ہوا میں اڑتا چلا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف لندن کی ایک تحقیق کے مطابق ابابیل دس ماہ سے بھی زیادہ عرصہ بغیر زمین پر اترے ہوا میں مسلسل پرواز کر سکتا ہے۔ ایک اور جدید تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ابابیل بغیر رکے 14 ہزار کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کر سکتا ہے۔عمومی طور پر اس پرندہ کی عمر بیس برس تک ہوتی ہے۔ابابیل سے جڑی قدیم اور دلچسپ روایات یوں تو زمانۂ قدیم میں لاتعداد روایات سننے کو ملتی تھیں لیکن سب سے زیادہ روایات کا تعلق خطۂ عرب سے ملتا ہے۔روایات میں آیا ہے کہ ابابیل اپنے گھونسلوں میں سرخ اور سفید دو طرح کے پتھر رکھتے ہیں۔جنہیں ''حجرالصنوبر‘‘ کہتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اکثر سنیاسی ان ہر دو پتھروں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔ جبکہ بیشتر طبیب ان پتھروں کے لاتعداد طبی فوائد بھی بتاتے ہیں۔ روایات میں آیا ہے کہ قدیم دور میں اکثر بوڑھے سنیاسی کہا کرتے تھے کہ ابابیل کے گھونسلے کا سفید پتھر مرگی کے مریض کے گلے میں لٹکانے سے شفا ملتی ہے ، چشم بد کو دور کرتا ہے، اکثر بچے جو سوتے میں ڈر جاتے ہیں ان کے سرہانے سرخ پتھر رکھنے سے بچے سکوں کی نیند سوئے ہیں (واللہ اعلم )۔ایک اور روایت ہے کہ ہر ابابیل کے گھونسلے میں پتھر نہیں ہوتا بلکہ یہ پتھر حاصل کرنے کیلئے ابابیل کے بچے کو زرد رنگ میں رنگ کر کے گھونسلے میں چپکے سے رکھ دیا جاتا ہے۔مادہ ابابیل بچے کو بیمار سمجھ کر خدا جانے کہاں سے پتھر ڈھونڈ لاتی ہے تاکہ اس کے بچوں کا پیلیا (یرقان) جاتا رہے۔( واللہ اعلم)۔کچھ پرانے سنیاسیوں کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ پتھر دراصل ابابیلوں کے پوٹے میں پایا جاتا ہے ، ابابیل کو مار کر اس کے پوٹے کو کاٹا جائے تو یہ پتھر وہاں سے نکلتا ہے۔ ( واللہ اعلم)۔اب دور جدید میں لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ گئے زمانوں میں یرقان ، مرگی اور ایسی ہی دیگر متعدد بیماریوں کا علاج ابھی دریافت نہیں ہوا تھا اس لئے اکثر ضعیف العقیدہ لوگ ان ٹوٹکوں پر یقین کر لیا کرتے تھے جبکہ دور جدید میں ہر مرض کا علاج دریافت ہو چکا ہے اس لئے اب ایسی تمام روایات مضحکہ خیز لگتی ہیں۔