ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

ماڈلنگ میں‌عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی , بابرہ شریف

اسپیشل فیچر

تحریر :


خوب صورتی ہی معیار ہو ‘صلاحیتیں ہی پیمانہ ٹھہریں یا چانس ملنے تک بات ہوتو شوبز کی دنیا تسخیر کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں‘لیکن ان سب پر حاوی تقدیر بھی ہے جو ساتھ دے تودروازہ کھلتا چلا جاتا ہے ورنہ وہ ایک چہرہ جو چھوٹی اسکرین نے متعارف کروایا‘ بڑی اسکرین پر اتنی شان سے حکمرانی نہ کرتا ۔ بابرہ شریف نے شو بز میںاپنی آمد کے بارے میں بتایا کہ مجھے اداکاری کا شوق بالکل نہیں تھا اور جس وقت میں اسکرین پر آئی اس وقت میری عمر اتنی بھی نہیںتھی کہ میں جان سکتی کہ میرا شوق کیا ہے۔ واشنگ پائوڈر کے کمرشل سے میری پہچان ہوئی۔ ٹی وی ڈرامے میری فلم میں آنے کی وجہ نہیں بنے تھے میںنے ٹی وی پر کوئی خاص کام بھی نہیں کیا تھا اور نہ ہی فلم والوں نے مجھے کاسٹ کرتے ہوئے یہ دیکھاتھا کہ میں ٹی وی ڈرامے میں کام کرچکی ہوں۔نہ تو میرا کوئی یادگار ٹی وی ڈرامہ تھا اور نہ کوئی یادگار کردار جس کی پرفارمنس سب کو یاد رہے ۔ فلم والوںکومیرے کمرشل نے متاثر کیاتھا۔ ایک سوال پرکہ ایک ماڈل کی عمر دس سے پندرہ سال تک ہی ہوتی ہے لیکن آپ اب بھی ماڈلنگ میں ایک کامیاب ماڈل ہیں؟ بابرہ شریف نے کہا کہ فلموں میںکام کے دوران تو ماڈلنگ کی طرف کم توجہ رہی تھی۔ لیکن پھر 2003ء میں بہترین ماڈل کاایوارڈحاصل کرنے کے بعد ماڈلنگ کی طرف زیادہ توجہ دی اور اس کے بعد سے اب تک میں اس فیلڈ میں ہوںاورمیںنے ثابت کیا کہ ماڈلنگ میں عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ ایک سوال پر کہ جب آپ رومانٹک فلموں میں کام کررہی تھیں شمیم آرا نے آپ میں کیاخاص بات دیکھی کہ آپ کو ’’مس ہانگ کانگ ‘‘جیسی ایکشن فلم میںکاسٹ کرلیا؟ بابرہ نے بتایا کہ ’میرا نام ہے محبت‘شبانہ‘ پیار کاوعدہ اور مہمان میں کامیابی کے بعد ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’سلاخیں‘‘میںمجھے بھر پور پرفارمنس کا موقع ملا لیکن رومانٹک فلموں میں کام کرنے بعد شمیم آرا باجی کی فلم ’’ مس ہانگ کانگ‘‘ میں مجھے فائیٹ کے ساتھ اپنی ڈریسنگ میں بھی تبدیلی لانا پڑی جس کو دیکھنے والوں نے بے حد پسند کیا اور اس کے بعد شمیم آرا باجی کی مس سیریز میں کام کیا جس میں ’’مس کولمبو‘‘میں مجھے اپنی جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی۔ہمارے ایک سوال پر کہ کیاوجہ ہے شمیم آرا نے مس سیریز کے بعد جو کامیاب فلمیں بنائیں ان میں آپ کو شامل نہیں کیا ‘آج بھی لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں؟بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ فلم انڈسٹری میںایک اصول ہے کہ ہیرو یا ہیروئن ٹاپ پر ہوں تو ان کے ساتھ رشتے قائم کرلیے جاتے ہیںتاکہ کام باآسانی چلتا رہے۔ شمیم آرانے بھی مجھے بیٹی بنایاتو میں نے ان کے ساتھ بہت اچھا کام کیا میری ان کے ساتھ فلمیںکامیاب رہیں لیکن آخری فلم ’’لیڈی کمانڈو‘‘کے دوران ان کی شادی ہوگئی اور میں نے بھی فلموں میں کام کم کر دیا اس لیے میں ان کے ساتھ کام نہ کر سکی لیکن میں ان کا احترام کرتی رہی۔ آج کل وہ شدید بیمار ہیں میری دعا ہے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کرآئیں۔ آج کل ہمارے فن کار بھارتی فلموں میں کام کرنے وہاں جارہے ہیں اور آپ کودلیپ کمار نے اپنے ساتھ کام کرنے کی آفر کی تھی اس بارے میںبتائیں؟ بابرہ شریف نے کہاکہ جب یہاں فلمیںنہیں بن رہی ہیں تو یہ کہاں کام کریں‘لیکن چند منٹ کے کرداروں میںاپنے آپ کو ضائع کرنا کہاںکی دانش مندی ہے۔ہاں اگر یہاں فلمیں بن رہی ہوتیں تو پھر بھارتی فلموںمیں کام کرکے یہاں کی فلموں میں کام حاصل کرنا آسان ہوتا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ہمارے دور میں حکومت کی ویزا پالیسی سخت تھی ہم وہاں کی فلموں میںکام نہیں کرسکتے تھے اور وہاں کا کوئی اداکار بھی پاکستانی فلموں میں کام نہیں کرسکتاتھا ۔ایسی کئی فلمیں جن میں پاکستانی فن کاروںنے بھارتی فلموں میں کام کیا اور بھارتی اداکاروں نے پاکستانی فلموں میں کام کیا یہاں ریلیز نہ ہوسکیں۔جہاں تک میری بھارتی فلم میں کام کرنے کی بات تھی تو میرے ساتھ کام کرنے کی خواہش دلیپ کمار صاحب نے کی تھی۔انہوں نے میری فلم’’سلاخیں‘‘ دیکھی تھی۔ وہ اپنی فلم ’’راستہ‘‘ کے نام سے بنارہے تھے جس میں ان کا کردار ایک چالیس سالہ شخص کا تھا جو بیس سال کی لڑکی سے شادی کرلیتا ہے۔دونوں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں پھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور اس کی پیدائش کے دوران وہ لڑکی مر جاتی ہے۔ وہ شخص جوبہت پیار کرنے والا ہوتا ہے ۔ بیوی کے مرنے کاصدمہ برداشت نہیں کرپاتا اور اپنے ہی بیٹے کے خون کا پیاسا ہوجاتاہے۔حالاں کہ اس کردار کے لیے بھارت میں اور بھی کئی اداکارائیں موجود تھیں لیکن دلیپ کمار صاحب کا کہناتھا ان کا کردار جتنی شدت سے تبدیل ہوتا ہے اور جس چیز کے لیے میں نگیٹیوہوتا ہوں وہ چیز بھی جان دار ہونی چاہیے اور میرے(بابرہ شریف) کے چہرے پر وہی معصومیت‘ خوبصورتی اور سب سے بڑھ کر صلاحیتیں ہیں۔ لیکن افسوس ہوا کہ میں اس فلم میں کام نہ کرسکی۔ ہمارے سوال پر کہ شائقین اب بھی آپ کوفلموںمیں دیکھناچاہتے ہیں کیا آپ فلم میںکام کریںگی؟ بابرہ کا کہناتھا کہ میں خود بھی کام کرنا چاہتی ہوںاگر کوئی فلم ساز مجھے اچھا کردار دے گا تو میں ضرور کام کروںگی۔ویسے کچھ دنوں پہلے ایک معروف فلم ساز و ہدایت کارنے مجھے اپنی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی ہے ‘کردار بھی اچھاہے ‘ہوسکتا ہے میں اس کو قبول کرلوں اور میرے مداح مجھے ایک بار پھر سلور اسکرین پر دیکھ سکیں۔فلمی صنعت کے موجودہ بحران کو ختم کرنے کے بار ے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ یہ ہماری بد قسمتی رہی ہے کہ ہم اچھے ہدایت کارنہیں پیداکرسکے جوہدایت کار تھے انہوں نے اپنا فن دوسروںمیںمنتقل نہیں کیا۔انور کمال پاشا‘ایس سلیمان‘جاویدفاضل سے لے کر سید نور تک ہی ہمیں ہدایت کار نظر آتے ہیںجب کہ شباب کیرانوی (مرحوم) نے بھی صرف اپنے صاحبزادوں کو ہی فلموںمیںچانس دیا لیکن اب جو چند ہدایت کارفلمیںبنارہے ہیں جیسے شہزاد رفیق اور شعیب منصور میرے خیال میںان کا کام دوسرے ہدایت کاروںسے مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمیں کامیاب بھی ہیں۔ہدایت کاروں کے ساتھ ساتھ فن کاروںکی بھی کمی رہی ہے ۔ہماری انڈسٹری میںبیک وقت دو یا تین ہی فنکار رہے ہیں جن میں مقابلے کا رجحان نہ ہونے کے برابرتھا ۔بھارتی فلموں کے سوال پربابرہ شریف کا کہناتھا کہ ہم بھارتی فلموں کے سحر میں اس طرح سے گرفتار ہوگئے ہیں کہ وہی اچھائی برائی کا پیمانہ بن کر رہ گئی ۔بھارتی فلموں سے ہماری فلموں کا مقابلہ کرنا بڑی بے وقو فی ہے ۔ بھارت کی فلم انڈسٹری اس وقت دنیا بھر میںپہلے نمبر پر ہے اور اب یہ ہالی ووڈ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وہاں وسائل ہیں ‘ سرمایہ ہے اور بہت بڑا سرکٹ ہے اور اب انہوں نے اپنی فلمیں دنیا بھر میںریلیز کرنا شروع کردی ہیں چند سالوں سے بھارتی فلمیں ہمارے سینمائوں پر بھی ریلیز کی جارہی ہیں جس سے بھارتی پروفیشن ازم کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں تو بڑے بڑے فلم ساز فلمیںبناتے تھے اب بھارتی فلموں کو ریلیز کرکے منافع کمارہے ہیں اور یہ ان کا حق بھی بنتا ہے کہ جس فلم انڈسٹری میں نہ کہانی نویس منفرد کہانی دے سکیں نہ ہدایت کار معیاری ڈائریکشن دے سکیں اور نہ ہی فن کار تو پھر کس طرح فلم ساز اپناپیسہ انڈسٹری میں لگائے کہ جس کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اتنی محنت کرنے کے بعد اس کی فلم کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ اپنے آپ کو فٹ رکھنے کے لیے کیا کرتی ہیں؟ بابرہ شریف کاکہنا تھا کہ میں روزانہ گھر میںڈانس کرتی ہوںجس سے چاق چوبند رہتی ہوں۔ وزن کو کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ بھی کرتی ہوں لیکن ایکسر سائزکرنے میں اپنے آپ میںایک توانائی محسوس کرتی ہوں۔اپنے ملک کی سیاست کے بارے میں بابرہ شریف کا کہنا تھا کہ آج کل ملک کے موجودہ حالات نے ہر محب وطن شخص کی طرح مجھے بھی پریشان کررکھا ہے ۔ اس ملک کو حقیقی اور ایماندارقیادت کی ضرورت ہے جو عوام کو اس مشکلات سے نکالنے میںان کی مددکرسکیں۔ ہمارے سوا ل پر کہ آپ ایک عورت ہونے کے ناتے آپ کیا پریشانیاںمحسوس کرتی ہیں ؟ بابرہ شریف نے کہا کہ یہ مردوںکا معاشرہ ہے اور ان کو زیادہ اہمیت حاصل ہے جو بھی عورت اپنی پروفیشنل لائف میں آتی ہے تواسے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اگر یہ ثابت قدم ہے توساری مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں جو کہ میرے ساتھ ہوا۔ کیا آپ کو کبھی اپنے پروفیشن پر پچھتاوا یا شرمندگی ہوئی؟ بابرہ شریف نے کہا کہ نہیںمیں نے بہت سوچ سمجھ کر اداکاری کی فیلڈ میںقدم رکھاتھا اور میںنے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک گم نام لڑکی شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جائے گی اور شوبز میں اتنی عزت ملے گی۔بابرہ شریف کا شمار اپنے دور کی ایک ورسٹائل اداکارہ میںہوتا ہے۔ ان کا فنی سفربھی بڑا دل چسپ ہے۔بابرہ کی دو بہنیں فردوس اورفاخرہ ٹیلی ویژن ڈراموںاور اسٹیج پر وگراموں میںحصہ لے رہی تھیں مگر بابرہ کو اداکاری کا بالکل بھی شوق نہیںتھا۔اکثر ایسا بھی ہوتاتھا کہ یہ اپنی بہنوں کے ہمراہ ٹیلی ویژن اسٹیشن چلی جاتی تھیں ۔ایک دفعہ یہ اپنی بہن کے ساتھ تھیں کہ ڈرامہ پروڈیوسر کی نظر ان پر پڑی اور چہرے مہرے سے اداکاری کا اندازہ لگا کر ڈرامے میں حصہ لینے کے لیے کہا مگر بابرہ بجائے خوش ہونے کے یہ سن کر اداس ہوگئیں۔ ان کی بہن نے بتایا کہ وہ فلم اور ٹی وی کے نام سے بھاگتی ہے۔ اور بات وہیںختم ہوگئی۔لیکن چند دنوں بعدبابرہ شریف کو معروف ڈرامہ نگار کمال احمد رضوی نے ڈرامہ’’مس فوراوکلاک‘‘کے مختصر کردار میں کاسٹ کرلیا۔ڈرامہ سیریل ’’کرن کہانی‘‘ بابرہ شریف کا تعارف بن گیا۔اسی دوران ہدایت کار نذیر صوفی نے انہیں اپنی فلم ’’کاغذ کے پھول‘‘کے لیے منتخب کرلیا۔اس فلم میں ان کے ساتھ ایک نیا اداکارتنویر تھا۔اس فلم کانام بدل کر’’ایک اور ایک گیارہ‘‘ رکھ دیاگیا لیکن یہ فلم مکمل ہونے کے باوجود ریلیز نہ ہوسکی۔1972ء کی بات ہے جب ٹیلی ویژن پر ایک واشنگ پائوڈر کے کمرشل نے ان کوبے حد شہرت دی اور اس کو دیکھتے ہوئے فلمساز شمیم آر ااور ہدایت کار ایس سلیمان نے ان کو فلم ’’بھول‘‘ میں کاسٹ کرلیاجس میںندیم‘شبنم اور ممتاز نے مرکزی کردار ادا کیے اور بابرہ شریف کا پیئر مزاحیہ اداکار منور ظریف (مرحوم) کے ہمراہ تھا۔اس فلم کے بعد بابرہ کی کئی فلمیں ریلیز ہوئیں لیکن جب ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ’’میرا نام ہے محبت ‘‘میں یہ ٹی وی اداکار غلام محی الدین کی ہیروئن بنیں تو بہترین اداکاری پر انہیں ہیروئین کے طور پرمانا جانے لگا۔ انہوں نے150سے زائد فلموں میںہیروئن کے کردار ادا کیے۔اور ساتھ ساتھ ماڈلنگ بھی کرتی رہیں۔ بابرہ شریف کو آج بھی شائقین فلموںمیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن یہ فیشن شوٹس پرتوجہ دے رہی ہیں۔ ان سے ان کی فنی زندگی پر بات چیت ہوئی جو یہاں پیش کی جارہی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

مولانا ظفر علی خان بابائے صحافت، مصنف،شاعر،شعلہ بیاں مقرر اور اسلام کے سچے شیدائی

''بابائے صحافت‘‘ کا لقب پانے والے مولانا ظفر علی خان کی آج برسی ہے۔27 نومبر 1956ء کو اردو زبان و ادب کی اس نامور شخصیت کی زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔مولانا ظفر علی خان نے عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد کبھی شاعری اور صحافت کے میدان میں قدم جمائے اور کبھی سیاست کے میدان کے شہسوار بنے۔ کچھ عرصہ وہ نواب محسن الملک کے معتمد کے طور پر بمبئی میں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کچھ عرصہ مترجم کی حیثیت سے حیدرآباد دکن میں کام کیا اور محکمہ داخلہ کے معتمد کے عہدے پر بھی فائز رہے۔مولانا ظفر علی خان کے والد مولوی سراج الدین احمد 1903ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو انہوں نے اپنے آبائی گائوں کرم آباد سے اخبار ''زمیندار‘‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد زمینداروں اور کسانوں کی فلاح و بہبود تھا۔ والد کی وفات کے بعد جب ''زمیندار‘‘ مولانا کی زیر ادارت آیا تو اس نے انگریز کے خِرمَن اقتدار میں آگ لگا دی۔ مولانا نے 1908ء میں ''زمیندار‘‘ کی اشاعت لاہور سے شروع کی تو لاہور سے شائع ہونے والے بڑے بڑے اردو اخبارات کے چراغ ٹمٹمانے لگے اور ''زمیندار‘‘ کی شہرت کا ستارہ آسمانِ صحافت پر جگمگانے لگا۔مولانا کی صحافتی زندگی کافی دشوارگزار رہی، مالی وسائل کی کمی کے باعث اشاعت کا کام جاری رکھنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ صحافت کے انتہائی ناموافق حالات میں زمیندار نے مسلمانوں کی بیداری شعور میں اہم کردار کیا۔ مولانا ظفر علی خاں اپنے زمانے کے چوٹی کے مسلمان صحافیوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انگریز دور میں سیاست کے میدان میں مختلف تحاریک، مزاحمتی سرگرمیوں کے علاوہ قلم کے ذریعے آزادی کی جنگ لڑنے کا سلسلہ جاری تھا۔ مولانا ظفر علی خان بھی اپنے اداریوں اور مضامین کی وجہ سے کئی مشکلات جھیلنا پڑیں اور ان کے اخبار زمیندار کو بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ سلسلہ یہیں تک محدود نہیں تھا بلکہ مولانا نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔مولانا ظفر علی خان ایک بہترین خطیب، باکمال شاعر اور انشا پرداز بھی تھے۔ ان کے اداریوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ ان کی متعدد تصانیف منظر عام پر آئیں جن میں نثری اور شعری مجموعے شامل ہیں۔مولانا ظفر علی خان صحافت، خطابت اور شاعری کے علاوہ ترجمہ میں بھی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ حیدرآباد میں قیام کے دوران مولانا نے لارڈ کرزن کے انگریزی سفر نامہ ایران کا ترجمہ ''خیابان فارس‘‘ کے نام سے شائع کیا تو لارڈ کرزن نے سونے کے دستے والی چھڑی تحفہ میں پیش کی۔ اس کے علاوہ مولانا ظفر علی خان کے تراجم میں فسانہ لندن، سیر ظلمات اور معرکہ مذہب و سائنس بہت معروف ہوئے۔ انہوں نے ایک ڈرامہ ''جنگ روس و جاپان‘‘ بھی لکھا جبکہ شہرہ آفاق تخلیقات میں ''جسیات‘‘ اور ''بہارستان‘‘ نظموں کے مجموعے ہیں۔ ان کی شاعرانہ کاوشیں بہارستان، نگارستان اور چمنستان کی شکل میں چھپ چکی ہیں۔مولانا ظفر علی خان کا اسلوب منفرد تھا، ان کی تحریریں نثری ہوں یا شعری دونوں ہی ملی امنگوں کی ترجمان ہیں۔ ان کی نظمیں مذہبی اور سیاسی نکتہ نظر سے بہترین کاوشیں کہلاتی ہیں۔ مولانا کی شاعری کی مختلف جہات ہیں۔ وہ فی البدیہہ شعر کہنے میں بھی ملکہ رکھتے تھے۔اُن کی شاعری میں حمد، نعت گوئی، حالاتِ حاضرہ کے مطابق شعر کہنا، وطن کی محبت میں شعر، اور انقلابی اشعار شامل ہیں۔ اُن کی شاعری کے چند نمونے ملاحظہ کیجئے۔ اللہ پاک کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:بنائے اپنی حکمت سے زمین و آسماں تو نےدکھائے اپنی قدرت کے ہمیں کیا کیا نشاں تو نےتری صنعت کے سانچے میں ڈھلا ہے پیکرِ ہستیسمویا اپنے ہاتھوں سے مزاحِ جسم و جاں تو نےایک اور مقام پر عرض گزار ہیں:اب ہم سمجھے کہ شاہنشاہ مُلکِ لامکاں ہے توبنایا اک بشر کو سرورِ کون و مکاں تو نےمحمد مصطفیٰؐ کی رحمۃ اللعالمینی سے!بڑھائی یا رب اپنے لطف اور احساں کی شاں تو نےوہ اپنی نعت گوئی کیلئے بھی مشہور ہیں۔ ان کی اس نعت سے کون واقف نہیں ہے۔وہ شمع اُجالا جس نے کیا چالیس برس تک غاروں میںاِک روز جھلکنے والی تھی سب دنیا کے درباروں میں1956ء میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں کریم آباد(وزیر آباد )میں دفن کیا گیا،صحافت اورنعت گوئی میں ان کا نام ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔فرض اور قرضجو مسلم ہے تو جاں ناموس ملت پر فدا کر دےخدا کا فرض اور اس کے نبی کا قرض ادا کر دےبھری محفل میں لا سکتا نہ ہو گر کفر تاب اس کیتو زنداں ہی میں جا کر روشن ایماں کا دیا کر دےشہادت کی تمنا ہو تو انگریزی حکومت پرکسی مجلس کے اندر نکتہ چینی برملا کر دےتمہارا قافلہ کچھ لٹ چکا اور کچھ ہے لٹنے کورسول اللہ کو اس کی خبر باد صبا کر دےضرورت ہے اب اس ایجاد کی دانائے مغرب کوجو اہل ہند کے دامن کو چولی سے جدا کر دےنکل آنے کو ہے سورج کہ مشرق میں اجالا ہوبرس جانے کو ہے بادل کہ گلشن کو ہرا کر دےقفس کی تیلیوں پر آشیاں کا کاٹ کر چکرفلک سے گر پڑے بجلی کہ بلبل کو رہا کر دےیہ ہے پہچان خاصان خدا کی ہر زمانے میںکہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دےظفر کے قلم میں مصطفی کمال کی تلوار کا بانکپن ہے: اقبالؒان کی خدمات کے اعتراف کے لیے علامہ اقبال جیسی شخصیت کی یہ رائے ہی کافی ہے کہ''ظفر علی خاں کے قلم میں مصطفیٰ کمال کی تلوار کا بانکپن ہے۔ انہوں نے مسلمانانِ پنجاب کو نیند سے جھنجوڑنے میں بڑے بڑے معرکے سر کئے ہیں۔ پنجاب کے مسلمانوں میں سیاسی بیداری اور جوش ایمانی پیدا کرنے کا جو کام مولانا ظفر علی خاں نے انجام دیا وہ تو مثالی ہے ہی لیکن اس سے ہٹ کر دیکھا جائے تو برصغیر کی تمام قومی و ملکی تحریکیں ان کے عزم عمل کی مرہون منت نظر آئیں گی اور سیاسی و صحافتی شعر و ادب تو گویا انہی کی ذات سے عبارت ہو کر رہ گیا ہے‘‘ 

نظم و ضبط پیدا کریں!

نظم و ضبط پیدا کریں!

ہم سب جانتے ہیں کہ نظم و ضبط کا کیا مطلب ہے، آپ ایک شیڈول بناتے ہیں اور اس پر قائم رہتے ہیں۔ آپ اپنے مقاصد اور کاموں کا تعین کرتے ہیں اور انہیں اسی کے مطابق مکمل کرتے ہیں۔نظریہ کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ حقیقت بہت مختلف ہے۔ہم عموماً جوش و خروش کے عالم میں بڑے بڑے منصوبے بناتے ہیں، لیکن جب وقت آتا ہے کہ انہیں روزانہ کی بنیاد پر پورا کریں، تو کچھ وقت کے بعد ہم انہیں ترک کر دیتے ہیں۔نظم وضبط کیلئے جو چیز سب سے اہم ہے اسے فیصلہ سازی کہا جاتا ہے۔ ماہر نفسیات رائے ایف باؤمائسٹر کے مطابق جتنے زیادہ فیصلے آپ کرتے ہیں، ان کے معیار اتنا ہی کمزور ہوتا جاتا ہے۔اگر آپ ہر وقت کسی فیصلے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، ہر ایک انتخاب کے فوائد اور نقصانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، جیسے کہ ناشتہ میں کیا کھائیں، بس لیں یا ٹیکسی، سیڑھیاں چڑھیں یا لفٹ کا استعمال کریں تو دن کے اختتام تک آپ ذہنی طور پر تھک جائیں گے۔ آپ کا دماغ ایسی حالت اختیار کر لے گا ''مجھے پرواہ نہیں یار، بس کچھ بھی چن لو‘‘۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ اثر ہر کسی پر پڑتا ہے، آپ کا دماغ ''آرام‘‘ پر چلا جاتا ہے اور آپ بغیر سوچے سمجھے فیصلے لینا شروع کر دیتے ہیں۔صبح اور شام کے معمولات بنانامیں وہ شخص ہوں جو منصوبوں پر کام کرنا، نئی چیزیں سیکھنا، اور نتیجہ خیز رہنا پسند کرتا ہے۔لیکن چاہے جتنی بھی کوشش کر لوں، میں کبھی شیڈول پر قائم نہیں رہ سکا۔ میں اکثر جمود کا شکار ہو جاتا اور اپنے کام میں کسی بھی قسم کی استحکام قائم کرنے میں مشکل محسوس کرتا۔میں جِم جانا شروع کرتا، پھر چھوڑ دیتا اور بالآخر چند مہینوں بعد مکمل طور پر ترک کر دیتا۔ میں کسی منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ایک شیڈول بناتا، لیکن چند ہفتوں بعد اس سے ہٹ جاتا اور اپنے مقرر کردہ تمام اہداف کو برباد کر دیتا۔وہ انقلابی خیال جس نے مجھے بالآخر درست راستے پر آنے میں مدد دی، یہ تھا کہ نظم و ضبط کا مطلب خود کو سخت محنت کرنے پر مجبور کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے ماحول کو اس طرح ترتیب دینا ہے کہ سخت محنت کرنا ''معمول‘‘ بن جائے۔جیسا کہ جیمز کلیر نے اپنی کتاب ''ایٹومک ہیبٹس‘‘ میں وضاحت کی: ''آپ اپنے اہداف کی سطح تک نہیں پہنچتے، بلکہ آپ اپنے نظام کی سطح تک گر جاتے ہیں‘‘۔جب تک میں نے سخت صبح اور شام کے معمولات مرتب نہیں کیے، میں اپنی زندگی کو منظم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کچھ وقت کے بعد مجھے احساس ہوا کہ استحکام کو برقرار رکھنے کیلئے، پہلے سے اپنی زندگی میں مستحکم عناصر رکھنا ضروری ہے۔میری صبح کی روٹین میں شامل تھا اخبار پڑھنا، مراقبہ کرنا، نئی زبان سیکھنا، سائنس کے بارے میں کچھ سیکھنا، کتاب پڑھنا اور کسی نہ کسی قسم کی جسمانی ورزش کرنا۔ یہ سب کچھ دن کے آغاز میں کرنا تھا، اور اس روٹین کو مکمل کرنے میں کم از کم 2 گھنٹے لگتے تھے۔یہ سب کرنے اور دن کے اصل کام مکمل کرنے کیلئے مجھے بہت جلدی اٹھنا، دیر سے سونا اور بہت کم یا بالکل بھی وقفہ نہ لینا پڑتا۔ یہ تھکا دینے والی روٹین تھی۔ چنانچہ ایک یا دو ہفتوں بعد میں ہار مان لیتا۔آخرکار، میں نے چیزوں کو آسان بنانے کا فیصلہ کیا۔آپ کی روٹین میں وہ کام شامل ہونے چاہئیں جو نہ صرف ''دلچسپ‘‘ لگیں بلکہ صبح اور شام کے لحاظ سے ایک مقصد بھی پورا کریں۔ صبح کے معمولات آپ کو جگانے اور دن کیلئے درست ذہنی حالت میں لانے کیلئے ہونے چاہئیں، جبکہ شام کے معمولات آپ کے شیڈول پر غور کرنے اور ذہن کو سکون دینے کیلئے ہوں۔ہر روٹین میں زیادہ سے زیادہ 5 کام ہونے چاہئیں۔ آپ کے اوپر ہے کہ آپ اپنی روٹین میں بڑے یا چھوٹے کون سے کام شامل کرنا چاہتے ہیں، لیکن جتنے کم عناصر ہوں گے، آپ اتنی ہی تیزی سے انہیں مکمل کر سکیں گے۔کاموں کا انتخابجیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، آپ کی روٹین میں شامل کام ذاتی نوعیت کے ہونے چاہئیں ۔میں دو چیزوں کو اجاگر کرنا چاہوں گا جو مجھے لگتا ہے کہ ہر کسی کو اپنی روٹین کا حصہ بنانے چاہئیں (دونوں کو آپ اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال سکتے ہیں)(1)ایک ہی وقت پر اٹھنا:چاہے آپ گھر سے کام کرتے ہوں یا دفتر جاتے ہوں، یہ امکان ہے کہ آپ ہر دن ایک ہی وقت پر نہیں اٹھتے۔ اس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ آپ ہر روز ایک ہی وقت میں اٹھنے کی عادت اپنائیں۔(2) شیڈول بنانا اور اس پر قائم رہنا: وقت کا شیڈول ترتیب دینا اور اس پر ایک مدت تک قائم رہنا وہ سب سے مؤثر طریقہ ہے جو میں نے نظم و ضبط کیلئے دریافت کیا ہے۔ مکمل روٹین بنانامکمل روٹین بنانے کے بارے میں بات کرتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ چیزوں کو جتنا ممکن ہو سکے سادہ رکھا جائے۔ایسی سرگرمیاں شامل کریں جو فائدہ مند ہوں، لیکن جنہیں مکمل کرنے میں زیادہ وقت نہ لگے۔ آپ کی روٹین 30 منٹ سے زیادہ کی نہیں ہونی چاہیے۔ جتنا زیادہ وقت لگے گا، اتنا ہی زیادہ آپ ان سرگرمیوں سے بچنے یا کچھ کام چھوڑنے کے بہانے تلاش کریں گے۔

آج کا دن

آج کا دن

دوسری جنگ عظیم: جرمنی کا تولون پر قبضہ27نومبر 1942ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن فوج نے فرانسیسی بیڑے کے حامل شہر تولون پر قبضہ کر لیا۔ تولون کی فوجی بندرگاہ فرانس کے بحیرہ روم کے ساحل پر ایک بڑا بحری مرکز تھاجو فرانسیسی طیارہ بردار بحری جہاز چارلس ڈی گال اور اس کے جنگی گروپ کا گھر سمجھا جاتا تھا۔فرانسیسی فوجیوں نے جرمن فوج کے ہاتھوں میں آنے سے قبل ہی اس بیڑے کو غرقاب کر دیا۔ نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا27نومبر2009ء کوروسی شہر ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے درمیان سفر کرنے والی تیز رفتار ٹرین میں دھماکہ ہوا۔ اس واقعہ کو ''نیوسکی ایکسپریس بم دھماکا‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ بم کو ٹرین کے نیچے لگایا گیا تھا جس کی وجہ سے ٹرین لائن سے نیچے اتر گئی۔ اس حادثے میں 39افراد ہلاک اور95زخمی ہوئے۔ اگلے ہی دن تفتیش کی جگہ پر ایک اور دھماکا ہوا جس سے ایک شخص زخمی ہوا۔لکسمبرگ کی بغاوتلکسمبر گ کی بغاوت کا آغاز 27 نومبر 1856ء کو لکسمبر گ کے آئین پر نظر ثانی سے شروع ہوا۔ اگرچہ حقیقی بغاوت یا انقلاب نہیں تھا لیکن لوگوں نے اسے ''شاہی بغاوت‘‘کا نام دیا کیونکہ لکسمبرگ کے حکمران نے اپنے اختیارات کو ضرورت سے زیادہ بڑھا لیا تھا۔ 1848ء کے آئین میں تبدیلیوں کا مقصد ولیم کی طرف سے نافذ کی گئی بڑی تبدیلیوں کو ختم کرنا تھا جس کی وجہ سے لکسمبرگ میں بحران پیدا ہوا۔جیلاوا قتل عامجیلاوا قتل عام26نومبر1940ء کی رات بخارسٹ رومانیہ کے قریب جیلاوا قید خانے میں کیا گیا۔آئرن گارڈز نے 64 سیاسی قیدیوں کو ہلاک کر دیاجس کے فوراً بعد مزید ہائی پروفائل قتل کئے گئے۔ یہ واقعہ فاشسٹ نیشنل لیجنری اسٹیٹ اورکنڈکٹر آئن انتونیسکو کے درمیان جھڑپ کی وجہ بنا۔ اس جھڑپ کے بعد آئن کی جانب سے لیجن کو اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔جارج ماسکون پر قاتلانہ حملہ27نومبر1978ء کو سان فرانسسکو کے میئر جارج ماسکون اور سپر وائزر ہاروی کو سان فرانسسکو سٹی ہال میں سابق سپروائزر ڈین وائٹ نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کردیا جب انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وائٹ نے جس نگران عہدے سے استعفیٰ دیا ہے وہ کسی اورکو دے دیا جائے گا۔ڈین وائٹ اعلان سے قبل غصے کی حالت میں سٹی ہال میں داخل ہوااور میئر کے دفتر میں موجود ماسکون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ 

نو بخت اور فضل بن نوبخت

نو بخت اور فضل بن نوبخت

ابوجعفر منصور خلیفہ عباسی کو عمارات سے دلچسپی تھی۔ اس نے بغداد کو ایک نئے پلان کے مطابق نئے سرے سے تعمیر کرانا چاہا۔ انجینئروں کی ایک جماعت اس سلسلے میں مقرر کی گئی۔ نو بخت اور فضل بن نو بخت یا باپ اور بیٹے اس کام کے لئے نگراں تھے۔ یہ دونوں باکمال سول انجینئر تھے اور ان میں نظم و ضبط کی بھی صلاحیت اور قابلیت تھی۔ شاہی دربار کی خاص عمارت کاگنبد زمیںسے دو سو چالیس فٹ بلند تھا اور اوپر ایک سوار کا مجسمہ تھا۔ فضل بن نو بخت نے اس فن کی تعمیر اپنے والدسے حاصل کی تھی اور اپنی صلاحیتوں سے بہت سے کام کئے۔ اسی دور میں کتب خانہ بھی قائم ہوا۔ فضل بن نوبخت نے کتابیں جمع کر کے ان کی فہرست تیار کی ۔ دنیا کا یہ پہلا باقاعدہ شاہی کتب خانہ تھا جو حکومت وقت نے تعمیر کرایا اور اخراجات برداشت کئے۔ ہارون رشید کے عہد میں بغداد علم وفن کا مرکز بن گیا۔ابتدائی زندگی تعلیم و تربیت نو بخت بغداد معمار ہے۔ اسی ہوشیار انجینئر نے عمارت کا پلان بنایا اور تعمیرات میں نمایاں حصہ لیا۔ عراق میں بنو عباس کی حکومت مستحکم ہوچکی تھی۔ اس اہم اور بڑے کام کے لئے تجربہ کار ہوشیار انجینئروں کی ضرورت تھی۔ نو بخت نے اس کام کو نہایت عمدگی سے انجام دیا۔نو بخت نہایت ذہن، بلا صلاحیت اور محنتی نوجوان تھا۔ ابتدائی تعلیم و تربیت معمولی مدارس میں حاصل کر کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ علم ہئیت اور دیگر علوم میں مہارت پیدا کی۔ نو بخت کو انجینئرنگ سے دلچسپی تھی۔ اس نے عمارتوں کے پلان بنانے اور تعمیر کے فن میں کمال پیدا کیا۔ خلیفہ جعفر منصور کو متعدد انجینئروں کی ضرورت تھی۔ ان میں نوبخت بھی منتخب کیا گیا۔کام اور کارنامےنوبخت بہت ہوشیار سول انجینئر اور پیمائش کرنے ولا( Surveyer) تھا۔ مکمل شہری آبادی پلاننگ میں اسے بڑی مہارت حاصل تھی۔ غورو فکر کے بعد بادشاہ کی خواہش کے مطابق شہر بغداد کی منصوبہ بندی کی اور پورانقشہ تیار کیا۔ کہتے ہیں کہ شاہی دربار کی گنبد نما عمارت زمیں سے کوئی دو سو چالیس فٹ بلند تھی۔ وسیع و عریض اس عمارت کے اونچے اور شاندار گنبدپر ایک شہسوار کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ مجسمہ دھات کاتھا،شاہی محلات ، باغات اور دیگر عماراتیں ایک گل دستے کی باہم مناسبت سے بنی ہوئی تھیں۔نوبخت اور اس کے معاون انجینئروں نے بغداد کی پلاننگ میں اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا تھا اور اس میں شک نہیںکہ اس وقت کی دنیا میں یہ انوکھا تخیل تھااوری یہی بغداد آئندہ الف لیلہ کی کی کہانیوں کا مرکز بنا۔فضل بن نو بخت فضل قابل باپ کا ہونہار بیٹھا تھا۔ تعلیم اپنے قابل باپ سے حاصل کی اورمطالعہ میں مصروف ہوگیا۔ وہ جلد ہی علم ہئیت میں یکتائے روز گار بن گیا اور شہر کی تعمیر میں اپنے والد کے ساتھ کام کرنے لگا۔ وہ علم ہئیت میں بھی اپنے والد کی مدد کرتا اور مشاہد افلاک میںساتھ رہتا۔علمی خدمات اور کارنامے فضل علم ہلیت کا ماہر تھا، اس نے کئی علم اور فنی کتابوں کے ترجمے بھی کئے۔ اسے کتابوں سے خاص انس تھا۔ اکثر کتابوں کو تلاش کر کے لاتا اور ان کو اپنے کتب خانے میں بڑے ڈھنگ سے ترتیب کے ساتھ رکھتا تھا۔ بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہارون رشید کا عہد تھا، اسے کتابوں سے خاص دلچسپی تھی، شاہی کتب خانے کی ابتدا ہو چکی تھی، بادشاہ نے فضل کو شاہی کتب خانے کا مہتمم اورنگران مقرر کیا۔ فضل نے شاہی کتب خانے میں کتابوں کو ترتیب سے رکھا، رجسٹر بنایا اور کتابوں کی فہرست بنائی یہ اس دور کا عظیم کتب خانہ بن گیا اور یہ دنیا کا پہلا کتب خانہ تھا۔ 

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

’’ریڈ مونسٹر‘‘ : نئی کہکشائوں کی دریافت

یہ تینوں کہکشائیں کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات بارے نئی بصیرت فراہم کریں گےیہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمینی سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیںاندھیری راتوں میں آپ نے آسمان پر چمکتے ہوئے ستاروں کا مشاہدہ تو کیا ہو گا۔ کچھ بہت روشن ہوتے ہیں، کچھ مدھم اور کچھ کسی کسی وقت ٹمٹا کر نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ اخترشماری کرنا شاعروں کا ہی نہیں بلکہ فلکیات کے ماہرین کا بھی محبوب مشغلہ ہے۔ آسمان پر کتنے ستارے ہیں؟ اربوں یا کھربوں؟ کوئی بھی نہیں جانتا۔ اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔جیسے جیسے سائنس ترقی کر رہی ہے، جیسے جیسے خلا میں دیکھنے والی دوربینوں کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، نئے نئے ستارے نظروں میں آ رہے ہیں۔ آسمان کی وسعت اور گہرائی کا تو خیر ذکر ہی کیا، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف ہماری کہکشاں میں اتنے ستارے ہیں کہ ہماری گنتی ختم ہو جاتی ہے، لیکن وہ ختم نہیں ہوتے۔ کائنات میں اس جیسی بلکہ اس سے کہیں بڑی ان گنت کہکشائیں ہیں۔حال ہی میں سائنسدانوں نے ''ریڈ مونسٹر‘‘ نامی کہکشائیں دریافت کی ہیں جو تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں ۔سائنسدانوں کے ایک گروپ نے تین کہکشاؤں کو دریافت کیا ہے جنہیں ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ کہکشائیں اپنے ستارے بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کہکشاؤں کو ''ریڈ مونسٹر‘‘ کا نام ان کی آگ کے شعلے جیسی سرخ شکل کی وجہ سے دیا گیاہے، جو ان میں موجود دھول کی بے پناہ مقدار کا نتیجہ ہے۔یہ کہکشائیں 12.8 ارب سال سے زیادہ پرانی ہیں اور زمین کے سورج سے 100 ارب گنا زیادہ حجم رکھتی ہیں۔ماہرین ِ فلکیات نے ناسا کی ''جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ‘‘ کی مدد سے ان کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا۔ وہ ان کہکشائوںکے حجم کو دیکھ کر حیران رہ گئے جو تقریباً ملکی وے کے برابر ہیں۔کہکشاؤں کی ستارے بنانے کی صلاحیت نے سائنسدانوں کو زیادہ حیران کیا جو دیگر کہکشائوں سے زیادہ تیز ہے اور تقریباً 80 فیصد گیس کو ستاروں میں تبدیل کرتی ہیں اور کائناتی تاریخ میں اوسط کہکشاؤں سے کہیں زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔کہکشاؤں کی ترقی میں کئی عوامل گیس کو ستاروں میں تبدیل کرنے کی رفتار کو محدود کر دیتے ہیں، لیکن '' ریڈ مونسٹرز‘‘ ان رکاوٹوں کو حیرت انگیز طور پر عبور کرتی نظر آتی ہیں۔ یونیورسٹی آف باتھ کے پروفیسر اور شائع شدہ تحقیق کے شریک مصنف اسٹین وائیٹس نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ دریافت جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ کے فریسکو ''FRESCO‘‘ سروے پروگرام کے تحت سامنے آئی، جو مشاہدات کے لیے دوربین کے منفرد آلات کا استعمال کرتا ہے۔محققین نے ان کہکشاؤں کو دریافت کرنے کیلئے دوربین کے ساتھ انفراریڈ کیمرے کا استعمال کیا۔ انہوں نے ''ریڈ مونسٹرز‘‘ کے فاصلے اور خصوصیات کو ان کے روشنی کے طولِ موج کے ذریعے مطالعہ کیا۔ دوربین سے اِن کہکشاؤں کے اُن حصوں کا مشاہدہ بھی با آسانی ہوا جو دھول سے چھپے ہوئے تھے۔''ریڈ مونسٹر‘‘ کہکشائیں تقریباً ملکی وے جتنی بڑی ہیں اور ستارے بنانے کی رفتار ان کہکشاؤں سے کہیں زیادہ ہے جو اب تک دریافت کی جا چکی ہیں۔ان کہکشاؤں کی غیر معمولی خصوصیات کے باوجود یہ دریافت کائنات کے قبول شدہ ماڈل کو چیلنج نہیں کرتی، لیکن موجودہ کہکشاں نظریات پر سوالات ضرور اٹھاتی ہے۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور یونیورسٹی آف جنیوا کے پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ڈاکٹر منگیوان ژاؤ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ یہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ ابتدائی کائنات میں کہکشائیں غیر متوقع طور پر مؤثر طریقے سے ستارے بنا سکتی تھیں۔ جیسے جیسے ہم ان کہکشاؤں کا مزید گہرائی سے مطالعہ کریں گے، یہ کائنات کے ابتدائی دور کو تشکیل دینے والے حالات کے بارے میں نئی بصیرت فراہم کریں گی۔  

آج کا دن

آج کا دن

مشن انسائٹ26 نومبر 2018 ء کو ''مشن انسائٹ‘‘ نامی روبوٹ نے مریخ کی سطح پر لینڈ کیا۔ اس روبوٹ کو مریخ کے گہرے اندرونی حصے کا معائنہ کرنے کیلئے تیار کیا گیا تھا۔ یہ روبوٹ لاک ہیڈ مارٹن سپیس سسٹم کی جانب سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس کا نظام ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے حوالے کیا گیا تھا۔ مشن کا آغاز 5مئی 2018ء کو ہوا تھا جبکہ 26 نومبر 2018ء کو اس نے کامیابی کے ساتھ مریخ کی سطح پر لینڈنگ کی۔ ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘26 نومبر 1942ء کو سٹالن گراڈ میں جرمن فوج کے خلاف کئی روزہ دفاعی جنگ کے بعد روسی فوج نے جوابی حملوں کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں ''سٹالن گراڈ جنگ‘‘ کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں روسیوں نے بے پناہ جانی قربانیاں دے کر نازی ازم کو شکست سے دوچار کیا۔اس لڑائی میں لاکھوں افراد مارے گئے تھے۔ یہ لڑائی 23اگست1942ء کو شروع اور 2فروری 1943ء کو ختم ہوئی۔ حقیقت یہ ہے کہ سٹالن گراڈ کی لڑائی میں روس نے جو کردار ادا کیا وہ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ روڑو: سکول میں قتل عام26نومبر2004ء کو چین کے روڑو شہر میں واقع سکول میں ایک شخص نے سکول کے بچوں پر حملہ کر دیا۔ ژان ژان منگ سکول ہوسٹلز کے ایک بلاک میں داخل ہوا اور وہاں اس نے چھری سے وار کرتے ہوئے 12لڑکوں کو شدید زخمی کر دیا۔ زخمی ہونے والوں میں سے 9 لڑکے بعدازاں ہلاک ہو گئے۔ حملے کے بعد فرار ہو جانے والے ملزم کو وقت گرفتار کیا گیا جب وہ خودکشی کرنے والا تھا۔ اسے18جنوری2005ء کو پھانسی دے دی گئی۔برنکز میٹ ڈکیتی26 نومبر 1983ء کو ہیتھرو انٹرنیشنل ٹریڈنگ اسٹیٹ لندن میں ڈکیتی ہوئی جسے برنکزمیٹ ڈکیتی کہا جاتا ہے۔ اس واردات میں ملزم 26ملین یوروز کے زیورات لے گئے جو موجودہ دور میں تقریباً 93ملین یوروز کے مساوی ہیں۔ یہ کمپنی ڈکیتی کے اگلے ہی سال بند ہو گئی۔ انشورنس کمپنی نے نقصان کی ادائیگیاں کیں لیکن ڈکیتی شدہ سونے کا زیادہ حصہ کبھی بازیاب نہیں کیا جا سکا۔پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن حادثہپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کی پرواز 740 جو عازمین حج کو لے کر کراچی آ رہی تھی 26 نومبر 1979ء کو جدہ ائیر پورٹ سے اڑان بھرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میںسوار تمام 156 افراد ہلاک ہو گئے۔ تحقیقات میں حادثے کی وجہ کیبن میں لگے والی آگ کو قرار دیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرواز کے فوراً بعد جہاز کے کیبن میں آگ لگ گئی تھی،جس کی وجہ معلوم نہ ہو سکی ۔