جھوٹوں کا بادشاہ

جھوٹوں کا بادشاہ

اسپیشل فیچر

تحریر :


کہتے ہیں، ایک جھوٹا مکار شخص پارساؤں کا سا حلیہ بنا کر بادشاہ کے دربار میں گیا اور کہا، میں سیدنا علی کرم اللہ وجہ کی نسل سے ہوں اور حج کے سفر سے واپس آ رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے بادشاہ کی شان میں ایک بہت ہی اچھا قصیدہ پڑھا۔بادشاہ قصیدہ سن کر اور اسے عالی نسب اور حاجی یقین کر کے بہت خوش ہوا، اور خلعت کے علاوہ اسے بہت سا روپیہ بخشا۔ لیکن کرنا خدا کا کیا ہوا کہ اس مکار کے رخصت ہونے سے پہلے ایک درباری جو سمندری سفر سے واپس آیا تھا۔ دربار میں داخل ہوا اور اس شخص کو پہچان کر کہا۔ یہ ہرگز حاجی نہیں ہے۔ اس کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ اسے تو حج کے دن میں نے بصرے کے بازار میں دیکھا تھا۔جب اس کے بارے میں شک پڑا تو معلوم ہوا کہ عالی نسب ہونا تو بڑی بات ہے، یہ تو سرے سے مسلمان ہی نہیں ہے روم کے شہر ملاطبہ کا رہنے والا عیسائی ہے اور اس نے جو قصیدہ پڑھا ہے۔ وہ مشہور شاعر انوری کا لکھا ہوا ہے۔یہ حالات جان کر بادشاہ بہت غضب ناک ہوا۔ اس نے حکم دیا کہ اس سے انعامات چھین لیے جائیں اور ذلیل کر کے شہر سے نکال دیا جائے چور کی چوری اور جھوٹے کا جھوٹ ظاہر ہو جائے تو وہ ڈر جاتا ہے۔ لیکن اس مکار شخص نے اپنے حواس درست رکھے۔ جلد سے بولا۔ حضور والا! مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ میں نے جھوٹ پر جھوٹ بولا۔ لیکن اب حضور کی خدمت میں ایک ایسا سچ بیان کرنا چاہتا ہوں جس بڑھ کر کوئی بات سچ نہ ہوگی۔بادشاہ نے اس کی یہ بات سن کر کہا، اچھا کہہ، کیا کہتا ہے؟ وہ بولا حضور والا! وہ سچی بات یہ ہے کہ جھوٹ سے خالی کوئی بھی نہیں، بلکہ جو جتنا زیادہ تجربہ کار ہوتا ہے۔ اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے۔مرے جھوٹ پر کس لیے ہے ملالملاوٹ سے خالی نہیں کوئی مالدہی بھی اگر کوئی لائے حضورتو دو حصے پانی ملے گا ضروراگر سچ کہوں جھوٹ کی ہے یہ باتبڑے اس میں دیتے ہیں چھوٹوں کو ماتبادشاہ یہ بات سن کر ہنس پڑا اور کہا، بے شک یہ بات ٹھیک ہے تو نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ سچی بات کبھی نہ کہی ہوگی۔ یہ کہہ کر حکم دیا کہ اس کے انعامات لوٹا دیے جائیں اور اسے عزت کے ساتھ رخصت کر دیا جائے۔وضاحت: اس حکایت سعدیؒ نے جھوٹ کو انسان کی ایک ایسی ضرورت نہیں بتایا کہ اس کے بغیر گزارہ ہی نہ ہوسکے۔ بلکہ بگڑے ہوئے معاشرے کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے کہ جب لوگ اخلاقی زوال میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑا جھوٹ بولتے ہوئے بھی خوف نہیں کھاتے بلکہ۔ جو شخص جتنا زیادہ عقل مند اور با اختیار ہوتا ہے۔ اتنا ہی بڑا جھوٹ بولتا ہے۔ غور کریں تو حکایت میں یہ کنایہ بھی موجود ہے کہ خود بادشاہ کی ذات کذب بیانی سے پاک نہ تھی۔ اس لیے وہ بڑوں کے بڑا جھوٹ بولنے کی بات سن کر ہنسا اور اسے نصرانی کا جھوٹ قابل معافی نظر آیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
تاریخ فرانس بہت سی جنگوں،لڑائیوں اور انقلاب کو دیکھا

تاریخ فرانس بہت سی جنگوں،لڑائیوں اور انقلاب کو دیکھا

فرانس پر بادشاہت کا آغاز پانچویں صدی میں فرانکوں کی آمد سے ہوتا ہے جبکہ بادشاہت کا اختتام 1780ء میں ہوا۔ اس دوران فرانس نے بہت سی جنگوں، لڑائیوں اور انقلابوں کو دیکھا۔ متعدد بادشاہ، جن کا تعلق مختلف خاندانوں سے تھا، اس پر حکمران رہے۔ اپنی آزادی کی خاطر انگریزوں سے فرانسیسیوں کی مخاصمت بھی بہت طویل رہی۔ بالآخر وہ فرانس قائم ہوا، جسے ہم آج جانتے ہیں۔ آئیے فرانس کی تاریخ پر ایک مختصر نظر ڈالتے ہیں۔ فرانس کا قدیم نام ''گال‘‘ (Gaul) تھا۔ یہ نام رومیوں نے یورپ کے اس حصے کو دے رکھا تھا جہاں کے لوگ کلٹی (Celtic) زبانیں بولتے تھے۔ اس میں فرانس کے علاوہ اور بھی متعدد متصلہ علاقے شامل تھے۔ سلطنت رومہ کے ایک حصے کی حیثیت سے فرانس کا شمار یورپ کے سب سے زیادہ متمدن علاقوں میں ہوتا تھا۔ وہاں پر رومی اثر بہت قوی اورپائیدار رہا۔ بعدازاں فرانکوں نے حملہ کر کے اس کو فتح کر لیا۔ گیارہویں صدی کے اوائل میں اس کے اپنے بادشاہ تھے لیکن ان کا اقتدار محدود تھا کیونکہ ملک کا بڑا حصہ طاقتور ڈیوکس اور کاؤنٹس، خاص طور پر نارمنڈی اور برگنڈی اور اکوی ٹین کے زیراثر تھا۔ قرون وسطیٰ کے اختتام کے قریب فرانس کی تاریخ زیادہ تر انگلستان کے ساتھ جنگوں کی تاریخ ہے جو تخت و تاج کے قبضہ کے لیے لڑی گئیں۔ انگلستان اور فرانس کے درمیان یہ کشمکش ''جنگ صد سالہ‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ جنگ چودھویں صدی میں اس وقت شروع ہوئی جب ایڈورڈ سوم نے فرانس کے تخت و تاج کا دعویٰ کیا۔ انگریزوں نے کریسی اور پواٹیئر کی لڑائیوں میں فتح حاصل کی۔ 1360ء میں بریِٹگنی کی صلح ہوئی۔ اس کے ذریعہ شاہ ایڈورڈ سوم نے فرانس کا بہت سا علاقہ حاصل کیا لیکن تخت و تاج نہیں۔ 1389ء میں جنگ پھر سے شروع ہو گئی اور 1396ء تک جاری رہی۔ 1403ء میں جنگ و جدل کا ایک اور دور شروع ہوا۔ ہنری پنجم نے فرانس کے تخت پر اپنا حق جتاتے ہوئے اس کو ایک سنگین معاملہ بنا دیا۔ آجن کورٹ کی لڑائی میں اس کی جیت ہوئی۔ نارمنڈی اس نے فتح کر لیا اور 1420ء میںایک عہدنامے کے ذریعے بادشاہ کا ولی اور فرانس کا ہونے والا بادشاہ تسلیم کر لیا گیا۔ اس کے باوجود قوم کی ایک جماعت انگریزوں کی حکمرانی پر معترض ہوئی اور جنگ 1429ء تک جاری رہی۔ اس موقع پر جون آف آرک کے دور سے لڑائی کے رخ نے پلٹا کھایا اور انگریزوں کو مسلسل ناکامی ہوتی رہی۔ 1453ء میں اس کشمکش کا خاتمہ ہو گیا، ایک کے سوا فرانس کا سارا علاقہ انگریزوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ جون آف آرک: اسے فرانس میں آزادی کی ہیروئن کا درجہ حاصل ہے۔ یہ عالی ہمت عورت مذہبی اور جذباتی واقع ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسے آوازیں سنائی دیتی ہیں اور فرانس کو، جو اس وقت انگریزوں کے قبضے میں تھا، نجات دلانے کیلئے کہہ رہی ہیں۔ 1429ء میں اس کا معزول بادشاہ چارلس ہفتم سے تعارف ہوا۔ چارلس نے اس کو سپاہیوں کے ایک لشکر کی قیادت سونپی تاکہ آرلیئنز کو، جس کا انگریزوں نے محاصرہ کر رکھا تھا، کمک پہنچائی جائے۔ اس کے راسخ اعتقاد نے اس کے ہم وطنوں میں نئی ہمت پیدا کر دی، جس کے باعث محاصرہ اٹھ گیا اور فتوحات حاصل ہوئیں ۔1430ء میں ایک لڑائی کے دوران جون زخمی ہو گئی اور برگنڈیوں نے اس کو گرفتار کر لیا۔ 1431ء میں مذہبی عقائد کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر اسے زندہ جلا دیاگیا۔ انگلستان کے ساتھ جنگوں کا دور پندرہویں صدی میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد والوا اور آگے چل کر بوربن بادشاہوں کے تحت فرانس کی شاہی حکومت یورپ میں سب سے زیادہ مرکزیت کی حامل ہو گئی اور جب بریٹینی اس میں شامل کر لیا گیا تو فرانس کا رقبہ وہی ہو گیا جو آج کل ہےخاندان والوا:والوا فرانس کا ایک شاہی خاندان تھاجس کے اراکین نے فرانس کی تاریخ میں اہم کارمنصبی ادا کیے۔ 1328ء سے لے کر 1589ء تک یہ لوگ فرانس کے بادشاہ رہے۔ بوربُن خاندان:والوا خاندان کے بعد بوربن شاہی خاندان فرانس میں اقتدار میں آیا کیونکہ والوا خاندان کا کوئی مرد وارث باقی نہ بچا تھا۔ اس خاندان کے افراد فرانس اور سپین کے بادشاہ ہوئے ہیں۔ یہ نام فرانس کے علاقے بوربن لارکمبیل سے لیا گیا ہے کیونکہ ارکان خاندان دسویں صدی میں اس جگہ کے امیر بنے۔ یہ جاگیر ان لوگوں کو لوئی نہم کے ایک بیٹے کی شادی میں ملی تھی اور اس کا بیٹا ڈیوک آف بوربن بنا دیا گیا تھا۔ بعدازاںایک ڈیوک انتونی کا لڑکا ہنری 1589ء میں فرانس کا بادشاہ بنا۔ وہ اور اس کے جانشینوں نے 1789ء تک اور پھر 1814ء تا 1848ء حکمرانی کی۔ اس خاندان کے لوگ سپین کے بھی بادشاہ رہے۔ رش لیو (Richelieu): فرانس کی تاریخ کا ایک اہم کردار ہے۔ فرانسیسی کاردنال (مذہبی عہدہ) تھا اور لوئی XIII کا وزیر تھا جس کے دور حکومت میں رش لیو چھایا ہوا تھا۔ وہ 1585ء میں پیرس میں پیدا ہوا۔ 1607ء میں لوکان کا بشپ، 1622ء میں کاردنال اور 1624ء میں وزیراعلیٰ بنایا گیا۔ اس کی پالیسی کے تین بڑے اہم مقاصد تھے۔ فرانسیسی پروٹسٹنٹ (Huguenots) کی سیاسی قوت کو ختم کرنا، شاہی اقتدار کا بول بالا کرنا اور ہاپس برگ کے تسلط کے اندیشے سے فرانس کو محفوظ رکھنا۔ ان تینوں مقاصد میں اس کو کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کو بادشاہ کی ہر وقت تائید حاصل رہی اور 1642ء اس کا انتقال ہوا۔ لوئی چہار دہم : یہ فرانس کے بوربن بادشاہوں میں سب سے مشہور بادشاہ گزرا ہے۔ وہ 1638ء کو پیدا ہوا۔ اس نے 72 سال تک حکومت کی۔ وہ اپنے زمانے کے یورپ کی سب سے ممتاز ہستی تھا۔ نہ صرف سیاسیات بلکہ فنون لطیفہ اور ادب میں بھی اس نے اپنے غیرمعمولی اثر کو استعمال کیا۔ اس کو اپنی اہمیت کا بڑا احساس تھا۔ لوئی چہار دہم شان و شوکت کا دلدادہ تھا اور'' شاہ عالی شان‘‘ (Louis the Great) کہلاتا تھا۔ اس نے محل ورسائی اور دوسری شاندار عمارتیں تعمیر کروائیں۔ ورسائی کا محل پیرس کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور اپنی بھاری جسامت اور وسیع پھیلاؤ کی وجہ سے ممتاز ہے۔ لوئی چہار دہم نے 1715ء میں وفات پائی۔ اس کا بیٹا اور پوتا دونوں اس کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے۔ جانشین اس کا پڑپوتا لوئی پانز دہم ہوا۔ فرانس کی بادشاہت لوئی چہار دہم کے تحت اپنی عظمت کی انتہا کو پہنچ گئی تھی۔ یورپ کی سماجی زندگی کی قیادت کا سہرا فرانس کے سر تھا اور بحیثیت مجموعی دیگر معاملات میں بھی وہ غالب آ گیا تھا۔ اس دوران فرانس بہت بڑی فوجی طاقت بن گیا۔اس تصور کا ایک تاریک رخ بھی تھا، یعنی فضول خرچی، رشوت ستانی اور اس سے بھی زیادہ بدتر، غریبوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ناانصافی۔ان خرابیوں کیلئے اسے بھاری قیمت ادا کرنی پڑی جو انقلاب کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ اس خونی انقلاب نے شاہی کو ختم کر کے پہلی جمہوریہ قائم کی۔ اس جمہوریہ کی راکھ سے نپولین کی سلطنت نے جنم لیا۔ مطلق العنانی کا یہ دور بھی 1815ء میں ختم ہو گیا۔ اس کے بعد بادشاہت کو بحال کر دیا گیا اور لوئی ہزدہم تخت پر بیٹھا۔ لوئی فلپ 1830ء میں فرانس کا بادشاہ بنا۔ 1848ء میں اس کی حکومت کا خاتمہ کر کے دوسری جمہوریہ قائم کی گئی۔ یہ جمہوریہ بھی دیرپا ثابت نہیں ہوئی۔ اس کے خاتمے کے بعد شہنشاہ نپولین سوم تخت نشین ہوا اور مطلق العنانی کا یہ دوسرا دور 1870ء تک جاری رہا۔  

طنزومزاح: چائے: اشرف المشروبات

طنزومزاح: چائے: اشرف المشروبات

مشروب سے مراد پی جانے والی رقیق چیزہے جوشُرب ـبمعنی پینا سے مشتق ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ کچھ پئے بغیر زندگی ممکن نہیں۔اہم ترین مشروب پانی ہے جسے ہر جاندار،ہر وقت اور ہر جگہ استعمال کرتا ہے۔چین جیسے ترقی یافتہ ملک کا قومی مشروب سادہ پانی ہے، جسے سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں بڑے فخر سے پیش کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں غریب سے غریب شخص یا ادارہ مہمانوں کی سادہ پانی سے تواضع کو خلاف آداب سمجھتا ہے۔سافٹ ڈرنکس یا چائے دو ہی توچیزیں ہیں جو ہمارا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ڈرنکس سے بوجوہ کبھی کبھار سرد مہری ممکن ہے مگر چائے کی شان میں گستاخی یا انکار گناہِ صغیرہ کی حدود تک جاتا ہے۔فی زمانہ کوئی چیز چائے کی مثل اور ثانی نہیں۔چائے کو تمام ڈرنکس پہ ڈھیروں فضیلتیں حاصل ہیں۔یہ سیاسی،مذہبی اور سماجی تقریبات کی شان اور جزوِ لاینفک ہے۔سرکاری اداروں میں تو جیسے SOPs کاحصہ ہے کہ احباب اپنے فرائض کی انجام دہی کریں یا نہ کریں، چائے نوشی کے ناغے کا تصور بھی ممکن نہیں۔کسی مہمان یا آفیسر کی آمد کی صورت میں چائے کا آ نابھی ناگزیر ہو جاتا ہے۔نہیںتو مہمان کی عزت افزائی اور آفیسر کے پروٹوکول پہ حرف بلکہ حروف آنے کے اندیشے جنم لے سکتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چائے کی بابت یاروں کا عقیدہ غالب کے آموں کی مثل ہے کہ چائے ہو، میٹھی ہو اور ڈھیر ساری ہو۔ چائے کے ادوار میں تو ایسے ذیا بیطسی دوست بھی روبہ صحت نظر آتے ہیں جو اوقاتِ کار میں شوگر اور امراضِ جگر ومعدہ کا شکار ہوتے ہیں۔جبکہ حکماء انہیں باور کرا چکے ہوتے ہیں کہ چائے کی پتی سے بندے کا جگر تک کٹ سکتا ہے۔ بعض دوست تو چائے کے ایسے رسیا ہوتے ہیں جیسے چائے کا چمچہ منہ میں لئے پیدا ہوئے ہوں۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ سو سال قبل چائے ہماری خوراک کا حصہ ہرگز نہ تھی اور صرف اطِبّاء کے ہاں بطور درد کُش( پین کلر) دوا دستیاب ہوتی تھی۔ شاید اسی لئے انگریزی میں چائے پینے کے عمل میں '' ڈرنک ٹی‘‘ کی بجائے '' ٹیک ٹی‘‘ استعمال ہوتا ہے۔ اگر یہ پرانے دور میں اسی شان و شوکت سے پائی جاتی تو شعرو ادب کی دنیا میں ہمیں چائے کے قصیدے بھی پڑھنے کوملتے۔ ساغرو مینا کے ہمراہ کیتلی و کپ کے اذکار چلتے اور اکثر بسیار نوش شعراء شوگر اور پیلیا کے باعث مرتے ۔ جہاں مئے خانوں کا ذکرِخیر ہوتا تو ساتھ ہی ٹی ہائوسز کے گن بھی گائے جاتے ۔ آج ٹی ہائوسز ، مئے خانوں کی جگہ لے چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مئے نوشی، مدہوشی کا موجب بنتی تھی جبکہ چائے سستی اور خمار کو بھگا کرکم خوابی کا باعث ہے۔ اب معلوم ہواکہ ساغر صدیقی اپنی تخلیقات چائے کی پیالی کے عوض کیوں قربان کر دیتے تھے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ شعراء مفتیا ن اور زاہدانِ تنگ نظر کے عتاب کا شکار ہونے سے بھی محفوظ رہتے کیونکہ چائے انہیں خود مرغوب ہوتی۔ آج زندگی چائے کے بغیر ادھوری اور بے کیف ہے۔اب یہ بات طے ہے کہ چائے اظہارِ محبت اور چاہت کا مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ ناراضگیاں اور گلے شکوے ایک کپ چائے سے دور ہو سکتے ہیںاور دوست چائے کے ساتھ ساتھ غصہ بھی پی سکتے ہیں۔اگر آپ چائے کے پینے پلانے کے گر سے واقف ہیں تو بلا شبہ کامیاب انسان ہیںکیونکہ یہ حل المشکلات اور قاضی ا لحاجات بھی ثابت ہو تی ہے۔ پی جانے والی چائے سے ہٹ کر چائے پانی کی اصطلاح تو سونے پہ سہاگہ کی تاثیر رکھتی ہے جس سے کام نہ نکلنے کی شرح کم ہو جاتی ہے۔ رشتوں کے دیکھنے دکھانے کے عمل میں بھی چائے کا ہی کلیدی کردار کار فرما ہوتا ہے۔کسی کی ممی کسی کو چائے پہ بلاتی ہے تو کبھی کسی کے ممی پاپا چائے پہ بلائے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں رومانوی سرگرمیاں بھی چائے کی مرہونِ منت ہیں۔ رت جَگوں کیلئے تو ڈھیروں مفید ہے۔ پڑھاکو سٹوڈنٹس رات کو نیند کے غلبوں سے بچنے کیلئے چائے کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کچھ کی رائے میں چائے مل بیٹھنے کا بہانہ ہے۔بعض اسے اعصاب کا چابک کہتے ہیں۔اگر چائے نوشوں کو چائے کے مضر اثرات اور گرم مزاجی کا بتایا جائے تو فرماتے ہیں کہ چائے کے ہمراہ دیگر لوازمات یعنی بسکٹ وغیرہ کے تکلفات سے چائے معتدل ہو جاتی ہے۔ان کا ماننا ہے کہ دنیا کی عظیم نعمتوں میں چائے سرِفہرست ہے۔کچھ کی تمنا ہے کہ جنت میں بھی میسر ہو۔ہم نے بڑوں سے سنا ہے کہ جنت میں جس چیز کی خواہش کی جائے گی اس کا ذائقہ نصیب ہو گا ۔ اب تسلیم کرنا ہی ہو گا کہ انسان اگر اشرف ا لمخلوقات ہے تو اس کیلئے یہاں مشروبات میں چائے ''اشرف ا لمشروبات‘‘ ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

43طلبا کا اغوا26 ستمبر 2014ء کو میکسیکو میں مقامی کالج کے 43 طلبا کو اغوا کیا گیا۔ بڑے پیمانے پر اغوا کی وجہ سے بین الاقوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ریاست گیر مظاہروں کے پیش نظر گوریرو کے گورنر اینجل ایگوئیر ریورو نے استعفیٰ دے دیا۔ طلباء نے 1968ء میں ہونے والے قتل عام کی برسی کی یاد میں میکسیکو سٹی جانے کیلئے ہر سال کی طرح بسوں کا انتظام کیا تھا۔جنہیں سڑک پر رکاوٹیں ڈال کرروکا گیا اوراسلحہ کے زور پر طلباء کو اغوا کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔فضائی حادثہایئر کیریبین فلائٹ 309 پورٹو ریکن ایئر لائن ایئر کیریبین کی ایک پرائیویٹ غیر طے شدہ ایئر لائن پرواز تھی، جو 26 ستمبر 1978ء کو اس وقت گر کر تباہ ہو گئی جب وہ لوئس میوز مارین انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر اترنے کی تیاری کر رہی تھی۔ طیارے میں سوار تمام افراد ہلاک ہوگئے جبکہ زمین پر موجود متعدد لوگ جہاز کے ملبے کی زد میں آنے سے شدیدزخمی ہوگئے۔جاپان :بحری جہاز حادثہ1954 ء میں آج کے روز جاپانی ریل فیری ''تویا مارو‘‘طوفان کی زد میں آکر آبنائے تسوگارومیں ڈوب گئی۔یہ ایک بحری ٹرین فیری تھی جسے جسے جاپانی نیشنل ریلوے نے تیار کیا تھا۔مقامی انتظامیہ کے مطابق اس حادثے میں 1153 افراد ہلاک ہوئے۔ تاہم، ہلاکتوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہوسکی کیونکہ کچھ لوگ جہاز سے کودنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور متعدد لوگوں نے اپنے ٹکٹ منسوخ کردیے تھےامبریا اور مارچے کا زلزلہ26ستمبر1997ء کی صبح اٹلی کے امبریا اور مارچے کے علاقوں میں شدید زلزلہ آیا۔اس سے پہلے ایک جھٹکابھی محسوس کیا گیا جو زلزلے جتنا ہی شدید تھا۔جھٹکے کی شدت 5.7 جبکہ زلزلے کی شدت6.0ریکارڈ کی گئی۔ مئی 1997 ء سے اپریل 1998ء کے دوران سیکڑ وں جھٹکے اور آفٹر شاکس آئے جن کی شدت 3.5 سے زیادہ تھی۔یہ زلزلوں کا ایک ایسا سلسلہ تھا جو کافی عرصہ تک چلتا رہااور اس کے نتیجے میں کئی عمارتیں تباہ اور سیکڑ وں افراد متاثر ہوئے۔سوویت یونین کا ایٹمی الارمسٹینسیلو سوویت یونین فضائی افواج کے ایک لیفٹیننٹ کرنل تھے جنہوں نے 1983ء کے سوویت یونین کے جھوٹے ایٹمی الارم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔کورین ائیر لائنز کی پرواز 007 کو مارگرانے کے تین دن بعد 26ستمبر 1983ء کو سٹینسیلو پیٹرو کی ڈیوٹی نیوکلیئر وارننگ سسٹم کے کمانڈ سینٹر میں تھی۔یہ وہاں ڈیوٹی افسر کے فرائض سر انجام دے رہا تھا جب اس نے اعلیٰ حکام کو یہ اطلاع دی کہ امریکہ کی جانب سے ایٹمی میزائل داغے گئے ہیں۔ کچھ دیر بعد پیٹرو نے رپورٹس کو غلط قرار دے دیا اور بتایا کہ یہ ایک جھوٹا الارم تھا۔پیٹرو کے بروقت فیصلے کی وجہ سے دو ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ ہونے سے رک گئی۔ 

لسان الدین ابن الخطیب

لسان الدین ابن الخطیب

عالی دماغ لسان الدین ابن الخطیب وہ عظیم مسلم سائنسدان تھے جس نے امراض کے بارے میں تحقیق کا ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے پتہ چلایا کہ امراض دو قسم کے ہوتے ہیں، متعدی اور غیر متعدی۔ متعدی یعنی پھیلنے والے، ایک دوسرے کو لگ جانے والے، جیسے ہیضہ، طاعون، چیچک وغیرہ۔ابن الخطیب نے دریافت کیا کہ یہ امراض متاثر ہوا کے ذریعے پھیلتے ہیں۔ پھیلنے کا سبب امراض کے جراثیم ہیں، یہ جراثیم مختلف ذریعوں سے دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں۔ انہوں نے علاج کا طریقہ بھی بتایا۔ ابن الخطیب کے اس نظریے نے امراض کے متعلق نئی نئی تحقیقات کا راستہ کھول دیا۔ ابن الخطیب ایک ادیب، مورخ اور سیاست دان بھی تھے۔وہ 1313ء میں غرناطہ(اندلس) میں پیدا ہوئے اور 1374ء میں وفات پائی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتلسان الدین ابن الخطیب اندلس کا مایہ ناز طبیب اور محقق گزرا ہے، اس کے آبائو اجدادشام کے رہنے والے تھے اور اندلس میں آکر آباد ہو گئے تھے۔ ابن الخطیب اسی عرب خاندان میں پیدا ہوا۔عالی دماغ ابن الخطیب کے عظیم کارنامے آج تک زندہ ہیں، اور ان کارناموں نے امراض اور علاج کے بارے میں ایک نئی راہ دکھائی۔ابن الخطیب کے بچپن کے حالات پردہ خفاء میں ہیں لیکن اس کی قابلیت ، صلاحیت اور اس کے حقیقی کام اور دریافتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت کا اچھا انتظام کیا ہوگا۔اندلس کی کھلی اور آزاد فضا میں وہ جوان ہوا تو اپنے چاروں طرف اس نے علمی مشاغل اور درس و تدریس کے حلقے دیکھے۔ اس کے حوصلے بڑھے اور اپنی عمدہ صلاحیتوں کو کام میں لانے کا اسے اچھا موقع ملا۔ علمی مشاغل کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی اس نے حصہ لیا۔ابن الخطیب وزارت کے عہدے پرابن الخطیب ماہر طبیب کی حیثیت سے مشہور ہو چکا تھا، بادشاہ وقت نے اس کی قدر و منزلت بڑھائی اور رفتہ رفتہ اپنی انتظامی صلاحیتوں کے سبب ترقی کرکے وزارت کے عظیم عہدے پر پہنچ گیا۔اندلس میں اس وقت بنی نصر(غرناطہ) کے ساتویں سلطان محمد ابن یوسف کی حکومت تھی، غرناطہ دارالسلطنت تھا۔ سلطان بڑا مردم شناس اور علم دوست تھا، اس نے ابن الخطیب کی بڑی عزت کی۔ سلطان نے ابن الخطیب کی انتظامی صلاحیتوں اور علمی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے اسے ''ذوالریاستین‘‘ کا معزز ترین خطاب عطا کیا۔ اس زمانے میں درباروں میں اور آج کل پارلیمنٹ اور حکومتوں میں جوڑ توڑ اور سازشیں ہمیشہ ہوتی رہی ہیں۔1371ء میں ایک درباری سازش سے جان بچا کر ابن الخطیب غرناطہ سے بھاگ کر روپوش ہو گیا۔تین برس بعدخانہ جنگی میں عالی دماغ ابن الخطیب جان سے مارا گیا۔ابن الخطیب کی موت سے ملک اندلس ایک ناقابل ترین شخصیت سے محروم گیا۔ اہل ملک نے اس کی موت سے علمی نقصان کا شدید احساس کیا۔ پورے عرب اسپین کا آخری مشہور و معروف طبیب مصنف شاعر، مورخ، سیاستدان اور عظیم محقق اٹھ گیا۔علمی خدمات اور کارنامےقدرت نے اسے علمی تحقیق و تجسس کا ایک صحیح شعور و احساس اور ذہن دماغ کی بہت سی مخفی قوتیں اور صلاحیتیں بخشی تھیں۔وہ ایک شاعر، مورخ، جغرافیہ داں اور فلسفی بھی تھا لیکن وہ ایک طبیب اور محقق کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہوا۔ اس نے مختلف عنوانات کے تحت بہت سی کتابیں لکھیں۔ مورخین اس کی کتابوں کی کل تعداد 60 ہے۔ ان میں سے صرف ایک تہائی کتابیں محفوظ ہیں۔ابن الخطیب کی جو کتابیں زمانے کے ہاتھوں بچ سکیں ان میں سے ایک نہایت اہم کتاب طبی تحقیقات پر ہے۔ اور دوسری غرناطہ کی مفصل تاریخ ہے۔ انہوں نے طب کا پیشہ اپنی طبی صلاحیتوں اور خدمت خلق کی بناء پر اختیار کیا تھا۔ دوسرے بہت سے طبیبوں کی طرح قلمدان وزارت بھی ان کے پاس رہ چکا تھا۔امراض کی تحقیق اور دریافت ابن الخطیب نے امراض کی تحقیق میں ایک نیا راستہ اختیار کیا۔ انہوں نے غور کرنا شروع کیا کہ بعض امراض پھیل جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو لگ جاتے ہیں اور بعض امراض نہیں پھیلتے۔ پھیلنے والے امراض وبائی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور گھر کے گھر صاف ہو جاتے ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسے متعدی امراض ہیں وہ کسی وجہ سے ایک دوسرے کولگ جاتے ہیں اس لئے امراض کو اس نے دوا قسام میں تقسیم کیا،متعدی امراض اور غیر متعدی امراض۔اس قدیم دور میں عام نظریہ یہ تھا کہ امراض جسم میں کسی سبب یا اسباب کی بنا پر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اسباب داخلی بھی ہو سکتے ہیں اور خارجی بھی۔ امراض متعدی کی دریافت کے بعد ابن الخطیب اس جستجو میں مصروف ہو گئے کہ متعدی امراض پھیلتے کیوں ہیں، وہ اسباب کیا ہیں۔ وہ جسم میں پیدا ہو جاتے ہیں یا باہر سے آکر لگ جاتے ہیں۔ بڑی جدوجہدکے بعد ابن الخطیب نے پتہ چلایا کہ یہ امراض باہر سے آکر لگ جاتے ہیں اور اس کے پھیلنے کے اسباب وہ نہایت باریک کیڑے ہیں جو نظر نہیں آتے۔ ان کیڑوں کا نام اس نے جراثیم رکھا۔جراثیم کی دریافت اس عظیم طبیب کا عظیم کارنامہ ہے، جس نے آئندہ چل کر طبی دنیا میں زبردست انقلاب پیدا کردیا۔ ابن الخطیب کی اس دریافت کو یورپ کے دانشوروں نے تسلیم کیا۔اس دریافت کا سبب کالی بلایورپ میں اکثر مرض طاعون سے پھیلا کرتے تھے۔ یہ موذی مرض وباء کی طرح پھیلتا اور گھر کے گھر صاف کر دیتا تھا۔ طبیب اعظم لسان الدین الخطیب اس طرف متوجہ ہوا اور طبی نقطہ نظر سے اس کی تحقیق شروع کی۔انہوں نے اپنا یہ تحقیقی کام اس وقت مکمل کیا جب یورپ میں طاعون کی وباء نے وبائی صورت اختیار کرلی، ہزاروں جانیں ضائع ہو گئیں، ہر طرف قیامت کا منظر تھا۔یہ چودھویں صدی کا زمانہ تھااور عیسائیت کا غلبہ تھا۔اہل یورپ اس ''کالی بلا‘‘ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ گھر کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے، مریض کوتنہا چھوڑ دیتے تھے۔ مریض ہر قسم کی ہمدردیوںاور طبی امداد سے محروم ہو جاتا اور تڑپ تڑپ کر ختم ہو جاتا تھا۔ابن الخطیب کا کارنامہابن الخطیب اپنے طبی کاموں میں مصروف تھا۔ وہ مرض طاعون کی ہلاکت آفرینیوں سے بہت متاثر ہوا۔ اسلامی نقطہ نظر سے اللہ نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے اور ہر صورت میں علاج معالجے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس وباء کے بیشمار جانی نقصانات اور ان کے غلط عقیدے کے اثرات سے ابن الخطیب نے تہیہ کر لیا کہ بحیثیت مسلم اور طبیب اس کا فرض ہے کہ اس مرض کے اسباب کا کھوج لگائے اور علاج معلوم کرے۔جراثیم کی دریافتابن الخطیب پہیم تحقیق و جستجو، تجربے اور مشاہدے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ جو امراض متعدی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کو الگ بھی سکتے ہیں۔ امراض کا یہ پھیلنا جراثیم کے ذریعے ہوتا ہے یہ جراثیم نہایت باریک کیڑے ہوتے ہیں جو نظر نہیںآتے اور سانس کے راستے سے جسم انسانی میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ابن الخطیب اپنی اس دریافت سے مطمئن ہوااوراس نے علاج بھی دریافت کیا۔ابن الخطیب نے اپنی اس اہم تحقیق کو کتابی صورت میں مرتب کیا، اس نے اپنی کتاب میں اس مرض طاعون کے بارے میں پوری بحث کی ہے۔ابن الخطیب اپنی اس تحقیق کو اس طرح بیان کرتا ہے: ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم ''تعدیہ‘‘ امراض کا پھیلنا کے امکان کو نہیں مان سکتے کیونکہ یہ احکام الٰہی کے خلاف ہے، ان لوگوں کو ہمارا یہ جواب ہے کہ تعدیہ کا وجود تجربات، فہم و ادراک کی شہادت اور قابل اعتماد بیانات سے ثابت ہے اور یہ تمام حقائق ، زبردست دلیلیں ہیں‘‘۔تعدیہ کی صداقت پر تحقیق کرنے والے پر یہ بات پوری طرح ثابت ہو سکتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ ایک ایسا شخص جو کسی متعدی مرض میں مبتلا مریض کے ساتھ اٹھتا بیٹھتاہے تو وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے لیکن ایک ایسا شخص جو متعدی مرض میں مبتلا شخص سے دور رہتا ہے، وہ اس مرض سے محفوظ رہتا ہے۔تحقیق کرنے والا یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ متعدی مرض کے جراثیم مریض کے کپڑوں،کھانے پینے کے برتنوں کے ذریعے سے بھی دوسروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔امراض کی اس نئی تحقیق اور جراثیم کی دریافت نے فن طب میں ایک انقلاب عظیم برپا کیا۔ اور اب تو امراض اور جراثیم کے بارے میں نئی نئی تحقیقاتیں شروع ہو گئی ہیں۔ فن طب پر ابن الخطیب کا یہ بہت بڑا احسان ہے۔ جراثیم کی دریافت نے علاج معالجے میں بہت سی سہولتیں پیدا کردی ہیں۔

25ستمبر : اخبار بینی کا عالمی دن

25ستمبر : اخبار بینی کا عالمی دن

ایک وقت تھا جب اخبارکا انتظار کیا جاتا تھا۔ اسے خبروں اور معلومات کا مستند ذریعہ سمجھا جاتا تھا ۔اخبار میں سب کی دلچسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے مواد شامل کیا جاتا ہے ۔سیاست سے مذہب تک اور دنیا بھر کی معلومات کے ساتھ ساتھ بچوں، بڑوں کی دلچسپی، خواتین کے پکوان، کھیل، تعلیم، صحت، نوکری کی تلاش ہو یا رشتوں کی اخبار میں سب ملتا تھا۔ ناشتے کی میز پر یہ اخبار ہوتااورصبح سویرے اس کے آنے کا انتظار بہت شدت سے کیا جاتا تھا۔ دیہات میں چوکوں پر بیٹھے لوگ، ہوٹل، حمام سے سکول، کالج، ہسپتال تک میں اخبار پڑھا جاتا اور خاص اہمیت کا حامل سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اخبار عوام و خواص میں بے پناہ مقبول تھا ۔پھر وقت نے کروٹ لی، دیگر چیزوں کی طرح پڑھنے کے طور طریقے بھی بدل گئے۔ ابلاغِ عامہ کا سب سے مستند و مقبول ذریعہ اخبار آج اپنے چاہنے والوںکو ترس رہا ہے۔ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کی آمد نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے ۔ اس جدید دور میں زندگی بہت تیز رفتار ہوگئی ہے اور لوگوں نے اپنے آپ کو اس قدر مصروف کرلیا ہے کہ ان کے پاس پڑھنے کا وقت ہی نہیں۔بیشتر لوگ ای پیپر پڑھنے کوترجیح دیتے ہیں۔گیلپ پاکستان کے مطابق 2004ء میں روزنامہ اخبارات کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا کے 160ممالک میں7 ویں نمبر پر تھا۔ 2009ء تا2018ء کی دہائی کے دوران تمام طرح کے طباعت شدہ اخبارات و رسائل کی تعداد میں آدھی کمی واقع ہوئی۔اخبارپڑھنے کے رجحان میں اضافہ کیلئے خواندگی کی شرح میں بہتری مرکزی حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے اکنامک سروے آف پاکستان 2018ء کے مطابق 2016ء تک ملک میں شرح خواندگی 58 فیصد تھی۔وفاقی ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے تجزیہ سے ایک دلچسپ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ ملک کے آدھے سے زائد یعنی52.3 فیصد اخبارات و رسائل کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ملک کے سب سے زیادہ روزنامے بھی بلوچستان سے نکلتے ہیں جن کی تعداد 176 ہے لیکن ملک میں خواندگی کی سب سے کم شرح بھی بلوچستان کی ہے جو 41 فیصد ہے۔ نسل نو اخبار کی اہمیت سے زیادہ آگا ہ نہیں۔ وہ اپنا زیادہ تروقت سوشل میڈیا پر گزارتی ہے، جبکہ سوشل میڈیا پر خبر کی وہ اہمیت نہیں ہوتی جو اخبار میں ہوتی ہے۔اخبار کی اہمیت سے انکار ممکن نہیںلیکن نوجوان نسل کو اخبارات متاثر و متوجہ نہیں کر پا رہے۔ اس کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں سے بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے۔اب اخبارات میں شائع ہونے والا مواد کم اور اشتہارات زیادہ ہوتے ہیں۔شاید اخبار خبروں اور معلومات کی بجائے اشتہارات کیلئے زیادہ شائع ہوتے ہیں۔ان وجوہات کی بدولت اب خرید کر اخبار پڑھنے کا رجحان مرد اور خواتین دونوں میں کم ہو گیا ہے۔ اخبار ہی نہیں کتابوں کی بھی پہلے جیسی اہمیت نہیں رہی،کیونکہ اب ہمارے پاس ایک متبادل جو ہے۔ اب نہ صرف اخبار بلکہ ہر طرح کا مطالعہ زوال پذیر ہوگیا ہے، بلکہ لوگوں نے پڑھنا چھوڑدیا ہے، نہ کتابیں پڑھتے ہیں نہ رسائل۔بقول فرحت احساس کےعشق اخبار کب کا بند ہوا دل مرا آخری شمارہ ہے پاکستان کے معروف ڈائجسٹ سب رنگ کے مدیرشکیل عادل زادہ کا اخبار مطالعے کے بارے میں کہنا ہے کہ مردوں میں اب بھی اخبار پڑھنے کا رجحان خواتین کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ خواتین میں پہلے بھی کم تھا اور اب مزید کم ہوگیا ہے۔اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن ہے۔اخبار پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے ہماری زبان کی تربیت ہوتی ہے ہم لکھے ہوئے لفظوں سے زیادہ جلدی سیکھتے ہیں۔اخبار کی مدد سے اپنی املا درست کرسکتے ہیں۔یہ لوگوںسے بات چیت کرنے کے آداب اور سلیقہ سکھا تا ہے۔پرنٹ میڈیا کو متعارف ہوئے کئی صدیاں گز ر گئی ہیں لیکن اس کی افادیت اور اہمیت کو آج بھی سراہا جاتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہے کہ دنیا بھر کی خبریں عوام تک پہنچانے کے جتنے بھی ذرائع ہیں۔ان میں سب سے زیادہ قابل اعتبار اخبارات ہی ہیں۔سوشل میڈ یا،ٹی وی،ریڈیو اور ڈیجیٹل ویب سائٹس پرموجود خبروں پر اتنا زیادہ اعتبار نہیں کیا جاتا۔ صرف مشرقی دنیا میں نہیں بلکہ مغربی دنیا میں بھی یہ اہمیت کے حامل ہیں۔اس کا مطالعہ انسانی نفسیات پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے اور انسان کو صحیح اور غلط کی پہچان کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اخبار کی شکل میں صحافت کا آغاز 12سو سال پہلے یورپ میں ہوا۔ اس کا پہلا اخبار ''آگسں برگ‘‘ تھا جبکہ اُردو کا پہلا اخبار ''جام جہاں نما‘‘ تھا جو فارسی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی شائع ہونا شروع ہوا۔پھر اخبار دنیا کی تمام معلومات کا مرکز بن گیا۔ اخبار کے مطالعے کے رجحان کو فروغ دینے کیلئے آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی (اے پی این ایس)کی جانب سے 25 ستمبر کو ''نیشنل ریڈنگ نیوز پیپر ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا گیا ۔ اس دن کا انتخاب 25 ستمبر 1690ء کو امریکہ سے شائع ہونے والے پہلے ''ملٹی پیپر اخبار‘‘ کی اشاعت کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔اس دن کومنانے کا مقصد نوجوانوں میں مطالعہ اور اخبار بینی کے رجحان میں اضافہ کرنا اور ان کو اس جانب راغب کرنا ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں مطالعہ کا رحجان پایا جاتا ہے۔سوشل میڈیا،پی ڈی ایف ،آن لائن اخبار و رسائل ہونے کے باوجود وہاں کتابیں شائع ہو رہی ہیں۔ اخبار شائع ہو رہے ہیں ۔ دراصل اچھی عادتوں میں کل اور آج بھی مطالعہ شامل ہے۔بات اخبار بینی کی ہو رہی ہے ۔اخبار خبروں کے ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جو کا غذ پر پرنٹ ہوا ہوتا ہے۔ اخبار معلومات کے تمام ذرائع میں سب سے سستا اور آسان ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ اخبار میں ہمہ اقسام دلچسپی کا سامان ہوتا ہے ۔ چند صفحات پر مشتمل اخبار ملک کے طول و ارض کی خبریں لاتا اور معلومات مہیا کرتا ہے۔اخبار پڑھنے سے انسان کی معلومات میں روز بہ روز اضافہ ہوتا ہے۔ اخبار صرف ہمیں ملکی و غیر ملکی حالات و واقعات سے ہی آگاہ نہیں کرتے بلکہ ان کے مختلف موضوعاتی مضامین ہماری بنیادی معلومات کے ساتھ ساتھ ذہنی صلاحیتوں کو بھی اُبھارتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجا م دیتے ہیں ۔اخبار بینی سے سوچ کے انداز بدلتے ہیں، بہتر سوچنے، فیصلہ کرنے اور بہتر رائے قائم کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگی۔اس طرح آپ کا آئی کیو لیول بھی بڑھے گا۔ اخبارات معاشی، معاشرتی، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں انسان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اس طرح ایک شخص خود بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ خود کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔یعنی اسے زمانہ کی بصیرت حاصل ہوتی ہے ۔ اخبار بینی انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اہم کر دار ادا کرتی ہے اور بے شمار فوائد و ثمرات کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔اخبارات مختلف شعراء کا بھی موضوع کلام رہا ہے، اس حوالے سے چند اشعار قارئین کی نذر کئے جا رہے ہیں۔ ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے بھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا (ادا جعفری)جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا (عبید اللہ علیم)دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں (شہزاد احمد)سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے (مخمور سعیدی)بم پھٹے لوگ مرے خون بہا شہر لٹے اور کیا لکھا ہے اخبار میں آگے پڑھیے ( ظہیرغازی پوری)کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو (اکبر الہ آبادی)اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی (انور مسعود)رات کے لمحات خونی داستاں لکھتے رہے صبح کے اخبار میں حالات بہتر ہو گئے (نصرت گوالیاری)چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے (اکبر الہ آبادی)ذرا سی چائے گری اور داغ داغ ورق یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے عامر سہیلگمنام ایک لاش کفن کو ترس گئی کاغذ تمام شہر کے اخبار بن گئے عشرت دھولپورایسے مر جائیں کوئی نقش نہ چھوڑیں اپنا یاد دل میں نہ ہو اخبار میں تصویر نہ ہو خلیل مامونکوئی کالم نہیں ہے حادثوں پر بچا کر آج کا اخبار رکھنا عبدالصمد تپشکوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر سلیم احمدوہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے شہزاد احمد  

کیلا توانائی کا خزانہ

کیلا توانائی کا خزانہ

دو کیلے روزانہ کھانے والاشخص کئی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور بھگا سکتا ہے ۔یاد رکھئے کیلے کبھی زیادہ مقدار میں نہیں کھانا چاہیئں، یہ توانائی کاخزانہ ہیں اور خزانہ نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔ جتنی مقدار میں کہا جا تا ہے اس میںتھوڑی بہت کمی پیشی تو ہو سکتی ہے لیکن بہت زیادہ مقدار میں کیلے کھانے سے جسمانی خرابیاں بھی جنم لے سکتی ہیں ۔آج ہم مناسب تعداد میں کھائے جانے والے کیلوں کے فوائد بتانے والے ہیں۔ ان کی زیادتی سے پہنچنے والے نقصانات پر بعد میںکبھی بات کریں گے۔100گرام کیلے میں کیمیکلز کی مقدار :سب سے پہلے یہ جاننا نہایت ہی ضروری ہے کہ کیلا کن اہم اجزاء کا خزانہ ہے ۔ ایک سو گرام کیلے میں کاربوہائیڈریٹس 22.84گرام، پروٹین 1.09گرام اور فیٹس 0.33گرام پائی جاتی ہے۔ اس میں 8قسم کی معدنیات کی مقدار یوں ہے: پوٹاشیم 358ملی گرام، میگنیشیم 27ملی گرام، فاسفورس 22 ملی گرام ، کیلشیم 5ملی گرام، سوڈیم 1 ملی گرام، مینگینیز 0.27 ملی گرام، آئرن 0.26 ملی گرام اور زنک 0.25 ملی گرام۔یہ حیاتین کی کمی بھی دور کرتا ہے۔ 100 گرام کیلے میں حیاتین بی فور 9.8 ملی گرام، حیاتین سی8.7 ملی گرام، حیاتین بی تھری 0.665 ملی گرام، حیاتین سکس 0.367 ملی گرام، حیاتین بی فائیو 0.334 ملی گرام، حیاتین ای 0.1گرام، حیاتین بی ٹو 0.073ملی گرام، حیاتین بی ون 0.031 ملی گرام پائی جاتی ہیں۔مائیکرو بائیوٹک نیوٹریشنسٹ شلپا اروڑا کا کہنا ہے کہ کئی اہم میکرو اور مائیکرو اجزاء کی موجودگی کے باعث کیلے کو مکمل خوراک بھی کہا جا سکتا ہے، کچھ لوگ دوپہر یا شام کے وقت کیلے کو اپنی خوراک بنا لیتے ہیں ۔ صرف کیلے کھانے سے جسم میں پروٹین اور چکنائی کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔بلڈ پریشر میںآرام :کیلا ہائی بلڈ پریشر اور وزن میں کمی کا موجب بنتا ہے، اس میں فائبر اورسٹارچ کی مناسب مقدار میں موجودگی سے بھوک مٹ جاتی ہے۔مزید کھانے کی خواہش ختم ہونے سے موٹاپا کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ کیلے سے جسم میں شوگر کی مقدار کم کرنے میں مددم ملتی ہے یہ انسولین کی حسایت میں اضافہ کرنے کے اس کے فوائد میں بہتر ی لاتا ہے۔اگر کسی کے جسم خلیے انسولین کے بارے میں حساس نہیں ہیں،تو انہیں گلوکوز کو ہضم کرنے میں دقت پیش آ سکتی ہے، جس کے باعث پینکریا انسولین کی مقدار بڑھا دیتا ہے۔جس سے چکنائی ہضم کرنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوتی ہے۔دو کیلے روازانہ کھانے سے جسم میں کون کونسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں؟کمزوری میں کمی:خون میں ہیمو گلوبن اور سرخ خلیوں کی کمی کے باعث انیمیا ہو سکتا ہے، اس بیماری میںرنگت پیلی پڑ جاتی ہے،تھکن محسوس ہوتی ہے اور کبھی کبھی سانس اکھڑنے لگتی ہے۔ کیلے میں آئرن کی مناسب مقدار انیمیا میں آرام دیتی ہے۔جس سے خون میں سرخ خلیوں کی افزائش میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔اسی طرح کیلے میں موجود حیاتین بی سکس خون میں گلوکوز کی مقدار کو ریگولیٹ کرنے میں مددگار بنتا ہے۔بہتر ہاضمہ:کیلا آسانی سے ہضم ہوجاتا ہے۔ ٹھوس غذائوں کے برعکس یہ آنتوں پر بھی کسی قسم کا بوجھ نہیں بنتا۔ کیلے میں پایا م جانے والا سٹارچ بڑی آنتوں میں چلا جاتا ہے۔ جہاں یہ اچھے بیکٹیریاکی خوراک بن جاتا ہے۔ اسہال،ہارٹ برن (heartburn) اور گیرٹریٹائٹس (gastritis) میں بھی کیلا مفید ہے۔ذہنی دبائو میں کمی:کیلے ذہنی دبائو میں کمی کا موجب بننے کے باعث انسان کا موڈ اچھا کرتے ہیں، ان میں موجود ٹرپٹوفان (tryptophan) نامی کیمیکل سیرو ٹونن (serotonin)کیلئے اہم ہے۔ سیروٹنن ہی وہ کیمیکل ہے جو انسانی ذہن میں خوشی کا تاثر پیدا کرنے والے سگنل جاری کرتا ہے۔اس میں موجود 27 ملی گرام مینیشیم بھی موڈ خوشگوار بننے میں معاون بنتا ہے۔ اس سے نیند بھی اچھی آتی ہے۔حیاتین بی کا خزانہ : کیلے سے حیاتین بی کی کمی دور کرنے میںمدد ملتی ہے۔جسم کو جتنی حیاتین بی سیکس درکار ہوتی ہے اس کی 20فیصد مقدار کیلے سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیلے سے صحت مند خلیوں کی ضرورت یعنی امائنو ایسڈز اور ہیوموگلوبن بھی حاصل ہوتے ہیں۔انرجی لیول میں اضافہ:کیلے میں موجود پوٹاشیم پٹھوں کوپھٹنے (cramps)سے بچاتے ہیں ،کاربوہائیڈریٹس کام کی صورت میں تھکن نہیں ہونے دیتے ۔