کچھ عرصہ سے سائنس دانوں نے شدت سے اس خدشے کا اظہار کرنا شروع کر رکھا ہے کہ اس کرۂ ارض پر گلوبل وارمنگ کے سبب زمینی درجۂ حرارت جس رفتار سے مسلسل بڑھ رہا ہے اگر کسی مرحلے پر 22 لاکھ مربع کلومیٹر پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے جزیرے گرین لینڈ جس کے 85 فیصد حصے کو برف نے ڈھانپ رکھا ہے پورے کا پورا پگھل گیا تو دنیا کا نقشہ کیسا ہو گا؟ قدرتی طور پر سائنس دانوں کی اس منطق بارے انسان یہ سوچتا ہے کہ آخر ایسے وہ کونسے حالات ہیں جو سائنس دانوں کو اس خدشے کا اظہار کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟۔گلوبل وارمنگ کے سبب بڑھتے درجۂ حرارت نے جہاں پوری دنیا کے نظام کو متاثر کر کے رکھ دیا ہے وہیں 85 فیصد برف سے ڈھکے ملک، گرین لینڈ کیلئے بھی اسے خطرے کی گھنٹی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گرین لینڈ کا 85 فیصد حصہ برف اور باقی 15 فیصد حصہ پہاڑیوں اور میدانوں پر مشتمل ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کو عالمی سطح پر شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ اگرچہ سائنس دان ایک عرصہ سے اس خطے کی بدلتی موسمی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے لیکن یہ صورت حال اس وقت عالمی سائنس دانوں کیلئے زیادہ تشویش کا باعث بنی جب انہوں نے گرین لینڈ کی برف کو معمول سے ہٹ کر تیزی سے پگھلتے ہوئے پایا۔ اس موقع پر سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ 2003ء اور 2010ء کے درمیان گرین لینڈ میں برف پگھلنے کی رفتار بیسویں صدی کے مقابلے میں تین گنا زیادہ نوٹ کی گئی تھی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ گرین لینڈ کی برف ہر ایک گھنٹے میں تقریباً تین کروڑ ٹن پگھل رہی ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک اور رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں، گرین لینڈ کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں کیونکہ یہاں کا درجہ حرارت باقی دنیا کی نسبت چار گنا زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سائنس دان کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران گرین لینڈ کے سمندر کی برف کی مقدار متواتر کم ہو رہی ہے جس کی واحد وجہ یہاں کا درجہ حرارت ہے جس کے سبب یہاں کے گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ''ورلڈ میٹرولوجسٹ آرگنائزیشن‘‘ نے تو 2015ء ہی میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ گرین لینڈ میں برف پگھلنے کے باعث پچھلے گیارہ سالوں کے دوران سطح سمندر میں 25سے 30 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ ایسے ہی ایک خدشے کا اظہار معروف بین الاقوامی جریدے ''کلائمٹ چینج‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بھی ان الفاظ میں کیا گیا ہے ''گرین لینڈ کی تمام برف پگھلنے سے دنیا کے سمندروں کی سطح کم سے کم 30 انچ تک اونچی ہو جائے گی۔جس سے نہ صرف ساحلی علاقے زیر آب آ جائیں گے بلکہ سمندروں میں جہاز رانی بھی مشکل ہو جائے گی۔ دوسری طرف برف اور پانی کا توازن قائم نہ رہ سکنے کی بدولت موسموں کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا جو بڑے طوفانوں کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے‘‘ ۔گلیشیئرز کے علوم کے ایک ماہر سائنس دان ولیم کولون کے بقول ''گلوبل وارمنگ کے سبب تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کے تناظر کی روشنی میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ رواں صدی کے آخر یا اگلی صدی کے وسط تک ممکنہ حد تک گرین لینڈ کی تمام برف پگھل چکی ہو گی۔ ولیم کولون اپنے قیاس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت موسموں کی کیفیت یا شدت کیسی ہو گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ آج کے دور میں ہمارا واسطہ جن شدید طوفانوں اور سیلابوں سے پڑتا ہے، پچھلے پچاس سالوں میں ان کی شدت اس قدر شدید نہیں ہوا کرتی تھی ‘‘۔ سائنس دان گلیشئرز پگھلنے کے عمل کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلیشیئرز کا حدت سے پگھلنا ایک قدرتی عمل ہے ، پھر جب برف باری شروع ہوتی ہے تو انہی پگھلے ہوئے حصوں پر دوبارہ برف جم جاتی ہے جس سے ایک توازن برقرار رہتا ہے۔ لیکن وہ حصے جو گلیشیئرز سے الگ ہو کر ٹوٹ پھوٹ کرگرتے رہتے ہیں وہ دوبارہ گلیشیئرز کا حصہ نہیں بنتے بلکہ وہ پانی کا حصہ بنتے رہتے ہیں۔ لیکن اب اس فطری عمل میں انسانی سرگرمیوں نے اس نظام کو غیر متوازن اور غیر محفوظ بنا ڈالا ہے۔ فوسل فیول کے بڑھتے استعمال اور کاربن گیسوں کے اندھا دھند اخراج میں بے جا اضافے نے کرہ ارض کے درجہ حرارت کو جس طرح غیر مستحکم کر دیا ہے اس سے گرین لینڈ سمیت دنیا بھر کی پہاڑی چوٹیوں پر موجود گلیشیئرز پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز رفتاری سے پگھل رہے ہیں۔ یوں قطب شمالی کا بہت بڑا حصہ برف کے پگھلنے کے باعث ایک سمندر کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کیا عجب اتفاق ہے کہ ایک جانب گرین لینڈ کی برف پانی میں ڈھلتی جارہی ہے تو دوسری جانب دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی نظریں یہاں کی برف کے نیچے دبے قدرتی خزانوں پر ہیں۔ شواہد سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گرین لینڈ کی برف کے نیچے تیل ، گیس اور معدنیات کے بہت بڑے خزانے دفن ہیں، جن میں سونا، یورینیم، لوہا ، ایلومینیم، پلاٹینم ، تانبا اور قیمتی پتھر دفن ہیں۔جیسے جیسے قطب شمالی میں برف پگھل رہی ہے اور ممکنہ بحری راستے بن رہے ہیں اس خطے میں امریکہ ، روس اور چین کی بڑھتی دلچسپیاں جہاں ایک طرف دفاعی نقطہ نظر سے اہم ہیں وہیں یقیناً گرین لینڈ کی تہوں میں پوشیدہ معدنیات کے خزانے بھی اس کی ایک وجہ ہو سکتی ہے ؟ آخر میں گرین لینڈ کا مختصر سا تاریخی اور جغرافیائی تعارف۔ جغرافیائی صورتحال شمالی بحیرہ اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع جزیرہ گرین لینڈ بنیادی طور پر 1953ء تک ڈنمارک کی ایک کالونی تھا جسے بعدازاں 1979ء میں ڈنمارک کے زیر انتظام نیم خود مختار جزیرے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ گرین لینڈ کا نام سکینڈے نیویا کے آباد کاروں نے متعارف کرایا تھا۔ 2009ء سے یہاں کا زیادہ تر انتظام یہاں کی مقامی حکومت کے پاس ہے جبکہ اس کی خارجہ پالیسی، مالیاتی امور اور دفاعی امور کے فیصلے اب بھی ڈنمارک حکومت کے زیر انتظام طے پاتے ہیں۔ تاہم اس کی معیشت کا دارومدار ڈنمارک پر ہی ہے۔ گرین لینڈ، دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جو بڑے بڑے گلیشیئرز پر مشتمل ہے جبکہ برف کی یہ دیو ہیکل پرتیں پانچ ہزار سے دس ہزار فٹ موٹی ہیں۔لگ بھگ 22 لاکھ مربع کلومیٹر رقبے کے باوجود اس کی آبادی صرف 57ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس جزیرے کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اس کا تقریباً 85 فیصد حصہ برف پر مشتمل ہے۔ گرین لینڈ کا دارالحکومت نووک ہے۔ گرین لینڈ جغرافیائی طور پر ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک کے زیادہ قریب ہے۔