دادا دادی اور نانا نانی
اسپیشل فیچر
ان معاشروں میں جہاں جوائنٹ فیملی سسٹم کی روایات ابھی تک مستحکم ہیں، بچے ماں باپ کے بعد دادا دادی یا نانا نانی سے اپنے مضبوط تعلق پیدا کرلیتے ہیں۔ روایتی خاندانوں میں دادا دادی، یعنی باپ کے والدین گھروں میں ساتھ رہتے ہیں۔ یہ مشاہدے میں آیا ہے کہ دادے دادیاں اپنے پوتیوں کے ساتھ خصوصی محبت پر مبنی تعلق پیدا کر لیتے ہیں۔ اور ایسا غالباً اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ یہ تعلق صرف باہمی محبت اور ہمدردی پر استوار ہوتا ہے اور دادے دادیاں وہ ذمہ داری محسوس نہیں کرتیں جو اپنے بچوں کے حوالے سے ان پر عائد ہوتی ہیں۔ یہ ایک بہت ہی شاندار احساس ہوتا ہے اور اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دادا دادی بے جالاڈ پیار سے بچوں کو خراب کر دیتے ہیں۔ چھوٹے بچوں کو اپنے نانا نانی سے ملنے کا موقع عموماً تب ملتا ہے جب ان کی ماں اپنے والدین کے گھر انہیں ملنے جاتی ہے۔ اور ایسا کبھی کبھار ہی ہوتا ہے۔ لیکن توقع کے عین مطابق نانے نانیاں اپنے نواسوں کے ساتھ دادے اور دادی کی نسبت زیادہ پیار اور شفقت برتتے ہیں کیونکہ ان کا شاذ ہی ان سے ملنا ہوتا ہے۔ شاید اس وجہ سے نانا اور نانی کے ساتھ بچوں کا تعلق جلد ہی مضبوط ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ بعض معاشروں میں خاص طور پر ترقی یافتہ دنیاؤں میں جہاں نیوکلیئر فیملی کا رواج ہے وہاں ’’گرینڈ پا‘‘ اور ’’گرینڈ ما‘‘ عموماً داد ا دادی اور نانا نانی دونوں کے لیے ایک ہی لفظ استعمال ہوتا ہے ہے اور وہاں گرینڈ پیرنٹس کبھی کبھی ہی بچوں کو ملنے آتے ہیں۔ یہ تعلق ان معاشروں میں کہیں گہرا ہے جہاں ماں کی طرف سے گرینڈ پیرنٹس اور ہوتے ہیں جبکہ باپ کی طرف سے اور … ہمارے ہاں باپ کی طرف سے گرینڈ پیرنٹس کی صورت میں دادا اور دادی جبکہ ماں کی طرف سے نانا اور نانی ہوتے ہیں۔ کیونکہ گرینڈ پیرنٹس پر اکثر الزام لگتا ہے کہ وہ بچوں کو بے جالاڈ پیار سے خراب کر دیتے ہیں۔ چند ہی خوش نصیب لوگ ہوتے ہیں جنھیں دادا دادی یا نانا نانی کا پیار مل پاتا ہے۔ اگرچہ پوتے پوتیوں کاگرینڈ پیرنٹس سے تعلق مختصر ہوتا ہے مگر جو بچے اس تعلق سے لطف اندوز ہوتے ہیں، ان کے پاس اس تعلق کی کئی خوبصورت یادیں ہوتی ہیں… خاص طور پر وہ بچے جنھوں نے گرینڈ پیرنٹس کے بستروں میں گھس کر کہانیاں سننے کا لطف پایا ہوتا ہے یا جن کے بڑے ماں باپ نے ان پر بے تحاشا پیار مختلف طریقوں سے لٹایا ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کو ناسٹلجیا کی جو بیماری ہوتی ہے اس کا زیادہ تر تعلق انہی گرینڈ پیرنٹس سے ہوتا ہے۔ مذہبی کتابوں میں اکثر ذکر ملتا ہے کہ بڑے والدین کی محبتیں پوتے پوتیوں پر وہ فرض ہوتی ہیں جنھیں ضرور چکایا جانا چاہیے۔ آج ہم جس جگہ سوسائٹی میں پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں اور سماجی تعلقات کے جس وسیع دائرے سے ہم محظوظ ہوتے ہیں اس کا زیادہ تر تعلق انہی بڑے ماں باپ سے جا کر جڑتا ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی دراصل وہیں سے شروع کرتا ہے جہاں اس کے آباؤ اجداد چھوڑ کے جاتے ہیں۔ ہم فقط یہ کرتے ہیں کہ جو روشنی وہ ہمیں دے کر جاتے ہیں اسی کی چمک میں آگے کی زندگی کی راہیں طے کرتے ہیں۔ (پریم پی بھالا کی کتاب ’’اچھے تعلقات کے رہنما اصول‘‘ سے ماخوذ)