علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ (سیاسی زندگی کا احوال)
حضرت بابا شہید فطری طور پر سیاسی رجحانات رکھتے تھے۔ قومی جرائد ہی کا مطالعہ نہ کیا کرتے بلکہ بین الاقوامی جرائد بھی اکثر آپ کے زیر مطالعہ رہا کرتے تھے اور ویسے بھی ایک شخص جو سیاسی معاملات کو سمجھتا ہوں ان کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتا ہو، ان پر ماہرانہ رائے دینے کا اہل ہو، وہ کیونکر زیادہ دیر سیاست سے کنارہ کش رہ سکتا ہے۔ آپ کی سیاسی زندگی کا آغاز تو اسی دن ہو گیا تھا ،جب آپ نے مینار ِپاکستان میں عید کے اجتماع سے خطاب کیا تھا، لیکن باضابطہ طور پر آپ میدان سیاست میں اس وقت قدم رنجہ ہوئے جب سقوط ِمشرقی پاکستان کا المناک سانحہ رونما ہوا۔ اس سانحے نے آپ کے جذبات کو دنیا میں تلاطم پیدا کردیا تھا۔ آپ اتنے مضطرب ہوئے کہ آپ نے نظری سیاست کو ترک کر کے عملی سیاست میں کودنے کا ارادہ کرلیا۔جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا، اس وقت میری عمر بمشکل چار ماہ تھی اور میں بابا کا پہلا بیٹا تھا۔ بابا نے میری پیدائش پر بہت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا اور غالباً اسی مسرت اور خوشی کی نسبت سے میرا نام ابتسام یعنی ’’ مسکراہٹ‘‘ رکھ دیا تھا، لیکن بنگال کے علیحدہ وطن بننے پر آپ اتنے مغمور ہوئے کہ آپ نے بے ساختہ یہ کہا تھا: ’’ میرا ایک ہی بیٹا ہے اگر کٹ جاتا،مر جاتا ،تو مجھے اتنا افسوس نہ ہوتا ،جتنا آج مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ہوا‘‘۔آپ نے سقوط ڈھاکہ کے موقع پر چینیانوالی مسجد میں خطبہ ارشاد فرمایا تھا، وہ آج بھی مجھے رلا رہا ہے ،آپ نے کہا تھا: ’’ مسجدیں تمہیں بلاتیں رہیں!منبر و محراب تمہیں آوازیں دیتے رہےربّ کا قرآن تم کو روکتا رہا!رسول اللہﷺ کا فرمان تم کو ٹوکتا رہا!لیکن تم نے ہر چیز کو پامال کردیا!اور نتیجتاً تم خود پامال ہو کر رہ گئے ہو!‘‘خطبہ کا دوسرا مقام ملاحظہ ہو:’’ آج ڈھاکہ کی مسجد بیت المکرم اپنی ماں کعبۃ اللہ کو کہہ رہی ہو گی، اے میری ماں! آج مجھ کو تیرے رکھوالے اغیار کے حوالے کر کے بھاگ نکلے ہیں‘‘۔آپ کو مشرقی پاکستان سے کتنا پیار تھا۔ آپ اس کے شہروں کو کتنا یاد کرتے تھے۔ سقوط ڈھاکہ پر پڑھائے گئے خطبہ جمعہ میں آپ کے کتنے پیار سے مشرقی پاکستان کے شہروں کا نام لے رہے تھے۔ آپ کیسے کہہ رہے تھے۔ تم نے پٹنہ کو چھوڑا۔ تم نے پونا کو چھوڑا۔ تم نے کھلنا کو چھوڑا، تم نے چٹاگانگ کو چھوڑا،تم نے راس کماری کو چھوڑا ہے۔ آپ نے عالم وارفتگی میں یہ کہا تھا:’’خدا کی قسم! مجھے چٹاگانگ کی سرزمین اتنی ہی پیاری ہے، جتنا مجھ کو لاہور اور سیالکوٹ پیارا ہے‘‘۔ سانحہ سقوط ِمشرقی پاکستان آپ کو صحن مسجد سے کھینچ کر بازاروں، چوراہوں اور میدان میں لے آیا تھا۔ آپ نے قریہ قریہ، نگر نگر،بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک چلائی۔ یہاں تلک کہ بیرونی نیوز ایجنسیاں بھی اس بات کو ماننے کو مجبور ہو گئیں کہ پاکستان میں چار افراد بنگلہ دیش نامنظور کی تحریک میں سرفہرست رہے ہیں، جن میں سے ایک احسان الٰہی ظہیر ہے۔سانحہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہی مغربی پاکستان یا بقیہ پاکستان میں میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہو گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کا کردار چونکہ تقسیم وطن کے حوالے سے کافی مشکوک تھا۔ ’’ادھر ہم اور ادھر تم‘‘ کے نعرے کا زخم ابھی بہت سے محب وطن لوگوں کے سینوں پر موجود تھا۔ اس لیے ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کے فطری مخالفین کافی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ سانحہ مشرقی پاکستان نے چونکہ بابا کی روح کو گھائل کر کے رکھ دیا تھا۔ اس لئے آپ بھی اس سانحہ شعوری یا غیر شعوری، ارادی یا غیر ارادی، بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث کسی بھی شخص کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنے پر تیار نہ تھے۔ چنانچہ آپ قدرتی طور پر ذوالفقار علی بھٹو کے حریف بن گئے ۔ ان حریفانہ جذبات میں ذوالفقار علی بھٹو کے سوشلزم کے نعرے اور سیکولر نظریات کے سبب بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ آپ نے ملک بھر میں ذوالفقار علی بھٹو کے سیکولر نظریات کی مخالفت میں تقاریر کیں۔ اپنی طوفانی خطابت کی وجہ سے آپ اہل ِاختلاف کے دلوں میں سمانے لگے۔آپ چونکہ اہل ِحدیث تھے۔ اس لئے آپ نے اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو بھی جمعیت ِاہل ِحدیث کے پلیٹ فارم سے جاری رکھا ہوا تھا۔ مولانا دادو غزنوی کی رحلت کے بعد جماعت کے ایک معروف تاجر میاں فضل حق مرحوم جماعت کے ناظم اعلیٰ بنے ،میاں صاحب بنیادی طور پر ایک تاجر آدمی تھے۔ آپ سیاست میں کھل کر حصہ لینے کے قائل نہ تھے، تا ہم درمیانی سی چال چلتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں سیاست کرنے کے مخالف بھی نہ تھے۔بابا شہیداس پالیسی کے قائل نہ تھے۔آپ اس بات کو درست نہ سمجھتے تھے کہ انسان ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق ہو، آپ کہتے تھے کہ انسان جو کام بھی کر دے ڈنکے کی چوٹ کرے۔ غلط کو غلط کہے درست کو درست کہے۔ آپ تبلیغی پلیٹ فارم سے حکمرانوں کی غلطیوں کی نشاندہی بڑے بھرپور انداز میں گرنے لگے تھے۔ آپ کے تیور جمعیت کے قائدین کو کھٹکنے لگے۔ جمعیت کے قائدین نے ان جلسوں اور جلوسوں میں شامل ہونے سے احتراز کرنا شروع کر دیا، جن میں بابا شہید شریک ہوا کرتے تھے۔ جب کوئی شخص حکومت وقت کی پالیسیوں پر متواتر تنقید کرتا رہتا ہے، تو وہ وقت کی حکومت کے عتاب کا نشانہ بھی بنتا ہے، مقدمات بھی بنتے ہیں، جیلوں میں بھی جانا پڑھتا ہے، مشکلات بھی جھیلنا پڑتی ہیں۔ بالکل اسی قسم کے معاملات شہید بابا کے ساتھ بھی رونما ہونے لگی۔ مختلف شہروں اور اضلاع میں آپ پر حکومتی کارندوں اور اہل کاروں کی طرف سے مقدمات کو دائر کیا جانے لگا۔ جوں جوں یہ مقدمات بڑھے ،توں توں قائدین جمعیت آپ سے دُور ہونے لگے، یہاں تک کہ وہ دن بھی آگیا جب جمعیت ِاہل ِحدیث پاکستان نے مکمل طور پر آپ سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ اس عالم تنہائی میں بابا نے اس بات کو ضروری خیال کیا کہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کو اختیار کیا جائے۔ ایئر مارشل اصغر خان ان ایام میں بہت بڑے انقلابی رہنما کے طور پر متعارف ہوئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ بابا کا اپنا مزاج بھی ویسا تھا چنانچہ آپ نے ایئر مارشل اصغر خان کی جماعت’’تحریک ِاستقلال‘‘ میں شمولیت اختیار کر لی۔ اللہ تعالیٰ شہید بابا کی مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے (آمین)٭…٭…٭