ماڑی
اسپیشل فیچر
میانوالی سے قریباً 50 کلو میٹر شمال مشرق کی جانب اور کالا باغ سے 14 کلو میٹر تقریباً مغرب کی جانب واقع بڑے بڑے نمک اور پتھروں کے پہاڑی سلسلوں میں پیالہ نما شہر دریائے سندھ کے لب پر واقع ہے۔ قدرتی مناظر سے مالا مال ایک خوبصورت اور مسحور کن شہر ہے۔ یہ شہر معدنی دولت سے مالا مال ہے آثار قدیمہ کی حامل پہاڑی کے نیچے نمک کی کانیں موجود ہیں۔ یہ پہاڑی آثار قدیمہ کے علاوہ ایک خاص قسم کے ہیرے کی بدولت بھی شہرت رکھتی ہے یہاں کے بزرگوں اور تاریخ سے واقفیت رکھنے والے افراد کے مطابق ان آثار قدیمہ کی تاریخ کچھ یوںہے کہ یہاں پر موجود قلعہ کو مائی اوٹ یا ہنومان کہا جاتا تھا۔ چندرگپت موریہ323 ق م سے332 ق م کے پوتے راجہ کنشک کا یہ پایہ تخت بھی رہا ہے۔ ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم بھی اس علاقے سے گذرا تھا پہاڑی پر موجود دومندر TOMB جن کا ذکر عمران خان نے اپنی کتاب \"Along The River Indus\" میں کیا ہے کہ اشوک نے 262 قبل مسیح میں بدھ مت قبول کر لیا تھا۔ سلطان محمود غزنوی بھی یہاںسے گذر چکا ہے ٹیکسلا اور یہاں کے آثار کافی ملتے جلتے ہیں یہیں سے دریائے سندھ سالٹ رینج کی پہاڑیوں سے نکل کر میدانی علاقے میں داخل ہوتا ہے یہ آثار اسی آخری سالٹ پہاڑی پر موجود ہیں۔ یہاں سے ٹونی نالہ (نمکین نالا) درہ کالا باغ شکر درہ اور پھر درہ آدم خیل سے پہاڑوں کے بیچ ایک راستہ افغانستان کو جاتا ہے۔ ماڑی شہر کے آثار قدیمہ وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ ہیں قلعہ کافرکوٹ اور پلوٹ کے مندر بھی اسی طرح پہاڑیوں پر ہیں۔30 کلو میٹر پر روکھڑی شہر میں جبکہ پانچ کلو میٹر فاصلے پر ڈنگوٹ یادین کوٹ قلعہ کے آثار موجود ہیں۔ یہاں پر کنوئوں کی پرانی بنیادوں کے آثار بھی موجود ہیں۔ ماڑی شہر میں مائی اوٹ قلعہ کے قریب دربار ہال راہداریوں اور سیڑھیوں کے واضح آثار موجود ہیں۔چندر گپت موریہ اور راجہ اشوک کا عہد حکومت نے نصاب میں شامل کر لیا ہے۔ اس لحاظ سے ان مقامات کی اہمیت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ تقسیم ہند سے قبل ماڑی شہر اہم کاروباری مرکز تھا یہاں لوگ دور دور سے خرید و فروخت کی غرض سے آتے تھے۔ ہندوئوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آباد تھی یہاں بڑی کشتیاں اور بحری جہاز چلتے تھے ایک کالا باغ نامی بحری جہاز آج بھی غالباً ڈی آئی خان میں کھڑا ہے آج بھی ماڑی شہر کے اندر ہندوئوں کی باقیات موجود ہیں حکومت کی عدم توجہی ان آثار سے ناآشنائی اور موسموں کے بے رحمانہ سلوک نے ان آثار قدیمہ کو خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ دوسری طرف پہاڑی کے گرنے کا عمل بھی جاری ہے جبکہ مندر بھی ایک طرف سے نیچے دھنستا جا رہا ہے۔ یہاں ارد گرد کا نظارہ بہت دلفریب ہے ایک طرف دریائے سندھ کی آب و تاب دلوں کو راحت پہنچاتی ہے تو دور تک پھیلے ہوئے سر سبز درخت آنکھوں کو ٹھنڈک کا سامان فراہم کرتے ہیں ایک طرف نظر دوڑائیں تو ماڑی شہر کی رومان پرور آبادی دل موہ لیتی ہے تو دوسری طرف ماڑی ریلوے اسٹیشن کا کالا باغ پل اور جناح بیراج کا گٹھ جوڑ دلوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔(پاکستان کے آثارِ قدیمہ )٭…٭…٭