جب اردو ناولوں کو فلموں میں ڈھالا گیا

جب اردو ناولوں کو فلموں میں ڈھالا گیا

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


ایسی فلموں کی کامیابی کا تناسب 80فیصد رہا، اب یہ رجحان بھی ختم ہوا*****ہندوستان اور پاکستان میں اردو ناولوں پر بڑی شاندار فلمیں بنائی گئیں ۔یہ الگ بات کہ ہندوستان میں کم اور پاکستان میں زیادہ فلمیں بنائی گئیں ۔اردو کے دو ناول ایسے ہیں جن پر ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں فلمیں بنائی گئیں اور دونوں ممالک میں ان فلموں نے عدیم النظیر کامیابی حاصل کی۔رضیہ بٹ اور عصمت چغتائی دو ایسی خواتین ناول نگار تھیں ۔جن کے دو دو ناولوں کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا پہلے ہم رضیہ بٹ کے ناولوں پر بات کرتے ہیں۔ رضیہ بٹ پاکستان کی مشہور ترین خاتون ناول نویس تھیں۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد ان کے ناول پڑھتی تھی اور آج بھی ان کے ریڈرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مداحین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ 1965ء میں ان کے ناول ’’نائلہ‘‘ پر فلم بنائی گئیں ، فلم کا نام بھی ’’نائلہ‘ ‘تھا۔ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ یہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھیں۔اس فلم کے ہدایت کار شریف نیر تھے جبکہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔یہ ایک نہایت خوبصورت رومانوی فلم تھی جس نے خاص طور پر خواتین کو بہت متاثر کیا۔ سنتوش کمار، درپن، شمیم آرا اور راگنی کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔ قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے نغمات زبان زدعام ہوئے ۔خاص طور پر یہ گیت بہت مقبول ہوئے۔’’ اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی، اور تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے۔‘‘اس فلم کی ریلیز کے بعد اس ناول کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ غالباً چار یا پانچ برس بعد رضیہ بٹ کے ایک اور معروف ناول’’ صاعقہ ‘‘کو فلمی سکرین کی زینت بنایا گیا یہ فلم بھی باکس آفس پر بے حد کامیاب ہوئی۔ ’’نائلہ اور صاعقہ‘‘ دونوں فلموں میں شمیم آرا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔دونوں ناولوں میں ہیروئن ایک مظلوم لڑکی کے روپ میں قارئین کے سامنے آتی ہے جس طرح قارئین کی ہمدردیاں ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح شمیم آرا نے فلم بینوں کی ہمدردیاں سمیٹیں۔’’صاعقہ‘‘ کی موسیقی بے مثل موسیقار نثار بزمی نے مرتب کی تھی اور اس فلم کے نغمات بھی بڑے مسحور کن تھے ۔یہ دو نغمات لاجواب تھے،’’ اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے، اور اے بہارو گواہ رہنا۔‘‘ شمیم آرا کے علاوہ اس فلم میں محمد علی نے بھی متاثر کن اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ رضیہ بٹ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے مڈل اور اپر مڈل کلاس کی لڑکیوں کے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ناولوں میں اجاگر کیا۔ انانیت کے خول میں بند رہنے والے لوگ کس طرح پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں انہوں نے اس تلخ حقیقت کو بھی اپنے موضوعات کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں یہی پیغام دیا کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے اور اپنی بے جا ضد اور انا کی آڑ میں اس کے احساسات اور جذبات کا خون نہ کیا جائے ۔عصمت چغتائی کا شمار برصغیر کی ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے کچھ ناول بھی تخلیق کئے جن میں’’ ضدی،سودائی اور ٹیڑھی لکیر ‘‘خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں’’ضدی اور سودائی‘‘ کو سلولائیڈ کے فیتے پر منتقل کیا گیا ۔’ضدی‘‘ کوئی ضخیم ناول نہیں، کچھ لوگ اسے ناولٹ کی حیثیت دیتے ہیں، اس ناول پر 1948ء میں فلم بنائی گئی اور فلم کا نام بھی یہی تھا۔ ناول کی طرح فلم ضدی، بھی عوام کی توجہ کا مرکز بنی، اس فلم میں کامنی کوشل اور دیو آنند نے مرکزی کردار ادا کئے۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی ریلیز کے بعد اخبارات میں یہ اشتہار شائع ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے ’ضدی ‘دیکھی ہے وہ یہ بتائیں کہ اس فلم میں سب سے زیادہ ضدی کون ہے……؟ناول میں یہی دکھایا گیا کہ فلم کے سبھی کردار ضدی ہیں ۔عصمت چغتائی بڑی بے باک ،دبنگ اور راست گو ادیبہ تھیں۔ انہوں نے اس ناول میں عورتوں کی نفسیات کے حوالے سے بھی بڑی جرات مندی سے یہ کہا کہ عورت کی ذات بڑی ڈھکوسلے باز ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے ناول ’’سودائی‘‘ پر پاکستان میں ’’ضمیر ‘‘نامی فلم بنائی گئی یہ فلم 1978ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں محمد علی، دیبا، روحی بانو اور وحید مراد نے اہم کردار ادا کیے۔ ناول کا مرکزی خیال یہ تھاکہ کسی کو دیوتا نہیں بنانا چاہیے اور اگر کسی کو یہ درجہ دے دیا جائے تو یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ وہ دیوتا اپنی فطری خواہشات اور ضروریات کو بھی کچل ڈالے کیونکہ بہرحال وہ انسان ہے جو فطرت کے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔اس فلم میں محمد علی اور روحی بانو کی اداکاری کو بہت سراہا گیا محمد علی نے بڑے بھیا کا کردار انتہائی عمدگی سے ادا کیا شاید انہیں خود بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کردار کے لیے ان کا انتخاب کس قدر درست فیصلہ تھا ۔اس فلم کا ایک گیت بڑا ہٹ ہوا’’ ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا‘‘، اس فلم نے باکس آفس پر درمیانے درجے کا بزنس کیا۔1972ء میں حمیدہ جبیں کے مقبول ناول’’تمنا‘‘کو’’ محبت‘‘ کے نام سے فلمی سکرین پر منتقل کیا گیا۔اس فلم کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے مرکزی کردار محمد علی ،زیبا، صبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے ادا کیے تھے یہ ایک کامیاب فلم تھی ۔جس کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی جبکہ نغمات قتیل شفائی نے لکھے تھے ۔اس فلم میں زیبا کی اداکاری کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔اس کے علاوہ نوخیز اداکارہ عندلیب نے بھی فلم بینوں کو متاثر کیا۔ عندلیب نے بعدازاں کچھ فلموں میں کام کیا لیکن پھر وہ نظر نہیں آئیں۔فلم’’محبت‘‘ کی موسیقی اعلیٰ درجے کی تھی۔یہ دو گیت تو بڑے ہی باکمال تھے ’’یہ محفل جو آج سجی ہے، اور بانورا من ایسے دھڑکا نہ تھا‘‘۔ اس کے علاوہ مہدی حسن کی آواز میں احمد فراز کی اس غزل نے تو فلم کو چار چاند لگا دیے’’ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ۔‘‘حمیدہ جبیں کے دیگر دو ناولوں پر بھی فلمیں بنائی گئیں یہ دو فلمیں تھیں ’’پرائی آگ اور سہاگ‘‘۔ یہ معیاری فلمیں تھیں لیکن باکس آفس پر زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ پریم چند کا شمار اردو کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے وہ نہ صرف بہت عمدہ افسانہ نگار تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ناول نویس بھی تھے ان کے مشہور ترین ناولوں میں نرملا،بیوہ اور گئودان کے نام لئے جا سکتے ہیں۔1963ء میں بھارت میں ان کے ناول’’ گئودان‘‘ پر فلم بنائی گئی۔’’گئودان‘‘ کا شمار ہندوستان کے عظیم ترین ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم میں راج کمار محمود اورششی کلا نے اہم کردار ادا کیے تھے۔ ہدایت کار ترلوک جیٹلی کی اس فلم کی موسیقی روی شنکر نے مرتب کی تھی ۔یہ ایک زبردست فلم تھی جو باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔گئودان، کے بارے میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ 2004ء میں اس ناول کو شاعر اور ہدایت کار گلزار نے ٹی وی سکرین کی زینت بنایا اور یہ ٹی وی سیریز 26قسطوں پر محیط تھی۔اب ہم ایک ایسے ناول کا تذکرہ کر رہے ہیں جس پر بھارت میں د و اور پاکستان میں ایک فلم بنائی گئی یہ شاہکار ناول ہے’’امرائو جان ادا‘‘۔ اسے اردو کے کلاسیکی ادیب مرزا رسوا نے تخلیق کیا تھا اس ناول کی اہمیت اور شہرت آج تک برقرار ہے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ جن اداکارائوں نے’’ امرائو جان ادا‘‘ کا مشکل کردار ادا کیا انہیں بھی بہت شہرت ملی۔ ان اداکارائوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کردار کو ادا کیا۔ ان کی توصیف نہ کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی۔ سب سے پہلے 1973ء میں’’ امرائو جان ادا‘‘ بنائی گئی۔ حسن طارق کی ہدایت کاری بے مثال تھی۔ سیف الدین سیف کے انتہائی معیاری نغمات کو نثار بزمی نے اپنی دلکش دھنوں سے ایسا مزین کیا کہ شائقین فلم ہکا بکا رہ گئے۔مرکزی کردار رانی نے ادا کیا اور کیا خوب کیا ۔ فلم بینوں نے رانی پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ اس کے علاوہ شاہد، رنگیلا اور آغا طالش کی اداکاری کو بھی بے حد سراہا گیا۔اس کے علاوہ رونا لیلیٰ نے اپنی آواز کا وہ جادو جگایا کہ امرائو جان ادا کے نغمات ملک کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے خاص طور پر ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’کاٹے نہ کٹے رتیا‘‘،آج بھی سحر طاری کر دیتا ہے۔ فلم کا آخری نغمہ شائقین پر گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔اسے میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی آواز میں گایا تھا۔ اس گیت کی پکچرائزیشن بھی لاجواب تھی جس سے اس گیت کی تاثریت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس گیت کے بول تھے’’ جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آ گئے ہیں‘‘۔ اس فلم نے ناول کی طرح بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور فلمساز کو دولت کی بارش میں نہلا دیا۔ اسے رانی کی زندگی کی بہترین فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ہندوستان میں 80ء کی دہائی میں ’’امرائو جان ادا‘‘کے نام سے فلم بنائی گئی۔ اس فلم نے بھی بہت کامیابی حاصل کی ۔ہدایت کار مظفر علی نے بلاشبہ اس فلم پر بہت محنت کی ۔ریکھا ،فاروق شیخ، نصیر الدین شاہ اور راج ببر نے بہت عمدہ اداکاری کی۔ خیام کا میوزک بھی لاجواب تھا اور انہوں نے آشا بھوسلے سے بڑی شاندار غزلیں گوائیں جو آج تک فلم بین بہت پسند کرتے ہیں۔ امرائو جان ادا کی کہانی دراصل فطرت اور حالات کی ستم ظریفی سے جنم لینے والا وہ فلسفہ ہے جسے سمجھنا ہم انسانوں کے لیے ضروری ہے اس فلم کا یہ گیت تو فلم بینوں کو اشک بار کر دیتا ہے’’ یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے۔‘‘ اگرچہ اس فلم میں ریکھا نے اعلیٰ پائے کی اداکاری کی لیکن ان کی رائے میں پاکستانی اداکارہ رانی نے ان سے زیادہ اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔اب آخر میں ہم اپنے قارئین کی توجہ اردو کے ایک اور اہم ناول کی طرف مبذول کرائیں گے ۔یہ ناول ہے’’ اک چادر میلی سی‘‘۔ اسے راجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیا تھا۔راجندر سنگھ بیدی کی فنی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے وہ ایک باکمال افسانہ نگار اور شاندار ناول نویس تھے۔ جنہوں نے کئی فلموں کے سکرپٹ اورمکالمے لکھے۔سب سے پہلے پاکستان میں 1978ء میں اس ناول پر فلم بنائی گئی۔ جس کا نام تھا ’’مٹھی بھر چاول ‘‘اسے سنگیتا نے ڈائریکٹ کیا تھا اور انہوں نے اداکاری بھی غضب کی تھی۔ان کے علاوہ ندیم، غلام محی الدین ،کویتا، راحت کاظمی، شہلا گل اوررو مانہ نے بھی قابل تحسین اداکاری کا مظاہرہ کیا۔راجندر سنگھ بیدی نے اس بات پر بڑی مسرت کا اظہار کیا تھا کہ ان کے ناول پر پاکستان میں ایک معیاری فلم بنائی گئی ہے۔ باکس آفس پر اس فلم کا بزنس درمیانہ تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک شاندار فلم تھی۔غالباً 80ء کی دہائی کے آخر میں بھارت میں بھی اس ناول پر فلم بنائی گئی اور اس کا نام بھی ناول کے نام پر تھا، یعنی’’ اک چادر میلی سی‘‘ اس فلم میں رشی کپور، ہیما مالنی اور کلبشن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔اس فلم کو بھی بے حد سراہا گیا اور باکس آفس پر بھی اس کا بزنس مناسب تھا۔اس بات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اب اردو ناولوں پر فلمیں بنانے کا رجحان ناپید ہو چکا ہے اب فلمسازوں کی ترجیحات مختلف ہیں کمرشل ازم اور جدید ٹیکنالوجی نے اگرچہ فلم بینوں کو بہت اعلیٰ تفریح فراہم کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے بے رحم تازیانے نے پرانی اقدار کے بدن کو بری طرح گھائل کیا ہے اب اردو ناولوں پر کون فلمیں بنائے گا اور کیوں بنائے گا؟٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
گڈانی:تنہائی پسند ساحل

گڈانی:تنہائی پسند ساحل

ملک عزیز پاکستان بحری گزرگاہوں کے ذریعے دنیا سے منسلک ہے اور یوں سمندری تجارت پاکستان کی اہمیت میں اضافہ کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان میں سمندری سیاحت کو وہ مقام حاصل نہیں جیسا کہ دیگر ممالک میں ہے لیکن اگر بات کی جائے ساحلی علاقوں کی تو ان گنت مقامات اپنی خوبصورتی کے باعث عالمگیر شہرت کے حامل ہیں، لیکن سیاحوں کی آمد و رفت کم اور صرف ملکی سیاحوں تک محدود ہے۔ ساحل گڈانی کو دیکھ لیں‘جو ہے تو بلوچستان کا حصہ لیکن کراچی سے 50کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہونے کے باعث قریب ترین ساحل ہے جہاں با آسانی پہنچا جاسکتا ہے ۔گڈانی کا دلکش ساحل موسمِ گرما اور موسمِ سرما میں اپنی دلکش رعنائی سے سیاحوں کیلئے منفرد مقام ہے۔پاکستان میں چونکہ ساحلی سیاحت کیلئے موسمِ گرما کا انتخاب کیا جاتا ہے جس کی بڑی وجہ تعلیمی اداروں کی تعطیلات ہوتی ہیں ۔ساحل گڈانی پر مختلف تفریحی مقام ہیں جہاں ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں ، ساحلوں کے شوقین مہم جُو سیاح قریبی ساحل ،ڈگار زئی پہنچتے ہیں جو اپنی پہاڑیوں کے باعث مشہور ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پہاڑی ٹیلے نیلگوں پانی میں استادہ ہیں جہاں سمندر کی لہریں اٹکھیلیاں کرتی ہیں تو پانی کی اچھال دیکھ کر لطف آجاتا ہے۔ سیاح قریبی ٹیلوں پر بیٹھ کر فوٹوگرافی میں وہ لمحات قید کرتے ہیں اور پھر اگلی منزل پھوکارا کے ساحل پر پہنچتے ہیں ۔گڈانی کا یہ ساحل ایک پہاڑی ٹیلے کا تسلسل ہےجہاں ایک پہاڑ میں بنا سوراخ جو چٹان میں ہوا دان کی طرح ہے اور دوسری جانب اس کا راستہ پہاڑ کے نیچے دروازے کی مانند سمندر کی جانب کھلتا ہے ۔سمندر کی لہریں جب اس دروازے پر دستک دیتی ہیں تو ان کی گونج اس ہوا دان یعنی پہاڑ میں بنے دریچے سے پھونکار کی طرح گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ یہ ردھم سیاحوں کیلئے بڑی کشش کا باعث بنتا ہے۔ یہاں سمندری لہریں پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں جو اس مقام کی انفرادیت ہے۔اسی ساحل سے تھوڑے فاصلے پر سنگ مرمر ساحل ہے ۔یہ مقام ساحل اور پہاڑی سلسلے کا بہت خوبصورت سنگم ہے، یہاں بھی سیاحوں کی اکثریت آتی ہے۔ پہاڑیوں کی دلکشی اور لہروں کی تیزی ایسی ہے کہ جب لہریں ساحل سے ٹکراتی ہیں تو پانی بہہ کر 20،25 فٹ تک پھیل جاتا ہے اور اسی تیزی سے وہ پانی سمندر کی جانب واپس پلٹتا ہے۔ ان لہروں کی کشش سیاحوں کو پانی میں بھیگنے کیلئے اکساتی ہے۔ ایسے ساحلوں پر حفاظتی انتظامات ضروری ہیں ، سیاحوں کو بھی یہ بات سمجھنا چاہیے کہ وہ ایسے پُر خطر حصوں میں مہم جوئی میں احتیاط سے کام لیں۔گڈانی کے ساحلی حصوں میں پوشیدہ ایک ایسا ساحل بھی ہے جو چٹانی ہے اور ایڈونچر پسند سیاح ان چٹانوں میں اتر کر انہیں عبور کرکے ساحل کی لہروں کو چھو سکتے ہیں یوں یہ غار نما پہاڑی راستہ ساحل کے کنارے پہنچاتا ہے ۔یہ غار اس قدر ٹھنڈک فراہم کرتی ہے کہ تھکان کو دور کر دیتی ہے۔ اس مقام کی دلکشی ناقابلِ فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ بار بار آنے کی دعوتِ نظارہ بھی دیتی ہیں۔ موسمِ سرما میں آنے والے سیاح گڈانی کو مختلف انداز میں پاتے ہیں۔ اس وقت سمندر ان چٹانوں سے دوری اختیار کر لیتا ہے اور سمندر اور چٹانوں کے درمیان ساحل کی ریت آجاتی ہے جو آنے والے موسمِ گرما تک حدود قائم رکھتی ہے۔سفر کے آخر میں گڈانی کے اُس روپ کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے جو پاکستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہی ہے اور وہ ہے گڈانی شپ بریکنگ یارڈ۔ ایک زمانہ تھا کہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں جہاز کٹنے کیلئے آیا کرتے تھے، اب وہ تعداد بہت کم ہوچکی ہے، اس کمی کو دور کرنے کیلئے بین الاقوامی ماحولیاتی اور حفاظتی معیارات کو اپنایا جارہا ہے تاکہ گڈانی شپ یارڈ آنے والے وقتوں میں گرین یارڈ میں منتقل ہوسکے ان اقدامات سے ماحولیاتی آلودگی کم ہوگی اور مزدوروں کی صحت کو بھی تحفظ ملے گا۔گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کا شمار دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ اس کی کارکردگی کو دیکھا جائے تو اس کا شمار دنیا میں پہلے نمبر پر ہے 132 یارڈز پر مشتمل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سالانہ لاکھوں ٹن سٹیل فراہم کرتا ہے۔یوں گڈانی اپنی ان گنت خوبیوں کے باعث ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے ۔اس کے باوجود گڈانی ایک تنہائی پسند ساحل ہے جو صرف موسم گرما میں سیاحوں کے ساتھ گھل مل کر اپنی تنہائی دور کرتا ہے۔

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

کافی:روایت،رجحان اور ثقافت

دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔کافی کی حقیقت ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کی جنم بھومی سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی کہانی کو گوگل کریں تو آپ کو یہ مشہور قصہ ضرور ملے گا کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے بیر جیسے پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے گیا۔راہبوں نے اسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید بڑھ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادت اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کو اورومو/گالا (Oromo /Galla) خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کی تاریخ یمن سے کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ کہانیاں مشہور ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے ملتا جلتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔مگر عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے تھے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی ، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب تازہ دم رہنے میں مدد کرنے کیلئے مقبول ہوا۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا ۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھروں میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز میں بیٹھنا شروع کر دیا۔یوں کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی ہندوستان کیسے پہنچی؟ہندوستان میں بھی کافی کی داستان دلچسپ تاریخی روایتوں پر مبنی ہے۔ پندرہویں صدی میں کافی یمن کافی کی تجارت کا مرکز بن گیا اور وہاں سے یہ مشروب مکہ، مدینہ اور اسلامی سلطنت کے دیگر علاقوں میں پھیل گیا۔ہندوستان میں کافی کے داخلے کا سہرا صوفی بزرگ بابا بودن کے سر باندھا جاتا ہے، جن کا اصل نام حضرت شاہ جمال الدین تھا۔ روایت کے مطابق بابا بودن سترہویں صدی میں حج کی ادائیگی کیلئے گئے۔ اس زمانے میں عرب تاجروں نے کافی کے بیجوں کی برآمد پر سخت پابندی عائد کر رکھی تھی تاکہ اس کی کاشت دوسرے ملکوں میں نہ ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ بابا بودن نے یمن سے کافی کے سات بیج چپکے سے حاصل کیے اور انہیں اپنی کمر بند میں چھپا کر ہندوستان لے آئے۔واپسی پر بابا بودن نے یہ بیج جنوبی ہندوستان کے علاقے چکماگلور (کرناٹک) کی پہاڑیوں میں بو دیے۔ یہاں کا موسم اور زمین کافی کی کاشت کیلئے موزوں ثابت ہوئے یوں ہندوستان میں پہلی بار کافی کی فصل اگائی گئی۔اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران کافی کی تجارتی بنیادوں پر کاشت شروع ہوگئی۔ انگریزوں نے بڑے بڑے کافی سٹیٹس قائم کیے اور یہاں کی پیداوار کو عالمی منڈیوں تک پہنچایا۔ اگرچہ بعد میں چائے کو زیادہ فروغ ملا لیکن جنوبی ہندوستان میں کافی اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔کافی یورپ میںپھر کافی کی تاریخ کا رُخ بدلنا شروع ہوا۔ اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی اور17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ان کافی ہاؤسز میں لوگ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔دو سال بعد پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافت کا حصہ بن چکی تھی۔ کافی بحر اوقیانوس کے اُس پار ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607ء میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670ء میں، ڈوروتھی جونزبوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ لیکن چائے اب بھی امریکہ کے لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔امریکہ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726ء میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی ماحول تھا، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

کرسمس جنگ بندی 24 دسمبر 1914ء کو پہلی جنگِ عظیم کے دوران ایک غیر معمولی اور انسانی جذبوں سے بھرپور واقعہ پیش آیا جسے تاریخ میں کرسمس ٹروُس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یورپ کے مغربی محاذ پر برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی افواج ایک دوسرے کے آمنے سامنے خندقوں میں موجود تھیں۔ جنگ کے ابتدائی مہینوں میں شدید جانی نقصان کے بعد کرسمس کے موقع پر، خاص طور پر 24 دسمبر کی رات، جرمن خندقوں سے کرسمس کے گیت گونجنے لگے۔25 دسمبر تک کئی مقامات پر دونوں جانب کے سپاہی خندقوں سے نکل آئے، ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا، سگریٹ، چاکلیٹ اور تحائف کا تبادلہ کیا۔ معاہدہ گینٹ پر دستخط 24 دسمبر 1814ء کو بلجیم کے شہر گینٹ میں ایک اہم سفارتی معاہدہ طے پایا جس نے امریکہ اور برطانیہ کے درمیان 1812ء کی جنگ کا خاتمہ کر دیا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے جنگ سے پہلے کی سرحدی حیثیت بحال کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ مستقبل میں دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی بنیاد بنا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت مواصلاتی نظام سست ہونے کے باعث معاہدے پر دستخط کے بعد بھی چند ہفتوں تک لڑائی جاری رہی اور جنوری 1815ء میں نیو اورلینز کی جنگ لڑی گئی حالانکہ جنگ باضابطہ طور پر ختم ہو چکی تھی۔ سوویت یونین کا افغانستان پر حملہ24 دسمبر 1979ء کو سوویت یونین نے افغانستان میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا۔ اسی دن سوویت افواج افغانستان میں داخل ہوئیں اور چند روز بعد کابل پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا گیا۔اس حملے کے نتیجے میں افغان حکومت کے صدر حفیظ اللہ امین کو ہٹا کر ببرک کارمل کو اقتدار میں لایا گیا۔ سوویت مداخلت کے خلاف افغانستان میں شدید مزاحمت شروع ہوئی جسے بعد ازاں جہاد کے نام سے جانا گیا۔یہ جنگ تقریباً دس سال تک جاری رہی بالآخر 1989ء میں سوویت افواج افغانستان سے واپس چلی گئیں۔ یہ مداخلت نہ صرف افغانستان بلکہ عالمی سیاست، سرد جنگ اور بعد ازاں سوویت یونین کے زوال پر بھی گہرے اثرات چھوڑ گئی۔ لیبیا کی آزادی24 دسمبر 1951ء کو لیبیا باضابطہ طور پر ایک آزاد ریاست بن گیا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد لیبیا اطالوی نوآبادیات سے نکل کر برطانوی اور فرانسیسی انتظام کے تحت آ گیا تھا۔ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں ایک طویل سیاسی عمل کے بعد آزادی کا راستہ ہموار ہوا۔آزادی کے اعلان کے ساتھ ہی شاہ ادریس السنوسی کو لیبیا کا پہلا بادشاہ مقرر کیا گیا۔ اپالو 8 کا کرسمس ایو مشن24 دسمبر 1968ء کو امریکی خلائی مشن اپالو 8 نے ایک تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ یہ پہلا انسانی خلائی مشن تھا جس نے زمین کے مدار سے نکل کر چاند کے گرد چکر لگایا۔ اسی دن اپالو 8 کے خلا بازوں فرینک بورمن، جم لوول اور ولیم اینڈرزنے چاند کے مدار سے زمین پر براہِ راست نشریات کیں۔اس دوران خلا بازوں نے زمین کے طلوع کا تاریخی منظر دکھایا اور بائبل کی کتاب پیدائش کی ابتدائی آیات تلاوت کیں، جس نے دنیا بھر کے کروڑوں ناظرین کو جذباتی طور پر متاثر کیا۔

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

گریٹ ٹرگنو میٹریکل سروے:برصغیر کے طویل و عرض کو نا پنے کا عظیم منصوبہ

انیسویں صدی کے شروع میں جب برصغیر کی دھرتی ابھی جدید نقشوں سے ناواقف تھی، چند پُر عزم لوگوں نے ایک ایسا خواب دیکھا جو بظاہر ناممکن دکھائی دیتا تھا۔زمین کو ناپنے، پہاڑوں کو اعداد کی شناخت عطا کرنے اور فاصلوں کو زاویوں کی زبان میں سمجھنے کا یہ خواب بہتوں کے لیے اجنبی تھا۔اسی خواب نے ہندوستان کے عظیم مثلثی سروے(The Great Trigonometrical Survey of India) کو عملی شکل دی ،جو نہ صرف برصغیر بلکہ انسانی تاریخ کے طویل ترین اور پیچیدہ سائنسی منصوبوں میں شمار ہوتا ہے۔یہ کوئی عام سروے نہیں تھا، یہ ایک ایسی مہم جوئی تھی جو دلدلوں، صحراؤں، جنگلوں اور برف پوش پہاڑوں کو ناپنے کے لیے تقریباً سات دہائیوں تک جاری رہی۔ اس سفر میں انسان نے فطرت کو للکارا نہیں بلکہ اسے سمجھنے کی کوشش کی۔ایک خیال، ایک آغازگریٹ سروے کاِ آغاز 1802ء میں ہوا جب برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے محسوس کیا کہ مؤثر حکمرانی، فوجی نقل و حرکت، ٹیکس وصولی اور وسائل کے استعمال کے لیے درست نقشوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس منصوبے کی بنیاد کرنل ولیم لیمبٹن (William Lambton) نے رکھی جو ایک برطانوی فوجی افسر اور ماہرِ فلکیات تھے۔ لیمبٹن کے لیے یہ محض ایک سرکاری ذمہ داری نہیں تھی بلکہ ایک سائنسی جنون تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر ایک درست بنیاد (Baseline) قائم ہو جائے تو زاویوں کی مدد سے ہزاروں میل کے فاصلے ناپے جا سکتے ہیں۔ عظیم مثلثی سروے کا بنیادی طریقہ مثلثی پیمائش (Triangulation) تھا۔ اس طریقے میں زمین کے ایک خطے میں ایک سیدھی بنیاد (Baseline) ناپی جاتی پھر اس بنیاد سے مختلف زاویوں کے ذریعے دور دراز مقامات کے درمیان فاصلوں کا حساب لگایا جاتا۔ اس مقصد کے لیے اُس وقت کے جدید ترین آلات استعمال کیے گئے، جن میں تھیوڈو لائٹ (Theodolite)،فلکیاتی آلات،دوربینیں اور پیمائشی زنجیریں شامل تھیں۔ یہ آلات اُس دور میں خاصے جدید سمجھے جاتے تھے۔ خاص طور پر گریٹ تھیوڈولائٹ جس کا وزن سینکڑوں کلوگرام تھا نہایت دقت کے ساتھ زاویوں کی پیمائش کے لیے استعمال کیا گیا۔بھاری بھرکم تھیوڈولائٹ کو کندھوں پر اٹھائے سروے ٹیمیں میلوں سفر کرتیں۔ یہ آلہ اتنا وزنی تھا کہ کئی آدمی مل کر اسے حرکت دیتے۔ سورج کی تپش، بارش کی شدت اور وباؤں کو جھیلتے ہوئے یہ لوگ زاویے ناپتے، حساب لگاتے اور اعداد کو کاغذوں پر منتقل کرتے رہے۔یہ وہ دور تھا جب ملیریا، ہیضہ اور کئی نامعلوم بیماریوں نے سینکڑوں جانیں لیں مگر سروے کا سفر نہ رکا۔ لیمبٹن خود بھی اسی مشقت کا شکار ہو کر دنیا سے رخصت ہو ئے، مگر اُن کا خواب زندہ رہا۔ایورسٹ اور بلندیوں کی کہانیلیمبٹن کے بعد یہ مشن سر جارج ایورسٹ کے ہاتھ آیا جن کا نام آج دنیا کی سب سے بلند چوٹی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کے دور میں سروے شمال کی طرف بڑھا جہاں ہمالیہ کی خاموش اور پراسرار چوٹیاں انسانی صلاحیتوں کو چیلنج کرتی تھیں۔ایورسٹ کے جانشین اینڈریو واہ (Andrew Scott Waugh)نے ان پہاڑوں کو صرف دیکھا نہیں بلکہ ناپا بھی۔ انہی کی نگرانی میں دنیا کی بلند ترین چوٹی کو پہلی بار درست طور پر ماپا گیا جو بعد میں ماؤنٹ ایورسٹ کہلائی۔گمنام ہیرواس عظیم منصوبے کی تاریخ میں چند انگریز نام نمایاں ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں مقامی ہندوستانی اور پاکستان کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس مشن کا حصہ تھے۔ نقشہ نویس، حساب دان، قلی، رہنما اور مزدور ‘ جنہوں نے اس علم کی عمارت میں اپنی محنت کی اینٹیں رکھیں مگر تاریخ ان کے نام محفوظ نہ رکھ سکی۔پاکستان کیلئے گریٹ سروے کی معنویتاگر آج ہم پاکستان کے نقشے کو دیکھتے ہیں تو اس کے پیچھے گریٹ سروے کی خاموش موجودگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جو سرحدیں متعین ہوئیں ان کے جغرافیائی نکات اسی سروے سے ماخوذ تھے۔ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں کی حد بندیاں انہی پیمائشوں پر قائم ہیں۔دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کی جس تفصیل نے پاکستان کو ایک زرعی ریاست بنایا اس کی ابتدائی سائنسی بنیاد اسی سروے نے رکھی۔آج بھی عسکری نقشہ سازی، بلندیوں کی پیمائش اور زمینی معلومات میں وہی اصول استعمال ہوتے ہیں جو گریٹ سروے نے متعارف کروائے تھے۔ سڑکیں، ریلوے لائنیں اور شہر سب اسی جغرافیائی شعور کے مرہونِ منت ہیں جو عظیم مثلثی سروے سے جنم لے کر آج تک جاری ہے۔گریٹ سروے محض زمین ناپنے کا منصوبہ نہیں تھا یہ انسانی حوصلے، سائنسی دیانت اور وقت کے خلاف جدوجہد کی داستان ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد نوآبادیاتی حکمرانی کو مضبوط کرنا تھا مگر اس نے ایسے علمی خزانے چھوڑے جو آج بھی پاکستان جیسے ممالک کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔گریٹ سروے محض ایک نوآبادیاتی منصوبہ نہیں تھا بلکہ یہ سائنس، صبر اور انسانی محنت کی ایک عظیم مثال ہے۔ اگرچہ اس کا مقصد برطانوی انتظامی مفادات تھا لیکن اس کے نتائج آج بھی پاکستان سمیت پورے خطے کے لیے نہایت اہم ہیں۔ یہ سروے ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ درست علم، تحقیق اور منصوبہ بندی قوموں کی جغرافیائی اور تاریخی شناخت کو کس طرح تشکیل دیتی ہے۔

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025مصنوعی ذہانت کا سال

2025ء کو مصنوعی ذہانت (AI) کے عالمی اثرات کے حوالے سے ایک اہم موڑ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ سال وہ مرحلہ ثابت ہوا جب اے آئی محض ایک جدید ٹیکنالوجی نہیں رہی بلکہ انسانی زندگی، معیشت، تعلیم، صحت اور حکمرانی کے نظام کا لازمی حصہ بن گئی۔ جس رفتار سے اے آئی نے ترقی کی اس نے نہ صرف دنیا کو متاثر کیا بلکہ روایتی ڈھانچوں کو بھی چیلنج کر دیا۔2025ء میں عام انسان کی روزمرہ زندگی اے آئی سے گہری وابستگی اختیار کر چکی ہے۔ سمارٹ فونز، گھریلو آلات، گاڑیاں اور حتیٰ کہ ذاتی معاون (Personal Assistants) بھی مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے لگے۔ آواز سے چلنے والے اسسٹنٹس، خودکار نظام الاوقات، صحت کی نگرانی کرنے والی ایپس اور مالی مشورے دینے والے چیٹ بوٹس نے انسانی سہولتوں میں نمایاں اضافہ کیا۔ اے آئی نے وقت کی بچت، درست فیصلوں اور بہتر معیارِ زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔تعلیم میں انقلابی تبدیلیتعلیمی شعبے میں 2025ء کے دوران اے آئی نے انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔ ذاتی نوعیت کے تعلیمی نظام (Personalized Learning) نے ہر طالب علم کی استعداد کے مطابق نصاب اور رفتار کو ممکن بنایا۔ آن لائن اساتذہ، خودکار اسائنمنٹ چیکنگ، ترجمہ اور تحقیقی معاونت نے تعلیم کو زیادہ قابلِ رسائی بنا دیا۔ تاہم اس کے ساتھ یہ سوال بھی اٹھا کہ کیا طلبہ کی تخلیقی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے اور اساتذہ کا کردار محدود تو نہیں ہو رہا؟معیشت اور روزگار2025ء میں عالمی معیشت پر اے آئی کے اثرات دو دھاری تلوار ثابت ہوئے۔ ایک جانب پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوا، صنعتیں زیادہ مؤثر ہوئیں اور نئے کاروباری مواقع پیدا ہوئے۔ دوسری جانب روایتی ملازمتیں، خصوصاً دفتری اور تکنیکی شعبوں میں، خطرے میں پڑ گئیں۔ ڈیٹا اینالسٹ، اے آئی ٹرینر، سائبر سیکیورٹی ماہر اور روبوٹکس انجینئر جیسے نئے پیشے ابھرے جبکہ غیر ہنر مند افراد کے لیے خدشات میں اضافہ ہوا۔صحت کے شعبے میں انقلابطبی میدان میں اے آئی نے 2025ء میں غیر معمولی پیش رفت دکھائی۔ بیماریوں کی بروقت تشخیص، کینسر اور دل کے امراض کی پیش گوئی، روبوٹک سرجری اور ذہنی صحت کے معاون ٹولز نے علاج کو مؤثر بنایا۔ دیہی اور دور دراز علاقوں میں ٹیلی میڈیسن کے ذریعے علاج ممکن ہوا۔ تاہم مریضوں کے ڈیٹا کی رازداری اور اخلاقی حدود ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آئیں۔حکمرانی، دفاع اور نگرانیحکومتی سطح پر اے آئی کا استعمال نگرانی، ٹیکس نظام، ٹریفک کنٹرول اور عوامی خدمات میں بڑھا۔ دفاعی شعبے میں خودکار ہتھیاروں اور ڈرون ٹیکنالوجی نے عالمی سلامتی کے توازن کو متاثر کیا۔ کئی ممالک نے اے آئی کے فوجی استعمال کو محدود کرنے کے لیے بین الاقوامی قوانین پر زور دیا، مگر مکمل اتفاق رائے حاصل نہ ہو سکا۔اخلاقی اور سماجی چیلنجز2025ء میں سب سے بڑا سوال یہ رہا کہ کیا مصنوعی ذہانت انسان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے یا خطرہ؟ ڈیٹا پر اجارہ داری، انسانی ملازمتوں کا خاتمہ، تعصبات پر مبنی الگورتھمز اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں سنگین مسائل کے طور پر سامنے آئیں۔ دنیا بھر میں یہ بحث شدت اختیار کر گئی کہ اے آئی کو کس حد تک آزادی دی جائے اور اس کی نگرانی کون کرے۔آنے والے سالوں میں ممکنہ تبدیلیاںآنے والے برسوں میں توقع ہے کہ اے آئی مزید خودمختار، تیز اور ذہین ہو جائے گی۔ انسانی اور مشینی ذہانت کا امتزاج (Human-AI collaboration) بڑھنے کا امکان ہے۔ تعلیم اورصحت میں انسان کا کردار ختم نہیں ہوگا بلکہ اس کی نوعیت تبدیل ہو جائے گی۔ حکومتیں سخت قوانین، اخلاقی فریم ورک اور شفاف نظام متعارف کرائیں گی تاکہ اے آئی کو انسانی فلاح کے لیے استعمال کیا جا سکے۔2025ء میں مصنوعی ذہانت نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا مگر یہ تبدیلی ابھی اختتام پذیر نہیں ہوئی۔ اصل امتحان آنے والے سالوں میں ہوگا کہ انسان اس طاقتور ٹیکنالوجی کو کس سمت میں لے جاتا ہے۔ اگر دانشمندی، اخلاقیات اور مساوات کو مدنظر رکھا گیا تو اے آئی انسانیت کے لیے ترقی کا ذریعہ بن سکتی ہے، بصورت دیگر یہ نیا بحران بھی جنم دے سکتی۔

آج کا دن

آج کا دن

فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط 23 دسمبر 1913 ء کو امریکہ کے صدر ووڈرو ولسن نے فیڈرل ریزرو ایکٹ پر دستخط کیے جس کے نتیجے میں فیڈرل ریزرو سسٹم قائم ہوا۔ یہ ایکٹ امریکہ کا مرکزی بینک بنانے والا قانونی فریم ورک تھا جس کا مقصد ملکی مالیاتی نظام کو مستحکم کرنا، بینکنگ بحرانوں کو روکنا، اور معیشت میں پیسے کے بہاؤ کو منظم کرنا تھا۔ فیڈرل ریزرو سسٹم کی تشکیل اس وقت کے عالمی اقتصادی منظرنامے میں ایک اہم قدم تھا۔ 1907ء کے مالیاتی بحران کے دوران امریکی مالیاتی نظام میں شدید بے قاعدگیاں سامنے آئیں جس نے قانون سازوں کو مجبور کیا کہ وہ ایک مضبوط اور مرکزیت والا انتظامی نظام قائم کریں جو مالیاتی لیکویڈیٹی فراہم کرے اور بینکنگ سیکٹر پر اعتماد بحال کرے۔ وییک آئی لینڈپر سرینڈر 23 دسمبر 1941ء کو دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکی اور جاپانی افواج کے درمیان ایک اہم معرکہ ہوا۔ جاپانی افواج نے وییک آئی لینڈ پر حملہ کیا۔ ابتدائی دنوں تک امریکی افواج نے مقابلہ کیا لیکن جاپانی افواج کے دباؤ اور تعداد میں برتری کے باعث امریکی افواج نے شکست تسلیم کرلی اور جزیرے کاقبضہ جاپانیوں کے ہاتھ آگیا۔ وییک آئی لینڈ کی لڑائی بحرالکاہل میں جاپانی پیش قدمی کا حصہ تھی۔وییک آئی لینڈ پر 11 دسمبر سے لڑائی شروع ہوئی اور 23 دسمبر کو امریکی دستے مجبور ہوئے کہ وہ روایتی فوجی اصولوں کے تحت سرینڈر کر دیں۔ ٹرانزسٹر کا مظاہرہ 23 دسمبر 1947ء کو امریکی سائنسدانوں جان بارڈین، والٹر بریٹن، اور ولیم شاکلے نے ٹرانزسٹر کا مظاہرہ کیا جو آج کے تمام الیکٹرانک آلات کا بنیادی جزو ہے۔ٹرانزسٹر ایک چھوٹا سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز کو بڑھاتا یا سوئچ کرتا ہے جس نے الیکٹرانکس میں انقلاب برپا کر دیا۔ ٹرانزسٹر سے پہلے الیکٹرانک آلات میں ویکیوم ٹیوبز استعمال ہوتی تھیں جو بڑی، بھاری اور کم مؤثر تھیں۔ اس دریافت نے جدید الیکٹرانکس کو جنم دیا اور کمپیوٹر، موبائل فون، ٹی وی اور دیگر ہزاروں آلات کی ترقی کی راہ ہموار کی اورالیکٹرانکس کا سائز چھوٹا ہوا۔ تینوں سائنسدانوں کو 1956ء میں نوبل انعام برائے طبیعیات دیا گیا۔ نیپال میں بادشاہت کا خاتمہ 23 دسمبر 2007ء کو نیپال نے بادشاہت کے نظام کو ختم کر کے وفاقی جمہوریہ کا اعلان کیا۔ نیپال کی بادشاہت نہ صرف روایتی طور پر طویل عرصے تک قائم رہی بلکہ اس نے ملک کی سیاست، سماجی ڈھانچے اور قومی شناخت پر گہرے اثرات بھی چھوڑے۔تاہم 1990ء کی دہائی میں جمہوری تحریک نے بادشاہت کے خلاف آواز بلند کی جس کے بعد 2006ء میں بھی ایک وسیع عوامی تحریک نے بادشاہت کو کمزور کر دیا۔آخر کار 2007 میں باقاعدہ طور پر اعلان ہوا کہ نیپال اب بادشاہت نہیں بلکہ ایک جمہوری ریاست کے طور پر مستقبل کی سمت طے کرے گا۔