جب اردو ناولوں کو فلموں میں ڈھالا گیا
اسپیشل فیچر
ایسی فلموں کی کامیابی کا تناسب 80فیصد رہا، اب یہ رجحان بھی ختم ہوا*****ہندوستان اور پاکستان میں اردو ناولوں پر بڑی شاندار فلمیں بنائی گئیں ۔یہ الگ بات کہ ہندوستان میں کم اور پاکستان میں زیادہ فلمیں بنائی گئیں ۔اردو کے دو ناول ایسے ہیں جن پر ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں فلمیں بنائی گئیں اور دونوں ممالک میں ان فلموں نے عدیم النظیر کامیابی حاصل کی۔رضیہ بٹ اور عصمت چغتائی دو ایسی خواتین ناول نگار تھیں ۔جن کے دو دو ناولوں کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا پہلے ہم رضیہ بٹ کے ناولوں پر بات کرتے ہیں۔ رضیہ بٹ پاکستان کی مشہور ترین خاتون ناول نویس تھیں۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد ان کے ناول پڑھتی تھی اور آج بھی ان کے ریڈرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے مداحین کا حلقہ بہت وسیع تھا۔ 1965ء میں ان کے ناول ’’نائلہ‘‘ پر فلم بنائی گئیں ، فلم کا نام بھی ’’نائلہ‘ ‘تھا۔ اس فلم کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ یہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھیں۔اس فلم کے ہدایت کار شریف نیر تھے جبکہ موسیقی ماسٹر عنایت حسین نے ترتیب دی تھی۔یہ ایک نہایت خوبصورت رومانوی فلم تھی جس نے خاص طور پر خواتین کو بہت متاثر کیا۔ سنتوش کمار، درپن، شمیم آرا اور راگنی کی اداکاری کو بے حد پسند کیا گیا۔ قتیل شفائی اور حمایت علی شاعر کے نغمات زبان زدعام ہوئے ۔خاص طور پر یہ گیت بہت مقبول ہوئے۔’’ اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی، اور تڑپنا بھی ہمیں آتا ہے تڑپانا بھی آتا ہے۔‘‘اس فلم کی ریلیز کے بعد اس ناول کی شہرت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ غالباً چار یا پانچ برس بعد رضیہ بٹ کے ایک اور معروف ناول’’ صاعقہ ‘‘کو فلمی سکرین کی زینت بنایا گیا یہ فلم بھی باکس آفس پر بے حد کامیاب ہوئی۔ ’’نائلہ اور صاعقہ‘‘ دونوں فلموں میں شمیم آرا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا اور یادگار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔دونوں ناولوں میں ہیروئن ایک مظلوم لڑکی کے روپ میں قارئین کے سامنے آتی ہے جس طرح قارئین کی ہمدردیاں ناول کے مرکزی کردار کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ اسی طرح شمیم آرا نے فلم بینوں کی ہمدردیاں سمیٹیں۔’’صاعقہ‘‘ کی موسیقی بے مثل موسیقار نثار بزمی نے مرتب کی تھی اور اس فلم کے نغمات بھی بڑے مسحور کن تھے ۔یہ دو نغمات لاجواب تھے،’’ اک ستم اور میری جاں ابھی جاں باقی ہے، اور اے بہارو گواہ رہنا۔‘‘ شمیم آرا کے علاوہ اس فلم میں محمد علی نے بھی متاثر کن اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ رضیہ بٹ کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے مڈل اور اپر مڈل کلاس کی لڑکیوں کے مسائل کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ناولوں میں اجاگر کیا۔ انانیت کے خول میں بند رہنے والے لوگ کس طرح پورے خاندان کے لیے عذاب بن جاتے ہیں انہوں نے اس تلخ حقیقت کو بھی اپنے موضوعات کا حصہ بنایا۔ انہوں نے اپنے ناولوں میں یہی پیغام دیا کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے اور اپنی بے جا ضد اور انا کی آڑ میں اس کے احساسات اور جذبات کا خون نہ کیا جائے ۔عصمت چغتائی کا شمار برصغیر کی ممتاز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ انہوں نے کچھ ناول بھی تخلیق کئے جن میں’’ ضدی،سودائی اور ٹیڑھی لکیر ‘‘خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں’’ضدی اور سودائی‘‘ کو سلولائیڈ کے فیتے پر منتقل کیا گیا ۔’ضدی‘‘ کوئی ضخیم ناول نہیں، کچھ لوگ اسے ناولٹ کی حیثیت دیتے ہیں، اس ناول پر 1948ء میں فلم بنائی گئی اور فلم کا نام بھی یہی تھا۔ ناول کی طرح فلم ضدی، بھی عوام کی توجہ کا مرکز بنی، اس فلم میں کامنی کوشل اور دیو آنند نے مرکزی کردار ادا کئے۔کہا جاتا ہے کہ اس فلم کی ریلیز کے بعد اخبارات میں یہ اشتہار شائع ہوتا تھا کہ جن لوگوں نے ’ضدی ‘دیکھی ہے وہ یہ بتائیں کہ اس فلم میں سب سے زیادہ ضدی کون ہے……؟ناول میں یہی دکھایا گیا کہ فلم کے سبھی کردار ضدی ہیں ۔عصمت چغتائی بڑی بے باک ،دبنگ اور راست گو ادیبہ تھیں۔ انہوں نے اس ناول میں عورتوں کی نفسیات کے حوالے سے بھی بڑی جرات مندی سے یہ کہا کہ عورت کی ذات بڑی ڈھکوسلے باز ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے ناول ’’سودائی‘‘ پر پاکستان میں ’’ضمیر ‘‘نامی فلم بنائی گئی یہ فلم 1978ء میں ریلیز ہوئی۔ اس میں محمد علی، دیبا، روحی بانو اور وحید مراد نے اہم کردار ادا کیے۔ ناول کا مرکزی خیال یہ تھاکہ کسی کو دیوتا نہیں بنانا چاہیے اور اگر کسی کو یہ درجہ دے دیا جائے تو یہ فیصلہ صادر نہ کریں کہ وہ دیوتا اپنی فطری خواہشات اور ضروریات کو بھی کچل ڈالے کیونکہ بہرحال وہ انسان ہے جو فطرت کے دائرے سے باہر نکل ہی نہیں سکتا۔اس فلم میں محمد علی اور روحی بانو کی اداکاری کو بہت سراہا گیا محمد علی نے بڑے بھیا کا کردار انتہائی عمدگی سے ادا کیا شاید انہیں خود بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس کردار کے لیے ان کا انتخاب کس قدر درست فیصلہ تھا ۔اس فلم کا ایک گیت بڑا ہٹ ہوا’’ ہم نہ ہوں گے تو ہمیں یاد کرے گی دنیا‘‘، اس فلم نے باکس آفس پر درمیانے درجے کا بزنس کیا۔1972ء میں حمیدہ جبیں کے مقبول ناول’’تمنا‘‘کو’’ محبت‘‘ کے نام سے فلمی سکرین پر منتقل کیا گیا۔اس فلم کے ہدایت کار ایس سلیمان تھے مرکزی کردار محمد علی ،زیبا، صبیحہ خانم اور سنتوش کمار نے ادا کیے تھے یہ ایک کامیاب فلم تھی ۔جس کی موسیقی نثار بزمی نے ترتیب دی تھی جبکہ نغمات قتیل شفائی نے لکھے تھے ۔اس فلم میں زیبا کی اداکاری کو بہت زیادہ پسند کیا گیا۔اس کے علاوہ نوخیز اداکارہ عندلیب نے بھی فلم بینوں کو متاثر کیا۔ عندلیب نے بعدازاں کچھ فلموں میں کام کیا لیکن پھر وہ نظر نہیں آئیں۔فلم’’محبت‘‘ کی موسیقی اعلیٰ درجے کی تھی۔یہ دو گیت تو بڑے ہی باکمال تھے ’’یہ محفل جو آج سجی ہے، اور بانورا من ایسے دھڑکا نہ تھا‘‘۔ اس کے علاوہ مہدی حسن کی آواز میں احمد فراز کی اس غزل نے تو فلم کو چار چاند لگا دیے’’ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ۔‘‘حمیدہ جبیں کے دیگر دو ناولوں پر بھی فلمیں بنائی گئیں یہ دو فلمیں تھیں ’’پرائی آگ اور سہاگ‘‘۔ یہ معیاری فلمیں تھیں لیکن باکس آفس پر زیادہ کامیابی حاصل نہ کر سکیں۔ پریم چند کا شمار اردو کے بڑے ادیبوں میں ہوتا ہے وہ نہ صرف بہت عمدہ افسانہ نگار تھے بلکہ اعلیٰ درجے کے ناول نویس بھی تھے ان کے مشہور ترین ناولوں میں نرملا،بیوہ اور گئودان کے نام لئے جا سکتے ہیں۔1963ء میں بھارت میں ان کے ناول’’ گئودان‘‘ پر فلم بنائی گئی۔’’گئودان‘‘ کا شمار ہندوستان کے عظیم ترین ناولوں میں کیا جاتا ہے۔ اس فلم میں راج کمار محمود اورششی کلا نے اہم کردار ادا کیے تھے۔ ہدایت کار ترلوک جیٹلی کی اس فلم کی موسیقی روی شنکر نے مرتب کی تھی ۔یہ ایک زبردست فلم تھی جو باکس آفس پر بھی کامیاب رہی۔گئودان، کے بارے میں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ 2004ء میں اس ناول کو شاعر اور ہدایت کار گلزار نے ٹی وی سکرین کی زینت بنایا اور یہ ٹی وی سیریز 26قسطوں پر محیط تھی۔اب ہم ایک ایسے ناول کا تذکرہ کر رہے ہیں جس پر بھارت میں د و اور پاکستان میں ایک فلم بنائی گئی یہ شاہکار ناول ہے’’امرائو جان ادا‘‘۔ اسے اردو کے کلاسیکی ادیب مرزا رسوا نے تخلیق کیا تھا اس ناول کی اہمیت اور شہرت آج تک برقرار ہے یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ جن اداکارائوں نے’’ امرائو جان ادا‘‘ کا مشکل کردار ادا کیا انہیں بھی بہت شہرت ملی۔ ان اداکارائوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے اس کردار کو ادا کیا۔ ان کی توصیف نہ کرنا صریحاً ناانصافی ہو گی۔ سب سے پہلے 1973ء میں’’ امرائو جان ادا‘‘ بنائی گئی۔ حسن طارق کی ہدایت کاری بے مثال تھی۔ سیف الدین سیف کے انتہائی معیاری نغمات کو نثار بزمی نے اپنی دلکش دھنوں سے ایسا مزین کیا کہ شائقین فلم ہکا بکا رہ گئے۔مرکزی کردار رانی نے ادا کیا اور کیا خوب کیا ۔ فلم بینوں نے رانی پر دادو تحسین کے ڈونگرے برسائے۔ اس کے علاوہ شاہد، رنگیلا اور آغا طالش کی اداکاری کو بھی بے حد سراہا گیا۔اس کے علاوہ رونا لیلیٰ نے اپنی آواز کا وہ جادو جگایا کہ امرائو جان ادا کے نغمات ملک کے گلی کوچوں میں گونجنے لگے خاص طور پر ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’کاٹے نہ کٹے رتیا‘‘،آج بھی سحر طاری کر دیتا ہے۔ فلم کا آخری نغمہ شائقین پر گہرا تاثر چھوڑتا ہے۔اسے میڈم نور جہاں نے اپنی لافانی آواز میں گایا تھا۔ اس گیت کی پکچرائزیشن بھی لاجواب تھی جس سے اس گیت کی تاثریت میں مزید اضافہ ہو گیا۔ اس گیت کے بول تھے’’ جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آ گئے ہیں‘‘۔ اس فلم نے ناول کی طرح بے پناہ مقبولیت حاصل کی اور فلمساز کو دولت کی بارش میں نہلا دیا۔ اسے رانی کی زندگی کی بہترین فلم قرار دیا جا سکتا ہے۔ہندوستان میں 80ء کی دہائی میں ’’امرائو جان ادا‘‘کے نام سے فلم بنائی گئی۔ اس فلم نے بھی بہت کامیابی حاصل کی ۔ہدایت کار مظفر علی نے بلاشبہ اس فلم پر بہت محنت کی ۔ریکھا ،فاروق شیخ، نصیر الدین شاہ اور راج ببر نے بہت عمدہ اداکاری کی۔ خیام کا میوزک بھی لاجواب تھا اور انہوں نے آشا بھوسلے سے بڑی شاندار غزلیں گوائیں جو آج تک فلم بین بہت پسند کرتے ہیں۔ امرائو جان ادا کی کہانی دراصل فطرت اور حالات کی ستم ظریفی سے جنم لینے والا وہ فلسفہ ہے جسے سمجھنا ہم انسانوں کے لیے ضروری ہے اس فلم کا یہ گیت تو فلم بینوں کو اشک بار کر دیتا ہے’’ یہ کیا جگہ ہے دوستو! یہ کون سا دیار ہے۔‘‘ اگرچہ اس فلم میں ریکھا نے اعلیٰ پائے کی اداکاری کی لیکن ان کی رائے میں پاکستانی اداکارہ رانی نے ان سے زیادہ اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا۔اب آخر میں ہم اپنے قارئین کی توجہ اردو کے ایک اور اہم ناول کی طرف مبذول کرائیں گے ۔یہ ناول ہے’’ اک چادر میلی سی‘‘۔ اسے راجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیا تھا۔راجندر سنگھ بیدی کی فنی عظمت سے کون انکار کر سکتا ہے وہ ایک باکمال افسانہ نگار اور شاندار ناول نویس تھے۔ جنہوں نے کئی فلموں کے سکرپٹ اورمکالمے لکھے۔سب سے پہلے پاکستان میں 1978ء میں اس ناول پر فلم بنائی گئی۔ جس کا نام تھا ’’مٹھی بھر چاول ‘‘اسے سنگیتا نے ڈائریکٹ کیا تھا اور انہوں نے اداکاری بھی غضب کی تھی۔ان کے علاوہ ندیم، غلام محی الدین ،کویتا، راحت کاظمی، شہلا گل اوررو مانہ نے بھی قابل تحسین اداکاری کا مظاہرہ کیا۔راجندر سنگھ بیدی نے اس بات پر بڑی مسرت کا اظہار کیا تھا کہ ان کے ناول پر پاکستان میں ایک معیاری فلم بنائی گئی ہے۔ باکس آفس پر اس فلم کا بزنس درمیانہ تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک شاندار فلم تھی۔غالباً 80ء کی دہائی کے آخر میں بھارت میں بھی اس ناول پر فلم بنائی گئی اور اس کا نام بھی ناول کے نام پر تھا، یعنی’’ اک چادر میلی سی‘‘ اس فلم میں رشی کپور، ہیما مالنی اور کلبشن نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔اس فلم کو بھی بے حد سراہا گیا اور باکس آفس پر بھی اس کا بزنس مناسب تھا۔اس بات پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کہ اب اردو ناولوں پر فلمیں بنانے کا رجحان ناپید ہو چکا ہے اب فلمسازوں کی ترجیحات مختلف ہیں کمرشل ازم اور جدید ٹیکنالوجی نے اگرچہ فلم بینوں کو بہت اعلیٰ تفریح فراہم کی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے بے رحم تازیانے نے پرانی اقدار کے بدن کو بری طرح گھائل کیا ہے اب اردو ناولوں پر کون فلمیں بنائے گا اور کیوں بنائے گا؟٭…٭…٭