انور کمال پاشا…پاکستانی فلمی صنعت کے محسنِ اعظم

انور کمال پاشا…پاکستانی فلمی صنعت کے محسنِ اعظم

اسپیشل فیچر

تحریر : عبدالحفیظ ظفر


گزشتہ کئی عشروں سے ہمارے علمی و ادبی حلقوں میں جب یہ موضوع زیر بحث آتا تھا کہ آخر پاکستانی فلمی صنعت کے انحطاط اور زوال کے اسباب کیا ہیں تو پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی تھی کہ فلمی صنعت پر شروع سے ہی غیر مہذب ، ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ لوگوں کا غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے فلمی صنعت اس انجام سے دوچار ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس صنعت کی زوال پذیری میں کئی عشرے لگ گئے، یہ بات مکمل طور پر درست نہیں۔ پاکستانی فلمی صنعت میں ان گنت افراد ایسے بھی تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی جاتی کہ پچاس کی دہائی میں بھارتی فلموں کا مقابلہ آخر کن فلموں نے کیا؟ یقینا وہ پاکستانی فلمیں ہی تھیں جنہوں نے اس دور میں نہ صرف پاکستانی فنکاروں کو شہرت اور عظمت سے سرفراز کیا بلکہ اس زمانے کے فلمسازوں پر بھی دولت کی بارش کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ لاہور کا باری سٹوڈیو ایک پنجابی فلم ’’یکے والی ‘‘کی زبردست کامیابی کی وجہ سے تعمیر ہوا تھا۔ یہ فلم باکس آفس پر اتنی کامیاب ہوئی کہ اس کے فلمساز باری ملک نے سٹوڈیو تعمیر کر لیا۔ یہ 1957ء کی بات ہے جب بھارتی فلمیں پورے پاکستان میں نمائش پذیر ہوتی تھیں۔ بات ہو رہی تھی کہ پاکستانی فلمی صنعت کوئی جہلاکا گڑھ نہیں تھا،یہاں بہت قابل افراد بھی تھے۔ مسعود پرویز‘ وحید مراد‘ سنتوش کمار‘ خواجہ خورشید انور‘ مصطفی قریشی‘ مسعود اختر اور کئی دوسرے فنکار ایسے تھے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ اسی طرح ہدایتکار بھی بڑے شاندار تھے۔ ان میں سب سے بڑا نام انور کمال پاشا کا ہے، جو پاکستانی فلمی صنعت کے معمار تھے۔ انہوں نے اپنے علم و فن کے وہ چراغ روشن کیے جن کی روشنی سے بعد میں آنے والی کئی نسلوں نے فیض حاصل کیا۔ الطاف حسین‘ ایم اکرم‘ جعفر ملک اور آغا حسینی جیسے ہدایتکار بھی انور کمال پاشا کے شاگردوں میں شامل ہیں۔انور کمال پاشا 23 فروری 1925ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ وہ باکمال شاعر اور مشہور ادیب حکیم احمد شجاع کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ایف سی کالج لاہور سے گریجوایشن کی اور بعد میں پنجاب یونیورسٹی سے ڈبل ایم اے کیا۔ انہوں نے شروع میں فلم ’’شاہدہ‘‘ میں ہدایتکار لقمان کے ساتھ معاون ہدایتکار کے طور پر کام کیا۔ بعد میں انہوں نے سکرپٹ رائٹر‘ فلمساز اور ہدایتکار کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ہر طرف ان کے نام کا طوطی بولتا تھا۔ ان کا طرئہ امتیاز یہ تھا کہ انہوں نے سماجی موضوعات پر فلمیں بنائیں جن میں اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہوتا تھا۔ افلاس‘ محبت‘ اخلاقی انحطاط‘ سماجی رویے اور عورت ان کی فلموں کے موضوعات تھے۔ انہوں نے کئی اداکاروں کی تربیت کی اور بہت سے نئے چہرے متعارف کرائے۔ ان فنکاروں میں صبیحہ خانم‘ مسرت نذیر‘ اسلم پرویز‘ نیر سلطانہ اور بہار بیگم شامل ہیں۔ بہار بیگم کہتی ہیں کہ ان کی پہلی فلم ’’چن ماہی‘‘ 1956ء میں ریلیز ہوئی، جس میں ان کے ساتھ اسلم پرویز نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم انور کمال پاشا کی فنی صلاحیتوں کی وجہ سے گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ انور کمال پاشا نے موسیقار ماسٹر عنایت حسین اور ماسٹر عبداللہ کو بھی فلمی صنعت میں متعارف کرایا۔ ان کی فلموں کے سکرپٹ ان کے والد حکیم احمد شجاع کے زور قلم کا نتیجہ ہوتے تھے۔ حکیم احمد شجاع اندرون بھاٹی گیٹ کے بازار حکیماں کے رہنے والے تھے۔ ان کی کتاب ’’لاہور کا چیلسی‘‘ پڑھ کر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس دور میں اس علاقے میں کتنے صاحب علم لوگ آباد تھے اور سب اپنے اپنے فن میں یکتائے روزگار۔انور کمال پاشا نے مجموعی طور پر 24 فلمیں بنائیں۔ جن فلموں نے زیادہ شہرت حاصل کی ان میں ’’شاہدہ‘ دو آنسو‘ گمنام‘ انتقام‘ دلُاّ بھٹی‘ چن ماہی‘ سرفروش‘ انارکلی‘ گمراہ‘ عشق پر زور نہیں‘‘ شامل ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کی ہدایات شریف نیر نے دی تھیں لیکن نگرانی انور کمال پاشا نے کی تھی۔ ان کی فلم ’’دو آنسو‘‘ پاکستان کی پہلی گولڈن جوبلی فلم تھی جو سات اپریل 1950ء کو ریلیز ہوئی۔ صبیحہ اور سنتوش کمار کی جوڑی کو شہرت سے ہمکنار کرانے میں انور کمال پاشا صاحب کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ ان کی فلموں کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ ان کی موسیقی نغمات اور مکالمے بہت جاندار ہوتے تھے۔ہم اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ انور کمال پاشا نے دو شادیاں کی تھیں۔ ان کی دوسری اہلیہ اپنے وقت کی معروف اداکارہ شمیم بانو تھیں جنہوں نے شمیم کے فلمی نام سے شہرت حاصل کی تھی۔ شمیم بانو نے سب سے پہلے 1944ء میں فلم’’جوار بھاٹا‘‘ میں کام کیا۔ یہ دلیپ کمار کی بھی پہلی فلم تھی۔ وہ لیجنڈری فلم آرٹسٹ اور گلوکارہ خورشید بانو بیگم کی رشتے دار تھیں اور کہا جاتا ہے کہ مشہور اداکارہ میناکماری سے بھی ان کی دور کی رشتے داری تھی۔شمیم بانو کی سب سے بڑی فلم ’’سنیدور‘‘ تھی جسے کشور ساہو نے بنایا تھا۔ یہ فلم 1947ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس کا موضوع ہندو بیوہ عورتوں کی دوسری شادی تھا۔ اس فلم کی ریلیز کے دوران تنازع پیدا ہو گیا۔ انہوں نے انور کمال پاشا کی بھی چند فلموں میں کام کیا جن میں ’’شاہدہ‘ دو آنسو‘ گھبرو اور دلبر‘‘ شامل ہیں۔ ایک اور بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ کامیڈین کے طور پر ان کی فلموں میں آصف جاہ ہی اپنے فن کے جوہر دکھاتے تھے۔ پاشا صاحب کی فلموں میں مستقل کام کرنے والوں کو ’’پاشا کیمپ‘‘ کے لوگوں کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ انہوں نے قتیل شفائی‘ سیف الدین سیف اور تنویر نقوی جیسے بے مثل گیت نگاروں سے اپنی فلموں کے نغمات لکھوائے اور ان کی فلموں کے نغمات بھی ہر طرف دھوم مچا دیتے تھے۔ بہترین نغمات کو جب ماسٹر عنایت حسین اور رشید عطرے جیسے سنگیت کار اپنی دھنوں کا لباس پہناتے تھے تو شاہکار گیتوں کا وجود میں آنا فطری امر تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

ویٹ لفٹنگ ذہانت بھی بڑھائے: نئی تحقیق میں ماہرین کا حیران کن انکشاف

جدید سائنسی تحقیق نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ جسمانی ورزش نہ صرف ہمارے جسم بلکہ دماغ پر بھی حیران کن اثرات مرتب کرتی ہے۔ امریکی ماہرین کی نئی تحقیق کے مطابق صرف ایک سیشن ویٹ لفٹنگ یا مزاحمتی ورزش صحت مند بالغ افراد کی دماغی کارکردگی میں قابلِ ذکر اضافہ کر دیتی ہے۔ محض چالیس سے زائد منٹ کی مشقیں نہ صرف ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہیں بلکہ فیصلہ سازی، توجہ اور دماغ کے برقیاتی نظام کی رفتار میں بھی فوری بہتری لاتی ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا بھر میں ذہنی صحت اور ادراک سے متعلق مسائل تیزی سے بڑھ رہے ہیں، یہ تحقیق اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ چھوٹی، باقاعدہ اور سادہ ورزشیں بھی ذہانت بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔امریکی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ صرف 40 منٹ سے کچھ زیادہ وزن اٹھانے کی ورزش (ویٹ ٹریننگ) صحت مند بالغ افراد کی طویل مدتی یادداشت میں اضافہ کر سکتی ہے۔ تحقیق میں ویٹ ایکسرسائز کو مزاحمتی ورزش (resistance training)کے طور پر استعمال کیا گیا ہے، لیکن محققین کا کہنا ہے کہ اس قسم کی مزاحمتی سرگرمیاں (resistance activities) جیسے اسکواٹس (squats) یا گھٹنے موڑنے کی مشقیں بھی یہی نتائج پیدا کر سکتی ہیں۔ انڈیانا کی پراڈیو یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مختصر مزاحمتی ورزش ایگزیکٹو فنکشنز پر مثبت اثر ڈالتی ہے، پروسیسنگ اسپیڈ اور ورکنگ میموری کو بہتر بناتی ہے اور دماغ کی برقی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔تحقیق میں، انہوں نے 18 سے 50 سال کی عمر کے 121 بالغ افراد کا مشاہدہ کیا اور انہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا۔ تمام شرکاء کا کارڈیو ویسکیولر فٹنس ٹیسٹ لیا گیا اور ان سے طرزِ زندگی سے متعلق سوالات پوچھے گئے۔ دو دن بعد تمام شرکاء کے خون کے نمونے لیے گئے اور دماغ کی برقی سرگرمی ریکارڈ کرنے کیلئے الیکٹرو اینسیفلوگرافک (EEG) اسکین کیا گیا۔ پہلے گروپ نے درمیانی سطح کی مشکل والے ویٹ ایکسرسائز کے سیٹس کیے جبکہ دوسرے گروپ سے بالغ افراد کی مزاحمتی ورزش (resistance exercises)کرتے ہوئے ویڈیو دیکھنے کو کہا گیا۔مزاحمتی ورزشیں کل 42 منٹ تک جاری رہیں۔ ان کا آغاز دو منٹ کی وارم اپ سے ہوا، جس کے بعد ہر مشق کے دو سیٹ کروائے گئے، ہر سیٹ میں دس ریپیٹیشنز شامل تھے۔ ان مشقوں میں چیسٹ پریس، پل ڈاؤنز، بائی سیپ کرلز، لیگ پریس، کیبل ٹرائی سیپس ایکسٹینشنز اور لیگ ایکسٹینشنز شامل تھیں۔ ورزش مکمل ہونے کے بعد، رضا کاروں سے دوبارہ خون کے نمونے لیے گئے اور دوسرا EEG ٹیسٹ کیا گیا۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ جس گروپ نے مزاحمتی ورزشیں کی تھیں، اس کے ورکنگ میموری کے ردِ عمل کا وقت ویڈیو دیکھنے والے گروپ کے مقابلے میں قدرے بہتر ہو گیا تھا۔ محققین نے کہا کہ وہ یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وزن اٹھانے کی ورزش نے کس طرح ورکنگ میموری کو بہتر بنایا تاہم انہوں نے یہ مفروضہ پیش کیا کہ ورزش کے بعد خون میں 'لیکٹیٹ‘ کی مقدار میں اضافہ جو عضلات کی تھکن کی علامت ہے اور بلڈ پریشر میں اضافہ ایگزیکٹو فنکشنز کی رفتار کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر دماغی کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ چونکہ ذہنی صلاحیت کے ٹیسٹ ورزش کے فوراً بعد کروائے گئے تھے، اس لیے یہ معلوم کرنا ممکن نہیں کہ ان اثرات کا دورانیہ کتنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ طبی نقطہ نظر سے، یہ نتائج اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ مزاحمتی ورزش کو ورزش کے ایسے پروگراموں کا حصہ بنایا جائے جو ایگزیکٹو فنکشنز میں فوری فائدہ پہنچا سکیں۔ پچھلی تحقیق بھی اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ درمیانی عمر میں ورزش کیلئے وقت بڑھانے سے ذہنی صلاحیتیں برقرار رہ سکتی ہیں اور بعد کی زندگی میں ڈیمنشیا کے آغاز میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ہسپانوی سائنس دانوں نے 300 سے زائد بالغ افراد کا جائزہ لیا اور معلوم کیا کہ جن لوگوں نے اپنی سرگرمیوں میں اضافہ کرتے ہوئے ہفتے میں تقریباً ڈھائی گھنٹے ورزش جاری رکھی45 سے 65 سال کی عمر کے درمیان وہ دماغ میں 'امائلائڈ‘ نامی زہریلے پروٹین کے پھیلاؤ سے کم متاثر ہوئے۔ یہ پروٹین الزائمر کی علامات کے پیچھے اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔مزید یہ کہ وزن اٹھانے کی ورزش ہفتے میں صرف تین بار کرنا بھی ایک شخص کی ''حیاتیاتی عمر‘‘ (Biological Age) کو تقریباً آٹھ سال تک کم کرنے میں مددگار ثابت ہوا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) تجویز کرتی ہے کہ بالغ افراد ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی درمیانی شدت کی ورزش کریں یا 75 منٹ کی تیز شدت کی ورزش کریں۔ ہفتے میں کم از کم دو دن ایسی ورزشیں کی جائیں جو بڑے عضلاتی گروپس جیسے ٹانگیں، کمر اور پیٹ کو مضبوط بنائیں۔

ٹیراکوٹا آرمی : زمین کے نیچے دفن ایک تہذیبی کرشمہ

ٹیراکوٹا آرمی : زمین کے نیچے دفن ایک تہذیبی کرشمہ

چین کے شہرژیان (Xi'an)کے مضافات میں زمین کے تہہ در تہہ پردوں کے نیچے چھپی وہ دنیا موجود ہے جسے دیکھ کر انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ دو ہزار سال قدیم ''ٹیراکوٹا آرمی ‘‘مٹی کے سپاہیوں، رتھوں اور گھوڑوں کی وہ عظیم الشان فوج آج بھی چین کے پہلے شہنشاہ چِن شی ہوانگ (Qin Shi Huang)کی طاقت، انتظامی بصیرت اور اس دور کی فنی مہارت کا بے مثال ثبوت پیش کرتی ہے۔ 1974ء میں کسانوں کی ایک معمولی کھدائی سے دریافت ہونے والی یہ فوج نہ صرف چین کی تاریخ کا حیرت انگیز راز بنی بلکہ دنیا بھر کے ماہرین آثارِ قدیمہ کیلئے تحقیق کا ایک نہ ختم ہونے والا دروازہ کھول گئی۔ ہر مجسمہ اپنی انفرادیت اور باریک کاریگری کے ساتھ اس عظیم تہذیب کے اس دور کی جھلک دکھاتا ہے جب حکمران اپنی قبر تک کی حفاظت کیلئے فکر مند رہتے تھے۔1974 میں صوبہ شان شی(Shaanxi) کے ایک گاؤں کے کسان کنویں کی تلاش میں زمین کھود رہے تھے کہ اچانک ان کے اوزار سخت مٹی کے مجسمے سے ٹکرائے۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے دنیا کے سب سے بڑے آثارِ قدیمہ کے راز سے پردہ اٹھایا۔ چند ہی دنوں میں ماہرین نے معلوم کر لیا کہ یہ کوئی معمولی مجسمہ نہیں بلکہ مٹی سے تیار کیے گئے ایک مکمل لشکر کی موجودگی کا اشارہ ہے۔ وقت کے ساتھ کی جانے والی کھدائی میں یہ حقیقت سامنے آئی کہ یہاں آٹھ ہزار سے زیادہ سپاہی، 130 رتھ اور 670 گھوڑے دفن تھے، جو نہایت ترتیب سے تین بڑے حصوں میں تقسیم تھے۔ٹیراکوٹا آرمی کی سب سے بڑی خصوصیت اس کی حقیقت پسندی ہے۔ ہر سپاہی کا چہرہ منفرد ہے۔ کسی کے چہرے پر عزم کی جھلک، کسی پر فکر کی لکیریں، کسی کے ہونٹوں پر سختی تو کسی کے تاثرات میں نرمی۔ ہاتھوں کے اشارے، زرہ بکتر، جوتے، بالوں کے انداز اور وردیاں سب کچھ اس دور کے عسکری نظام کی منظم تصویر کشی کرتے ہیں۔ گھوڑے اور رتھ نہایت باریک بینی سے تیار کیے گئے، جن میں اس زمانے کے فوجی ساز و سامان کی جھلک نمایاں ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لشکر ابھی حرکت میں آ جائے۔یہ آثارِ قدیمہ اس قدر وسیع اور پیچیدہ ہیں کہ انہیں روایتی عجائب گھروں میں منتقل کرنا ممکن نہیں تھا چنانچہ اس جگہ کو انڈر گراؤنڈ میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ سالانہ لاکھوں افراد شیان کا رخ کرتے ہیں تاکہ وہ چینی تاریخ کے اس عظیم معجزے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔1987ء میں یونیسکو نے ٹیراکوٹا آرمی کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔ آج بھی وہاں کھدائی اور تحقیق کا عمل جاری ہے اور ہر برس نئے حقائق سامنے آ رہے ہیں۔ جدید لیزر اسکیننگ، کیمیائی تجزیے اور تھری ڈی ماڈلنگ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اس عظیم منصوبے پر کس قسم کے رنگ، مواد اور انجینئرنگ تکنیک استعمال کی گئی تھیں۔ٹیراکوٹا آرمی صرف مجسموں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب کا عکس ہے۔ یہ ہمیں بتاتی ہے کہ وقتی حکمرانوں کی طاقت مٹی میں مل جاتی ہے، مگر قومیں اپنے فنون اور تاریخ کے ذریعے ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔چِن شی ہوانگ :طاقت اور بقا کے وسوسوں میں جکڑا حکمرانچین کا پہلا شہنشاہ چن شی ہوانگ (221 قبل مسیح) اپنی زندگی میں ہی اپنے مزار اور موت کے بعد کی دنیا کے بارے میں غیر معمولی حد تک فکر مند تھا۔ اسے یقین تھا کہ مرنے کے بعد بھی اسے حفاظت درکار ہوگی، لہٰذا اُس نے حکم دیا کہ اس کی قبر کی حفاظت کیلئے ایک فوج تیار کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں مزدوروں، فن کاروں اور سپاہیوں نے کئی دہائیوں تک اس عظیم منصوبے پر کام کیا۔ ہر سپاہی کا چہرہ، قد، لباس اور انداز ایک دوسرے سے مختلف ہے، گویا یہ کوئی فرضی فوج نہیں بلکہ وقت کی حقیقی اور جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔

صنفِ لاغر!

صنفِ لاغر!

سنتے چلے آئے ہیں کہ آم، گلاب اور سانپ کی طرح عورتوں کی بھی بے شمار قسمیں ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آم اور گلاب کی قسم صحیح اندازہ کاٹنے اور سونگھنے کے بعد ہوتا ہے اور اگر مارگزیدہ مرجائے تو سانپ کی قسم کا پتہ چلانابھی چنداں دشوار نہیں۔ لیکن آخر الذکر خالص مشک کی طرح، اپنی قسم کا خود اعلان کر دیتی ہیں۔بات قسموں کی ہورہی تھی اورہم کہنا یہ چاہتے تھے کہ آجکل عورتوں کو دوقسموں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ ایک وہ جوموٹی ہیں، دوسرے وہ جو دبلی نہیں ہیں۔ آپ کہیں گے ''آخر ان دونوں میں فرق کیا ہوا؟ یہ تو وہی الف دو زبراً اور الف نون زبران والی بات ہوئی‘‘۔ مگر آپ یقین جانئے کہ دونوں قسموں میں دبلے ہونے کی خواہش کے علاوہ اور کوئی بات مشترک نہیں۔ ان کے حدود اربعہ، خط و خال اور نقوش جدا جدا ہیں اور اس میں کاتب تقدیر کی کسی املا کی غلطی کا قطعاً کوئی شائبہ نہیں۔ اصل فرق یہ ہے کہ اوّل الذکر طبقہ (جو صحیح معنوں میں ایک فرقہ کی حیثیت رکھتا ہے) کھانے کیلئے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا طبقہ زندہ رہنے کیلئے کھاتا ہے۔ پہلا طبقہ دوا کو بھی غذا سمجھ کر کھاتا ہے اور دوسراطبقہ غذا کو بقدر دوا استعمال کرتا ہے۔ ایک کھانے پر جان دیتا ہے اور دوسرا کھانے کو دوڑ تا ہے۔ فرق باریک ضرور ہے، لیکن اگر آپ نے کبھی فن برائے فن، زندگی برائے فن، فن برائے زندگی اور زندگی برائے بندگی وغیرہ بحث سنی ہے تو یہ فرق بخوبی سمجھ میں آ جائے گا۔ اس مضمون میں روئے سخن دوسرے طبقہ سے ہے جو دبلانہیں ہے مگر ہونا چاہتا ہے۔زمانہ قدیم میں ایران میں نسوانی حسن کا معیار چالیس صفات تھیں (اگرچہ ایک عورت میں ان کا یکجا ہونا ہمیشہ نقض امن کا باعث ہوا) اور یہ مشہور ہے کہ شیریں ان میں سے انتالیس صفات رکھتی تھی۔ چالیسویں صفت کے بارے میں مورخین متفقہ طور پر خاموش ہیں۔ لہٰذا گمان غالب ہے کہ اس کاتعلق چال چلن سے ہوگا۔ اس زمانے میں ایک عورت میں عموماً ایک ہی صفت پائی جاتی تھی۔ اس لئے بعض بادشاہوں کو بدرجہ مجبوری اپنے حرم میں عورتوں کی تعداد بڑھانی پڑی۔ ہر زمانے میں یہ صفات زنانہ لباس کی طرح سکڑتی، سمٹتی اورگھٹتی رہیں۔ بالآخر صفات تو غائب ہو گئیں، صرف ذات باقی رہ گئی۔ یہ بھی غنیمت ہے کیونکہ ذات و صفات کی بحث سے قطع نظر یہی کیا کم ہے کہ عورت صرف عورت ہے۔ ورنہ وہ بھی رد ہو جاتی تو ہم اس کا کیا بگاڑ لیتے۔آج کل کھاتے پیتے گھرانوں میں دبلے ہونے کی خواہش ہی ایک ایسی صفت ہے جو سب خوبصورت لڑکیوں میں مشترک ہے۔ اس خواہش کی محرک دور جدید کی ایک جمالیاتی دریافت ہے، جس نے تندرستی کوایک مرض قرار دے کر بدصورتی اور بدہیئتی سے تعبیر کیا۔ مردوں کی اتنی بڑی اکثریت کو اس رائے سے اتفاق ہے کہ اس کی صحت پر شبہ ہونے لگتا ہے جہاں یرقان حسن کے اجزائے ترکیبی میں شامل ہو جائے اور جسم بیمار و تن لاغر حسن کامعیار بن جائیں، وہاں لڑکیاں اپنے تندرست و توانا جسم سے شرمانے اور بدن چرا کر چلنے لگیں تو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔ یوںسمجھئے کہ حوا کی جیت کا راز آدم کی کمزوری میں نہیں بلکہ خود اس کی اپنی کمزوری میں مضمر ہے۔ اگر آپ کو یہ نچڑے ہوئے دھان پان بدن، ستے ہوئے چہرے اور سوکھی بانہیں پسند نہیں تو آپ یقیناً ڈاکٹر ہوں گے۔ ورنہ اہل نظر تو اب چہرے کی شادا بی کو ورم، فربہی کو جلندھر اور پنڈلی کے سڈول پن کو ''فیل پا‘‘ گردانتے ہیں۔وزن حسن کا دشمن ہے (یاد رکھیئے رائے کے علاوہ ہر وزنی چیز گھٹیا ہوتی ہے) اسی لئے ہر سمجھ دار عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی چربی کی دبیز تہوں کے خول کو سانپ کی کینچلی کی طرح اتار کراپنی عزیز سہیلیوں کو پہنا دے۔ عقد نا گہنانی کے بعد کہ جس سے کسی کو مفر نہیں، ہر لڑکی کا بیشتر وقت اپنے وزن اور شوہر سے جنگ کرنے میں گزرتا ہے۔ جہاں تک زن و شوہر کی جنگ کا تعلق ہے، ہم نہیں کہہ سکتے کہ شہید کون ہوتا ہے اور غازی کون لیکن زن اور وزن کی جنگ میں پلہ فریق اوّل ہی کا بھاری رہتا ہے، اس لئے جیت فریق ثانی کی ہوتی ہے۔ مٹاپے میں ایک خرابی یہ ہے کہ تمام عمر کو گلے کا ہار ہو جاتا ہے اور بعض خواتین گھر کے اندیشوں اور ہمسایوں کی خوش حالی سے بھی دبلی نہیں ہوتیں۔ ''تن‘‘ کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں،دراصل گرہستی زندگی کی آب و ہوا ہی ایسی معتدل ہے کہ مولسری کا پھول دو تین سال میں گوبھی کا پھول بن جائے تو عجب نہیں۔ مٹاپا عام ہویا نہ ہو، مگر دبلے ہونے کی خواہش جتنی عام ہے اتنی ہی شدید بھی۔ آئینے کی جگہ اب وزن کم کرنے کی مشین نے لے لی ہے۔ بعض نئی مشینیں تو ٹکٹ پر وزن کے ساتھ قسمت کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ کچھ عورتوں کی قسمت کے خانے میں صرف ان کا وزن لکھا ہوتا ہے۔ عورتوں کو وزن کم کرنے کی دوائوں سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ادھیڑ مردوں کو یونانی دواؤں کے اشتہاروں سے۔ اگر یہ دلچسپی ختم ہو جائے تو دواؤں کے کارخانوں کے ساتھ ساتھ بلکہ ان سے کچھ پہلے وہ اخبارات بھی بند ہو جائیں جن میں یہ اشتہارات نکلتے ہیں۔ اگر آپ کو آسکر وائلڈ کی رائے سے اتفاق ہے کہ آرٹ کا اصل مقصد قدرت کی خام کاریوں کی اصلاح اور فطرت سے فی سبیل اللہ جہاد ہے، تو لازمی طور پر یہ مانناپڑے گاکہ ہر بدصورت عورت آرٹسٹ ہے۔ اس لئے کہ ہوش سنبھالنے کے بعد اس کی ساری تگ و دو کا منشا سیاہ کو سفیدکر دکھانا، وزن گھٹانا اور ہر سالگرہ پر ایک موم بتی کم کرنا ہے۔

حکایت سعدیؒ:ادلے کا بدلہ

حکایت سعدیؒ:ادلے کا بدلہ

ایک لومڑی ایک چیل کی سہیلی بن گئی۔ دونوں میں اتنا پیار ہوا کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنا مشکل ہو گیا۔ ایک دن لومڑی نے چیل سے کہا:''کیوں نہ ہم پاس رہیں۔ پیٹ کی فکر میں اکثر مجھے گھر سے غائب رہنا پڑتا ہے۔ میرے بچے گھر میں اکیلے رہ جاتے ہیں اور میرا دھیان بچوں کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ کیوں نہ تم یہیں کہیں پاس ہی رہو۔ کم از کم میرے بچوں کا تو خیال رکھو گی‘‘۔چیل نے لومڑی کی بات سے اتفاق کیا اور آخرکار کوشش کرکے رہائش کیلئے ایک پرانا پیڑ تلاش کیا جس کا تنا اندر سے کھوکھلا تھا۔ اس میں شگاف تھا۔ دونوں کو یہ جگہ پسند آئی۔ لومڑی اپنے بچوں کے ساتھ شگاف میں اور چیل نے پیڑ پر بسیرا کر لیا۔کچھ عرصہ بعد لومڑی کی غیر موجودگی میں چیل جب اپنے گھونسلے میں بچوں کے ساتھ بھوکی بیٹھی تھی، اس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کیلئے لومڑی کا ایک بچہ اٹھایا اور گھونسلے میں جا کر خود بھی کھایا اور بچوں کو بھی کھلایا۔ جب لومڑی واپس آئی تو ایک بچہ غائب پایا۔ اس نے بچے کو ادھر ادھر بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ آنکھوں سے آنسو بہانے لگی۔ چیل بھی دکھاوے کا افسوس کرتی رہی۔دوسرے دن لومڑی جب جنگل میں پھر شکار کرنے چلی گئی اور واپس آئی تو ایک اور بچہ غائب پایا۔ تیسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کا ایک اور بچہ غائب ہو گیا۔ چیل لومڑی کے سارے بچے کھا گئی۔ لومڑی کو چیل پر شک جو ہوا تھا، وہ پختہ یقین میں بدل گیا کہ اس کے تمام بچے چیل ہی نے کھائے ہیں مگر وہ چپ رہی۔ کوئی گلہ شکوہ نہ کیا۔ ہر وقت روتی رہتی اور خدا سے فریاد کرتی رہتی کہ۔''اے خدا! مجھے اڑنے کی طاقت عطا فرما تاکہ میں اپنی دوست نما دشمن چیل سے اپنا انتقام لے سکوں‘‘۔خدا نے لومڑی کی التجا سن لی اور چیل پر اپنا قہر نازل کیا۔ ایک روز بھوک کے ہاتھوں تنگ آ کر چیل تلاش روزی میں جنگل میں اڑی چلی جا رہی تھی کہ ایک جگہ دھواں اٹھتا دیکھ کر جلدی سے اس کی طرف لپکی۔ دیکھا کچھ شکاری آگ جلا کر اپنا شکار بھوننے میں مصروف ہیں۔چیل کا بھوک سے برا حال تھا۔ بچے بھی بہت بھوکے تھے۔ صبر نہ کرسکی۔ جھپٹا مارا اور کچھ گوشت اپنے پنجوں میں اچک کر گھونسلے میں لے گئی۔ ادھر بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ کچھ چنگاریاں بھی چپکی ہوئی تھیں۔ گھونسلے میں بچھے ہوئے گھاس پھوس کے تنکوں کو آگ لگ گئی۔ گھونسلا بھی جلنے لگا۔ ادھر تیز تیز ہوا چلنے لگی۔ گھونسلے کی آگ نے اتنی فرصت ہی نہ دی کہ چیل اپنا اور اپنے بچوں کا بچاؤ کر سکے۔ وہیں تڑپ تڑپ کر نیچے گرنے لگے۔ لومڑی نے جھٹ اپنا بدلہ لے لیا اور انہیں چبا چبا کر کھا گئی۔حاصل کلام: جو کسی کیلئے گڑھا کھودتا ہے، خود بھی اسی میں جا گرتا ہے۔ اس لیے سیانوں نے کہا ہے کہ برائی کرنے سے پہلے سوچ لے کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔

آج تم یاد بے حساب آئے!مشیر کاظمی:ایک باکمال شاعر (1924-1975ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!مشیر کاظمی:ایک باکمال شاعر (1924-1975ء)

اے راہ حق کے شہیدو، وفا کی تصویروتمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں ٭...مشیر کاظمی 22 اپریل 1924ء کو پٹیالہ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام سید مشیر حسین کاظمی تھا۔ ٭...انہوں نے فلمی گیت نگاری کے میدان میں بہت شہرت حاصل کی۔ اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں کیلئے اعلیٰ درجے کے نغمات لکھے۔ ٭... 1952ء سے لے کر 1975ء تک فلمی صنعت کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔٭... 84فلموں کیلئے 267 نغمات تحریر کرنے والے مشیر کاظمی کی اکثر فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔٭...انہوں نے 76اردو فلموں کیلئے 256 نغمات لکھے جبکہ آٹھ پنجابی فلموں کیلئے انہوں نے 11گیت تحریر کئے۔٭...مشیر کاظمی کو اصل شہرت 1952ء میں فلم ''دوپٹہ‘‘ کے گیت تحریر کرنے پر ملی۔ اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔٭... ان کی جن فلموں کے گیت مشہور ہوئے ان میں ''تڑپ، برکھا، پتن، باغی، وحشی ، کالا پانی، بھائی جان، دلاں دے سودے، آخری چٹان، یہ راستے ہیں پیار کے، مسٹر 303، میں اکیلا، زمین، شیرا اور دل لگی‘‘ شامل ہیں۔ ٭... انہوں نے متعدد فلموں کے تمام گیت تحریر کئے۔ ان فلموں میں ''جھیل کنارے، منڈی، پون، باغی، وحشی، انجام، دربار، مظلوم، بمبے والا،بیٹا، کالا پانی، خون کی پیاس، ممتا، ایک دل دو دیوانے، بھائی جان، دلاں دے سودے، شاہی فقیر، آخری چٹان، یہ راستے ہیں پیار کے، مسٹر 303اور میں اکیلا‘‘ شامل ہیں۔ ٭...فلم ''بشیرا‘‘ اور ''دل لگی‘‘ کیلئے ان کے لکھے ہوئے گیت آج بھی باکمال گیت تصور کئے جاتے ہیں۔٭...مشیر کاظمی گونا گوں خوبیوں کے مالک تھے۔ ٭...انہیں ''تمغۂ پاکستان‘‘ اور ''شاعر پاکستان‘‘ کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔٭...8 دسمبر1975ء کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔مشہور فلمی گیت٭ چاندنی راتیں (دوپٹہ)٭ میں بن پتنگ اڑ جائوں( دوپٹہ)٭ چند اسے پوچھ لے (جھیل کنارے)٭ اے ماں تجھے میں ڈھونڈوں کہاں(میرا کیا قصور)٭ جیا گئے تارا رارارم(ایک دل دو دیوانے)،٭ اک میرا چاند(شکریہ) ٭شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے(عادل)٭ ہم ہیں دیوانے تیرے(آخری چٹان)٭ نبو رانی بڑی دلگیر وے(بشیرا)٭ ہم چلے اس جہاں سے(دل لگی)

آج کا دن

آج کا دن

امریکہ کا جاپان کیخلاف اعلان جنگ7 دسمبر 1941ء کی صبح جاپانی فضائیہ نے امریکی بحری اڈے پرل ہاربر پر حملہ کیا تھا۔جس میں امریکی بحری بیڑے کے 8 جنگی جہاز تباہ ہوئے،2,400 سے زائد امریکی فوجی و شہری ہلاک ہوئے۔ اگلے ہی دن یعنی 8 دسمبر 1941ء کوامریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے کانگریس میں تقریر کی اورجاپان کے خلاف جنگ کی منظوری دی۔ اس سے قبل امریکہ دوسری جنگ عظیم میں غیر جانب دار تھا۔چند دنوں بعد جرمنی اور اٹلی نے بھی امریکہ کے خلاف جنگ کا اعلان کیا، یوں بحران پوری دنیا میں پھیل گیا۔دنیا کا پہلا ٹریفک سگنل1868ء میں آج کے روز دنیا کا پہلا ٹریفک اشارہ لندن میں استعمال کیا گیا۔ یہ اشارہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب جارج سٹیفنسن کے ایک انجینئر جے پی نائٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ گیس سے چلنے والا اشارہ تھا۔ اس میں دو بازو تھے جو دن کے وقت مختلف زاویوں پر حرکت کرتے تھے، جبکہ رات کو سرخ اور سبز گیس کی روشنی کا استعمال کیا جاتا تھا۔یہ اشارہ جدید ٹریفک کنٹرول سسٹم کی بنیاد ثابت ہوا۔آج کے جدید ٹریفک سگنلز بجلی اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی پر مبنی ہیں اور ان کی ابتدا اسی ابتدائی گیس لیمپ سگنل سے ہوئی۔چرچ میں آتشزدگی سے 2ہزار ہلاکتیں8 دسمبر 1863ء کو چلی کے صدر مقام سان تیاگو میں تاریخی گرجا گھر میں آتشزدگی سے 2ہزار افراد ہلاک ہو گئے۔ 17 ویں صدی کا یہ چرچ مکمل طور پر لکڑی کا بنا ہوا تھااور آگ کی شدت کی وجہ سے مکمل طور پر جل کر راکھ کا ڈھیر بن گیا۔ اسے جدید تاریخ میں کسی ایک عمارت میں آگ لگنے سے سب سے زیادہ اموات کا واقعہ تصور کیا جاتا ہے۔ یہ آگ چرچ میں ہونے والی ایک عبادت کے آغاز پر لگی تھی۔جان لینن کا قتل دنیا کے مشہور موسیقار اور بینڈ دی بیٹلز کے بانی ارکان جان لینن کو 8 دسمبر 1980ء کو ان کی رہائش گاہ کے سامنے قتل کر دیا گیا۔ انہیں ان کے ایک مداح مارک ڈیوڈ چیپمین نے قتل کیا، جو ذہنی معذور تھا۔ جان لینن جب اپنی اہلیہ کے ساتھ اسٹوڈیو سے واپس آئے تو مارک نے ان پر پانچ گولیاں چلائیں، جن میں سے چار لینن کو لگیں۔انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔سوویت یونین کا خاتمہ، نئی خودمختار تنظیم کا قیام8 دسمبر 1991ء کو سوویت یونین کے خاتمے کے بعد روس کے پہلے صدر بورس یلسن نے یوکرین اور بیلا روس کے ساتھ خودمختار ریاستی تنظیم بنانے کا اعلان کیا۔ اسے ''بیلوژا معاہدے‘‘ کا نام دیا گیا۔ معاہدے کے تحت سوویت یونین کو رسمی طور پر تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے بدلے ایک نئی تنظیم ''کامن ویلتھ آف انڈیپنڈنٹ اسٹیٹس‘‘ (CIS) قائم کی گئی۔یہ تنظیم خودمختار ریاستوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کیلئے بنائی گئی، جو سوویت یونین کی سابقہ جمہوریتیں تھیں۔