کل کی پن گھٹ،آج کا فلٹر
اسپیشل فیچر
وقت کے ساتھ ساتھ وقتی تقاضوں کے مطابق چیزوں،رویوں اور اقدار کا بدلنا فطری امرہے۔کچھ مکمل بدل جاتی ہیں توکچھ قدرے مختلف لگتی ہیں۔مگربعض روایات کچھ عرصہ غائب رہ کر گردش ایام کے باعث پھر سے کسی نہ کسی طرح جنم لیتی ہیں اورمعاشرے میں اپنا مقام بنالیتی ہیں۔ مثلاً اِک دور تھا کہ ہر گھرمیں پانی دستیاب نہ تھا اورگائوں کی گوریاں مٹی کے مٹکے اٹھائے گائوں سے باہر گائوں کے مرکزمیں واقع پنگھٹ سے پانی بھرنے جاتی تھیں۔وقت کا پہیہ چلتا رہا اور بتدریج ہر محلہ اور ہرگھرمیں ٹوٹیاں، نلکے اور پمپ نصب ہونے لگے اور باہر سے پانی بھر کر لانے کی ضرورت جاتی رہی۔پنگھٹ اور گوری ماضی کاحصہ بن گئیں۔پھر انسان ترقی وکامرانی کی منزلیں طے کرتے ہوئے ترقی کی خطرناک حد تک جا پہنچا کہ اپنے ہاتھوں سے پینے کے زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے لگا۔جس سے بیماریوں کے انبار لگ گئے اور پینے کا صاف پانی ناپید ہونے لگا۔ اب صاف اورفلٹر کا پانی ضرورت ٹھہر چکا ہے۔ حکومتی سطح پر شہرںو اور قصبوں میں جگہ جگہ واٹر پلانٹ لگائے جارہے ہیں اور لوگوں کیلئے اپنے گھر میں نصب نلکوں یا پمپوں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا۔پھر سے لوگ شہرکے فلٹروں سے پانی بھرنے جاتے اور آتے نظر آتے ہیں۔مگر دورِرفتہ کی پنگھٹ اور آج کی پنگھٹ میں کچھ نمایاں فرق موجودہے۔ ماضی میں سکھیوں سہیلیوں کے قافلے خوبصورت مٹکے اٹھائے رواں دواں نظر آتے تھے۔ہرلحاظ سے پرخطرراستوں پر چلنے والی گوریاں اپنے گھر والوں کیلئے پانی کی ترسیل کی ذمہ دار ہوتی تھیں۔ان پنگھٹوں کے ڈگر بڑے کٹھن ہوتے تھے۔ان کی راہوں میں عشاق کی آنکھیںبچھتی تھیں اور ہاتھوں سے دل تھامے جاتے تھے۔مٹی کے برتنوں کوکنکر بھی لگا کرتے تھے اور بہت سے نندلال پنگھٹ پہ چھیڑ خوانی کی غرض سے براجمان ہوا کرتے تھے۔ان حالات میں اُن مٹکوں اورعصمت کی حفاظت جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔مگرآج فلٹر والی پنگھٹ پہ وہ عشقیہ ومعشوقیہ سرگرمیاں نظر نہیں آتی ہیں کیونکہ آج پانی بھرنے کیلئے وہ نازک اندام گوریاں پنگھٹ پہ کہاں آتی ہیں؟ بلکہ ان کی جگہ بے شمار گورے، کالے،بھینگے اور دیگر اقسام کے مرد حضرات پلاسٹک کے کینز اور بوتلیں تھامے غیر رومانوی انداز میں کھڑے نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ سائیکلوں،سکوٹروں،رکشوں اور گاڑیوں پہ پانی بھرنے آتے ہیں لیکن یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ لوگ پھر سے دورسے پانی بھر کر لانے کی روایت کی طرف مجبوراً لوٹ رہے ہیں۔ریگستانی علاقوں میں تو پنگھٹ کی رسم من وعن آج بھی موجود ہے اور مساوات کی معراج کا یہ عالم ہے کہ انسان اور مویشی ایک ہی گھاٹ سے اب بھی پانی پیتے ہیں۔٭…٭…٭