گدھا
اسپیشل فیچر
یقین مانیے کہ گدھا ایک نہایت عقل مند ہوش مند جانور ہے۔ اس لیے کہ اپنے ذاتی معاملات میں گدھے کا شعور بلند تر ہے ۔ اگر کوئی گدھے کو گدھا کہے تو مجھے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کہنے والے کو کوئی شدید صدمہ تو نہیں پہنچا کہ وہ گدھے کے لیے اس قسم کے لایعنی اور قابل شرمندگی الفاظ کا استعمال کر رہا ہے مگر کیا کہیں زبان اور معاشرے میں قابل قدر گدھے صاحب کے لیے فقط گدھے ہی کا لفظ لغت اور عوام کی زبان پر زد عام ہے چونکہ میں بھی گدھے کو گدھا ہی سمجھتا ہوں اور کہہ رہا ہوں تو لازم ہے کہ یہ قانون مجھ پر بھی اسی طرح لاگو ہوتا ہے جس طرح دوسروں پر لاگو ہوتا ہے مگر میں نے اس کا ایک سیاسی حل نکالا ہے وہ یہ کہ میں گدھے کو نہایت عقل مند قرار دے کر اپنے اور اس کے مفادات کے تحفظ میں ’’جت‘‘ گیا ہوں۔میں گدھے کے بارے میں کسی قسم کے سیاسی بیانات نہیں دینا چاہتا کیونکہ مجھے شدید خوف لاحق ہے کہ کہیں ان بیانات سے گدھے برا نہ مان جائیں یا کہیں ان کے حقوق پر ضرب نہ لگ جائے یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میں جس گدھے پر انشائیہ لکھ رہا ہوں وہ تو برا نہ منائے بلکہ اس کی برادری کے دیگر گدھے اور گدھوں کے قبائل اس بات کو دل میں رکھ کر مجھے بلا وجہ انتقام کا نشانہ نہ بنانے لگیں۔ اور اس قسم کی دیگر وجوہات ہیں کہ میں گجھے کی عظمت اور مرتبے کا قائل ہو چکا ہوں مجھے پورا یقین ہے کہ اگر آپ بھی گدھے اورگدھے کی نفسیات اس کی سوجھ بوجھ اس کے طریقہ کار واردات اس کی احتیاجات اور اس کی سیاسی بصیرت کو میری طرح تھوڑا تھوڑا سمجھ گئے تو ہو سکتا ہے کہ آپ گدھوں کی ملکی یا عالمی کانفرنس طلب کرلیں اور ان کی عقل و دانائی کے میری طرح گن گانے لگیں۔گن گانے سے یاد آیا کہ گدھے کو گانے بجانے سے بھی خاص رغبت ہوتی ہے بعض احباب کا کہنا ہے کہ گدھے کو موسیقی انس لطیف ہے وہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ گا سکتا ہے اس کی گائیکی دنیا بھر میں مشہور ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ گدھے ایک ہی سر میں سنگیت جگاتے ہیں جس کو سب گدھے عالمی سطح پر بلا تکلیف نہ صرف سمجھتے ہیں بلکہ اس کے سر کے ساتھ سر ملانے میں بھی ید طولیٰ رکھتے ہیں موسیقی کا یہ اظہار و ابلاغ وسیع تر نظریات کا حامل قرار دیا جاتا ہے عالم طور پر کہا جاتا ہے بلکہ زیادہ تر بزرگ لوگ کہتے ہیں کہ موسیقی گدھے رات بارہ بجے آلاپتے ہیں اس میں جنات بھی پوری طرح ملوث ہوتے ہیں وجہ اس ذکر کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ جنات جب رات بارہ بجے کے قریب انسانی بستی میں جا کر بھیس بدلتے ہیں تو ان کا پسندیدہ روپ گدھا ہوتا ہے۔ جب وہ گدھے کا بھیس بدل لیتے ہیں تو تاریخ میں یہ لکھا ہوا بھی ہم نے پڑھا ہے کہ وہ ’’ڈھیچو ڈھیچوں‘‘ کی لہر میں غزل سرائی کا آغاز کرتے ہیں۔ (منتخب تحریریں سے مقتبس)