نا سٹلجیا ( یاد ما ضی )

نا سٹلجیا ( یاد ما ضی )

اسپیشل فیچر

تحریر : امجد محمود چشتی


انسان ویسے تو اشرف المخلوقات ہے مگر ناسٹلجیا کا احساس اور شعور رکھنا انسان ہونے کا ہی المیہ ہے۔ یہ انسان کا وہ شعور ہے جو اُسے ماضی پرست بنا تا ہے۔ انسان بیتے دنوں کو کبھی بھول نہیں پاتا اور آخری دم تک یا د رکھتا ہے۔ بچپن کا جگنو، کاغذ کی کشتی اور بارش کاپانی کب بھلائے جا سکتے ہیں۔ وہ گلی، محلہ، کھیت اور پرانا انداز زندگی ہمیشہ یاد آتا ہے۔ وہ ریت کے گھروندے، وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیریں کتنا رلاتی ہیں۔ جب رشتوں کے بندھن اور دنیا کے غم اجنبی ہوتے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگوں کو یا د ہوگا جب ریڈیو سیلون چلتا تھا۔ بی بی سی لندن کی سیر بین اور صِدو بھائی، نظام دین کا کردار اور مسٹر جیدی وغیرہ، آج بھی ذہن میں نقش ہیں۔ ہزاروں یادیں ماضی کی دھول میںدب چکیں۔ ناسٹلجیا کا شعور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جب ہم پیچھے مڑکے دیکھتے ہیں کہ جس قافلے میں ہم نے بچپن سے سفر شروع کیا تھا اس کے منظر کتنے بدل چکے ۔ کتنے لوگ ہمارے ساتھ کبھی شریک سفر تھے مگر آ ج اس سفر میں شامل نہیں ہیں۔قدم قدم پہ کوئی نہ کوئی جدا ہو جاتا ہے شب و روز، ماہ و سال پلک جھپک میں بیت جاتے ہیں اور صرف یا دیں ہی رہ جاتی ہیں۔ہر خوشی کے موقع پر، ہر نئی رت آنے پہ اور ہر نئے موڑ پر جانے والے اتنی شدت سے کیوں یاد آتے ہیں۔ ہر نیا موسم پرانی یادیں لئے آواز دیتا ہے۔یا د جب ایڑیاں رگڑتی ہے تو درد کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں کاش کوئی وہ گزرے لمحات، وہ بچھڑے لوگ اور وہ بچپن لوٹا دے، یہ وہ ناکام خواہش ہے جس کی حسرت لئے انسان خود اک روز زمٹی میں سو جاتا ہے۔ دنیا کا ہر شخص ہی ناسٹلجیا کا شکار رہا ہے۔غالب نے یاد ماضی کے عذاب سے گلو خلاصی کے لئے اپنے حافظے کے چھن جانے کی بد دعا کی۔اقبال کو گزرا زمانہ شدت سے یاد آتا تھا۔ ناصر کاظمی ناسٹلجیا کی کے دائمی مریض واقع ہوئے جبکہ ساغر صدیقی بیتے لمحات کی لہروں کی واپسی کے منتظر رہے۔انسانی فطرت ہے کہ بد حال ماضی بھی خوش گوار لگتا ہے اور خوش حال، حال بھی بدحال محسوس ہوتا ہے۔مگر اس افسردہ اور مایوس کن صورت حال میں ہمیں اک خوب صورت پیغام بھی ملتا ہے۔ اگر ہم گزرے دور کی اہمیت کو مد نظر رکھیں اور اس خیال کو اپنی سوچ کا حصہ بنالیں کہ فی زمانہ جو لوگ ہمارے ساتھ زندگی کے سفر میں شامل ہیں،ہمارے ماں باپ،بہن بھائی، بچے،اعزہ و اقارب اور دوست احباب یہ سب ہمیشہ رہنے والے نہیں ، ہم سب مسافر چند روزہ ہیں۔نہ جانے ان انمول رشتو ں کے ساتھ کتنا ساتھ باقی ہے۔ کیا معلوم کتنے قیمتی لمحات اور شب وروز اپنے پیاروں کے ہمراہ گزار پائیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو اپنی کج روی اور انا میں ہم خوش نما لمحے،خوشیاںاور رشتے کھو دیںاور آنے والے کل میں گزری یادوں اور پچھتاووں کی اذیت سہنا پڑے۔یا پھر عمر بھرکی سنگ زنی کے بعد اعزاز کے ساتھ دفنانے کی دیرینہ رسم نبھاتے پھریں۔ خلیل جبران لکھتے ہیں ’’بیتا کل آج کی یادیں ہیں اورآنے والا کل آج کے خواب ہیں‘‘۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
مصر میں اہراموں کی تعمیر

مصر میں اہراموں کی تعمیر

مصر کے تین اہرام صحرا میں سینہ تانے اس طرح کھڑے ہیں جیسے تین سنتری کھڑے ہوئے پہرہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ فرض گزشتہ تقریباً پونے پانچ ہزار سال سے ادا کر رہے ہیں۔ اتنے طویل عرصہ کے بعد بھی وقت ان کا کچھ نہ بگاڑسکا۔ یہ تینوں آج بھی اسی مضبوطی سے اپنی جگہ پرجمے ہوئے ہیں جیسے اپنی تعمیر کے وقت تھے۔ ان تینوں میں جو اہرام سب سے بڑا ہے۔ اس میں فرعون ''خوفو‘‘ کی ممی محفوظ ہے۔ خوفو کو یونانی زبان میں '' کیو پس‘‘ Cheops))کہا جاتا ہے۔ یہ عظیم اہرام قدیم دنیا کے ان سات عجائبات میں سے ایک ہے جن میں سے چھ وقت کی دستبرد سے محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ عظیم اہرام چونے کے پتھر اورگرینائٹ کے بلاکوںسے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کی تعمیر میں کم از کم بیس لاکھ پتھر کے بلاک استعمال ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کا وزن پندرہ ٹن سے بھی زائد ہے۔ اپنی بنیاد سے یہ ہرم تقریباً 147 میٹر یا 480فٹ بلند ہے۔ اگر ہم غور کریں تو یہ بات بڑی حیران کن معلوم ہو گی کہ اتنے قدیم زمانے میں اس قدر بلندی پرپتھر کے 15ٹن وزنی بلاک کیسے پہنچائے جاتے تھے؟۔یہ اہرام فراعنہ مصرکی تاریخ کے قدیم بادشاہت والے دور میں چوتھے خاندان کے فراعنہ نے تعمیر کرائے تھے۔قدیم بادشاہت کا زمانہ شان و شوکت کی پانچ صدیوں پر محیط ہے۔ اس زمانے کے مصر میں زندگی کے ہر گوشہ میں ترقی ہوئی۔ خصوصاً آرٹ کو تو قابل رشک حد تک فروغ حاصل ہوا۔ مجسمہ سازی اس کمال کو پہنچی کہ بعد کے زمانے اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر رہے۔ اہرام بھی اس زمانے میں فن تعمیر کے لحاظ سے انتہا کو پہنچے۔چوتھے خاندان کے دوسرے حکمران خوفو نے جب 2675ق م میں اپنے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا تواس کام پر ایک لاکھ سے زائد مزدورلگائے۔ ہیروڈوٹس نے لکھا ہے کہ ایک ایک لاکھ مزدوروں( غلاموں) کا ایک گروپ تین ماہ کیلئے کام کرتا تھا۔ ہر تین ماہ کے بعد یہ گروپ بدل جاتا۔ یوں دارالحکومت ممفس سے ہرم تک جانے والی شاہراہ کی تعمیر پر دس سال کا عرصہ لگا۔ اس کے بعد ہرم کی تعمیر میں مزید 20 سال لگے۔مصریات کی ایک جدید محقق ومورخ ڈاکٹر مارگریٹ مرے لکھتی ہیں کہ وہ تین مہینے جب معماروں کو اہرام کی تعمیر کے کام پر لگایا جاتا۔ نیل کی طغیاتی کے مہینے ہوتے تھے۔ ان مہینوں میں مصر میں کھیتوں میں زراعت کے تمام کام معطل ہو جاتے اور کاشتکار بے کار بیٹھ جاتے۔ ایسے میں خوفو نے اپنی رعایا کی بھلائی کیلئے عظیم ہرم کی تعمیر کا آغاز کیا جس سے سال کے خراب ترین مہینوں میں ایسا روزگار میسر آتا جو کھیتی باڑی سے بھی زیادہ بار آور تھا۔خوفو کی طرح اس کا جانشین''خافرا‘‘ بھی اپنی تعمیر کردہ عمارات اور اپنے ہی مجسموں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ یہ امر بھی فرعونوں میں مشترک ہے کہ ان دونوں سے مصر کا مذہبی طبقہ یعنی پروہت بے زار تھے۔ ہیروڈوٹس کو اس کی سیاحت مصر کے دوران پروہتوں نے بتایا کہ ان دونوں فرعونوں کے عہد میں مندروں پر تالے پڑ گئے اور کسی کو دیوتائوں کی پرستش کرنے کی اجازت نہ رہی تھی۔ہیروڈوٹس نے اپنی سیاحت ہی کے دوران خافرا کے اہرام کے دروازے پرمصری زبان میں نصب ایک کتبہ دیکھا تھا جس میں لکھا تھا کہ ہرم کی تعمیر کے دوران معماروں اور مزدوروں کیلئے جو مولیاں، پیاز اور لہسن روزانہ فراہم کیا جاتا تھا اس پر سولہ سوٹیلنٹ (تقریباً اڑھائی لاکھ روپیہ) کا خرچہ اٹھتا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جب صرف لہسن پر سولہ سو ٹیلنٹ چاندی کا خرچہ اٹھتا تھا تو تعمیر کے دیگر اخراجات کتنے وسیع ہوں گے۔باقی دو اہراموں کی طرح تیسرا اہرام بھی چوتھے خاندان ہی کے فرعون منکورا (Myceriuns)نے تعمیر کرایا تھا۔ ہیروڈوٹس کے بقول منکورا ایک عدل پسندفرعون تھا۔ اس نے اپنے پیش روئوں کے عہد میں بند ہو جانے والے مندروں کے دروازے کھلوا دیئے اور لوگوں کو دیوتائوں کی پرستش کی اجازت دے دی تھی۔ اس طرح وہ پروہتوں کے دل بھی جیتنے میں کامیاب ہو گیا۔غزہ کے یہ تینوں اہرام آج بھی ان تینوں فرعونوں کی انمٹ یادگاروں کے طور پر باقی ہیں۔ بظاہر پتھروں کا ڈھیر نظر آنے والے یہ اہرام دراصل اس عہد میں علم ریاضی کی ترقی یافتہ صورت کے بہترین مظاہر ہیں۔ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ صرف بڑے ہرم کے پتھروں سے سارے فرانس کے گرد تین فٹ اونچی اور ایک فٹ چوڑی دیوار تیار کی جا سکتی ہے۔ صرف اس بات سے آپ کو قدیم مصری قوم کی محنت اور عظمت کا اندازہ بخوبی ہو سکتا ہے۔کیوپس کا ہرم مکمل طور پر مخروطی شکل کا مثلث نما چہار پہلومینار ہے۔ اس کی کسی سمت میں بھی دروازہ نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کی سب سے نچلی منزل ایک مربع چبوترے کی مانند ہے۔ جس کا ہر ضلع 763 فٹ طویل ہے۔ اس چبوترے کی اونچائی 4 فٹ 8 انچ ہے۔ اس چبوترے پر اسی اونچائی کا ایک دوسرا چبوترا تعمیر کیا گیا ہے، جس کی لمبائی چوڑائی پہلے سے کم ہے۔ اس طرح مینار کی چوٹی تک دو سو کے قریب چبوترے مسلسل چلے گئے ہیں۔ ان چبوتروں کے بتدریج گھٹنے سے نیچے سے اوپر تک سیڑھیاں بن گئی ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس بڑے اہرام میں پانچ کروڑ مکعب فٹ پتھر لگا ہے ۔820ء تک اس اہرام کی اندرونی کیفیت کسی کو معلوم نہ تھی۔ اس سال خلیفہ مامون الرشید نے مہینوں کی محنت اور بڑا کثیر سرمایہ صرف کرکے اس کو شمال کی سمت سے کھلوایا۔ جب یہ حصہ کھلا تو شگاف کے پاس ہی مامون کو اس قدر زر نقد رکھا ہوا ملا جتنا اس عظیم عمارت کو کھلوانے میں صرف ہوا تھا۔ کہتے ہیں کہ شاید اہرام تعمیر کرنے والے منجموں نے اپنے علم نجوم سے ہزاروں برس پہلے ہی یہ بات معلوم کر لی تھی کہ اسے فلاں سن میں فلاں بادشاہ کھلوائے گا اور اس کا کس قدر زر اس کام پر صرف ہوگا۔ شاید انہیں وہ سمت بھی معلوم تھی جس سمت سے اس اہرام کو کھولا جانا تھا۔ اسی وجہ سے انہوں نے پہلے ہی وہ محنتانہ رکھ دیا تھا۔ ایسی ہی ایک روایت علامہ شبلی نعمانی نے اپنے سفر نامے میں رقم کی تھی کہ 593ء میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بیٹے ملک العزیز نے بعض عاقبت اندیشوں کے مشورہ پر اس اہرام کو مسمار کرانا چاہا مگر لاکھوں روپے کے زیاں کے بعد بھی صرف اوپری سطح کو نقصان پہنچ سکا۔ مجبوراً اسے کام بند کروانا پڑا۔

ولیم کیکسٹن

ولیم کیکسٹن

انگریزی زبان دنیا کے تقریباً تمام مہذب ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اسے عام کرنے میں ولیم کیکسٹن کا بڑا حصہ ہے اور اپنے وطن کیلئے یہ اس کی بہت بڑی خدمت ہے۔ وہ ایک موجد ہونے کے علاوہ ایک عالم اور ماہر تعلیم تھا۔ وہ انگلستان کا پہلا طابع کہلاتا ہے لیکن اس سے زیادہ اہم خدمت اس نے یہ انجام دی کہ انگریزی زبان و کلچر کو یورپ کے علاوہ دوسرے براعظموں تک پہنچایا۔ یہی پہلو اس کی زندگی کا سب کیلئے قابل تقلید ہے۔ مادر وطن کی اس سے زیادہ خدمت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنی زبان اپنی ثقافت اپنی تہذیب اور اپنی روایات کی نہ صرف خود قدر کرے بلکہ انہیں دوسروں کے سامنے اس طرح پیش کرے کہ غیر بھی گرویدہ اور قدر دان بن جائیں۔ولیم کیکسٹن 1423ء میں پیدا ہوا۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ ایک کمپنی میں کام سیکھنے لگا اور 1441ء میں وطن کو خیر باد کہہ کر اس نے یورپ کے دوسرے ملکوں میں کچھ وقت گزارا۔ آدمی نیک چلن اور ایماندار تھا۔ جلد ہی امیر بن گیا اور چند سال بعد اپنے وطن واپس آ گیا۔جلد ہی کیکسٹن کا شمار لندن کے ممتاز تاجروں میں ہونے لگا۔ اس کے علاوہ ایڈورڈ چہارم نے اسے یہ اعزاز بھی بخشا کہ وہ تاجروں کے باہمی جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرے۔ برآمدی تجارت کو ترقی دے اور دوسرے ممالک میں انگلستان کی ساکھ قائم کرے۔ کئی سال تک کیکسٹن یہ خدمات انجام دیتا رہا۔ اسے دربار شاہی کا اعتماد حاصل رہا۔ اس نے ایک فرانسیسی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔اس ترجمے کے سلسلے میں 1472ء میں کیکسٹن کو کتابیں چھاپنے کے فن سے دلچسپی پیدا ہوئی اور دو سال بعد اس نے ایک شخص کی معاونت سے ایک چھاپہ خانہ قائم کیا۔ اسی پریس سے انگریزب زبان کی پہلی کتاب چھپ کر نکلی۔ یہ وہی ترجمہ تھا جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔1476ء میں اس نے ایک اور کتاب طبع کی۔ یہ بھی فرانسیسی زبان سے ترجمہ کی گئی تھی۔اس کے بعد کیکسٹن نے محسوس کیا کہ طباعت علم کو عام کرنے کیلئے کتنی ضروری ہے اور اس کے ذریعے وہ اپنے ہم وطنوں کو بالخصوص اور بنی نوع انسان کی بالعموم کتنی خدمت کر سکتا ہے۔ اس کا یہ جذبہ ایثار پر مبنی تھا، تجارت یا ذاتی فائدے پر نہیں۔ اس نے تہیہ کر لیا کہ وہ اچھی کتابیں چھاپ کر علم اور انسانیت دونوں کی خدمت کرے گا۔رفتہ رفتہ انگلستان کے بہت سے تاجر اور شرفا بھی اس نیک کام میں کیکسٹن کے شریک ہو گئے۔ ان میں ایڈورڈ چہارم اور اس کے بعد تخت انگلستان کے دو وارثوں رچرڈ سوم اور ہنری ہفتم کے نام قابل ذکر ہیں۔ کیکسٹن کا پریس چھوٹا تھا لیکن اس نے اسے ترقی دی۔ شروع میں فرانسیسی زبان کے کچھ ترجمے چھاپے لیکن بعد میں اپنے ملک کے شاعروں کا کلام طبع کیا۔ رفتہ رفتہ اس کے پریس سے بہت سی کتابیں شائع ہوئیں۔ کتابیں چھاپنے کے علاوہ ان کا ترجمہ کرنا، انہیں ترتیب دینا، غلطیاں درست کرنا اور ایسے ہی دوسرے کام بھی اسی کے ذمہ تھے۔کیکسٹن کی خواہش یہ رہی کہ اس کے پریس سے صرف ایسی کتابیں شائع ہوں جو اخلاقی اور سماجی نقطہ نظر سے بہترین ہوں۔ وہ اپنی کوششوں سے اپنی قوم کا معیار بلند کرنا چاہتا تھا اور اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی کتاب نہیں دینا چاہتا تھا جو پستی کی طرف لے جائے۔کیکسٹن کی مقبولیت اور شہرت کی وجہ سے انگلستان کے کچھ دوسرے تاجروں نے بھی طباعت کی طرف توجہ دی۔ آکسفورڈ اور دوسرے شہروں میں چھاپے خانے قائم ہونے لگے۔ ایک اور شخص لیٹو نے لندن میں ایک اچھا پریس کھولا۔ مقابلہ ہو جانے کی وجہ سے کیکسٹن نے فن طباعت کو اور بھی ترقی دی۔ کتابیں زیادہ خوبصورت چھپنے لگیں۔1481ء میں اس نے انگریزی زبان کی وہ پہلی کتاب چھاپی جس میں تصویریں بھی شامل تھیں۔ اس کا نام تھا'' دی مِرَر آف دی ورلڈ‘‘ یعنی آئینہ عالم‘‘ ظاہر ہے ایسی کتاب میں تصویریں ضروری تھیں۔اگر آپ ان ابتدائی کتابوں کو دیکھیں تو آپ کو بے اختیار ہنسی آ جائے گی کسی کتاب پر صفحوں کی تعداد نہیں ہوتی تھی۔ کسی کا املا غلط ہوتا تھا۔ ٹائٹل سرے سے ہوتا ہی نہیں تھا۔ لیکن کیکسٹن ان تکلفات کا قائل نہیں تھا۔ وہ اس بات پر زور دیتا تھا کہ کتاب میں لکھا گیا ہے وہ اپنی مطبوعات میں پاکیزگی، اخلاقی اقدار سے علمی خوبیوں کا خاص لحاظ رکھتا تھا۔ اسے افسانوں سے بھی لگائو تھا اور وہ قصے کہانیوں کی کتابیں بھی شوق سے چھاپتا تھا۔آپ کو اس شخص کی محنت کا اندازہ اس حقیقت سے ہو سکتا ہے کہ ویسٹ منسٹر میں اس نے جو ایک چھوٹا سا پریس قائم کیا تھا، وہاں سے 80 سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ان میں 21ترجمے تھے جو کیکسٹن نے خود کئے تھے۔ اس نے پرانے زمانے میں بھی اس کی کتابوں کے دو تین ایڈیشن چھپتے تھے، کیونکہ لوگ اس کے ذوق اور انتخاب کو پسند کرتے تھے اور اس کی مطبوعات کو معیاری حیثیت حاصل تھی۔کیکسٹن مرتے دم تک کام کرتا رہا۔ آخر عمر میں بھی اس نے کچھ طویل تراجم کئے اور قوم کی خدمت کو اپنا شعار بنائے رکھا۔ یہاں ہمیں ان مشینوں سے غرض نہیں جنہیں کیکسٹن نے فن طباعت کو ترقی دینے کی غرض سے ایجاد کیا بلکہ اس کی ان خدمات کا ذکر مقصود ہے جو اس نے اپنی قوم کا اخلاق درست کرنے نیز اسے ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے سلسلے میں انجام دیں۔ وہ بالکل تنہا تھا لیکن اگر ہر شخص اپنے اپنے پیشے میں یہ عظیم مقصد اپنے سامنے رکھے تو خواہ وہ کسی بھی ملک و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔ ایک قومی خدمت انجام دے گا‘‘۔

آج کا دن

آج کا دن

''عالمی یوم عجائب گھر‘‘18مئی کو دنیا بھر میں ''عالمی یوم عجائب گھر‘‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن منانے کی منظوری اقوام متحدہ نے 1977ء میں ماسکو میں ہونے والے اجلاس میں دی تھی جس کی سفارش عجائب گھروں کی تنظیم ''انٹرنیشنل کونسل آف میوزیم‘‘ نے کی تھی اور 1978ء سے یہ دن ہر سال باقاعدگی کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا بھر کے عوام میں تہذیب اور تاریخ کے ساتھ ماضی کو محفوظ رکھنے اور اس کے مسلسل مطالعے کا شعور پیدا کرنا ہے۔وکسبرگ کا محاصرہامریکی خانہ جنگی کے دوران 18 مئی 1863ء میںوکسبرگ کا محاصرہ ایک بڑی فوجی کارروائی تھی۔ ٹینیسی کی فوج نے دریائے مسیسیپی کو عبور کیا اور کنفیڈریٹ آرمی آف مسیسیپی کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔ وِکسبرگ دریائے مسیسیپی پر کنفیڈریٹ کا آخری بڑا گڑھ تھا۔اس پر قبضہ کرنے سے شمالی حکمت عملی، ایناکونڈا پلان کا دوسرا حصہ مکمل ہوا۔ چالیس دن کے بعدسامان ختم ہونے پر گیریژن نے ہتھیار ڈال دیے۔تاتاریوں کی جلاوطنیکریمیائی تاتاریوں کی جلا وطنی دراصل ایک ثقافتی نسل کشی تھی جوسوویت پولیس کی طرف سے کی گئی۔ 18مئی 1944ء کو تاتاری بچے، بوڑھوں اور خواتین کو جلاوطن کرنے کیلئے مویشی لے جانے والی ٹرینوں کا استعمال کیا گیا۔تمام لوگوں کو سوویت افواج کی سربراہی میں روانہ کیا گیا۔یہ لوگ ان نسلوں میں سے ایک تھے جو سوویت یونین میں سٹالن آبادی کی منتقلی کی پالیسی میں شامل تھے۔جلاوطنی کے دوران تقریباً دو لاکھ افرادکا قتل عام کیا گیا۔پائلٹ جیکولین کوچران کا ریکارڈ جیکولین کوچران کا شمار امریکی ریسنگ پائلٹس میں ہوتا ہے۔ جیکولین نے متعدد ریکارڈ اپنے نام کئے۔ 18 مئی 1953ء کو آواز کی رفتار کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی پہلی خاتون پائلٹ تھیں۔ان کا شمار امریکہ کی ان خواتین میں ہوتا ہے جنہوں نے جنگی حالات میں بھی جہاز اڑانے کی تربیت حاصل کر رکھی تھی۔جاسوس کو سزائے موتالیاہو بین شاوّل کوہن جسے عرف عام میں ایلی کوہن کہا جاتا ہے، ایک مصری نژاد اسرائیلی جاسوس تھا۔ وہ شام میں 1961ء سے 1965ء تک اپنی جاسوسی کیلئے مشہور تھا۔ جہاں اس نے شام کے سیاسی اور فوجی رہنماؤں کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے۔شامی کاؤنٹر انٹیلی جنس نے بالآخر جاسوسی کا پردہ فاش کیا اور کوہن کو اپنے قانون کے مطابق مجرم ٹھہرایا۔ اسے 18مئی 1965ء کو سزائے موت سنائی گئی اور سرعام پھانسی دی گئی۔

یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

یادرفتگاں: دین دار بادشاہ: سلطان نورالدین زنگی

نورالدین ابو القاسم محمود ابن اماد دالدین ''زنگی سلطنت‘‘ کے بانی تھے۔نورالدین زنگی 11فروری 1118ء موصل عراق میں پیدا ہوئے،1146ء سے 1174ء تک 28 سال حکومت کی اور15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نورالدین زنگی نے مسیحوں سے اپنے دور حکومت میں بیت المقدس واپس لینے کیلئے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اِس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے گرد و نوح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا ۔ شروع میں نور الدین کا دارالحکومت حلب تھا، 549ہجری میں انہوں نے دمشق پر قبضہ کر کے اسے دارالحکومت قرار دے دیا ۔ انہوں نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملہ کرکے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور بعد ازاں ایڈیسیا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کی عیسائیوں کی کوششو ں کو بھی ناکام بنا دیا۔ دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ہی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں کامیاب ہوکر بیت المقدس واپس لینے میں فتح یاب ہوئے ۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ہوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لئے عیسائی اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ۔ یہ دیکھ کر نورالدین نے ایک فوج بھیج کر مصر پر بھی قبضہ کر لیا اور فاطمی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا ۔ سلطان نورالدین زنگی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ روضہ رسول ﷺ کی حفاظت کی سعادت ہے ، یہ واقعہ مدینہ کی تاریخ کی تقریباً تمام کتب میں موجود ہے، سمہودی کے قول کے مطابق عیسائیوں نے یہ سازش 557ہجری میں مرتب کی۔ اس وقت شام کے باشاہ کا نام سلطان نورالدین زنگی تھا اور اس کے مشیر کا نام جمال الدین اصفہانی تھا ۔ایک رات نماز تہجد کے بعد سلطان نورالدین زنگی نے خواب میں دیکھا کہ رسول کریم ﷺ 2سرخی مائل رنگت کے آدمیوں کی طرف اشارہ کرکے سلطان سے کہہ رہے ہیں کہ ''مجھے ان کے شر سے بچائو ‘‘سلطان ہر بڑا کر اُٹھا، وضو کیا ، نفل ادا کئے اور پھر اس کی آنکھ لگ گئی ۔ خواب دیکھنے کے بعد آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں ؟ اس کا اب کسی سے ذکر نہ کریں اور فوراً مدینہ روانہ ہوجائیں۔یہ مشورہ سلطان کے مشیر جمال الدین اصفہانی نے دیا۔ اگلے روز سلطان نے 20مخصوص افراد اور بہت سے تحائف کے ساتھ مدینہ کیلئے کوچ کیا۔ سلطان نے روضہ رسولﷺ پر حاضری دی اور مسجد نبوی میں بیٹھ گئے ، اعلان کیا گیا کہ اہل مدینہ مسجد نبوی میں پہنچ جائیں ، جہاں سلطان ان میں تحائف تقسیم کریں گے ، لوگ آتے گئے اور سلطان ہر آنے والے کو باری باری تحفہ دیتے گئے ۔ اس دوران وہ ہر شخص کو غور سے دیکھتا رہا لیکن وہ دو چہرے نظر نہ آئے جو اس ایک رات میں تین بار خواب میں دکھائے گئے تھے۔ سلطان نے حاضرین سے پوچھا ''کیا مدینہ کا ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے ؟جواب اثبات میں تھا۔سلطان نے پھر پوچھا کیا تمہیں یقین ہے کہ ہر شہری مجھ سے مل چکا ہے؟ اس بار حاضرین نے کہا ، ''سوائے دو آمیوں کے ‘‘راز تقریباً فاش ہوچکا تھا۔ سلطان نے پوچھا وہ کون ہیں اور اپنا تحفہ لینے کیوں نہیں آئے ؟ بتایا گیا کہ یہ مراکش کے صوم وصلوۃ کے پابند دو متقی باشندے ہیں، دن رات رسول کریم ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اور ہر ہفتے مسجد جاتے ہیں،فیاض اور مہمان نواز ہیں ، کسی کا دیا نہیں لیتے ۔ سلطان نے کہا ''سبحان اللہ ‘‘اور حکم دیا کہ ان دونوں کو بھی اپنے تحائف وصول کرنے کیلئے فوراً بلایا جائے، جب انہیں یہ خصوصی پیغام ملا تو انہوں نے کہا ''الحمد اللہ ‘‘ہمارے پاس اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور ہمیں کسی تحفے تحائف یا خیر خیرات کی حاجت نہیں ۔جب یہ جواب سلطان تک پہنچایا گیا تو اِس نے حکم دیا کہ اِن دونوں کو فوراً پیش کیا جائے ، حکم کی فوری تعمیل ہوئی ، ایک جھلک ان کی شناخت کیلئے کافی تھی ، تاہم سلطان نے اپنا غصہ قابو میں رکھا اور پوچھا تم کون ہو ؟ یہاں کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم مراکش کے رہنے والے ہیں حج کیلئے آئے تھے اور روضہ رسول ﷺ کے سائے زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ سلطان نے سختی سے کہا ، کیا تم نے جھوٹ بولنے کی قسم کھا رکھی ہے ؟ اب وہ چپ رہے ، سلطان نے حاضرین سے پوچھا، یہ کہاں رہ رہے ہیں ؟ بتا یا گیا کہ روضہ رسول کے بالکل نزدیک ایک مکان میں جو مسجد نبوی کے جنوب مغرب میں دیوار کے ساتھ تھا۔ سلطان فوراً اور انہیں ساتھ لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا ۔ سلطان مکان میں گھومتا پھرتا رہا ، اچانک نئے اور قیمتی سامان سے بھرے ہوئے ، اس مکان میں اس کی نظر فرش پر بچھی ہوئی ایک چٹائی پر پڑی ، نظر پڑنی تھی کہ دونوں مراکشی باشندوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں ، سلطان نے چٹائی اُٹھائی، اس کے نیچے ایک تازہ کھدی ہوئی سرنگ تھی ۔ سلطان نے گرج کر کہا کیا اب بھی سچ نہ بولو گے ؟ ان کے پاس سچ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ اُنہوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حکمران نے انہیں بہت سا مال و زر اور ساز و سامان دے کر ، حاجیوں کے روپ میں مراکش سے اس منصوبے پر حجاز بھیجا تھا کہ وہ روضہ مبارک تک پہنچ سکیں۔ اس ناپاک منصوبے کی تکمیل کیلئے اُنہوں نے حج کا بہانہ کیا اور اُس کے بعد روضہ رسولﷺ کے نزدیک مکان کرائے پر لے کر رہنے لگ گئے۔ ہر رات وہ سرنگ کھودتے جس کا روخ روضہ مبارک کی طرف تھا اور ہر صبح کھدی ہوئی مٹی چمڑے کے تھیلوں میں بھر کر جنت البقیع لے جاتے اور اسے قبروں پر بکھیر دیتے ۔ اُنہوں نے بتایا کہ ان کی ناپاک مہم بالکل آخری مراحل پر تھی کہ رات موسلادھار بارش کے ساتھ ایسی گرج چمک ہوئی کہ جیسے زلزلہ آگیا ہو اور اب جبکہ ان کا کام پایا تکمیل کو پہنچنے والا تھا تو سلطان ناجانے کیسے مدینہ پہنچ گئے۔ سلطان ان کی گفتگو سنتے جاتے اور روتے جاتے اور ساتھ ہی فرماتے جاتے کہ میرا نصیب کہ پوری دنیا میں سے اس خدمت کیلئے اس غلام کو چنا گیا۔ سلطان نور الدین زندگی نے حکم دیا کہ ان دونوں کو قتل کر دیا جائے، روضہ مبارک کے گرد ایک خندق کھودی جائے ، اور اس کے گرد سیسا پلائی دیوار بنا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی بد بخت ایسی مذموم حرکت کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہ سکے۔ مذکورہ بالا واقعہ 558ہجری مطابق 1142ء کا ہے۔ سلطان نے روضہ مبارک کے قریب ایک چبوترہ بھی بنوایاتاکہ اس پر ان قبور کی حفاظت کیلئے ہر وقت پاسبان موجود رہیں، سلطان کی زندگی کا یہ ایک عظیم ترین کارنامہ ہے جو کہ تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا رہے گا۔ سلطان نور الدین زندگی 15مئی 1174ء کو 58برس کی عمر میں شام کے دارالحکومت دمشق میں وفات پاگئے ۔ 

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

سماجی ویورز بڑے بڑے گھونسلے بنانے والا پرندہ

قدرت نے روئے زمین پر اشرف المخلوقات کے علاوہ بہت سے دیگر جاندار پیداکر رکھے ہیں جن میں طرح طرح کے جنگلی جانور ، زمین کے اوپر اور اندررینگنے والے حشرات جن کی تعداد انسانوں کئی گنازیادہ ہے۔ اس کے علاوہ پرندوں کی کئی اقسام بھی ہوائوں میں اڑتی نظر آتی ہے۔ آج ہم یہاں بات کریں گے پرندوں کی کرہ ارض پر پرندوں کی لاتعداد اقسام موجود ہیں۔ مختلف قسم کے پرندو ں کا رہن سہن ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہیں۔ کئی پرندے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں کئی چٹانوں میں اپنے مسکن بنا کر زندگی بسر کرتے ہیں گو کہ قدرت کے کرشموں سے انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور خدائے بزرگ و برتر کی وحدانیت اور عظمت پر یقین اور پختہ ہوجاتا ہے۔عام طور پر، پرندے گھونسلا بنانے والے سب سے زیادہ ہنر مند ہوتے ہیں، حالانکہ پرندے کی تمام اقسام گھونسلے نہیں بناتے، کچھ اپنے انڈے براہ راست چٹان کے کناروں یا مٹی پر ڈالتے ہیں، پرندوں کے بنائے گئے گھونسلے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے اور شکار کے خطرات کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ کچھ پرندے ایسے بھی ہے جو براہ راست اپنے بچوں کی پرورش نہیں کرتے، اپنے بچوں کو گلنے والے پودوں کے ٹیلے میں سینکتے ہیں۔ پرندوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو اپنے انڈوں کو گرم رکھنے کیلئے جیوتھرمل گرمی سے گرم ہونے والی آتش فشاں ریت کا استعمال کرتی ہے۔ گھونسلے بنانے والے پرندوں میں بہت سے پرندے شامل ہیں۔ زیادہ تر پرندوں کے گھونسلے درختوں کی شاخوں کے درمیان ہوتے ہیں ان گھونسلوں میں زیادہ تر مٹی، ٹہنیاں پتے اور پنکھوں کا استعمال کرتے ہوئے کپ کی شکل کے گھونسلے بناتے ہیں۔ کچھ پرندے، جیسے فلیمنگو اور سوئفٹ، اپنے گھونسلے جوڑنے کیلئے تھوک کا استعمال کرتے ہیں۔کچھ پرندوں کا گھونسلہ مکمل طور پر کیچڑ اور فضلے پر مشتمل ہوتا ہے،اور سورج کی تپش سے گھونسلے کا ڈھانچہ مضبوط ہو جاتا ہے۔کچھ پرندے اپنے گھونسلے کی جگہوں کو ڈھانپنے کیلئے پتوں کو ایک ساتھ سلائی کرتے ہیں۔ان پرندوں میں سے ایک پرندہ ایسا بھی ہے کہ جو درختوں کی شاخوں پر اس خوبصورتی اورمہارت سے اپنا گھونسلا بناتا ہے کہ تیز آندھی بھی اس گھونسلے کو نقصان نہیں پہنچاتی اور یہی نہیں وہ اپنے گھونسلے میں روشنی کیلئے جگنو کا استعمال بھی کرتا ہے۔ انہیں پرندوں میںبالڈ ایگلز ایک ایسا پرندہ ہے جس نے فلوریڈا کے علاقے میں ایک گھونسلہ بنایا جس کی گہرائی 6 میٹر اور چوڑائی 2.9 میٹر تھی اور اس کا وزن 2 ہزار 722 کلو گرام تھا۔آج تک روئے زمین پر کسی نے پرندے کا اتنا بڑا گھونسلہ نہیںدیکھا۔بے شک قدرت کے ایسے کرشمے انسانی عقل وشعور کو ورطہ حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی جنوبی افریقہ میں پایا جانے والا ایک پرندہ جسے ملنسار ویور ز کہا جاتا ہے ۔ ملنسار ویورکے بارے میں سب سے پہلے 1790ء میں تجزیہ کیا گیا۔یہ پرندہ 5.5 انچ کا ہوتا ہے اور اس کا وزن ایک سے سوا اونس کے درمیان ہوتا ہے۔یہ پرندہ جنوبی افریقہ کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ملنسار ویورز تمام پرندوں سے منفردایسا گھونسلہ بناتا ہے جس میں لکڑیوں کے بڑے بڑے ٹکڑے اور خشک گھاس استعمال کی جاتی ہے اور یہ گھونسلا اتنا بڑا ہوتا ہے کہ اس میں 400 سے 500 کے قریب پرندے رہ سکتے ہیں اور اس بڑے گھونسلے کے اندر مختلف چیمبر بنے ہوتے ہیں جیساکہ ایک بڑی حویلی میں مختلف رہائشی کمرے ہوں۔ گھونسلے کا داخلی راستہ نچلے حصہ میں ہوتا ہے جو ایک راہ داری میں جاتا ہے اسی راہ داری سے گزر کر پرندے اپنے اپنے چیمبرز میں جاتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کو ملنسار بنکرز یا نوآبادیاتی گھونسلے بھی کہا جاتا ہے۔ ان ملنسار بنکرز کے درجہ حرارت کو متوازن رکھنے کا بھی مکمل انتظام رکھا جاتا ہے تا کہ زیادہ گرمی اور زیادہ سردی اثر انداز نہ ہو سکے۔ سماجی ویورزاپنے گھونسلے درختوں اور دیگر اونچی جگہوں جیسے بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبوں پر بناتے ہیں یہ پرندہ مختلف جگہوں سے ٹہنیاں اکٹھی کر تے ہیں اور گھونسلے کو ٹہنی سے ٹہنی جوڑ بناتے ہیں۔ ان بڑے گھونسلوں کے اندر الگ کمرے ہوتے ہیں جنہیں مختلف پرندوں کے پنکھوں اور نرم گھاس کے استعمال سے آرام دہ بنایا جاتا ہے۔ ایک انفرادی گھونسلے کا وزن 2ہزار پاؤنڈ تک ہوسکتا ہے اور اس میں 100 سے زیادہ چیمبر ہوتے ہیں۔ گھونسلے کے داخلی راستے تقریباً 250 ملی میٹر لمبے اور 76 ملی میٹر چوڑے بنائے گئے ہیں اور ان پر تیز دھار لاٹھیاں لگائی گئی ہیں تاکہ سانپوں سمیت شکاریوں کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ گھونسلے بہت مضبوط ہوتے ہیں ۔ بجلی کے کھمبوں پر بنائے گئے گھونسلے گرمیوں میں آگ اور برسات کے موسم میں شارٹ سرکٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ اور کئی مرتبہ بارشوں کے باعث گھونسلے میں اس قدر پانی میں بھر جاتا ہے کہ درخت یا کھمبا گر جاتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

افغانستان سے سویت افواج کی واپسی1988ء میں آج کے روز سوویت افواج آٹھ سال سے زیادہ عرصہ لڑنے کے بعد افغانستان سے واپس گئیں۔ ایک لاکھ 15ہزار فوجیوں کی مرحلہ وار واپسی شروع ہوئی۔''سوویت افغان جنگ‘‘ 1979ء سے 1989ء تک جاری رہی۔ غیر ملکی طاقتوں کی شمولیت نے اس جنگ کو امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ایک پراکسی جنگ بنا دیاتھا۔ پہلی ائیر میلپہلی ائیر میل فلائٹ جس کو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے پوسٹ آفس ڈیپارٹمنٹ نے سویلین فلائٹ کے عملے کے ساتھ چلایا۔ اس فلائٹ نے 15 اگست 1918ء کو ٹیک آف کیا۔ ائیر میل کی یہ فلائٹ نیویارک سے واشنگٹن کیلئے طے شدہ تھی لیکن سفر کے دوران اس کا ایک سٹاپ فیلیڈیلفیا میں بھی تھا۔یہ فلائٹ15مئی کو پہلی ائیر میل لے کر واشنگٹن ڈی سی پہنچی۔برطانیہ کا ہائیڈروجن بم کا تجربہآپریشن گریپل 1957ء سے 1958ء میں بحرالکاہل میں گلبرٹ اور ایلیس جزائر میں مالڈن جزیرہ اور کریتیماتی میں ابتدائی ایٹم بموں اور ہائیڈروجن بموں کے چار برطانوی جوہری ہتھیاروں کے تجربات کا ایک مجموعہ تھا۔ اس پروگرام کے دوران نو جوہری دھماکے کئے گئے۔15مئی 1957ء کو برطانیہ نے پہلے ہائیڈروجن بم کا تجربہ کیا جو کامیاب رہا۔عراق بم دھماکے2013ء میں 15مئی سے21مئی تک عراق کے وسطی اور شمالی حصوں میں بہت خوفناک دھماکوں اور فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔کچھ واقعات جنوب اور مغرب کے قصبوں میں بھی پیش آئے۔ ان حملوں میں کم از کم 449افراد ہلاک اور تقریباً 732 شدید زخمی ہوئے۔انہیں عراق کی تاریخ کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔ٹوریون میں قتل عام 15مئی1911ء کو ٹوریون میں قتل عام ہوا۔جس میں فرانسسکو کی انقلابی افواج نے 300 سے زائد ایشیائی باشندوں کو قتل کیا، جن میں زیادہ تر کینٹونیز میکسیکن اور کچھ جاپانی میکسیکن تھے۔ کینٹونیز کے گھروں اور دکانوں کو لوٹ کر تباہ کر دیا گیا۔قتل عام کی تحقیقات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ نسل پرستی کا ایک عمل تھا۔