نا سٹلجیا ( یاد ما ضی )
اسپیشل فیچر
انسان ویسے تو اشرف المخلوقات ہے مگر ناسٹلجیا کا احساس اور شعور رکھنا انسان ہونے کا ہی المیہ ہے۔ یہ انسان کا وہ شعور ہے جو اُسے ماضی پرست بنا تا ہے۔ انسان بیتے دنوں کو کبھی بھول نہیں پاتا اور آخری دم تک یا د رکھتا ہے۔ بچپن کا جگنو، کاغذ کی کشتی اور بارش کاپانی کب بھلائے جا سکتے ہیں۔ وہ گلی، محلہ، کھیت اور پرانا انداز زندگی ہمیشہ یاد آتا ہے۔ وہ ریت کے گھروندے، وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیریں کتنا رلاتی ہیں۔ جب رشتوں کے بندھن اور دنیا کے غم اجنبی ہوتے ہیں۔ ہماری عمر کے لوگوں کو یا د ہوگا جب ریڈیو سیلون چلتا تھا۔ بی بی سی لندن کی سیر بین اور صِدو بھائی، نظام دین کا کردار اور مسٹر جیدی وغیرہ، آج بھی ذہن میں نقش ہیں۔ ہزاروں یادیں ماضی کی دھول میںدب چکیں۔ ناسٹلجیا کا شعور انتہائی تکلیف دہ ہے۔ جب ہم پیچھے مڑکے دیکھتے ہیں کہ جس قافلے میں ہم نے بچپن سے سفر شروع کیا تھا اس کے منظر کتنے بدل چکے ۔ کتنے لوگ ہمارے ساتھ کبھی شریک سفر تھے مگر آ ج اس سفر میں شامل نہیں ہیں۔قدم قدم پہ کوئی نہ کوئی جدا ہو جاتا ہے شب و روز، ماہ و سال پلک جھپک میں بیت جاتے ہیں اور صرف یا دیں ہی رہ جاتی ہیں۔ہر خوشی کے موقع پر، ہر نئی رت آنے پہ اور ہر نئے موڑ پر جانے والے اتنی شدت سے کیوں یاد آتے ہیں۔ ہر نیا موسم پرانی یادیں لئے آواز دیتا ہے۔یا د جب ایڑیاں رگڑتی ہے تو درد کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں کاش کوئی وہ گزرے لمحات، وہ بچھڑے لوگ اور وہ بچپن لوٹا دے، یہ وہ ناکام خواہش ہے جس کی حسرت لئے انسان خود اک روز زمٹی میں سو جاتا ہے۔ دنیا کا ہر شخص ہی ناسٹلجیا کا شکار رہا ہے۔غالب نے یاد ماضی کے عذاب سے گلو خلاصی کے لئے اپنے حافظے کے چھن جانے کی بد دعا کی۔اقبال کو گزرا زمانہ شدت سے یاد آتا تھا۔ ناصر کاظمی ناسٹلجیا کی کے دائمی مریض واقع ہوئے جبکہ ساغر صدیقی بیتے لمحات کی لہروں کی واپسی کے منتظر رہے۔انسانی فطرت ہے کہ بد حال ماضی بھی خوش گوار لگتا ہے اور خوش حال، حال بھی بدحال محسوس ہوتا ہے۔مگر اس افسردہ اور مایوس کن صورت حال میں ہمیں اک خوب صورت پیغام بھی ملتا ہے۔ اگر ہم گزرے دور کی اہمیت کو مد نظر رکھیں اور اس خیال کو اپنی سوچ کا حصہ بنالیں کہ فی زمانہ جو لوگ ہمارے ساتھ زندگی کے سفر میں شامل ہیں،ہمارے ماں باپ،بہن بھائی، بچے،اعزہ و اقارب اور دوست احباب یہ سب ہمیشہ رہنے والے نہیں ، ہم سب مسافر چند روزہ ہیں۔نہ جانے ان انمول رشتو ں کے ساتھ کتنا ساتھ باقی ہے۔ کیا معلوم کتنے قیمتی لمحات اور شب وروز اپنے پیاروں کے ہمراہ گزار پائیں گے۔کہیں ایسا نہ ہو اپنی کج روی اور انا میں ہم خوش نما لمحے،خوشیاںاور رشتے کھو دیںاور آنے والے کل میں گزری یادوں اور پچھتاووں کی اذیت سہنا پڑے۔یا پھر عمر بھرکی سنگ زنی کے بعد اعزاز کے ساتھ دفنانے کی دیرینہ رسم نبھاتے پھریں۔ خلیل جبران لکھتے ہیں ’’بیتا کل آج کی یادیں ہیں اورآنے والا کل آج کے خواب ہیں‘‘۔٭…٭…٭