برصغیر میں خط نستعلیق کی ابتدا
اسپیشل فیچر
برصغیر میں خطاطی کے ارتقا کا ایک اہم عہد دورِ بابر کی فتح ہندوستان سے شروع ہو کر وفات اورنگ زیب (1707ء) پر ختم ہوتا ہے۔ اس دور میں خطاطی نے عروج کے جو دن دیکھے وہ اسے نہ تو پہلے اور نہ بعد میں نصیب ہو سکے۔ اکثر مغل حکمران یا تو خود ماہر خطاطی تھے یا پھر خطاطی کے دلدادہ تھے۔ انہوں نے اس فن کی نشوو ترقی کے لیے دیگر فنون کی طرح توجہ دی۔ خطاط اساتذہ کی سرپرستی کی اور ان کے فن پاروں کو شاہی لائبریریوں کی زینت بنایا۔ آرائش عمارات میں اس عہد میں خطاطی جس پیمانے پر استعمال ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ دھات و روغنی برتنوں، روغنی ٹائلوں، پیپر میشی اور لکڑی کی بنی ہوئی اشیا کے ظاہری حسن کو خطاطی کے مختلف نمونوں سے اجاگر کیا گیا۔ خطاطی کے اس دور کو برصغیر کی تاریخ میں سنہری دور کا نام دینا چاہیے۔ خط بابری اس خاندان کے پہلے حکمران شہنشاہ بابر کی ایجاد تھا۔ اسی زمانے میں خط نستعلیق پہلی بار برصغیر میں وارد و رائج ہوا۔ اس خط کی ترویج نے برصغیر کی خطاطی کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب برپا کر دیا۔ اس نووارد خط کے بانکپن، شستگی، نزاکت و لطافت سے فن خطاطی میں مصوری سے کہیں زیادہ دلکشی اور رعنائی پیدا ہو گئی۔ اپنی ان خوبیوں کی بنا پر یہ خط بہت جلد خط نسخ سے کہیں زیادہ مقبول عام ہو گیا۔ خط شکستہ کی ایجاد عہد شاہ جہانی کے ذہین کاتب مرزا محمد حسین نے کر کے اس عہد کی خطاطی کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ اس عہد میں ہمیں بکثرت نسخ، نستعلیق کتاب نویس مل جاتے ہیں جن کی تحریریں اس فن کے انتہائی کمال کا نمونہ ہیں۔بابر خود خط بابری کا موجد تھا اور مولانا شہاب الدین ہروی (942ھ) اس عہد کے مشہور خطاط تھے۔ ان کے لکھے ہوئے بعض کتبے حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے مزار پر موجود ہیں۔ ہمایوں کے زمانہ میں مولانا شہاب الدین کے علاوہ سلطان علی مشہور کاتب تھے۔ ان کے بیٹے کمال ابن شہاب الدین کی کتابت کا ایک عمدہ نمونہ لاہور کے عجائب گھر میں موجود ہے۔ عہداکبری میں شاہی سرپرستی میں خطاطی کے فن کو قابل قدر ترقی ملی۔ محمد اصغر ہفت قلم، خواجہ عبدالصمد شیریں قلم، علامہ میر فتح اللہ شیرازی، محمد حسین کشمیری زریں قلم، مظفر علی، خنجر بیگ چغتائی، راجہ ٹوڈر مل، میرزا عبدالرحیم خانخانان، میرزا عزیز کوکلتاش، رائے منوہر، ملا عبدالقادر اخوند، محمد یوسف کابلی، خواجہ ابراہیم حسین، عبدالرحیم عنبرین قلم، میر معصوم قندھاری، حسین بن احمد چشتی، پنڈت جگن ناتھ، ملا علی احمد مہر کن خصوصی قابل ذکر کاتب ہیں۔ عہد جہانگیری میں میر خلیل اللہ شاہ، شاہزادہ پرویز بن جہانگیر، محمود بن اسحاق شہابی الہروی، احمد علی راشد، عبدالکریم وغیرہ نامور خطاط پیدا ہوئے۔ دور شاہجہانی میں خطاطی کو بہت فروغ ہوا۔ تاج محل آگرہ کی فن خطاطی اس فن کا زندہ جاوید مرقع ہے۔ عبدالحق شیرازی عرف امانت خان، آقا عبدالرشید ویلمی، عبدالباقی یاقوت رقم وغیرہ اس عہد کے سربرآوردہ خطاط ہیں۔اورنگ زیب عالمگیر خود بڑے خطاط تھے۔ انہوں نے زمانہ شاہزادگی میں ایک قرآن پاک تحریر کیا جسے مزین کر وا کر مسجد نبویؐ کے لیے ارسال کیا۔ تخت نشینی کے بعد بھی ایک مصحف پاک لکھا۔ اسے بھی منقش کروا کر کعبہ اللہ کی نذر کیا۔ عہد عالمگیری میں ہدایت اللہ زریں رقم، سید علی جواہر رقم، محمد باقر، میرزا محمد جعفر کفایت خان وغیرہ بلند پایہ خوش نویس تھے۔ اکثر مغل شاہزادے اور شہزادیاں بھی خوش نویسی سے لگاؤ رکھتے تھے۔اگر ہم اس دور کی خطاطی کا تجزیہ کریں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عہداس کی خطاطی ایرانی طرز کی مقلد اور متاثر ہے اور اس میں دوائر، مدات اور نقاط وغیرہ میں ایرانی طرز تحریر کا تتبع عام ہے۔ اس عہد کے خطاطوں نے بالخصوص طرز نستعلیق میں حسن اور اس سے کہیں زیادہ پاکیزگی آمیز رعنائی پیدا کی۔ بلاشبہ مغلیہ دور کا یہ زمانہ برصغیر میں خطاطی کے ارتقا کی نشاۃ اولیٰ ہے۔