منگولوں کی تباہ کاریاں اور نصیرالدین طُوسی
اسپیشل فیچر
1157ء میں سلطان احمد سنجر کی وفات کے بعد سلجوقی سلطنت میں زوال آ گیا اور چند ہی برسوں میں یہ سلطنت معدوم ہو گئی۔ اسی زمانے میں عالمِ اسلام کے اندر دو نئی طاقتیں، غوری اور خوارزمی ابھریں۔ غوریوں نے پہلے غزنویوں کو شکست دی اور پھر ان کے ایک نامور حکمران شہاب الدین غوری نے ہندو مہاراجا پرتھوی راج کو شکست فاش دے کر برصغیر پاک و ہند میں اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ ادھر خوارزم میں ایک اور اسلامی حکومت ظہور پذیر ہوئی جس نے ایران اور ترکستان کے تمام مسلم ممالک کو زیر نگیں کر لیا۔
سلطان اعظم ملک شاہ سلجوقی نے حاجب نوشگین کو خوارزم کے علاقے کی حکومت دے دی تھی۔ اس کے مرنے کے بعد جب 1098ء میں زمامِ حکومت اس کے بیٹے قطب الدین محمد کے ہاتھ آئی تو سلطان سنجر نے اسے خوارزم شاہ کا لقب بخشا۔ جب قطب الدین محمد کا بیٹا آتسز تخت نشین ہوا تو سلجوقی حکومت کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اس نے 1140ء میں اپنی خودمختاری کا اعلان کر دیا۔ آتسز کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ایل ارسلان 1152ء میں تخت نشین ہوا تو اس نے حکومت کو مزید وسعت دی اور اسے استحکام بخشا۔ ایل ارسلان کا بیٹا تکش بہت اولوالعزم فرمانروا تھا۔ اس نے خراسان اور فارس پر قبضہ کر لیا جس پر خلیفہ بغداد نے اس کو خوارزم، خراسان اور ایران کا پروانہ حکومت عطا کیا اور آئینی حیثیت سے اس کی بادشاہت مسلّمہ ہو گئی۔
1200ء میں تکش کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا علاالدین محمد خوارزم شاہ تخت حکومت پر متمکن ہوا تو اس نے چند ہی برسوں میں مازندان اور ماورالنہر پر قبضہ کر لیا۔ 1214ء تک اس کی سلطنت اتنی وسیع ہو چکی تھی کہ عالم اسلام میں کوئی اور فرمانروا اس کے مقابلے کا نہ تھا۔ لیکن عظیم حکومت کا سارا جاہ و جلال حقیقت میں عارضی تھا، کیونکہ چار سال بعد منگول اعظم چنگیز خان اس پر قہر بن کر ٹوٹنے والا تھا۔
چنگیز خان 1162ء میں پیدا ہوا اور 1206ء میں وہ منگولوں کا فرماں روا بنا جس کے بعد اس نے فتح عالم پر کمر باندھی اور چند برسوں میں چین کا بڑا علاقہ اور سارا تاتار اپنی حکومت میں شامل کر لیا۔ اس کی سلطنت کی سرحدیں خوارزم شاہ کے علاقے سے مل گئیں۔ چنگیز خان کو خوارزم شاہ کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھانے کا بہت شوق تھا، چنانچہ اس نے اپنی قوم کے کچھ تاجر سلطنت خوارزمی کے ایک سرحدی شہر میں بھیجے، مگر خوارزم شاہ کے ناعاقبت اندیش گورنر نے ان تاجروں کو قتل کروا دیا۔ اس پر چنگیز خان نے اپنے ایک خاص ایلچی کو خوارزم شاہ کے دربار میں بھیجا اور اس سے مطالبہ کیا کہ تاجروں کے قتل کے مرتکب گورنر کو اس کے حوالے کیا جائے۔ خوارزم شاہ نے چنگیز خان کے ایلچی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سلوک پر چنگیز خان کے انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور اس نے اپنی وحشی فوجوں کا رخ عالم اسلام کی طرف موڑ دیا۔ چنگیز خان کے حملے کے آگے خوارزم شاہ کی ساری طاقت بے کار ثابت ہوئی۔ اس کی فوجیں پے در پے شکستیں کھا کر پسپا ہونے لگیں اور اسلامی شہر ایک ایک کر کے چنگیز خان کی آتشِ غضب کا نشانہ بننے لگے۔ بخارا اور سمر قند کی آبادی 10,10 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ ان میں سے جہاں سوز منگولوں نے 60 ہزار صنعت کاروں کے سوا، جنہیں انہوں نے غلام بنا لیا تھا، باقی تمام کو تہ تیغ کر دیا اور دونوں شہروں کو آگ لگا کر بالکل ویران کر دیا۔ ان شہروں کا انجام دیکھ کر بلخ کے رہنے والوں نے اطاعت مان لی لیکن چنگیز خان نے یہ بہانہ کر کے کہ وہ اہل شہر کی مردم شماری کروانا چاہتا ہے، تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کو باہر نکال لیا۔ پھر ان سب کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور شہروں کو جلا کر خاکِ سیاہ کر دیا۔ نیشا پور اور اس کے گردونواح کے علاقے میں ساڑھے 70 لاکھ بے گناہ انسان وحشیانہ قتل ہوئے اور یہی قیامت ہرات اور اس کے نواحی علاقے کے 16 لاکھ باشندوں پر ٹوٹی۔ ان دونوں شہروں کو مکمل طور پر مسمار کر دیا گیا اور ان کی جگہ پر ہل چلا دیے گئے۔ ایران، خوارزم اور ترکستان کے دیگر شہروں کا حشر بھی اس سے مختلف نہ ہوا۔ علاء الدین محمد خوارزم شاہ نے بحیرہ کیسپین کے ایک جزیرے میں پناہ لی جہاں اس کا انتقال ہوا۔
چنگیز خان کی غارت گری سے بغداد بچ گیا تھا مگر اس کے پوتے ہلاکو خان کے ہاتھوں اس عروس البلاد کی بھی بربادی ہونے والی تھی۔
چنگیز خان کی وفات کے بعد پہلے اس کا بیٹا اکتائی خان اور پھر اس کا پوتا منگو خان اس وسیع سلطنت کے وارث ہوئے۔ منگو خان نے اپنے بھائی یعنی چنگیز خان کے دوسرے پوتے ہلاکو خان کو مسلمانوں کے مفتوحہ علاقوں کا حکمران بنایا۔ 1257ء میں ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا اور آخری عباسی خلیفہ معتصم کو قتل کر کے مسلمانوں کے اس عروس البلاد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ 6 ہفتے تک یہاں کشت و خون اور غارت گری کا بازار گرم رہا۔ لاکھوں انسان منگولوں کی بربریت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ مسلمانوں کی 6 صدی کی جمع شدہ دولت ایک آن میں لٹ گئی اور ان کے تمام علمی ذخیرے آگ کی نذر ہو گئے۔
کئی ماہ کی بربادی کے بعد آخر کار مملکت میں امن قائم کیا گیا اور ہلاکو خان نے اپنے طریقوں کے مطابق حکومت کی بنیاد ڈالی۔
اسلامی دور کے اواخر کا نامور سائنس دان محمد بن محمد بن حسن طوسی جو تاریخ میں نصیر الدین طوسی اور محقق طوسی کے ناموں سے مشہور ہے ہلاکو خان کا وزیر تھا۔ وہ ریاضی اور ہیئت کا عالم تھا اور ان مضامین پر اس نے متعدد کتابیں لکھی تھیں۔ وہ اپنے تدبر اور فراست سے ہلاکو خان جیسے جابر بادشاہ کا مزاج دان بن گیا اور رفتہ رفتہ اس نے ہلاکو خان کو علوم کی سرپرستی پر مائل کر لیا۔
نصیر الدین طوسی نے سب سے پہلے ہلاکو خان کو مراغہ کے وسیع میدان میں ایک رصد گاہ قائم کرنے کا مشورہ دیا۔ ہلاکو خان اس رصد گاہ کے قیام پر متفق نہ تھا، کیونکہ اپنی دانست میں وہ اسے ایک بے مصرف کام سمجھتا تھا، لیکن نصیرالدین طوسی نے اس کو رصد گاہ کے فوائد سمجھائے اور پچھلے سلاطین کی مثالیں دیں جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں ایسی رصدگاہیں قائم کی تھیں۔ آخر ہلاکو خان نے یہ تجویز مان لی اور رصد گاہ کے قیام کی منظوری دے دی، چنانچہ اس نے اس کام کے لیے اس قدر دولت نصیرالدین طوسی کے حوالے کی جس کا شمار نہیں ہو سکتا۔ طوسی نے دوردراز سے ایسے ہیئت دانوں اور ماہرین ریاضی کو جمع کیا جو رعایا کے قتلِ عام میں بچ گئے تھے، انہیں اچھی تنخواہیں دے کر رصدگاہ میں مامور کیا۔ اس کے علاوہ خطیر رقم صَرف کر کے اس رصد گاہ کے لیے آلات رصد تیار کروائے اور وہاں فلکی مشاہدات کا کام نئے سرے سے شروع ہوا۔
نصیر الدین طوسی نے ہلاکو خان کو مامون الرشید کی مثال دی کہ کیسے اس علم پرور خلیفہ نے عہداسلام میں پہلی رصد گاہ کی بنیاد ڈال کر اس کے ساتھ ایک عظیم کتب خانہ بھی قائم کیا تھا۔ اس مثال کے بعد اس نے مشورہ دیا کہ مراغہ کی رصدگاہ کے ساتھ ساتھ ایک عظیم الشان کتب خانے کا قیام بھی ضروری ہے۔ ہلاکو خان نے اس کی بھی منظوری دے دی، چنانچہ تمام مفتوحہ ممالک میں منادی کرائی گئی کہ جو شخص شاہی کتب خانے کے لیے کتاب لائے گا اسے بیش بہا انعام ملے گا۔
وحشی منگولوں کے دل میں اگرچہ کتابوں کی قدر نہ تھی اور جتنی کتابیں انہیں لوٹ مار میں ملتی تھیں وہ بیشتر کو جلا دیتے تھے مگر ان میں سے بعض نے ایسی کتابوں کو، جن کی ظاہری زیبائش نہایت اعلیٰ درجے کی تھی، نادر تحفے جان کر دیگر غنائم کے ساتھ محفوظ بھی کر لیا تھا۔ اب جو یہ اعلان ہوا کہ ان کتابوں کے عوض انہیں خطیر رقوم ملیں گی تو وہ ان کتابوں کو لا لا کر شاہی کتب خانے میں جمع کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کتب خانے میں مختلف علوم و فنون کی 4 لاکھ کتابیں جمع ہو گئیں۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آج اسلامی دور کی تصنیفات کا جو ذخیرہ محفوظ رہ گیا ہے وہ بہت حد تک اسی کتب خانے کی بدولت ہے جو نصیر الدین محقق طوسی کی کوششوں سے بغداد کی تباہی کے بعد قائم ہوا تھا۔ نصیر الدین طوسی نے 1274ء میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔