قصہ’’ تاج اور زیتون‘‘ کا تاج سعید ممتاز ادیب ،شاعر ، مترجم اور صحافی تھے تو زیتون بانو کو’’پشتو افسانوں کی خاتون اول‘‘ کہا جاتاہے
ادب کی دنیا کے تاج اور زیتون کی بات کریں تو پھولوں کے شہر پشاور سے دو اہم نام فوراً دل و دماغ کو معطر کرتے ہیں ۔جی ہاںہم بات کر رہے ہیں اردو کے ممتاز ادیب، صحافی، مترجم، نثر نگار اور بہترین شاعر تاج سعیداور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنیوالی پشتو اوراردو کی نامور ادیبہ زیتون بانو کی ۔ باغوں کے شہرلاہور کے ایک ادبی جوڑے کا ذکر کریں تو ذہنوں میں فوری اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا نام آتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہی پھولوں کے شہر پشاور کے ادبی جوڑے کا ذکر کریں تو تاج سعید اور زیتون بانو کے نام مہکنے لگتے ہیں ۔ آج ہم آپ کو ادبی دنیا میں خاص مقام رکھنے والی ان دو شخصیات کے بارے میں مختصراً بتائیں گے۔
اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تاج سعیدکا اصل نام تاج محمد تھا۔ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ تاج صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کو ایسا مقام حاصل ہے جیسے کسی نے ادب نگر میں دیا جلا دیا ہو ۔ ان کے شعری مجموعوں میں ''سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ‘‘ اور'' شہر ہفت رنگ‘‘شامل ہیں اور مرتبہ نثری کتابوں میں ''کرشن نگر، جہانِ فراق ، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز،فن اور شخصیت، خوشحال شناسی، شکیل بدایونی اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔تا ج سعید بہت اچھے شاعر بھی تھے انکا کلام ملاحظہ کیجئے
جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
نت نئے موسم کے بھی ہم راہ وابستہ رہیں
آتی جاتی رت کو دیکھیں اپنے چشم و گوش سے
موسموں کے وار سہہ کر بھی یوں ہی زندہ رہیں
پھول پھل پودے پرندے ہم دم و دم ساز ہوں
ان میں بستے ہی بھلے لیکن نہ یوں تنہا رہیں
شہر کے دیوار و در ہر اک سے ہیں نا آشنا
شہر میں رہتے ہوئے کیونکر نہ بیگانہ رہیں
بے مروت ہے زمانہ اس کا شکوہ کیوں کریں
اپنے اندر کے مکیں کا بن کے ہمسایہ رہیں
جسم کے اندر غموں کی آندھیاں چلتی رہیں
ظاہری صورت میں سب چہرے تر و تازہ رہیں
دیکھتے ہی جس کو سب محرومیاں کافور ہوں
دل میں طوفاں سے اٹھیں چہرے مگر سادہ رہیں
مسئلہ یہ بھی تو ہے اس عہد کا اے جان جاں
کیوں نچھاور جاں کریں کس کے لیے زندہ رہیں
اڑتے لمحوں کو اگر قابو میں کرنا ہے سعید
بھاگنے کو ہر گھڑی ہر وقت آمادہ رہیں
تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے جن میں ''قند‘‘ مردان، ''ارژنگ‘‘ پشاور اور ''جریدہ‘‘ پشاور کے نام شامل ہیں۔ تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔زیتون بانو کے بارے میں آپ کو مختصراً بتاتے چلیں کہ وہ پشتو ادب کا ایک اہم نام ہیں اُن کی تحریریںپشتو ثقافت کی بھر پور عکاس ہیں،انکے افسانے کسی بھی عالمی سطح پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نسائیت اور مزاحمت کی بھر پور عکاسی کی ۔ اردو اور پشتو کی یہ نامورادیبہ 18 جون 1938ء کو پشاور کے نزدیک سفید ڈھیری کے مقام پر پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پیر سید سلطان محمود شاہ روشن خیال ادیب تھے جنہوں نے زیتون بانو کو اعلیٰ تعلیم دلوائی،انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1958 ء میں اس وقت کیا جب ہندارا (آئینہ) کے عنوان سے پہلی مختصر کہانی لکھی۔ اس وقت وہ نویں جماعت میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ 1958 ء سے 2008 ء کے درمیان ، اردو اور پشتو زبانوں میں افسانے کی کتابیں اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کی مطبوعات میں مات بنگری، خوبونا (1958ء )، جواندی غمونا (1958ء)، برگ آرزو (1980ء) اور وقت کی دہلیز پر (1980ء ) شامل ہیں. دیگر اشاعتوں میں ، دا شاگو مزل (ایک سفر کے ذریعے آنس) کے عنوان سے مختصر کہانیاں 1958 ء اور 2017 ء کے درمیان لکھی گئی کہانیاں شامل ہیں۔ انہوں نے پشتو میں منجیلا کے عنوان سے صرف ایک شعری مجموعہ لکھا جو 2006 ء میں شائع ہوا تھا۔ پشتو اور اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد زیتون بانو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر پشتو میں 8 اور اردو میں5 کتابیں تحریر کیں۔ جن میں وقت کی دہلیز پر،خوشحال شناسی، برگ ِ آرزو اورشیشم کا پتہ کے نام شامل ہیں۔ زیتون بانو کی شادی پشتو، ہندکو اور اردو کے معروف ادیب تاج سعید سے اس وقت ہوئی جب وہ انکے ساتھ اردو کا ایک ادبی رسالہ '' جریدہ‘‘ شائع کرتی تھیں۔ انہیں خاتون اول یا ''پشتو افسانوں کی خاتون اول‘‘ کہا جاتا ہے ، پشتون خواتین کے حقوق میں ان کے کردار کے اعتراف میں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا،حکومت پاکستان نے 14 اگست 1996ء کو انہیںصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔
تاج سعید کی شاعری کا ذکر کریں تو ان کے ہاں حالات ، ظلمت ، صلیب و دار کیا کچھ نہیں ملتا وہ اپنا کرب کچھ اس طرح بیان کرگئے کہ
شہر کے دیوار و در پر رُت کی زردی چھائی تھی
ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی
جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں
مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی
چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا
رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی
میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر
میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی
بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعید
لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی
کئی برسوں پر محیط افغان جنگ اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا پختون ادیبوں اور ان کے کام پر اس کے اثر کو جانچنا بھی بہت ضروری ہے۔سوویت افغان جنگ سے لے کر امریکہ کی ''وار آن ٹیرر‘ ‘اور ضرب عضب تک پختون خطہ بہت متاثر ہوا اور اسکے اثرات پشتو ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ اتنا سب کچھ دیکھنے کے بعد ایسا ممکن نہیں کہ شاعری سیاسی اور سماجی اثرات سے محفوظ رہ پائے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے پشتون ادب میںمعاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش ملتی ہے۔ اس میں شدت پسندی کی سخت مذمت اور امن کی شدید حمایت اور چاہت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن پشتو شاعری آج بھی زلفِ جاناں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔تاج سعید اور زیتون بانو جیسی شخصیات نے حالات کیسے بھی ہوں پشتو اور اردو ادب کیلئے جو خدمات انجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ تاج سعید 23 اپریل 2002ء کو پشاور میں وفات پاگئے اور پشاور میں ہی قبرستان نزد لوتھیہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔