قصہ’’ تاج اور زیتون‘‘ کا تاج سعید ممتاز ادیب ،شاعر ، مترجم اور صحافی تھے تو زیتون بانو کو’’پشتو افسانوں کی خاتون اول‘‘ کہا جاتاہے

 قصہ’’ تاج اور زیتون‘‘ کا تاج سعید ممتاز ادیب ،شاعر ، مترجم اور صحافی تھے تو زیتون بانو  کو’’پشتو افسانوں کی خاتون اول‘‘ کہا جاتاہے

اسپیشل فیچر

تحریر : طیبہ بخاری


ادب کی دنیا کے تاج اور زیتون کی بات کریں تو پھولوں کے شہر پشاور سے دو اہم نام فوراً دل و دماغ کو معطر کرتے ہیں ۔جی ہاںہم بات کر رہے ہیں اردو کے ممتاز ادیب، صحافی، مترجم، نثر نگار اور بہترین شاعر تاج سعیداور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی حاصل کرنیوالی پشتو اوراردو کی نامور ادیبہ زیتون بانو کی ۔ باغوں کے شہرلاہور کے ایک ادبی جوڑے کا ذکر کریں تو ذہنوں میں فوری اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا نام آتا ہے بالکل اسی طرح جیسے ہی پھولوں کے شہر پشاور کے ادبی جوڑے کا ذکر کریں تو تاج سعید اور زیتون بانو کے نام مہکنے لگتے ہیں ۔ آج ہم آپ کو ادبی دنیا میں خاص مقام رکھنے والی ان دو شخصیات کے بارے میں مختصراً بتائیں گے۔
اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور صحافی تاج سعیدکا اصل نام تاج محمد تھا۔ 16 ستمبر 1933ء کو پشاور میں پیدا ہوئے ۔ تاج صاحب کی تخلیقی صلاحیتوں کو ایسا مقام حاصل ہے جیسے کسی نے ادب نگر میں دیا جلا دیا ہو ۔ ان کے شعری مجموعوں میں ''سوچ سمندر، رتوں کی صلیب، لیکھ‘‘ اور'' شہر ہفت رنگ‘‘شامل ہیں اور مرتبہ نثری کتابوں میں ''کرشن نگر، جہانِ فراق ، پشتو ادب کی مختصر تاریخ، بنجارے کے خواب، احمد فراز،فن اور شخصیت، خوشحال شناسی، شکیل بدایونی اور پشتو کے اردو تراجم شامل ہیں۔تا ج سعید بہت اچھے شاعر بھی تھے انکا کلام ملاحظہ کیجئے
جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
نت نئے موسم کے بھی ہم راہ وابستہ رہیں
آتی جاتی رت کو دیکھیں اپنے چشم و گوش سے
موسموں کے وار سہہ کر بھی یوں ہی زندہ رہیں
پھول پھل پودے پرندے ہم دم و دم ساز ہوں
ان میں بستے ہی بھلے لیکن نہ یوں تنہا رہیں
شہر کے دیوار و در ہر اک سے ہیں نا آشنا
شہر میں رہتے ہوئے کیونکر نہ بیگانہ رہیں
بے مروت ہے زمانہ اس کا شکوہ کیوں کریں
اپنے اندر کے مکیں کا بن کے ہمسایہ رہیں
جسم کے اندر غموں کی آندھیاں چلتی رہیں
ظاہری صورت میں سب چہرے تر و تازہ رہیں
دیکھتے ہی جس کو سب محرومیاں کافور ہوں
دل میں طوفاں سے اٹھیں چہرے مگر سادہ رہیں
مسئلہ یہ بھی تو ہے اس عہد کا اے جان جاں
کیوں نچھاور جاں کریں کس کے لیے زندہ رہیں
اڑتے لمحوں کو اگر قابو میں کرنا ہے سعید
بھاگنے کو ہر گھڑی ہر وقت آمادہ رہیں
تاج سعید اردو کے کئی اہم جریدوں کے مدیراعلیٰ رہے جن میں ''قند‘‘ مردان، ''ارژنگ‘‘ پشاور اور ''جریدہ‘‘ پشاور کے نام شامل ہیں۔ تاج سعید کی اہلیہ زیتون بانو بھی اردو کے ممتاز افسانہ نگاروں میں شمار ہوتی ہیں۔زیتون بانو کے بارے میں آپ کو مختصراً بتاتے چلیں کہ وہ پشتو ادب کا ایک اہم نام ہیں اُن کی تحریریںپشتو ثقافت کی بھر پور عکاس ہیں،انکے افسانے کسی بھی عالمی سطح پر پیش کیے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں نسائیت اور مزاحمت کی بھر پور عکاسی کی ۔ اردو اور پشتو کی یہ نامورادیبہ 18 جون 1938ء کو پشاور کے نزدیک سفید ڈھیری کے مقام پر پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پیر سید سلطان محمود شاہ روشن خیال ادیب تھے جنہوں نے زیتون بانو کو اعلیٰ تعلیم دلوائی،انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز 1958 ء میں اس وقت کیا جب ہندارا (آئینہ) کے عنوان سے پہلی مختصر کہانی لکھی۔ اس وقت وہ نویں جماعت میں تعلیم حاصل کررہی تھیں۔ 1958 ء سے 2008 ء کے درمیان ، اردو اور پشتو زبانوں میں افسانے کی کتابیں اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کی مطبوعات میں مات بنگری، خوبونا (1958ء )، جواندی غمونا (1958ء)، برگ آرزو (1980ء) اور وقت کی دہلیز پر (1980ء ) شامل ہیں. دیگر اشاعتوں میں ، دا شاگو مزل (ایک سفر کے ذریعے آنس) کے عنوان سے مختصر کہانیاں 1958 ء اور 2017 ء کے درمیان لکھی گئی کہانیاں شامل ہیں۔ انہوں نے پشتو میں منجیلا کے عنوان سے صرف ایک شعری مجموعہ لکھا جو 2006 ء میں شائع ہوا تھا۔ پشتو اور اردو میں ماسٹرز کرنے کے بعد زیتون بانو ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئیں۔ انہوں نے مجموعی طور پر پشتو میں 8 اور اردو میں5 کتابیں تحریر کیں۔ جن میں وقت کی دہلیز پر،خوشحال شناسی، برگ ِ آرزو اورشیشم کا پتہ کے نام شامل ہیں۔ زیتون بانو کی شادی پشتو، ہندکو اور اردو کے معروف ادیب تاج سعید سے اس وقت ہوئی جب وہ انکے ساتھ اردو کا ایک ادبی رسالہ '' جریدہ‘‘ شائع کرتی تھیں۔ انہیں خاتون اول یا ''پشتو افسانوں کی خاتون اول‘‘ کہا جاتا ہے ، پشتون خواتین کے حقوق میں ان کے کردار کے اعتراف میں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا،حکومت پاکستان نے 14 اگست 1996ء کو انہیںصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا ۔
تاج سعید کی شاعری کا ذکر کریں تو ان کے ہاں حالات ، ظلمت ، صلیب و دار کیا کچھ نہیں ملتا وہ اپنا کرب کچھ اس طرح بیان کرگئے کہ
شہر کے دیوار و در پر رُت کی زردی چھائی تھی
ہر شجر ہر پیڑ کی قسمت میں اب تنہائی تھی
جینے والوں کا مقدر شہرتیں بنتی رہیں
مرنے والوں کے لیے اب دشت کی تنہائی تھی
چشم پوشی کا کسی ذی ہوش کو یارا نہ تھا
رت صلیب و دار کی اس شہر میں پھر آئی تھی
میں نے ظلمت کے فسوں سے بھاگنا چاہا مگر
میرے پیچھے بھاگتی پھرتی مری رسوائی تھی
بارشوں کی رت میں کوئی کیا لکھے آخر سعید
لفظ کے چہروں کی رنگت بھی بہت دھندلائی تھی
کئی برسوں پر محیط افغان جنگ اور دہشتگردی کیخلاف جنگ کا پختون ادیبوں اور ان کے کام پر اس کے اثر کو جانچنا بھی بہت ضروری ہے۔سوویت افغان جنگ سے لے کر امریکہ کی ''وار آن ٹیرر‘ ‘اور ضرب عضب تک پختون خطہ بہت متاثر ہوا اور اسکے اثرات پشتو ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ اتنا سب کچھ دیکھنے کے بعد ایسا ممکن نہیں کہ شاعری سیاسی اور سماجی اثرات سے محفوظ رہ پائے۔یہی وجہ ہے کہ آج کے پشتون ادب میںمعاشرے کو آئینہ دکھانے کی کوشش ملتی ہے۔ اس میں شدت پسندی کی سخت مذمت اور امن کی شدید حمایت اور چاہت کی جھلک نظر آتی ہے لیکن پشتو شاعری آج بھی زلفِ جاناں کے تذکرے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی ۔تاج سعید اور زیتون بانو جیسی شخصیات نے حالات کیسے بھی ہوں پشتو اور اردو ادب کیلئے جو خدمات انجام دیں انہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ تاج سعید 23 اپریل 2002ء کو پشاور میں وفات پاگئے اور پشاور میں ہی قبرستان نزد لوتھیہ میں آسودۂ خاک ہوئے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
20نومبر بچوں کا عالمی دن

20نومبر بچوں کا عالمی دن

دنیا بھر میں آج بچوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت، معاشرتی تربیت اور مذہبی تربیت سے متعلق شعور اُجاگر کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے بچے مستقبل میں اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں، ''یونیورسل چلڈرن ڈے ‘‘منانے کا اعلان 1954ء میں اقوامِ متحدہ میں کیا گیا۔اقوام متحدہ نے 1954 ء میں تجویز پیش کی تھی کہ دنیا بھر کے ممالک 20نومبر کو بچوں کی فلاح و بہبود کے طور پر منائیں۔ اس تجویز پر جنرل اسمبلی نے 1959ء کو بچوں کے حقوق کا ڈکلیریشن جاری کیا، جس کے بعد اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال 20 نومبر کو بچوں کے حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس قرارداد کو''ڈکلیریشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ‘‘کہا گیا ،جس کا بنیادی مقصد بچوں کی فلاح و بہبود کو اور معاشرہ میں بچوں کے حقوق کو اجاگر کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کی اس تجویز کا دنیا کے تمام ہی ممالک نے خیر مقدم کیا۔بچوں کا عالمی دن منانے کے بے شما ر مقاصد ہیں جن میں بنیادی طور پر بچوں میں تعلیم، صحت، تفریح اور ذہنی تربیت کے علاوہ بچوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا، بے گھر بچوں کو بھی دیگر بچوں جیسی آسائشیں مہیا کرنا اوّلین ترجیح ہے۔ ہم ایک مہذب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں لیکن بچوں کو اپنے بڑوں کے نارواسلوک، ظلم و زیادتی اور تشدد کا سامنا ہے، آج بھی دنیا بھر میں ہر سال بچوں کو گھریلو تشدد کا سامنا ہے، جبکہ اس قسم کا سلوک بچوں کی نشوؤنما پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے۔اقوام متحدہ کے کنونشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کیلئے بنائے گئے کنونشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کنونشن کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 ملین بچے آبادی کا حصہ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 20 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں تمام سہولیات میسر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کے بارے میں بچوں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق اگر صرف صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ملک میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہر چھ میں سے ایک بچہ انتقال کر جاتا ہے۔ بچوں کی فلاح و بہبودکا عالمی ادارہ یونیسیف بھی اس دن کو منانے کیلئے اپنابھرپور کردارادا کرتا ہے۔ اس دن بچوں میں بہتری اور بھلائی کیلئے، ان کی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے اور منصوبے تیار کئے جاتے ہیں ملک بھر میں بچوں کے حقوق کیلئے سرگرم سماجی تنظیموں کے زیراہتمام سیمینارز،واکس اور دیگر تقریبات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔بچوں میں تحفے تحائف تقسیم کیے جاتے ہیں۔بچے پھول کی مانند نرم و نازک ہوتے ہیں، ہم سب کو مل کر انہیں مرجھانے سے بچانا ہو گا۔تعلیم صحت کھیل اور خوراک ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ بچوں کو چائلڈ لیبر سے نکال کر تعلیم کی طرف راغب کرنا ہو گا۔ حکومت بچوں سے جبری مشقت کے بارے میں ہنگامی بنیادوں پر کانفرنسز بلا کر بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، ناانصافیوں اور جبری مشقت کے خاتمے کیلئے ضروری اقدامات کرے۔بچوں کے حقوق کیلئے حکومت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے ہر فرد کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔سب سے پہلے وجہ دور کی جائے وجہ غربت ہے ، جس کی وجہ سے وہ اس عمر میں کام کرنے پر مجبور ہیں تاکہ آنے والے وقت میں وہ بچہ ایک اچھا اور باشعور شہری بن سکے اور اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرے۔حکومت بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کو یقینی بنانے اور غریب بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرکے ان کے معصوم بچوں کے مستقبل کو روشن بنانے کے لئے موثر اقدامات کرے۔بچوں کے بنیادی حقوق٭-اچھی زندگی کے حقوق ٭-معاشرے میں پہچان کا حق ٭-معیاری تعلیم کا حق٭-مناسب صحت کی دیکھ بھال کا حق ٭-محفوظ ہونے کا حق پاکستان میں 2کروڑ62لاکھ بچے سکول سے باہرپنجاب 11.73 ملین سندھ 7.63 ملینخیبرپختونخواہ 3.63ملینبلوچستان 3.13 ملین         

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

مصنوعی ذہانت ماحول کیلئے خطرناک؟

کیا ہم مصنوعی ذہانت کے ماحولیات پر اثرات کو کم کر سکتے ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو دنیا بھر کے ماحولیاتی ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے۔ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے سسٹم بڑے پیمانے پر کاربن خارج کر رہے ہیں اور یہ صورت حال گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا گیا ہے کہ پیچیدہ ماڈلز کو چلانے اور ان کی تربیت کرنے کیلئے توانائی کی اضافی مانگ ماحولیات پر سنجیدہ نوعیت کے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ سسٹم بہتر ہونے کے ساتھ ان کو مزید کمپیوٹنگ پاور اور چلنے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اوپن اے آئی کا موجودہ سسٹم ''جی پی ٹی4‘‘ اپنے گزشتہ ماڈل سے 12 گُنا زیادہ توانائی استعمال کرتا ہے۔سسٹمز کی تربیت کرنا ایک چھوٹا سا عمل ہے۔ دراصل اے آئی ٹولز کو چلانے کیلئے تربیت کے عمل سے 960 گُنا زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے۔محققین کے مطابق ان اخراج کے اثرات وسیع ہو سکتے ہیں۔ اے آئی سے متعلقہ اخراج ممکنہ طور پر اس انڈسٹری کو سالانہ 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔محققین نے حکومتوں سے درخواست کی ہے کہ ان اخراج کے پیمائش کے پیمانوں کا تعین کیے جانے کے ساتھ ان کو حد میں رکھنے کیلئے نئے ضوابط یقینی بنائے جائیں۔نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے اس تحقیقی منصوبے کی قیادت ایسوسی ایٹ پروفیسر یوان یائوکر رہی تھیں، انہوں نے مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی نقصان اور فوائد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصنوعی ذہانت (AI) بہت زیادہ توانائی سے چلتی ہے، اور اس توانائی کا بیشتر حصہ فوسل فیول کے جلانے سے حاصل ہوتا ہے، جو کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اندازے کے مطابق 2026 ء تک ڈیٹا سینٹرز، کرپٹو کرنسی اور مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بجلی کی کھپت سالانہ عالمی توانائی کے استعمال کا 4فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جو تقریباً جاپان جیسے پورے ملک کی استعمال شدہ بجلی کے برابر ہے۔ مصنوعی ذہانت کی توانائی کے استعمال کا ماحول پر کیا اثر پڑتا ہے؟کے سوال کے جواب میں یوان یائو جو ییل اسکول آف دی انوائرمنٹ میں صنعتی ماحولیات اور پائیدار نظام کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیںکا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کیلئے کمپیوٹنگ سسٹمز کو چلانے کیلئے توانائی( بجلی) کی ضرورت ہوتی ہے۔ بجلی کی پیداوار آلودگی پیدا کرتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں بجلی کی پیداوار میں فوسل فیولز کا غلبہ ہے۔ توانائی کیلئے فوسل فیولز کوجلانے کے ماحول پر بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی میں اضافہ کرتے ہیں۔فوسل فیولز کے جلنے سے وہ آلودگی بھی پیدا ہوتی ہے جو ہوا اور پانی کو آلودہ کرتی ہے، سانس کی بیماریوں کا سبب بنتی ہے، اور تیزابی بارش (ایسڈ رین) کا باعث بنتی ہے۔ مزید برآں، فوسل فیولز کو نکالنے اور توانائی کے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے ماحولیاتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے اور ماحولیاتی تنزلی کا سبب بنتا ہے۔ان منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے شمسی اور ہوا جیسی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف منتقلی اور توانائی کی مؤثر حکمت عملیوں کو اپنانا ضروری ہے۔مصنوعی ذہانت ماحول پر کن طریقوں سے اثر ڈالتی ہےتوانائی کے استعمال کے علاوہ مصنوعی ذہانت کو ہارڈویئر آلات کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان ہارڈویئر ز، جیسے سرورز اور ڈیٹا سینٹرز، کی تیاری، نقل و حمل، دیکھ بھال اور تلفی کیلئے اضافی توانائی اور وسیع مواد اور قدرتی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، مثلاً کوبالٹ، سلیکون، سونا، اور دیگر دھاتیں۔مصنوعی ذہانت کے ہارڈویئر میں استعمال ہونے والی دھاتوں کی کان کنی اور تیاری مٹی کے کٹاؤ اور آلودگی کا سبب بن سکتی ہے۔ مزید برآں، بہت سی الیکٹرانک اشیاء کو مناسب طریقے سے ری سائیکل نہیں کیا جاتا، جس کے نتیجے میں الیکٹرانک فضلہ پیدا ہوتا ہے جو مزید آلودگی کا سبب بن سکتا ہے۔ ان آلات میں استعمال ہونے والے مواد اگر مناسب طریقے سے ٹھکانے نہ لگائے جائیں تو یہ مٹی اور پانی کو آلودہ کر سکتے ہیں۔مصنوعی ذہانت کے ماحول کیلئے مثبت پہلو مصنوعی ذہانت کے اطلاق سے ماحول کیلئے فائدے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ چند سال ایک تحقیق شائع ہوئی تھی جس میں کیمیائی صنعت میں مصنوعی ذہانت کے فوائد کا جائزہ لیا گیا تھا۔ مصنوعی ذہانت توانائی کی کارکردگی کو بہتر بنا سکتی ہے اور توانائی کے استعمال کو کم کر سکتی ہے، اور یہ ماحولیاتی نگرانی اور انتظام میں مدد فراہم کرتی ہے، جیسے گیسز کے اخراج کا سراغ لگانا۔مزید برآں، مصنوعی ذہانت ماحولیاتی اثرات کو کم کرنے کیلئے عمل اور سپلائی چین کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔تحقیقی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کو لائف سائیکل اسیسمنٹ (LCA) میں مدد کیلئے استعمال کیا، جو کسی مصنوعات کی پوری زندگی کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لینے کا ایک معیاری طریقہ ہے۔ مصنوعی ذہانت ہمیں مختلف حیاتیاتی مواد سے بنی مصنوعات کے ماحولیاتی اثرات کا تجزیہ کرنے میں مدد دیتی ہے، جو روایتی طریقوں کے ذریعے بہت وقت طلب عمل ہوتا ہے۔پروگرام ''ایکسپیڈیشنز‘‘ (Expeditions) کیا ہے؟یہ امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کا ایک پروگرام ہے ،جس کا مقصداگلی دہائی میں کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو 45فیصد تک کم کرنے پر توجہ مرکوزکرنا ہے۔ اس کے تین اہم اہداف ہیں۔(1)کمپیوٹنگ آلات کی پوری زندگی کے دوران کاربن کے اخراج کی پیمائش اور رپورٹنگ کیلئے معیاری پروٹوکول تیار کرنا۔ (2)کمپیوٹنگ کے کاربن اثرات کو کم کرنے کے طریقے تیار کرنا۔(3)تیزی سے ترقی کرنے والی ایپلی کیشنز، جیسے مصنوعی ذہانت اور ورچوئل رئیلٹی سسٹمز، کے کاربن اخراج کو کم کرنے کے طریقے تلاش کرنا۔سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ منصوبہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کو کیسے حل کرے گا؟ اس کے جواب میں پروفیسر یوان یائو کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ماحولیاتی اثرات کا اندازہ لگانے کیلئے شفاف اور مضبوط طریقوں کی ضرورت ہے۔ جب تک ان اثرات کی درست مقدار معلوم نہ ہو، ان چیلنجز کو مؤثر طریقے سے کم یا حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس مسئلے کو شفاف کاربن کاؤنٹنگ ٹولز تیار کرکے حل کیا جا سکتا ہے ۔  

آج کا دن

آج کا دن

لوزان معاہدے کا آغاز20 نومبر1922ء کو ترکی کی خود مختاری پر مبنی لوزان معاہدے کا آغاز سوئس شہر لوزان میں ہوا۔اس کانفرنس میں ترکی کی نمائندگی وزیر خارجہ عصمت ان اونو نے کی۔ جنگ عظیم اوّل کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پایاجانے والا یہ معاہدہ 24 جولائی 1923ء سے نافذ العمل ہوا۔ معاہدے کے تحت یونان، بلغاریہ اور ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور قبرص، عراق اور شام پر ترکی کا دعویٰ ختم کرکے آخر الذکر دونوں ممالک کی سرحدوں کا تعین کیا گیا۔کونڈسرمحل میں آتشزدگی20 نومبر 1992ء کو ونڈسر محل میں آگ بھڑک اٹھی جو کہ دنیا کا سب سے بڑا آباد قلعہ اور برطانوی بادشاہ کی سرکاری رہائش گاہوں میں سے ایک ہے۔ آگ کی وجہ سے قلعہ کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ۔اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد اس کی مرمت میں کئی سال لگ گئے جس پر36.5ملین پاؤنڈلاگت آئی۔ ایک تخمینے کے مطابق اس آتشزدگی کی وجہ سے کل50ملین پاؤنڈ کا نقصان ہوا۔ونڈو1.0لانچ کی گئیمائیکروسافٹ کی جانب سے 20نومبر 1985ء کو ''ونڈوز1.0‘‘ کو لانچ کیا گیا۔ یہ مائیکروسافٹ کی جانب سے پرسنل کمپیوٹر کیلئے تیارکردہ پہلا گرافک آپریٹنگ سسٹم تھا۔ امریکہ میں اسے پہلی مرتبہ 1985ء میں مینوفیکچرنگ کیلئے پیش کیا گیا جبکہ یورپی ورژن مئی1986ء میں ریلیز کیا گیا۔ اس ونڈوز میں ملٹی ٹاسکنگ کی سہولت موجود تھی جبکہ ماؤس کا استعمال بھی اسی ونڈوز کے ساتھ متعارف کروایا گیا۔فارمنگٹن کان حادثہفارمنگٹن کان حادثہ 20نومبر1968ء کو پیش آیا۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ اس کا اثر تقریباً 19کلومیٹر دور فیئر مونٹ میں بھی محسوس کیا گیا۔ دھماکے کے وقت99کان کن اندر موجود تھے۔21کان کن اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے جبکہ دیگر78 افرادکو کان سے باہر نہیں نکالا جا سکا۔ اس دھماکے کی وجہ کا تعین بھی نہیںکیا جا سکا کہ آخر یہ دھماکہ کیوں ہوا تھا۔ایویو امپیکس فضائی حادثہایویو امپیکس فلائٹ110ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی۔ یہ 20نومبر 1993ء کو جنیوا سے سکوپجے جاتے ہوئے تباہ ہو گئی۔طیارے میں تقریباً 116افراد سوار تھے۔ جہازاوہرڈ ائیر پورٹ کے قریب برفانی طوفان کی وجہ سے اپنے روٹ سے بھٹک گیا اور کیپٹن طیارے کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہا جس کے نتیجے میں یہ حادثہ پیش آیا۔ تحقیقات میں پائلٹ کی لاپرواہی کو حادثے کی وجہ قرار دیا گیا۔  

کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

کارٹونسٹ کو پیسے دے کر اپنا مزاق اڑوانے والا شخص لارڈ بیوربروک

وہ شخص جس نے 1940ء میں انگلینڈ کو بچایا اور امریکہ کو جنگ کی تیاری کیلئے موقع مہیا کیا۔ کینیڈا کے گھنے جنگلات میں پیدا ہوا تھا اور اپنی زندگی کے پہلے اڑتیس برس میں اٹکسن کے نام سے مشہور تھا۔ لیکن آج دنیا اسے لارڈ بیور بروک (Lord Beaverbrook)کے نام سے جانتی ہے۔لارڈ بیوربروکنے 1940ء میں انگلینڈ کو بچانے میں کس طرح مدد کی تھی؟ جب لندن لیور پول اوردوسرے شہروں میں جرمنی کے بم پھٹ رہے تھے، وہ دن جب برطانوی سلطنت کی سلامتی مشکوک نظر آتی تھی۔ان ایام میں ونسٹن چرچل نے محسوس کیا کہ اگر جنگی طیاروں کی پیداوار دگنی نہ کی گئی تو انگلینڈ ہار جائے گا۔ تیس دن کے اندر اندر جہازوں کی پیداوار دگنی کرنا ایک معجزے سے کم نہیں۔ لہٰذا چرچل نے یہ کام انجام دینے کیلئے اس ''معجزہ گر‘‘ کی خدمات حاصل کیں۔ لارڈ بیور بروک نے مئی 1940ء سے5اگست1940ء کے درمیانی عرصے میں برطانوی جہازوں کے پیداوار نو سوماہوار سے اٹھارہ سوماہوار کر دی اور اس طرح انگلینڈ کو جرمنوں کے حملے سے بچا لیا اور آئندہ ایک ہزار سال تک تاریخ کا رخ بدل دیا۔لارڈ بیور بروک نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ ایک طویل عرصے تک سکول نہ گیا اور جب سکول جانے لگا تو وہ تعلیم کے بجائے لڑکوں سے لڑنے جھگڑنے میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا۔ وہ سکول میں اس قدر ہنگامہ بپا کرتا کہ تقریباً ہر روز استاد اس کی پٹائی کرتا۔ شروع شروع میں اس نے جس کام پر ہاتھ ڈالا اس میں ناکام رہا۔ ایک بیمہ ایجنٹ کی حیثیت سے وہ ناکام رہا۔ سپلائی کی مشین فروخت کرنے میں اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس نے ایک اخبار نکالا مگر وہ بھی نہ چل سکا۔ ایک لاء سکول میں داخل ہونے کیلئے اس نے امتحان دیا تو اس میں بھی پاس نہ ہو سکا۔بیس برس کی عمر میں وہ بھوکا ننگا تھا۔ لیکن تیس برس کی عمر میں اس کے پاس لاکھوں روپے تھے۔یہ سب کچھ کیسے ہوا۔ اسے کینیڈا میں ایک بنکر کے پاس بطور سیکرٹری ملازمت مل گئی۔ پھر اس نے اپنی محنت کی بدولت کئی بنک، لوہے کے کارخانے اور بجلی گھر قائم کر لئے۔ دس برس میں اس کے پاس اتنا روپیہ آ گیا کہ کینیڈا کا کوئی دوسرا دولت مند اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ اس سے بھی بڑی فتوحات پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔وہ کینیڈا چھوڑ کر انگلینڈ چلا آیا اور سیاست میں حصہ لینے لگا۔ اس نے ایک سنسنی خیز سیاسی تحریک شروع کی اور پارلیمان کا ممبر منتخب ہو گیا۔ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کیلئے اس نے لندن کا ایک اخبار ڈیلی ''ایکسپریس‘‘ خرید لیا۔ پہلے سال اسے اس اخبار میں 20پونڈ خسارہ اٹھانا پڑا۔ دوسرے سال یہ خسارہ ایک تہائی رہ گیا اور آخر میں اس سے سالانہ 20پونڈ نفع کمانے لگا۔ اس نے اخبار میں سنسنی خیز واقعات شائع کرکے حکومت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلی۔ وہ اپنے اخبار کے صحافیوں اور اس میں مضامین لکھنے والوں کو تحائف دیتا رہتا اور گھوڑے کی ریس پر اتنے اچھے اندازے شائع کرتا جو عموماً صحیح ثابت ہوتے۔ڈیلی ایکسپریس کی اشاعت700فیصد بڑھ گئی۔ یہ 3لاکھ سے 25لاکھ ہو گئی۔ دنیا میں اس سے بڑھ کر کسی اخبار کی اشاعت نہیں۔ کامیابی کے نشے میں چور لارڈ بیور بروک نے ایک اخبار ایوننگ سٹینڈرڈ خرید لیا اور ایک تیسرا اخبار ''سنڈے ایکسپریس‘‘ خود جاری کیا۔ برطانوی وزارت کو بنانے اور توڑنے میں اب لارڈ بیور بروک کو بہت عمل دخل تھا۔ لائیڈ جارج کو برطانیہ کا وزیراعظم بنانے میں اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ایک چیز جس کا وہ دلی طور پر متمنی تھا اسے مل نہ سکی، وہ برطانیہ کا وزیراعظم بننا چاہتا تھا وہ یہ کبھی برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ اسے نظر انداز کیا جائے لہٰذا اس نے اپنے آپ پر ایک انعامی تنقیدی مضمون کا اعلان کیا۔ یہ انعام اس کے ایک ملازم نے حاصل کیا۔جب وہ انگلینڈ کے ایک ذہین کارٹونسٹ ڈلوڈلو نے ایک دوسرے اخبار میں لارڈ بیور بروک پر حملہ کیا تو لارڈ بیور بروک نے اس سے کہا ''لوؔ! اگر تم میرے اخبار میں ملازم ہو کر کارٹونوں کے ذریعے میرا مذاق اڑائو تو میں تمہیں سالانہ دس ہزار پونڈ دیا کروں گا‘‘ ۔لوؔ نے یہ پیشکش قبول کر لی وہ اکثر اپنے مالک کے مضحکہ خیز کارٹون بنایا کرتا تھا۔1943ء میں لارڈ بیورک نے چرچل کی وزارت میں یکے بعد دیگرے پانچ وزارتیں سنبھالیں۔ پہلے وہ ہوائی جہازوں کی پیداوار بڑھانے کے شعبے کا وزیر تھا پھر وہ وزیر ریاست اور پھر پیداوار کا وزیر بنایا گیا۔ اس کا آخری عہدہ لارڈ پریوی سپل کا تھا۔انگلینڈ میں لارڈ بیور بروک کو اکثر'' دی بیور‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنا موجودہ نام اس نے اس لئے منتخب کیا ہے کہ کینیڈا میں بچپن کے ایام میں وہ اکثر بیوربروک نامی ایک ندی سے مچھلیاں پکڑا کرتا تھا۔ وہ ہر روز گھڑ سواری کرتا ہے اور گھڑ سواری کے دوران میں حبشیوں کے مذہبی گیت گاتا رہتاتھا۔ایک زمانے میں دو حجام بیک وقت لارڈ بیور بروک پر '' مصروف کار‘‘ رہتے تھے۔ ایک اس کی شیو بناتا اور دوسرااس کے سر کے بال تراشتا، آخر وقت بچانے کی خاطر ایک برقی بال تراش خرید لیا اور وہ اب اپنے سر کی حجامت بھی خود ہی کرتاتھا۔ایک زمانے میں اس نے ایک چھوٹا سا ریڈیو خریدا اور اسے ایک دھاگے میں پرُوکر اپنے گلے میں لٹکا لیا۔ وہ موسیقی کے دھن پر اکثر رقص کرتا رہتا۔ اس نے اپنے مکان کے ہر کمرے میں ٹیلی فون لگوا رکھے تھے۔ ان میںغسل خانے بھی شامل ہیں۔ پانی کے ٹب میں بیٹھا وہ اکثر دیر دیر تک ٹیلی فون پر باتیں کرتا رہتا ۔وہ آٹھ پونڈ میں جوتوں کا جوڑا خریدا کرتا لیکن اس کا سوٹ جوتوں سے نصف قیمت کا ہوتا تھا۔ اس کی قمیص بڑے قیمتی کپڑے کی ہوتی مگر جب کسی کف کا کوئی بٹن ٹوٹ جاتا تو وہ اس کی جگہ سیفٹی پن استعمال کرتا تھا۔لارڈ بیور بروک نے اپنے مکان کے قریب قبروں پر نصب کیا جانے والا صلیب کا ایک بڑا سا نشان لگوا رکھا تھا جو رات کے وقت بلبوں کی روشنی میں جگمگاتا رہتا۔لارڈ بیور بروک کا کہنا تھا کہ یہ نشان اسے احساس دلاتا رہتا ہے کہ وقت بھاگا جا رہا ہے اور ہمیں ہر لمحے سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے کیونکہ موت ہماری گھاٹ میں بیٹھی ہے۔  

چائے ،کافی مہنگی خوراک کے عالمی اخراجات پر اثرات؟

چائے ،کافی مہنگی خوراک کے عالمی اخراجات پر اثرات؟

عالمی ادارہ خوراک و زراعت (FAO)کے مطابق چائے اور کافی جیسے مشروبات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث رواں سال دنیا بھر میں خوراک پر اٹھنے والے اخراجات 2ہزار ارب ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں۔FAO کی جانب سے خوراک کی صورتحال پر جاری کردہ رپورٹ''The State of Food and Agriculture 2024‘‘ کے مطابق رواں سال کے آغاز میں کوکو کی قیمتوں میں 4 گنا اضافہ ہوا اور اس طرح کافی کی قیمتیں دوگنا ہو گئیں جبکہ چائے کی قیمتوں میںبھی 15فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔چائے اور کافی کے مقابلے میں اناج کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔عالمی ادارہ خوراک و زراعت کی جانب سے 156 ممالک میں کی گئی تحقیق کے مطابق عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ تقریباً 12 ٹریلین ڈالر ہیں۔ اس رقم کا تقریباً 70 فیصد غیر صحت مند غذائی عادات سے پیدا ہوتا ہے اور یہ دل کی بیماری، فالج اور ذیابیطس جیسے خطرناک غیر متعدی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے، جو کہ ماحولیاتی زوال اور سماجی عدم مساوات سے متعلق اخراجات سے کہیں زیادہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں غذائی اخراجات میں ہونے والے نصف سے زیادہ اضافے کا سبب چائے اور کافی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے جو کہ رواں سال کے آخر تک تقریباً 23 فیصد بڑھ جائیں گی۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں خوراک کی درآمد پر دو تہائی اخراجات زیادہ آمدنی والے ممالک میں ہوتے ہیں جہاں یہ اضافہ 4.4 فیصد تک ہو گا جبکہ متوسط اور کم آمدنی والے ممالک میں خوراک پر درآمدی اخراجات میں کمی آئے گی۔کم آمدنی والے ممالک کو اناج اور تیل کے بیجوں کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ پہنچے گا تاہم وہاں گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع ہے۔FAO نے اس رپورٹ میں متعدد ممالک میں بہتری کے حوالے سے خوراک کی برآمدات کے اہم کردار کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مثال کے طور پر برونڈی اور ایتھوپیا کی غذائی برآمدات میں کافی کا حصہ تقریباً 40 فیصد رہا جبکہ آئیوری کوسٹ میں کوکو کی برآمدات کا مالی حجم اس کی تمام غذائی درآمد سے زیادہ تھا۔ اسی طرح سری لنکا نے چائے کی برآمد سے اپنی تمام غذائی برآمدات کے نصف سے زیادہ آمدنی حاصل کی ہے۔رپورٹ کے مطابق گندم اور دیگر اقسام کے اناج کی پیداوار میں کمی کی توقع ہے جبکہ 25-2024ء کے سیزن میں چاول کی ریکارڈ پیداوار کے باعث اس کے استعمال ‘ ذخیرہ کرنے اور اس کی بین الاقوامی تجارت میں اضافہ ہو سکتاہے۔گوشت اور دودھ کی مصنوعات میں قدرے اضافہ متوقع ہے جبکہ مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔سبزیوں کے تیل کا استعمال متواتر دوسرے برس اس کی پیداوار سے تجاوز کر سکتا ہے۔ جس کے باعث اس کے ذخائر میں کمی آئے گی۔ شدید موسمی واقعات، ارضی سیاسی تناؤ اور پالیسی میں آنے والی تبدیلیاں پیداوار کے نظام کو غیرمستحکم کر سکتی ہیں جس کے نتیجے میں عالمگیر غذائی تحفظ میں مزید کمی آ سکتی ہے۔رپورٹ میں موسمیاتی عوامل کے باعث زیتون کے تیل کی پیداوار میں کمی اور اس کی قیمتوں میں اضافے کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے۔بلند درجہ حرارت کے باعث زیتون کے درخت پانی کو پھل پیدا کرنے کے بجائے اپنے دیگر افعال کیلئے محفوظ کر لیتے ہیں۔ جن علاقوں میں یہ فصل پیدا ہوتی ہے وہاں گرم حالات کے باعث دو برس سے پیداوار میں نصف حد تک کمی دیکھی جا رہی ہے۔ سپین میں زیتون کی آئندہ پیداوار گزشتہ دس سال کی اوسط سے بڑھ جانے کا امکان ہے تاہم بلند قیمتوں کے باعث اس کے استعمال میں کمی آ سکتی ہے۔رپورٹ کے مطابق2022ء کے بعد کھادوں کی قیمتوں میں 50 فیصد تک کمی آئی، جس کا بڑا سبب قدرتی گیس کی قیمتوں میں کمی ہے۔FAO کے مطابق سپلائی سے متعلق خدشات کی بنا پر لاطینی امریکہ اور ایشیا میں فاسفیٹ کھادوں کی قیمتیں برقرار ہیں۔ رپورٹ میں کم کاربن والی امونیا کھادوں کے حوالے سے اہم متبادل قرار دیا گیا ہے جو نائٹروجن والی کھادوں کا اہم جزو ہوتا ہے۔٭...عالمی خوراک کے نظام میں اخراجات سالانہ 12 ٹریلین ڈالرہے اور اس کا 70فیصد غیر صحت مند خوراک پر خرچ ہوتا ہے ۔٭...کافی کی قیمتیں دو گنا بڑھ گئیں، چائے کی قیمتوں میںبھی 15 فیصد اضافہ ٭... گندم اور دوسرے اناج کی فی کس کھپت میں کمی متوقع۔٭... چاول کے استعمال میں 1.5 فیصد تک اضافہ۔٭...مچھلی کی پیداوار 2.2 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ 

آج کا دن

آج کا دن

''اپالو12‘‘کی چاند پر لینڈنگ19نومبر1969ء کو امریکہ کے دو خلاء بازچارلس پیٹ اور ایلن بین چاند کی سطح پر اترے۔ یہ امریکہ کی جانب سے چاند پر اترنے کا دوسرا واقعہ تھا۔ دونوں خلاء بازوں نے چاند کے ایک مخصوص علاقے ''اوشن آف سٹورمز‘‘(Ocean of Storms) میں تحقیق کرناتھی۔ چارلس پیٹ اور ایلن بین چاند پر چہل قدمی کرنے والے تیسرے اور چوتھے خلاء باز ہیں۔جاپان اور لیگ آف نیشنز1931ء میں آج کے روزامریکہ اور دیگر ممالک جس میں لیگ آف نیشنز بھی شامل تھی نے جاپان کے خلاف چین کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ اور اتحاد اس لئے کیا گیا تاکہ چائنہ کی مدد سے جاپان کو منچوریا سے نکالا جا سکے۔ جاپان کے زیر انتظام منچوریا پر حملہ کرنے کا منصوبہ اس لئے بنایا گیا کیونکہ جاپان نے معاہدوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی افواج کو ممنوعہ علاقوں میں داخل کر دیا تھا۔ کولمبس نے پورٹوریکو دریافت کیا1493ء میںکرسٹوفر کولمبس نے اپنی دوسری سمندری مہم کے دوران پورٹوریکو دریافت کیا، جس کا پرانا نام ''سان جوان بائوٹیسٹا ‘‘ تھا۔ یہ جزیرہ امریکہ کے زیر تسلط تھا۔ کانگریس نے 1952 ء میں ایک مقامی آئین کی منظوری دی، جس میں جزیرے پر رہنے والے شہریوں کو گورنر کا انتخاب کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہاں کی آبادی 32لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ بل کلنٹن کے مواخذے کا آغازمونیکا لیونسکی کے ساتھ جنسی سکینڈل پر 1998 ء میں آج کے روز سابق امریکی صدر بل کلنٹن کیخلاف ایوان نمائندگان کی عدلیہ کمیٹی نے مواخذے کی سماعت شروع کی۔بل کلنٹن امریکہ کے 42ویں صدر کی حیثیت سے 1993ء سے 2001ء تک اپنے عہدے پر فائز رہے۔ دوسرے دورے صدارت میں کلنٹن لیونسکی اسکینڈل کا غلبہ رہا جو 1995ء میں شروع ہواتھا۔بعدازاں انہیں اس الزام سے بری کر دیا گیا۔انور سادات کا دورہ اسرائیل19نومبر1977ء کو مصر کے سابق صدر انور سادات نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ اسرائیل میں قدم رکھنے والے عرب دنیا کے پہلے لیڈر تھے،اسرائیل کی جانب سے انور سادات کا تاریخی استقبال کیا گیا۔عرب اور دیگر اسلامی ممالک نے انور سادات کے دورہ اسرائیل کی شدید مذمت کی اور اسے عالم اسلام کے مفادات کے خلاف قرار دیا۔امریکی سڑکوں پر خودکار ٹول مشینامریکہ میں ہائی ویز پر پہلی مرتبہ خود کار ٹول مشین19نومبر1954ء کو نصب کی گئی۔ اس سے قبل ٹول پلازوں پر ملازمین ٹول اکٹھا کرتے تھے جس کی وجہ سے گاڑیوں کو انتظار کرنا پڑتا تھا اور سڑک پر ٹریفک کا بہاؤ سست ہونے کی وجہ سے لوگوں کو متعدد مشکلات کا سامنا تھا ۔تجرباتی طور پر یہ خود کار ٹول مشین نصب کی گئی تھی ۔