فاتح بیت المقدس :سلطان صلاح الدین ایوبی
الناصر صلاح الدین بن یوسف بن ایوب جنہیں عام طور پور صلاح الدین ایوبی کے نام سے جانا جاتا ہے ۔آ ٓپ ایوبی سلطنت کے بانی تھے ۔ صلاح الدین ایوبی 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تقریت میں پیدا ہوئے ، ان کے زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر ، شام، یمن ، عراق ، حجاز اور دیار باقر پر حکومت کی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بہادری، فیاضی، حسن خلق سخاوت اور برد باری کے باعث ناصرف مسلمان بلکہ مسیحی بھی ا ن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین اپنے کارناموں میں نورالدین زنگی پر بھی بازی لے گئے۔ ان میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔
صلاح الدین شروع میں نورالدین زنگی کی فوج میں تھے اور مصر کو فتح کرنے والی فوج کا حصہ تھے ۔ ان کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ہجری میں مصر کا حاکم مقرر کر دیا گیا۔ 569ہجری میں انہوں نے یمن فتح کیا۔
نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد سلطان صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوئے ۔ مصر کے بعد سلطان صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل اور حلب وغیرہ فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لئے۔ اس دوران میں صلیبی سردار رینا لڈ کے ساتھ معاہدہ صلح کیا، جس کی روح سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے ۔ 1186ء میں مسیحیوں کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کیلئے فوراً اقدامات کئے اور رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اُسے حطین کے مقام پر جا لیا ۔ 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ کے نتیجے میں30ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لئے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ دراصل رینالڈ نبی پاک ﷺ کی شان میں برملا طور پر گستاخی کیا کرتا تھا اور سلطان نے اسے اپنے ہاتھوں سے مارنے کی قسم کھائی ہوئی تھی ۔
حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا۔ ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد مسیحیوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 88سال بعد دوبار مسلمانوں کے قبضے میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیح حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔ بیت المقدس کی فتح سلطان صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اِنہوں نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوکر نور الدین زنگی کا تیار کردہ ممبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا اور اس طرح نورالدین زنگی کی خواہش ان کے ہاتھوں پوری ہوئی ۔
بیت المقدس پر فتح کے بعد یرو شلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوئی جو فلسطین میں 1099ء سے قائم تھی ۔ بیت المقدس پر تقریباً 761سال مسلسل مسلمانوں کی حکومت رہی۔ بلآخر 1948ء میں امریکہ برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیل نے پھر قبضہ کر لیا جوکہ آج تک جاری ہے۔
صلاح الدین ایوبی بڑے بہادر اور فیاض تھے۔ لڑائیوں میں اُنہوں نے مسیحیو ں کے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیا کہ مسیح آج بھی ان کی عزت کرتے ہیں ۔ 04مارچ 1193ء صلاح الدین ایوبی انتقال کر گئے، انہیں شام کے موجودہ دارالحکومت دمشق کی ایک مسجد ، امیہ کے نواح میں سپرد خاک کیا گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کل 20سال حکومت کی۔ مؤرخ ابن خلکان کے مطابق ان کی موت کا دن بہت زیادہ تکلیف دہ تھا ۔ موجودہ دور کے ایک انگریز مؤرخ لین پو ل نے بھی صلا ح الدین کی بڑی تعریف کی ہے اور وہ لکھتا ہے کہ بادشا ہوں اور ان میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے شاہ جلال کے سبب عزت پائی اور سلطان نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہر دل عزیزی کی دولت کمائی ۔
صلاح الدین اگرچہ ایک دانش مند اور قابل حکمران تھے لیکن وہ خود کو رواجی تصور سے آزاد نہ کر سکے۔ خلافت کے حقیقی تصور کو اب مسلمان معاشر ہ اس حد تک بھلا چکا تھا کہ نورالدین اور صلاح الدین جیسے حکمران بھی ملو قیت کے انداز میں سوچتے تھے۔ جانشینی کے معاملے میں صلا ح الدین نے وہی غلطی کی جو سب سے پہلے ہارون رشید نے کی تھی اور سلجوقوں کے بعد سے تمام حکمران کرتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے زمانے کے غلط رواج کے تحت اپنی سلطنت تین لڑکوں میں تقسیم کردی، نتیجہ یہ ہوا کہ طاقتور سلطنت تقسیم ہوکر کمزور پڑ گئی پھر بھی ایوبی خاندان کے ان چند لائق حکمرانوں جن میں صلاح الدین کا بھائی ملک عادل اور اس کا لڑکا ملک کامل قابل ذکر ہیں ، مصر، شام، حجاز اور یمن کو تقریباً 60سال تک متحد رکھا۔ 648ہجری میں ایوبی خاندان کی حکومت ختم ہوگئی اور ان کی جگہ ترکوں کی حکومت قائم ہوئی جو مملوک کہلاتی تھی۔