پنسلین ایک اتفاقیہ دریافت
الیگزینڈر فلیمنگ کا نام ان کی نادر دریافت پنسلین کی وجہ سے مشہور ہوا۔ اب یہ دوا دنیا میں عام ہو چکی ہے اور بعض امراض میں اس کا استعمال بے بدل ہے۔ پنسلین اتفاقیہ طور پر دریافت ہوئی، اس کی کہانی نہایت دلچسپ ہے۔ یہ 1928ء کی بات ہے۔ اس زمانے میں الیگزینڈر فلیمنگ لندن کے سینٹ میری ہسپتال میں جراثیم کے ماہر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔ وہ مختلف جراثیم پیدا کرکے ان پر تحقیقات کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک پلیٹ پر پھپھوندی جم گئی ہے۔ فلیمنگ نے لاپروائی سے اس پلیٹ کو نل کے نیچے رکھ کر پانی کھول دیا۔تھوڑی دیر بعد فلیمنگ نے پلیٹ پر نظرڈالی تو کچھ اور ہی نظر آیا۔ پھپھوندی نے وہ جراثیم صاف کر دیئے تھے جو پلیٹ میں پہلے سے موجود تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خود پھپھوندی میں نہایت اچھا جراثیم کش مادہ موجود تھا۔ بعد میں ڈاکٹر فلیمنگ نے کہا '' جب میں نے جراثیم صاف ہوتے ہوئے دیکھے تو مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے آج ایک ایسی چیز دریافت کر لی ہے جو انسان کو نقصان پہنچانے والے جراثیم کی دشمن ہے‘‘۔فلیمنگ نے وہی پھپھوندی پھر تیار کی اور چونکہ اس کا تعلق ''پینی سلم‘‘ قسم سے تھا اس لئے اس سے نکلنے والے جراثیم کش مادے کا نام پنسلین رکھا گیا۔
ڈاکٹر فلیمنگ نے پلیٹ میں بچی کھچی مقدار سے مزید پھپھوندی تیار کی اور آٹھ ماہ تک بڑی اس پر تحقیق کرتے رہے۔فلیمنگ کو بڑی حیرت ہوئی جب تجربات سے یہ ظاہر ہوا کہ پھپھوندی کی یہ قسم بڑی عمدہ جراثیم کش دوا ثابت ہو سکتی ہے۔ وہ نمونیہ کا بہترین علاج ثابت ہوئی۔ حد یہ ہوئی کہ خناق تک کے جراثیم اس کے سامنے کوئی حقیقت نہیں رکھتے تھے۔ ہاں اگر کسی جرثومے پر اس کا اثر نہیں ہوتا تھا تو وہ انفلوئنزا کا جرثومہ تھا۔سب سے زیادہ ضروری سوال یہ تھا کہ نپسلین خطرناک تو نہیں ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ جراثیم کو مارنے کے ساتھ ساتھ مریض کو بھی مار ڈالے۔ فلیمنگ کو اس ہم سوال کا جواب تلاش کرنا تھا لیکن کیسے؟ ظاہر ہے کسی انسان پر تو یہ تجربہ کیا نہیں جا سکتا تھا۔ فلیمنگ نے پنسلین محلول کی بیس سی سی مقدار ایک خرگوش کے جسم میں چڑھائی۔ خرگوش زندہ رہا۔ فلیمنگ کو خوشی ہوئی کہ یہ دوا کم از کم خرگوشوں کیلئے تو زہریلی نہیں ہے۔
انہوں نے اپنی تجربہ گاہ کے ایک کونے میں اس پھپھوندی کی کچھ مقدار محفوظ رہنے دی۔ دس سال اسی طرح گزر گئے، لیکن فلیمنگ کی طبیعت میں بلا کا تحمل تھا۔ وہ بہتر دنوں کا انتظار کرتے رہے۔آکسفورڈ میں پروفیسر فلورے اس موضوع پر کام کر رہے تھے انہیں یادآیا کہ دس سال پہلے ایک معمولی پھپھوندی کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ اس میں جراثیم کشی کی غیر معمولی صلاحیت موجود ہے۔ وہ الیگزینڈر فلیمنگ کے پاس آئے اوراس کی تھوڑی سی مقدار اپنے ساتھ آکسفورڈ لے گئے اور انہوں نے وہاں اس پر تحقیقات شروع کیں۔ فلیمنگ بھی ان کے ساتھ مل گئے۔
انسانوں پر اس کا پہلا تجربہ 1938ء میں کیا گیا۔ لند ن کے ایک پولیس کانسٹیبل نے حجامت کرتے ہوئے اپنی جلد کاٹ لی۔ جراثیم اپنا کام کر گئے اوراس کے خون میں زہر پھیل گیا اور وہ دو ہفتوں میں مرنے کے قریب ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کھلائیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا۔فلورے اور فلیمنگ نے اس موقع کو غنیمت جانا اور جو کچھ بھی پنسلین ان کی تجربہ گاہ میں موجود تھی وہ لے کر مرتے ہوئے اس مریض کے پاس پہنچ گئے۔ ہر تین گھنٹے بعد انجکشن کے ذریعے پنسلیناس کے خون میں پہنچائی جانے لگی۔پہلے دو دن میں بخار میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ تیسرے دن چہرے کا غیر معمولی ورم کم ہونے لگا۔ اگلے دن بخار تقریباً ٹوٹ گیا۔پنسلین کا دوسرا تجربہ ایک پندرہ سالہ لڑکے پر کیا گیا۔ وہ 48گھنٹے کے اندر مر جاتا لیکن پنسلین نے اس کی جان بچا لی۔ اب فلورے کو اس دوا کی خوبی کا یقین ہو گیا۔فلورے نے اپنی بیوی کو اس نیک کام میں شریک کیا جو خود بھی ڈاکٹر تھی۔ فلورے اور ان کے ساتھیوں کا کام یہ تھا کہ وہ پنسلین کی زیادہ سے زیادہ مقدار تیار کرکے مسز فلورے کو دیتے تھے اور وہ اسے مناسب موقعوں پر استعمال کرتیں۔ ایک سال میں 187مریض شفایاب ہوئے جو مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے۔ اگر انہیں پنسلین نہ دی جاتی تو وہ یقیناً مر جاتے۔
طبی تحقیقات کرنے والوں نے سوچا کہ اگر قدرت نے ایک معمولی پھپھوندی میں جادو کا اثر رکھا ہے تو کیوں نہ دوسری چیزوں کو دیکھا بھالا جائے۔ شاید ان میں بھی کچھ طبی خصوصیات موجود ہوں ۔ چنانچہ اور زیادہ تیزی سے تحقیقات ہونے لگیں جن کے نتیجے میں ہمیں ایرومائی سین، کلورومائی سین، پولی مکسین اور بہت سی دوسری دوائیں حاصل ہوئیں ۔ان دوائوں نے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی جانیں بچائی ہیں اور بچا رہی ہیں۔
الیگزینڈر فلیمنگ کو ان خدمات کے صلے میں سر کا خطاب ملا۔ 1943ء میں انہیں رائل سوسائٹی کا فیلو چنا گیا۔1944ء میں انہیں نائٹ کا خطاب ملا اور 1945ء میں انہیں جون سکاٹ میڈل عطا کیا گیا۔ اُسی سال انہیں سر فلورے کی شرکت میں نوبل پرائز بھی ملا۔