آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟
کون ہے جسے آئس کریم کھانا اچھا نہ لگتا ہو۔ گرمیوں کی چلچلاتی شام میں تو اس کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آئس کریم کو قدیم زمانے سے ہی لوگ بڑے شوق سے کھاتے آ رہے ہیں۔
آئس کریم کی شروعات کہاں سے اور کب ہوئی؟ اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ اس کی شروعات چارہزارقبل مسیح برفیلے علاقوں سے ہوئی۔ جہاں باہر رکھا ہوا دودھ خود بخود جم جاتا تھا اور لوگ اسے پینے کے بجائے کھایا کرتے تھے۔ شاید دنیا کی سب سے قدیم آئس کریم یہی تھی۔ ایک ہزار سال پہلے چینی تاریخ میں آئس کریم کا ذکر ملتا ہے۔ روم کا شہنشاہ دودھ، شہد اور پھلوں کے جوس کو ایک پیالے میں ملا کر برف کی سلوں کے درمیان رکھوا دیتا اور کچھ گھنٹوں بعد جمی ہوئی آئس کریم سے لطف اٹھاتا تھا۔
تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ سکندر اعظم کو بھی جمی ہوئی میٹھی چیزیں کھانے کا شوقین تھا۔ عرب کے حکمرانوں کو بھی ٹھنڈی بالائی بے حد پسند تھی۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین پہنچا تو اس نے وہاں کے شہنشاہ اور دوسرے رئیس لوگوں کوآئس کریم کھاتے دیکھا، اسے بھی یہ چیز پسند آئی۔ مارکو پولو نے فرانس پہنچنے پر وہاں کے شہنشاہ کوآئس کریم کھلائی۔ صنعتی طور پر برف کا استعمال سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔ 1806ء میں تقریباً125ٹن برف لندن سے ویسٹ انڈیز پہنچائی گئی، جہاں اس وقت تک کسی نے برف کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں نے برف خریدی ہی نہیں لیکن آہستہ آہستہ برف عام ہو گئی۔1850ء میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن برف دنیا کی 35 بندرگاہوں میں پہنچنے لگی۔
ہندوستان میں مغل بادشاہوں کو بھی آئس کریم کھانے کا بے حد شوق تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں آئس کریم( جو اس وقت قلفی کے طور پر تیار کی جاتی تھی) کھانے کے بے حد شوقین تھے۔اکبر بادشاہ کے دور کی مشہور کتاب ''آئین اکبری‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جو آئس کریم سے متعلق ہے۔ بیان کے مطابق 1586ء میں اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور سے تقریباً180کلو میٹر دور کسی برفیلے پہاڑی علاقے سے برف منگوائی جاتی تھی۔ اس برف کو توڑ کر نمک ملانے کے بعد آئس کریم بنانے کا محلول تیار کیا جاتا تھا۔ پھر اس میں دودھ اور میوے ملائے جاتے تھے اور قفلی نامی برتن میں رکھ کر برف میں دبا دیا جاتا تھا۔ قفلی برتن ایک خاص دھات کا بنا ہوا ہوتا تھا اور خاص طور پر اسی کام کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قفلی بگڑ کر قلفی میں بدل گیا اور تیاری کے طریقے میں بھی تبدیلی آ گئی۔
اٹھارویں صدی کے آ خر میں امریکہ کے بازاروں میں آئس کریم کی فروخت شروع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برف جمی ہوئی ندیوں اور جھیلوں سے کاٹ کر لائی جاتی تھی۔ اس طرح برف کے لانے میں اور اسے محفوظ کرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اس سے آئس کریم بہت مہنگی پڑتی تھی اور اسے امیر لوگ ہی کھاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک غریب بچہ جیکب پارکس جب آئس کریم نہ کھا سکا تو اس نے برف بنانے کی مشین بنانے کا تہیہ کیا۔ اس نے بڑے ہو کر مسلسل بیس سال تک محنت کرنے کے بعد برف تیار کرنے کی مشین ایجاد کرلی۔ اس مشین میں ایتھر کا استعمال ہوتا تھاجو پانی کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور درجہ حرارت کم ہوتے ہوتے پانی برف بن جاتاتھا۔ اس طرح مصنوعی برف کی تیاری نے آئس کریم کی صنعت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں بھی 19ویں صدی کے آخر میں برف بنانے کے کارخانے کھلنے لگے اور اس کی فروخت عام ہونے لگی۔
2021ء میں لندن کے ادارہ نفسیات کی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ آئس کریم کا صرف ایک چمچ کھانے سے ہمارے دماغ کاوہ حصہ جو فیصلہ سازی میں ہماری مدد کرتا ہے، متحرک ہو جاتا ہے۔دیگر تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ آئس کریم میں موجود پروٹین اور چکنائی ہمارا موڈ بہتر کر دیتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود سیروٹونن (وہ ہارمون جس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے) کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔معیاری آئس کریم میں پروٹین اور چکنائی کی مقدار ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔
آئس کریم بچے ہی نہیں بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ کھانے کی چیزوں میں یہ سب سے زیادہ مشہور چیزوں میں گنی جاتی ہے۔اس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم 'سٹیٹسٹا‘ کے مطابق 2024ء میں آئس کریم کی صنعت سے 103.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے مقابلے میں چاکلیٹ کے کاروبار سے آنے والی آمدنی 1.33 ارب ڈالر ہے جبکہ کافی کی صنعت سے 93.46 ارب ڈالرآئے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ آئس کریم کے مختلف ذائقوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بات اب روایتی ونیلا اور چاکلیٹ آئس کریم سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔
کچھ آئس کریم کے ذائقے مقامی کھانوں کی ثقافت سے بھی مشابہت رکھتے ہیں۔2022 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹائون میں کچن چلانے والے ٹاپیوا گزہا کا سوشل میڈیا پر چرچہ ہوا جب انھوں نے سوکھی نمکین مچھلی کے ذائقے والی آئس کریم بنائی۔سوکھی مچھلی کے ساتھ اس آئس کریم میں مرچوں کا بھی ذائقہ شامل تھا۔ ٹاپیوا گزہا پیشے سے حیاتیات کے ماہر ہیں اورخود کو سائنسی ذہنیت کا 'فوڈی‘ یعنی کھانے کا شوقین کہتے ہیں۔