ریشم کا کیڑا

ریشم کا کیڑا

اسپیشل فیچر

تحریر : خاور نیازی


لباس سازی کے خام مال کیلئے عام طور پر تین ذرائع استعمال ہوتے ہیں۔ سب سے بڑا ذریعہ کپاس اور اون ہے جو انسانی سرگرمیوں کی مدد سے حاصل ہوتا ہے، دوسرا ذریعہ مختلف کیمیائی مادوں سے مشینوں پر تیار کردہ مصنوعی ریشہ ہے جسے عام طور پر فائبر کہا جاتا ہے جبکہ تیسرا ذریعہ نہ تو انسانی ہاتھوں کا مرہون منت ہے اور نہ ہی مشینوں کا محتاج ہے ، بلکہ یہ ایک کیڑے کی محنت کا نچوڑ ہے، جسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ لباس سازی کا یہ ذریعہ دنیا کے مہنگے ترین کپڑے کا ذریعہ ہے۔
ریشم کا کیڑا بنیادی طور پر ایک پالتو کیڑا ہوتا ہے، ویسے تو جنگلی ریشم کے کیڑے بھی پائے جاتے ہیں لیکن مناسب اور مطلوبہ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب یہ معیاری ریشم بنانے کے قابل نہیں ہوتے۔زیادہ ترعالمی ریشم کی فراہمی گھریلو ریشم کے کیڑوں سے آتی ہے۔ ریشم کے کیڑے عام طور پر سفید شہتوت کے پتے بڑی رغبت سے کھاتے ہیں۔بعض اوقات یہ مالٹے کی ایک مخصوص قسم کے درخت کے پتے بھی شوق سے کھاتے ہیں لیکن سب سے اعلیٰ قسم کا ریشم شہتوت کے پتوں پر رہنے والے لاروا کا ہوتا ہے۔ جنہیں تجارتی مقاصد کیلئے پالا جاتا ہے۔یہ کیڑا 300 سے 900 میٹر لمبے ریشے کے ساتھ اپنا کوکون بناتا ہے۔ ریشم کی پیداوار کے مقصد کیلئے ریشم کے کیڑوں کی افزائش اور پرورش کے عمل کو'' سیریکلچر‘‘ کہتے ہیں۔
ریشم بنیادی طور پر دو عناصر فائبر اور سیریسن سے مل کر بنتا ہے۔ ریشم کا 75 سے 90 فیصد حصہ فائبر پرمشتمل ہوتا ہے،جس کا قطر 0.0004 انچ ہوتا ہے جبکہ باقی 10 سے 25 فیصد حصہ سیریسن سے بنا ہوتا ہیجسے ریشم کا کیڑا کہتے ہیں جو ریشوں کو ایک کون میں چپکاتا ہے۔پالتو ریشمی کیڑے اپنی افزائش کا انحصار زیادہ تر انسانوں پر کرتے ہیں ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انسان صدیوں سے ریشم کے کیڑے خود پالتے آرہے ہیںجبکہ اس کے مقابلے میں جنگلی ریشم کیڑے نسلی اعتبار سے الگ ہوتے ہیں اور شاید اسی وجہ سے ان کا بنایا ہوا ریشم غیر معیاری ہوتا ہے۔ریشم کے کیڑے بنیادی طور پر انتہائی حساس اور نازک ہوتے ہیں اور انہیں پالنے والے افراد کو اس بات کا خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ ہر تیسرے دن سوکھے ہوئے پتے اور دیگر فضلہ صاف کریں۔ ایسا نہ کرنے سے ان پر فنگس سمیت متعدد بیماریاں حملہ آور ہو کر پیداوار پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ کام اتنا سہل نہیں کیونکہ ان کی حفاظت کیلئے ہر لمحہ چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان کیڑوں کو چھپکلی، چمگادڑ ،چیونٹی اور دیگر زمینی جانداروں سے بھی بچانا ہوتا ہے۔
ریشم بنتا کیسے ہے
ریشم کی پیداوار کیڑوں کے انڈوں سے شروع ہوتی ہے ، جو عام طور پر خصوصی طور پر ایلومینیم یا کسی اور مٹیریل سے بنائے گئے باکسز میں ہوتی ہے۔ریشم کی مادہ عام طور پر 300سے 500 انڈے دیتی ہے۔چند دن بعد ان انڈوں سے لاروا یا ''کیڑپلر‘‘ نکلتا ہے جسے عرف عام میں ریشم کا کیڑا کہا جاتا ہے۔ لاروا عام طور پر شہتوت کے پتے کھاتا ہے۔ کھانے کے دوران لاروا چار مرتبہ اپنی جلد بدلتا ہے۔یہ اپنے ابتدائی وزن سے 50 ہزار گنا زیادہ شہتوت کے پتے کھاتا ہے۔بالغ ریشم کے کیڑے تقریباً تین انچ تک لمبے ہوتے ہیں اور انڈوں سے نکلنے کے بعد ان کا وزن 10 ہزار گنا زیادہ ہو چکا ہوتا ہے۔ 6 ہفتے کے بعد ایک ریشم کا کیڑا ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے۔جب یہ کیڑا ایک مرتبہ ریشم بنانا شروع کر دیتا ہے تو یہ رکتا نہیں ہے۔ماہرین کے مطابق یہ ایک منٹ کے اندر دس سے پندرہ انچ دھاگہ بناتا ہے۔ یہ کیڑا دو دن اور دو راتوں کے درمیان 5 ہزار فٹ لمبا دھاگہ تیار کر چکا ہوتا ہے۔ دو یا تین دن کے بعد یہ اپنے آپ کو مکمل طور پر کوکون ( کوکون ریشم کے کیڑوں کے خول یا اس کے ''گھروندے‘‘ کو کہتے ہیں جس کے اندر یہ ریشم سازی کرتا ہے ) میں بند کر لیتا ہے۔اپنے آپ کو کوکون میں بند کرنے کے پس پردہ یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ ، ہوا میں ابتدائی ریشم فوراًسخت ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ بات ذہن میں ہونی چاہیے کہ ہر کوکون میں قابل استعمال معیاری ریشم کی مقدار انتہائی قلیل ہوتی ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پاونڈ خام ریشم کم ازکم دو سے تین ہزار کیڑے مل کر بناتے ہیں۔ایک مقررہ مدت کے بعد ریشم کے کیڑے اپنے اینزائمز کے ذریعے سوراخ کر کے کوکون سے باہر نکل آتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ یہ کیڑے اپنے اینزائم سے ریشم کو خراب کرنا شروع کر دیں، ان کوکون کو گرم پانی میں رکھ دیتے ہیں جس سے یہ کیڑے مر جاتے ہیں ، اور کوکون کو برش وغیرہ سے صاف کر کے ریشم کو الگ کر لیا جاتا ہے۔ ایک کوکون میں لگ بھگ ایک ہزار گز ریشم ہوتا ہے۔ ریشم کی اس حالت کو ''خام ریشم‘‘ کہا جاتا ہے۔
ریشم کی تاریخ
ریشم کی تاریخ بارے ماہرین اگرچہ ابھی تک یک سو نہیں ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ ریشم کو سب سے پہلے متعارف کرانے میں چین کا کردار سب سے نمایاں ہے۔بیشتر شواہد کے مطابق چین میں ریشم 6ہزار قبل مسیح اور 5ہزارقبل مسیح کے دوران دریافت ہوا تھا، جس کا سہرا چینی شہنشاہ ژی لنگ شی کے سر جاتا ہے۔2007ء میں محکمہ آثار کے ماہرین کو چینی صوبہ ژیانگ ژی کے ایک مقبرے سے انتہائی پیچیدگی سے بنا ریشم کا ایک کپڑا دریافت ہوا تھا،جس کے بارے یہ قیاس کیا گیا کہ یہ 2500سال قبل ژہو ڈائنا سٹی کے وقت بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ماہرین کو 1070ء قبل مسیح مصر میں ایک ایسی ممی دریافت ہوئی تھی جس کی تیاری میں ریشم کے دھاگے کو استعمال کیا گیا تھا۔
ریشم کے کیڑے کی دریافت شدہ قدیم ترین مثال 3639 قبل مسیح میں حنان شہر سے بھی ملتی ہے جبکہ شانگ خاندان کے دور میں1046 قبل مسیح سے 1600 قبل مسیح کے دوران ریشم کے کیڑے پالنا باقاعدہ طور پر رواج پا چکا تھا۔ ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ 400قبل مسیح سے چین سے بذریعہ شاہراہ ریشم ، ریشم کی برآمد شروع ہو چکی تھی۔جاپان میں ریشم کی کاشت 300 عیسوی تک پھیل چکی تھی۔520 عیسوی تک یورپ اور عرب کے بیشتر علاقوں میں بھی ریشم کی پیداوار رواج پا چکی تھی۔
چین اس وقت تک ریشم پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سالانہ پیداوار ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن سے تجاوز کرچکی ہے۔اس کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اکیلا چین اس وقت دنیا کا 78 فیصد ریشم پیدا کر رہا ہے۔ بھارت 30 ہزار میٹرک ٹن ریشم پیدا کر کے اس وقت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جو کل عالمی پیداوار کا 12 فیصد ریشم پیدا کرتا ہے۔ باقی 10 فیصد ریشم ازبکستان، برازیل شمالی کوریا، تھائی لینڈ اور پاکستان پیدا کر رہے ہیں۔ریشم کی پیداوار کے لحاظ سے چین کے صوبہ جیانگ سونگ، جے ژیانگ اور سی چھوان سر فہرست ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چین کے یہی علاقے بنیادی طور پر ریشم کو متعارف کرانے والے علاقے ہیں۔ تاریخی حوالوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انہی علاقوں کے لوگ ریشم کے کپڑے کو بھی بطور لباس متعارف کروانے والے لوگ ہیں اور یہیں سے ریشم دنیا کے دوسرے علاقوں میں پھیلا۔ چین کے شہر سوجو ، ہانگ جو ، ناں جنگ اور شاوشنگ ریشم کے سب سے بڑے صنعتی شہر ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

یادرفتگاں:رہنمائوں کے رہنما بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان

جمہوریت کیلئے نوابزادہ نصر اللہ خان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ وہ ان چند سیاست دانوں میں سے ہیں جو حقیقی معنوں میں کسی بھی دور میں نہ بکے اور نہ جھکے۔ 1951ء کے بعد ملک میں جتنے بھی سیاسی اتحاد بنے نوابزادہ نصراللہ خان کا ان کے ساتھ بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق ضرور رہا۔انہیں سب سے زیادہ شہرت ایوب خان کے دور میں اس وقت ملی جب انہوں نے جمہوریت کی بحالی کیلئے قربانیاں دیں اور ان پر بغاوت کا مقدمہ بنا۔ اس وقت جب دوسرے سیاستدان ہمت ہار بیٹھے تھے یہ مردِ قلندر میدان عمل میں ڈٹا رہا اور ایوب خان کو مجبور کر دیا کہ وہ اپوزیشن کے تمام مطالبات تسلیم کرے۔ یہی صورتحال ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی رہی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان نے مستقل مزاجی سے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے احتجاجی تحریک جاری رکھی۔ قائد جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کو اس دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بِیت چکے ہیں اور ان کی برسی کل منائی جائے گی۔نوابزادہ نصر اللہ خان13 نومبر 1916ء کو مظفرگڑھ کے قصبے خان گڑھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد نوابزادہ سیف اللہ خان دفعہ 30 کے مجسٹریٹ تھے۔ نصراللہ خان ابھی چھ برس ہی کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انہوں نے ایچیسن کالج لاہورسے ایف اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد ایمرسن کالج ملتان میں گریجوئشن کیلئے داخلہ لیا لیکن شادی کے باعث انہیں کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی۔وہ شعبہ صحافت سے بھی وابستہ رہے۔ سیاست انہوں نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے شروع کی۔وہ اس جماعت میں اس طرح رچ بس گئے کہ قیام پاکستان سے قبل 27 یا 28 سال کی عمر میں ہی وہ اس کے سیکرٹری جنرل بن گئے۔ 1950ء میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بعدازاں اختلافات کی بنا پر مسلم لیگ سے استعفی دے دیا اور حسین شہید سہروردی کے ساتھ مل کر عوامی لیگ قائم کی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان 1962ء میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور انہوں نے 1962ء میں ہی حزب اختلاف کا اتحاد ''نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ‘‘ تشکیل دے دیا۔ 1964ء میں متحدہ حزب اختلاف( سی او پی) کے نام سے ایک تیسرا بڑا سیاسی اتحاد معرض وجود میںآیا۔ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد اپوزیشن جماعتوں کا یہ دوسرا بڑا اتحاد تھا جس کے قیام کا موقع ایوب خان نے صدارتی انتخاب کا اعلان کر کے فراہم کیا تھا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں بشمول کونسل مسلم لیگ، نیشنل عوامی پارٹی، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی اور عوامی لیگ نے محترمہ فاطمہ جناح کو اپنا متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کر دیا۔ ابتدا میں سی او پی کے رہنما ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کے معاملے میں اختلافات کا شکار ہو گئے تا ہم فاطمہ جنا ح کے نام پر کسی کو اعتراض نہ ہوا۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے محترمہ فاطمہ جنا ح سے ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی انتخاب لڑنے کی درخواست کی۔ پہلے انہوں نے انکار کیا مگر بعد ازاں انہوں نے آمادگی ظاہر کر دی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے فاطمہ جنا ح کی صدارتی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لیا ۔ سی او پی کو قوی یقین تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت جائیں گی۔ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ہمشیرہ کو شکست ہوگی۔ نواب زادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف 1967ء میں حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ''پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘‘ تشکیل دیا۔ انہوں نے ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو ،جنرل ضیاء الحق، بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کو اپنی سیاسی زندگی میں متعدد بار قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں ،کئی مرتبہ جیلوں میں گئے اور متعدد بار نظر بند رہے۔ بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا ء کے دوران اپنے آبائی گھر خان گڑھ میں نظر بند ہونے کے باوجود ملکی سیاسی صورتحال پر پوری طرح نظر رکھے رہتے۔ وہ وقتاً فوقتاً قلبی واردات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرکے نظم کی صورت میں کسی نہ کسی طریقے سے اپنے 50 سالہ پرانے رفیق عبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کے نام بھجوا دیتے، جو اس کی نقول مختلف اخبارات کو جاری کر دیتے ۔ جنرل ضیاالحق کے عہد مارشل لاء میں جس نظم کے چرچے ہوئے اور ملک بھر میں اس کی فوٹو کاپیاں تقسیم کی گئیں وہ یہ ہے۔کتنے بے درد ہیں کہ صر صر کو صبا کہتے ہیںکیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیاء کہتے ہیںجبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیںمیری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے خامشی کو بھی اک طرز نوا کہتے ہیںکشتگانِ وجور کو بھی دیکھ تو لیںاہل ِدانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیںکل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی آج بھی پیش بتاں نامِ خدا کہتے ہیں یوں تو محفل سے تیری اٹھ گئے سب دل والےایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا ، کہتے ہیں یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہےچارہ گر موت کو تکمیل شفا کہتے ہیں بزمِ زنداں میں ہوا شور سلاسل برپادہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیںآندھیاں میرے نشیمن کو اُڑانے اٹھیں میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا ، کہتے ہیںان کے ہاتھوں پر اگر خون کے چھینٹے دیکھیں مصلحت کش اِسے رنگ ِحنا کہتے ہیںمیری فریاد کو اس عہدِ ہوس میں ناصر ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں نوابز ادہ نصر اللہ خان نے 1988ء اور 1993ء کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا۔انہوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش18 سیاسی اتحاد بنائے، جن میں پاکستان قومی اتحاد، ایم آر ڈی ،این ڈی اے ،اے آر ڈی ،اے پی سی اور دیگر سیاسی اتحاد شامل ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں انہوں نے اے آر ڈی کے نام سے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جس میں بینظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور میاں نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) کو ایک فورم پر جمع کیا۔ نوابزادہ نصر اللہ خان پیرانہ سالی اور علا لتوں کے دور سے گزر رہے تھے اس کے باوجود انتقال سے کچھ دن پہلے انہوں نے بیرون ملک دورہ کیا۔بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وطن واپس آنے کی ترغیب دی۔ اس سفر میں انہیں عمرہ اداکرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ نوابزادہ نصر اللہ خان مسلح افواج کے سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ کسی بھی آئینی کردار کے خلاف تھے۔ ان کی جمہوریت کے فروغ کیلئے خدمات قابل تحسین ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی بحالی جمہوریت کیلئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں ا نہیں ''بحالی جمہوریت کا ہیرو ‘‘ قرار دے۔26اور27 ستمبر2003ء کی درمیانی رات وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔انہیں ان کے آبائی قبرستان خان گڑھ میں سپرد خاک کیا گیا۔اس وقت ملک میں جو سیاسی افرا تفری پھیلی ہوئی ہے،ان حالات میں اگر وہ زندہ ہوتے تو ملک میں سیاسی امن و امان قائم کرنے کیلئے ضرور اپنا کردار ادا کرتے۔ 

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

آئس کریم کی کہانی، کتنی پرانی؟

کون ہے جسے آئس کریم کھانا اچھا نہ لگتا ہو۔ گرمیوں کی چلچلاتی شام میں تو اس کے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ آئس کریم کو قدیم زمانے سے ہی لوگ بڑے شوق سے کھاتے آ رہے ہیں۔آئس کریم کی شروعات کہاں سے اور کب ہوئی؟ اس سلسلے میں مختلف آراء ہیں۔ عام خیال یہی ہے کہ اس کی شروعات چارہزارقبل مسیح برفیلے علاقوں سے ہوئی۔ جہاں باہر رکھا ہوا دودھ خود بخود جم جاتا تھا اور لوگ اسے پینے کے بجائے کھایا کرتے تھے۔ شاید دنیا کی سب سے قدیم آئس کریم یہی تھی۔ ایک ہزار سال پہلے چینی تاریخ میں آئس کریم کا ذکر ملتا ہے۔ روم کا شہنشاہ دودھ، شہد اور پھلوں کے جوس کو ایک پیالے میں ملا کر برف کی سلوں کے درمیان رکھوا دیتا اور کچھ گھنٹوں بعد جمی ہوئی آئس کریم سے لطف اٹھاتا تھا۔ تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ سکندر اعظم کو بھی جمی ہوئی میٹھی چیزیں کھانے کا شوقین تھا۔ عرب کے حکمرانوں کو بھی ٹھنڈی بالائی بے حد پسند تھی۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین پہنچا تو اس نے وہاں کے شہنشاہ اور دوسرے رئیس لوگوں کوآئس کریم کھاتے دیکھا، اسے بھی یہ چیز پسند آئی۔ مارکو پولو نے فرانس پہنچنے پر وہاں کے شہنشاہ کوآئس کریم کھلائی۔ صنعتی طور پر برف کا استعمال سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔ 1806ء میں تقریباً125ٹن برف لندن سے ویسٹ انڈیز پہنچائی گئی، جہاں اس وقت تک کسی نے برف کو دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں کے باشندوں نے برف خریدی ہی نہیں لیکن آہستہ آہستہ برف عام ہو گئی۔1850ء میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ پچاس ہزار ٹن برف دنیا کی 35 بندرگاہوں میں پہنچنے لگی۔ہندوستان میں مغل بادشاہوں کو بھی آئس کریم کھانے کا بے حد شوق تھا۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ بادشاہ بابر، ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہ جہاں آئس کریم( جو اس وقت قلفی کے طور پر تیار کی جاتی تھی) کھانے کے بے حد شوقین تھے۔اکبر بادشاہ کے دور کی مشہور کتاب ''آئین اکبری‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر ہے جو آئس کریم سے متعلق ہے۔ بیان کے مطابق 1586ء میں اکبر بادشاہ کے دور میں لاہور سے تقریباً180کلو میٹر دور کسی برفیلے پہاڑی علاقے سے برف منگوائی جاتی تھی۔ اس برف کو توڑ کر نمک ملانے کے بعد آئس کریم بنانے کا محلول تیار کیا جاتا تھا۔ پھر اس میں دودھ اور میوے ملائے جاتے تھے اور قفلی نامی برتن میں رکھ کر برف میں دبا دیا جاتا تھا۔ قفلی برتن ایک خاص دھات کا بنا ہوا ہوتا تھا اور خاص طور پر اسی کام کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ قفلی بگڑ کر قلفی میں بدل گیا اور تیاری کے طریقے میں بھی تبدیلی آ گئی۔اٹھارویں صدی کے آ خر میں امریکہ کے بازاروں میں آئس کریم کی فروخت شروع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برف جمی ہوئی ندیوں اور جھیلوں سے کاٹ کر لائی جاتی تھی۔ اس طرح برف کے لانے میں اور اسے محفوظ کرنے میں کافی وقت لگتا تھا۔ اس سے آئس کریم بہت مہنگی پڑتی تھی اور اسے امیر لوگ ہی کھاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک غریب بچہ جیکب پارکس جب آئس کریم نہ کھا سکا تو اس نے برف بنانے کی مشین بنانے کا تہیہ کیا۔ اس نے بڑے ہو کر مسلسل بیس سال تک محنت کرنے کے بعد برف تیار کرنے کی مشین ایجاد کرلی۔ اس مشین میں ایتھر کا استعمال ہوتا تھاجو پانی کے درجہ حرارت کو کم کرتا ہے اور درجہ حرارت کم ہوتے ہوتے پانی برف بن جاتاتھا۔ اس طرح مصنوعی برف کی تیاری نے آئس کریم کی صنعت میں ایک انقلاب پیدا کر دیا۔ ہندوستان میں بھی 19ویں صدی کے آخر میں برف بنانے کے کارخانے کھلنے لگے اور اس کی فروخت عام ہونے لگی۔ 2021ء میں لندن کے ادارہ نفسیات کی ایک تحقیق میں سامنے آیا کہ آئس کریم کا صرف ایک چمچ کھانے سے ہمارے دماغ کاوہ حصہ جو فیصلہ سازی میں ہماری مدد کرتا ہے، متحرک ہو جاتا ہے۔دیگر تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ آئس کریم میں موجود پروٹین اور چکنائی ہمارا موڈ بہتر کر دیتے ہیں اور ہمارے جسم میں موجود سیروٹونن (وہ ہارمون جس سے موڈ اچھا ہو جاتا ہے) کی سطح بھی بڑھ جاتی ہے۔معیاری آئس کریم میں پروٹین اور چکنائی کی مقدار ویسے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کریم بچے ہی نہیں بڑے بھی پسند کرتے ہیں۔ کھانے کی چیزوں میں یہ سب سے زیادہ مشہور چیزوں میں گنی جاتی ہے۔اس کا زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔بزنس انٹیلی جنس پلیٹ فارم 'سٹیٹسٹا‘ کے مطابق 2024ء میں آئس کریم کی صنعت سے 103.4 ارب ڈالر حاصل ہوئے۔ اس کے مقابلے میں چاکلیٹ کے کاروبار سے آنے والی آمدنی 1.33 ارب ڈالر ہے جبکہ کافی کی صنعت سے 93.46 ارب ڈالرآئے ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ آئس کریم کے مختلف ذائقوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور بات اب روایتی ونیلا اور چاکلیٹ آئس کریم سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکی ہے۔ کچھ آئس کریم کے ذائقے مقامی کھانوں کی ثقافت سے بھی مشابہت رکھتے ہیں۔2022 میں جنوبی افریقہ کے دارالحکومت کیپ ٹائون میں کچن چلانے والے ٹاپیوا گزہا کا سوشل میڈیا پر چرچہ ہوا جب انھوں نے سوکھی نمکین مچھلی کے ذائقے والی آئس کریم بنائی۔سوکھی مچھلی کے ساتھ اس آئس کریم میں مرچوں کا بھی ذائقہ شامل تھا۔ ٹاپیوا گزہا پیشے سے حیاتیات کے ماہر ہیں اورخود کو سائنسی ذہنیت کا 'فوڈی‘ یعنی کھانے کا شوقین کہتے ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

لانگو پوائنٹ کی لڑائیلانگو پوائنٹ کی جنگ ایلن،امریکی اور کیوبک ملیشیا کے درمیان ہونے والی ایک لڑائی تھی جو 25ستمبر 1775ء کو شروع ہوئی۔امریکی انقلابی جنگ کے اوائل میں ہونے والی اس لڑائی کا مقصد مونٹریال سے برطانوی افواج کا کنٹرول ختم کر کے اس پر قبضہ کرنا تھا۔ایلن جسے احکامات دئیے گئے تھے کہ اپنی تعداد میں اضافہ کرے کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے مونٹریال پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔جب وہ تقریباً110افراد کے ساتھ دریائے سینٹ لارنس کے جنوبی کنارے پر پہنچا تو اس نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور قبضہ کرنے کی کوشش کی۔میجر جان براؤن، جن کے بارے میں ایلن نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اضافی فورسز فراہم کرنے والے تھے، وہ وہاں نہیں پہنچے۔جیسا منصوبہ بنایا گیا تھااس پر عمل نہیں کیا گیا۔ سیکوئیا نیشنل پارک کا قیامسیکوئیا نیشنل پارک ایک امریکی پارک ہے جو جنوبی سیرا نیواڈا میں وسالیا، کیلیفورنیا کے مشرق میں واقع ہے۔ یہ پارک 25 ستمبر 1890ء کو 4لاکھ 4ہزار 64 ایکڑ جنگلاتی پہاڑی خطوں کی حفاظت کیلئے قائم کیا گیا تھا۔ تقریباً 13ہزار فٹ کی عمودی ریلیف کو گھیرے ہوئے یہ پارک ملحقہ ریاستہائے متحدہ میں سب سے اونچے مقام پر واقع ہے۔ ماؤنٹ وٹنی، سطح سمندر سے 14ہزار505 فٹ پر ہے۔ یہ پارک کنگز کینین نیشنل پارک کے جنوب میں ہے اور اس کے ساتھ ملحقہ ہے۔ دونوں پارکوں کا انتظام نیشنل پارک سروس کے ذریعے کیا جاتا ہے۔یہ پارک اپنے بڑے سیکوئیا کے درختوں کیلئے قابل ذکر ہے، بشمول جنرل شرمین درخت جو حجم کے لحاظ سے زمین کا سب سے بڑا درخت ہے۔ٹرانس اٹلانٹک کا افتتاح ٹرانس اٹلانٹک ایک ٹیلی فون کیبل سسٹم تھا۔ اسے اوبان، اسکاٹ لینڈ اور کلیرن ویل نیو فاؤنڈ لینڈ کے درمیان بچھایا گیا تھا۔اس کا افتتاح 25 ستمبر 1956ء کو ہوا۔ یہ کیبل بیک وقت 35 ٹیلی فون کالز کرنے کے قابل تھی۔ 36 واں چینل 22 ٹیلی گراف لائنوں تک لے جانے کیلئے استعمال کیا جاتا تھا۔یہ ٹیکنالوجی مواصلاتی نظام میں انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی۔ اس کیبل سسٹم کی وجہ سے مواصلاتی نظام کے متعلق کئی مشکلات حل ہوئیں ۔پیسیفک ائیر لائن حادثہپیسیفک ساؤتھ ویسٹ فلائٹ نمبر182لاس اینجلس سے سین ڈیاگو کیلئے طے شدہ پرواز تھی۔25ستمبر1978ء کو پرواز سین ڈیاگو کیلیفورنیا کے اوپر ایک نجی طیارے سے ٹکرا گئی۔یہ پیسیفک ساؤتھ ویسٹ ائیر لائن کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا اور کیلیفوردنیا کا سب سے مہلک فضائی حادثہ تھا۔ دونوں طیاروں کا ٹکراؤ سین ڈیاگو کے علاقے نارتھ پارک میں ہوا۔ اس حادثے کے نتیجے میں 135افراد ہلاک ہوئے جبکہ زمین پر موجود 7 لوگ اس کا شکار ہوئے۔ نجی طیارے میں سوار دونوں افراد بھی ہلاک ہوئے جبکہ تقریباً 22گھروں کو شدید نقصان پہنچا۔ 

زمین کو دوسرا چاند ملنے والا ہے؟

زمین کو دوسرا چاند ملنے والا ہے؟

ان دنوں زمین کو ایک اور چاند ملنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ ''2024 پی ٹی 5‘‘ ہے جس کے 29ستمبر 2024 ء سے چند ماہ کیلئے زمین کے مدار میں آنے کی توقع کی جارہی ہے۔یہ دراصل ایک سیارچہ(Asteroid) ہے جو کچھ وقت کیلئے ہمارے سیارے کے گرد چکر لگائے گا اور اس کے بعد نظام شمسی میں واپس چلا جائے گا اور سورج کے گردگردش کرنے لگے گا۔منی مون: ''2024پی ٹی 5 ‘‘کیا ہے؟ ''2024پی ٹی 5‘‘زمین کے قریب ایک سیارچہ ہے۔ اس قسم کے سیارچوں کیلئے ''Near-Earth Asteroid‘‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ ''2024پی ٹی 5‘‘کا قطر 11 میٹر ہے اور میڈرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فونیتے مارکوس کا کہنا ہے کہ زمین کے مدار میں آنے والا یہ سیارچہ ارجن ایسٹرائیڈ بیلٹ سے آیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سورج سے ڈیڑھ کروڑ کلو میٹر فاصلے پر موجود ایسٹرائیڈ بیلٹ کی گردش کا مدار زمین سے بہت مماثلت رکھتا ہے اور یہ زمین کے قریب پائے جانے والے سیارچوں اور دم دار ستاروں کے گروپ میں شامل ہے۔ اس کی موجودگی کا انکشاف جنوبی افریقہ میں زمین کے گرد سیارچوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے والے سائنسدانوں کی تحقیق سے ہوا جو کہ امریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی کے جرنل:Research Notes of the American Astronomical Societyمیں شائع ہوئی۔ اسے امریکی خلائی تحقیق کے ادارے' ناسا‘ کی فنڈنگ سے تحقیق کرنے والے سائنسدانوں نے رواں برس اگست میں دریافت کیا تھا اور اس کا نام ''2024 پی ٹی ایس 5‘‘ رکھا گیا۔ اس تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ سیارچہ 9 جنوری 2025ء کو ایک بار پھر زمین کے بہت قریب آئے گا۔محققین کے مطابق زمین باقاعدگی سے اس طرح کے قریبی عناصر (Near-Earth object) کو اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے جس سے وہ چھوٹے چاند بن جاتے ہیں۔منی مون: 2024پی ٹی 5‘‘ کہاں ہے؟دی سکائی لائیو کے مطابق ''2024پی ٹی 5‘‘ اس وقت شمالی نصف کرہ کے شمالی آسمان میں واقع مجمع النجوم ڈراکو میں موجود ہے۔ یہ زمین سے تقریباً 19 لاکھ میل (30 لاکھ کلو میٹر) دور ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اس چھوٹے چاند کو دیکھ سکتے ہیں؟ ماہرین اس کا جواب'' نہیں‘‘ میں دیتے ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ اسے ننگی آنکھوں سے یا عام دوربینوں سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا ۔ 30 انچ قطر کی بڑی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے صرف ماہرین فلکیات ہی اسے دیکھ سکیں گے۔منی مون کہاں سے آیا؟زمین کے قریبی سیارچے (Near-Earth Asteroid) جن میں سے ''2004 پی ٹی 5‘‘ ایک ہے ‘ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ مریخ اور مشتری کے مدار کے درمیان مرکزی اسٹرائیڈ بیلٹ سے آئے تھے۔ ''2024 پی ٹی 5‘‘ خاص طور پر ارجن ایسٹرائیڈ بیلٹ سے ہے ، جس کا سورج کے گرد زمین جیسا مدار ہے۔ یہ کافی سست رفتار ی سے زمین کے اتنے قریب پہنچ جائے گا کہ 29 ستمبر سے کچھ دیر کیلئے زمین کے مدار میں آ سکے گا جب زمین کی کشش ثقل اسے قریب کھینچ لے گی۔زمین کے دیگر چانداگرچہ زمین کے گرد مدار میں گردش کرنے والی صرف ایک ہی حقیقی چیز ہے جسے ہم اپنی آنکھ سے دیکھتے اور بخوبی جانتے ہیں لیکن ہمارے سیارے میں کچھ نیم مصنوعی سیارچے موجود ہیں جو اس مناسبت سے زمین کے چاند کہلا سکتے ہیں کہ زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان میں سے ایک ''کامووالوا‘‘ (Kamo'oalewa)ہے، جو زمین کے ساتھ 1 سے 1 ریزونینس میں حرکت کرتا ہے، لہٰذا سورج کے گرد چکر لگانے کے باوجود زمین کے گرد بھی گھومتا دکھائی دیتا ہے۔ ''کامووالیوا‘‘ جسے ''2016 HO3‘‘ بھی کہا جاتا ہے ،ہوائی کی زبان میں اس کا مطلب ''متزلزل آسمانی شے‘‘ ہے ۔ یہ تقریباً 130 سے 330 فٹ (40 سے 100 میٹر) چوڑا ہے اور یہ 2016ء میں دریافت کیا گیا تھا۔  

ڈیجیٹل پاکستان :مگر کیسے؟

ڈیجیٹل پاکستان :مگر کیسے؟

ایک وہ وقت تھا جب جنگیں انسانی طاقت، گھوڑوں اورتلواروں کے بل بوتے پر جیتی جاتی تھیں، پھر تباہ کن ہتھیاراورایٹم بم دنیا پراپنی دھاک بٹھانے کیلئے استعمال ہوئے۔ مگر آج کی دنیا معیشت اور ٹیکنالوجی کی جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔ تمام بڑے ممالک اسی کے ذریعے اپنے حریفوں کو شکست دے رہے ہیں۔ اب ملکوں کا سب سے بڑا ہتھیارمضبوط معیشت ہے، جس ملک کے پاس بھی یہ ''ہتھیار‘‘ موجود ہے گویا وہ غالب ہے جبکہ معاشی طور پرکمزور ممالک '' اَن دیکھی‘‘ غلامی میں جکڑے ہوئے ہیں۔موجودہ دورکی معاشی ترجیحات میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور ڈیجٹلائزیشن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اب دنیا کا مستقبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور نیٹ ورکنگ کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے، معیشت اب روایتی طریقوں سے نہیں بلکہ ڈیجیٹل طریقوں سے پھل پھول رہی ہے۔ کمزور معیشت میں آئی ٹی کی اہمیت پاکستان کی 60 فیصد نوجوان آبادی ہے اور یہ نوجوان جب ڈگریاں لے رہے ہوتے ہیں تو آنکھوں میں سنہرے مستقبل کے خواب سجاتے ہیں مگر جب ملک میں بیروزگاری کی صورتحال سامنے آتی ہے تو ان کے سپنے چکنا چور ہو جاتے ہیں۔ایسی سنگین صورتحال میں کیا اقدامات کیے جائیں جوملک کی کمزورمعیشت کو بھی فائدہ دیں اور بے روزگاری کے مسئلے کو بھی حل کرنے میں مدد دے؟ اس بات سے تو ہم بخوبی واقف ہیں کہ ان مسائل کے حل کیلئے اب روایتی طریقوں سے ہٹ کر کچھ جدید راستوں کا انتخاب ناگزیرہے۔ اور وہ جدید راستہ آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی ہے۔ پاکستان اگر چاہے تو آئی ٹی کے شعبہ میں ترقی کر کے نہ صرف اپنے قرضوں سے جان چھڑاسکتا ہے بلکہ آئی ٹی خدمات فروخت کر کے اپنی معیشت میں بھی انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں 6 کروڑ سے زائد اسمارٹ فون صارفین موجود ہیں جبکہ انٹرنیٹ صارفین کی تعداد 7.8کروڑ ہے جو ہماری آبادی کا تقریباً 35 فیصد ہے، جن میں زیادہ ترنوجوان ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو موبائل اورانٹر نیٹ کا استعمال کرتے ہوئے آن لائن کمائی کر سکتے ہیں،اور بیروزگاری کے مسئلے سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے جس طرح ہمسایہ ملک بھارت آئی ٹی کی دنیا میں انقلاب لاچکا ہے۔آئی ٹی اور انٹرنیٹ کے ذریعے کیسے کمایا جائے؟آئی ٹی سیکٹر سے منسلک تمام شعبہ جات سے بے تحاشا مالی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیںجبکہ کروڑوں افراد روزگار حاصل کر سکتے ہیں۔ ''آئی ٹی بیسڈ سکلز‘‘ رکھنے والی لیبر پوری دنیا میں اپنی خدمات کے ذریعے کما رہی ہے، جن میں سے بیشتر گھر بیٹھ کرکما رہے ہیں۔ جسے ''فری لانسنگ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ پوری دنیا بشمول پاکستان میں فری لانسنگ یا آن لائن جاب کی مدد سے گھر بیٹھے پیسے مندرجہ ذیل چند طریقوں سے با آسانی کمائے جا سکتے ہیں۔کانٹینٹ رائٹنگکانٹینٹ رائٹنگ کو اس وقت آن لائن فری لانسنگ میں سب پر برتری حاصل ہے، اچھا لکھنے کی صلاحیت رکھنے والے افراد کسی فرد، گروپ، یاکمپنی کی ویب سائٹ یا ان کے مختلف پراجیکٹس کیلئے لفاظی کر سکتے ہیں اور خوب پیسے کما سکتے ہیں۔ اکیڈمک تحریراسی طرح اکیڈمک تحریر سے بھی خوب پیسے کمائے جا سکتے ہیں، پوری دنیا میں گریجویٹ طلبہ اپنے اسائنمنٹ اور تھیسز وغیرہ کے کام کو حتمی شکل دینے کیلئے بہترین اکیڈمک لکھاریوں کی مدد حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے اچھے پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔بلاگنگاگرآپ کسی ایک موضوع پر لکھنے اور بولنے کیلئے پرجوش ہیں تو اس حوالے سے آپ اپنا بلاگ بناسکتے ہیں۔ اپنا بلاگ شروع کرنے کیلئے آپ کو اردو یا انگریزی زبان پر مکمل عبور حاصل ہونا چاہیے۔ اس کیلئے آپ کی تحقیق پر مکمل کمانڈ ہونی چاہیے اور خیالات یکتا ہوں تو بہتر ہے۔ ویب کی دنیا میں اپنا بلاگ بنانا اب نہایت آسان ہو چکا ہے جہاں آپ کو آن لائن اشتہارات ملتے ہیں۔ ذاتی بلاگ کی تشہیر اور قارئین کی تعداد بڑھانے کے بعد گوگل و دیگر سرچ انجنز سے باقاعدہ اشتہارات حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ بلاگ پڑھنے والے قارئین کی جانب سے اشتہارات پر کلکس کے بعد ان اشتہارات سے خاصے اچھے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔آن لائن مارکیٹنگآج کے جدید دور میں مارکیٹنگ ہی ایسی نوکری ہے جس پر نا کوئی ''انکار‘‘ ہے، نہ کوئی ''اعتراض‘‘ ہے اور نہ اس شعبے کو کوئی زوال ہے، ہر کمپنی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تشہیر کی جائے اور زیادہ سے زیادہ سپانسرز لائیں جائیںجس کیلئے ہمیشہ وہ اپنی مارکیٹنگ ٹیم کو بڑھانے کی خواہشمند ہوتی ہے۔ تشہیر کے مقصد کیلئے اب کمپنیاں آن لائن ہی لوگوں کو ہائر کرتی ہیں، جو اس کمپنی کی فیس بک، انسٹا، ٹویٹر، واٹس ایپ و دیگر پلیٹ فارمز پر مارکیٹنگ کرتے ہیں، جس کام کے ان کو پیسے دیئے جاتے ہیں۔ڈیٹا انٹریڈیٹا انٹری کا ہنر سیکھ کر بھی آن لائن طریقے سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ ڈیٹا انٹری جاب کیلئے ٹائپنگ اور بنیادی لیول کی انگلش پر عبور ہونا لازمی شرط ہے۔ ڈیٹاانٹری کے کام کیلئے خاصا وقت درکار ہوتا ہے۔ مگر یہ کام اکثر آتا رہتا ہے، ہر سال کے اختتام، الیکشن کے دوران سرکاری ڈیٹا انٹری کیلئے بھی آن لائن خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔مارکیٹ ریسرچمارکیٹ ریسرچ گروپ کا حصہ بن کر بھی آن لائن طریقے سے پیسے کمائے جاسکتے ہیں۔ اس کیلئے لوکل اور بین الاقومی کمپنیوں اور تحقیقی ایجنسیوں سے رابطہ کرکے اس ریسرچ گروپ کا حصہ بنا جاسکتا ہے۔ خیالات اور آئیڈیاز بڑی کمپنیوں سے شیئر کر کے پیسہ کمایا جا سکتا ہے۔ بہت ساری ویب سائٹس مختلف کمپنیوں کے نئے پروڈکٹس کی جائزہ رپورٹ تحریر کرنے کے بدلے بھی رقم کی ادائیگیاں کرتی ہیں۔فیس بک پیج اور ویب سائٹ چلانامتعدد ریسٹورنٹس کے فیس بک پیج اور ان کے انسٹا اکائونٹ چلانے کیلئے آن لائن ہی لوگوں کی تلاش رہتی ہے جنہیں ماہانہ تنخواہ اور مراعات دینے کے بجائے ان کو کام کے وقت کے حساب سے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ کئی سٹودنٹس اور دوسری روایتی نوکری کرنے والے افراد اس طریقے کو اپنی پارٹ ٹائم جاب کے طور پر استعمال میں لاتے ہیں اور آن لائن پیسے کماتے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔ رکاوٹ کیا ہے؟ پاکستان میں ایک عمومی تاثریہ پایا جاتا ہے کہ آن لائن کمائی میں زیادہ تر فراڈ ہوتا ہے۔ جس سے لوگوں کا آن لائن کمائی کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہو پارہا۔ یقینا ایسا ہوتا بھی ہے، سادہ لوگوں کو آن لائن کام کا جھانسا دے کر انھیں بعد میں رقم فراہم نہیں کی جاتی۔ فراڈ کرنیوالے فیس بک اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے لوگو ں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان سے فراڈ کرتے ہیں۔ اکثر واقعات میں تو لوگ آن لائن کام مہیا کرنے کی فیس تک مانگ لیتے ہیں اور بعد میں کام دیئے بغیر نو دو گیارہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے واقعات بھی سامنے آتے ہیں کہ جب آن لائن کام کچھ اور دکھایا جاتا ہے اور فیس لینے کے بعد کوئی اور کام دے دیا جاتا ہے۔ فراڈ کی ایک شکل یہ بھی ہوتی ہے کہ سادہ لوح افراد سے بے انتہا کام لے لیا جاتا ہے جس کا معاوضہ نہایت معقول ملتا ہے۔ آج کے دور میں بھی آن لائن کمائی کرنے والے افراد فراڈ کا شکار کیسے ہو جاتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو حقیقی اور جعلی کا فرق ہی معلوم نہیں ہوتا ہے۔ وہ یہ سمجھ ہی نہیں پاتے کہ جو کام وہ آن لائن وہ کر رہے ہیں اس کا کوئی پھل ان کوملے گا یا نہیں؟ کیونکہ ان کواس چیز کا علم ہی نہیں۔ چنانچہ یہ کہنا غلط نہیں کہ پاکستان کے عوام آن لائن کمائی کا جذبہ تو رکھتے ہیں مگر مکمل آگاہی نہ ہونے کے باعث فراڈ کا شکار بھی باآسانی ہو سکتے ہیں۔ فراڈ کاسدباب کیسے؟ فراڈ کی روک تھام کے لئے حکومت کو کڑی مانیٹرنگ کرنی چاہیے، سائبر کرائم فورس کے ذریعے ایسے فراڈ کرنے والوں کی نشاندہی کی جانی چاہیے اور انھیں کڑی سزائیں دی جائیں۔ اور اس امر کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کا آن لائن کمائی پر اعتماد قائم ہو سکے، اسی طرح حکومت کوعوام کو آن لائن کمائی کے حوالے سے تربیت بھی دینی چاہیے، بلا شبہ اس حوالے سے حکومت کے چند پروگرامز چل رہے ہیں۔ مگر اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنا چاہیے، حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ بیروزگار افراد کو آن لائن کمائی کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرے۔ اس حوالے سے مربوط پالیسیاں بنا کر پاکستان کو ڈیجیٹل بنایا جا سکتا ہے جس پر حکومت کو خصوصی توجہ دینا ہوگی۔    

آج کا دن

آج کا دن

منٰی میں بھگدڑ24 ستمبر 2015ء کو حج کے موقع پر منیٰ(مکہ، سعودی عرب ) میں بھگدڑمچنے کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائدافراد ہلاک ہوئے۔ دم گھٹنے یا کچلے جانے کے باعث مرنے والوں کی تعداد کے تخمینے مختلف ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2400بتائی جبکہ ایجنسی فرانس پریس نے2236رپورٹ کی۔مختلف ایجنسیوں کی رپورٹس کے مطابق2ہزار431افراد ہلاک ہوئے۔سعودی حکومت نے واقعہ کے دو دن بعد باضابطہ طور پر اطلاع دی کہ 769 اموات اور 934 زخمی ہوئے۔ متاثرین کی سب سے زیادہ تعداد ایران سے تھی، اس کے بعد مالی اور نائیجیریا کے باشندے تھے۔جاپان ائیر لائن کا حادثہجاپان ایئر لائنز کی پرواز 472 لندن سے ٹوکیو براستہ فرینکفرٹ، روم، بیروت، تہران، بمبئی، بنکاک اور ہانگ کانگ کی پرواز تھی۔ 24 ستمبر 1972ء کو فلائٹ سانتا کروز ہوائی اڈے کی بجائے انڈیا کے قریب جوہو ایروڈروم پر اتر گئی جس کی وجہ سے جہاز کو بہت زیادہ نقصان ہوا۔اس حادثے کے بعد جہاز کو مرمت کے بعد گراؤنڈ کر دیا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق حادثے کا ذمہ دار جہاز کا پائلٹ تھا جس کی لاپرواہی کے نتیجے میںیہ حادثہ پیش آیا۔امریکہ میں گولڈ پینک24 ستمبر 1869ء کو مارکیٹ میں سونے کے متعلق افراتفری پھیل گئی۔یہ کیفیت کچھ سرمایہ کاروں کے درمیان ایک سازش کے نتیجے میں پیدا ہوئی،ان سرمایہ کاروں میں جے گولڈ،جیمز فسک اور ایبل کوبن شامل تھے۔ایبل کرربن نے اس وقت کے امریکی صدر کی چھوٹی بہن ورجینیا گرانٹ کے ساتھ شادی کی تاکہ وہ ایک گولڈ رنگ بنانے میں کامیاب ہو جائیں جس کا مقصد سٹاک ایکسچینج میں سونے کی قیمت کو بڑھانا تھا۔یہ سکینڈل امریکی صدر یولیس ایس گرانٹ کے دور صدارت میں سامنے آیا جن کی پالیسی میں ملکی قرضوں کی جلداز جلد ادائیگی ، ڈالر کو مستحکم کرنا اور معیشت کو فروغ دینا شامل تھا۔اس کام کیلئے ضروری تھا کہ ہفتہ وار وقفوں سے سونا فروخت کیا جائے۔خانہ جنگی کے دوران امریکہ کو شدید نقصان ہوا تھا جس کی وجہ سے معیشت اب تک سنبھل نہیں پائی تھی۔شیروایاما کی جنگشیروایاما کی جنگ 24 ستمبر 1877ء کو کاگوشیما، جاپان میں ہوئی۔ یہ ستسوما بغاوت کی آخری جنگ تھی، جہاں سائیگا تاکاموری کے ماتحت بھاری تعداد میں سامورائی نے جنرل یاماگاتا اریتومو اور ایڈمرل کاوامورا سومیوشی کی کمان میں امپیریل جاپانی فوج کے دستوں کے خلاف جنگ لڑی۔ جنگ سائیگو اور اس کی فوج کے خاتمے پر اختتام پذیر ہوئی، جس سے ستسوما بغاوت کا خاتمہ ہوا۔ فتح کے بعد امپیریل آرمی کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا اوراس کے بعد کسی بھی بغاوت نے سر نہیں اٹھایا۔ستسو ما بغاوت اپنی قسم کی آخری مثال تھی۔