دیمک کا جہاں

دیمک کا جہاں

اسپیشل فیچر

تحریر : دانیال حسن چغتائی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

دیمک (Termite) تین حصے والا کیڑا ہے جو چیونٹیوں سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ یہ کیڑے بھی چیونٹیوں کی طرح مل جل کر بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان کی جماعتوں میں کارکن زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نر اور ایک یا ایک سے زیادہ رانیاں ہوتی ہیں۔ کارکن دیمک سب سے چھوٹی اور پھرتیلی ہوتی ہے اور رانیاں سب سے بڑی۔ کارندہ دیمک کے پر نہیں ہوتے۔
دیمک روشنی سے نفرت کرتی ہے۔ پروں والے نر یا پردار رانیاں صرف برسات کے موسم میں گھروں سے باہر آتی ہیں اور ہوا میں اڑتی نظر آتی ہیں۔ بعض کے پر خود بخود گر جاتے ہیں۔ پرندے ان کے گرد منڈلاتے اور انہیں کھاتے ہیں۔ جو رانی مرنے سے بچ جائے وہ زمین پر گر پڑتی ہے۔ اس کے پر جھڑ جاتے ہیں یہ رانی پھر سے نئی بستی بناتی ہے۔ برسات میں نر اور رانیاں ہوا میں اڑتی ہیں، کارکن دیمکیں ان دنوں میں اپنے زمین دوز گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔ مگر بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ اگر انھیں کبھی خوراک جمع کرنے کیلئے بل سے باہر آنا پڑے تو وہ پودوں اور ریشوں کو چبا کر اور پھر انھیں مٹی میں ملا کر چھوٹی چھوٹی سرنگیں بنا لیتی ہیں تاکہ اندر ہی اندر وہ اپنا کام سر انجام دے سکیں۔ کیونکہ ان کو روشنی سے سخت نفرت ہے۔
دیمک کی خوراک زندہ اور مردہ نباتات کے ریشے ہیں۔ سوکھی لکڑی اس کا من بھاتا کھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں کے سامان اور کتابوں کو یہ بری طرح تلف کر دیتی ہے۔ غلے کو چٹ کر جاتی ہے۔ درختوں کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہیں۔ گنے کے ننھے پودوں اور گیہوں پر ٹوٹ پرتی ہے۔ آم کا درخت اس کو بہت مرغوب ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب تک یہ کیڑے بہت نقصان نہ کر لیں۔ ان کا پتہ نہیں چلتا۔ پہلے زمین کے نیچے بل بناتے ہیں پھر وہاں سے سرنگیں کھود کر حملے کرتے ہیں۔ جب ان کی بنائی ہوئی چھتے دار سرنگ نظر آ جائے تو اس وقت ان کا پتا چلتا ہے۔
یہ کیڑے صرف ایک ہی چیز سے گھبراتے ہیں اور وہ چیز مٹی کا تیل ہے۔ جہاں جہاں یہ ظاہر ہوں وہاں مٹی کے تیل میں نیلا تھوتھا ڈال کر پمپ کر دینا چاہیے۔ فصل پر مٹی کا تیل ہرگز نہ ڈالا جائے۔ کھیتوں میں ان کے بل تلاش کرکے کھودے جائیں اور ان کے بل جلا دیے جائیں۔
پانچ میٹر تک لمبا دیمک کا ٹیلہ مٹی، گوبر اور دیمک کے لعاب سے بنتا ہے اور اسے بنانے میں چار سے پانچ برس لگ جاتے ہیں۔ چیونٹیوں کی طرح دیمک بھی سماجی جانور ہیں اور اس طرح کی متاثر کن عمارتیں بنانے کیلئے مل کر کام کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹیلہ ٹھوس لگتا ہے تاہم حقیقت میں یہ مسام دار ہوتا ہے جس سے تمام جگہ ہوا گردش کرکے درجہ حرارت کو یکساں برقرار رکھتی ہے۔ مینار کو شمال اور جنوب کی سمت میں بنایا جاتا ہے تاکہ درجہ حرارت کو قابو کرنے میں مدد دے سکے۔ ہوا ٹیلہ میں ننھے خارجی سوراخوں سے داخل ہوتی ہے اور ڈھانچے میں گردش کرکے درجہ حرارت کو گراتی ہے اور کیڑوں کیلئے تازہ آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ جب ہوا گرم ہوتی ہے تو وہ اوپر اٹھ کر ٹیلے کی مرکزی چمنی سے خارج ہو جاتی ہے۔
اقسام و خوراک
دیمک کی 3100 سے زیادہ انواع دریافت ہو چکی ہیں اور مزید کی بھی پیش گوئیاں ہیں۔ دیمک کی خوراک میں زیادہ تر لکڑی، پودوں کے سڑے پتے، یا پودوں کا کوئی بھی حصہ جو گل سڑنے کے قریب ہو اور جانوروں کا فضلہ جیسے گوبر شامل ہیں۔ دیمک بہت سرد علاقے جیسے انٹارکٹکا کے علاوہ ہر قسم کے علاقوں میں رہتے ہیں۔
کچھ انواع خشک جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ گیلے اور کچھ معتدل جگہوں پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دیمک کی کالونی میں سینکڑوں سے لے کر کروڑوں کی تعداد میں دیمک پائے جاتے ہیں۔
دیمک کی رہائش گاہیں
دیمک کی رہائش گاہ کی تین اقسام ہیں۔ (1)بالکل زیر زمین جسے Subterranean گھر کہا جاتا ہے۔(2) بالکل زمین کے سطح پر جس کو Epigeal گھر کہا جاتا ہے۔(3) زمین سے اوپر ہوتا ہے مگر زمین کے ساتھ رابط میں ہوتا ہے، جس کو Arboreal گھر کہا جاتا ہے اور جس چیز سے یہ گھر زمین کے ساتھ ربط میں ہوتا ہے اس کو shelter tubes کہا جاتا ہے۔
دیمک کا Epigeal گھر مٹی اور کیچڑ سے بنا ہوتا ہے جبکہ Arboreal گھر پودوں کے بقایا جات جو آدھ ہضم ہوتے ہیں سے بنایا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر ان کا گھر زیر زمین ہوتا ہے جو کہ نظر نہیں آتا۔آج کل کے دیمک زیادہ تر لکڑی کے اندر گھونسلا بنا کر رہتے ہیں۔
دیمک کا گھر مختلف چیزوں سے بنا ہوتا ہے. ان کے فضلے میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو گھر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔دیمک کے کچھ انواع درخت یا دوسری لکڑیوں کے اندر راستے یعنی ٹنلز بنا کر اور درخت یا لکڑی کو اندر سے کھا کر اس میں گھر بناتے ہیں۔
دیمک کا گھر ان کو سورج کی تپش اور بیکٹیریا یا دوسرے دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے چونکہ ان کا جسم بہت نازک ہوتا ہے اس لیے یہ سورج کی روشنی میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔گھر کے اندر ملکہ کی تحفظ کے لئے الگ جگہ بنی ہوئی ہوتی ہے جس کو queen cell کہا جاتا ہے۔لکڑی میں رہنے والے دیمک پوری زندگی لکڑی کے اندر گزارتے ہیں اور کسی بھی صورت میں زمین کے اندر نہیں رہتے۔
دیمک کے گھر میں بادشاہ اور ملکہ، کارکن اور سپاہی ہوتے ہیں۔ بادشاہ اور ملکہ کی جسامت باقی سارے دیمک سے بہت بڑی ہوتی ہے جن کا کام صرف انڈے دینا ہوتا ہے۔کارکن گھر کو اچھی طرح چلانے کیلئے سب کام کرتے ہیں جبکہ سپاہیوں کا کام صرف دفاع کرنا ہوتا ہے۔
دیمک کا جسم
دیمک کی جسامت 4 سے 15 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔بہت سے دیمک کے انواع کے کارکن اور محافظ کی آنکھیں نہیں ہوتیں کچھ انواع کی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔دیمک کا اینٹینا تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتا ہے جس سے وہ سونگھنے، کسی چیز کو محسوس کرنے، ذائقہ معلوم کرنے، گرمی اور کسی چیز کی حرکت معلوم کرنے کا کام لیتے ہیں۔
دیمک کے دشمن
پروں والے دیمک کے اگلے اور پچھلے پر دونوں برابر ہوتے ہیں جبکہ چیونٹیوں کے اگلے پر پچھلے پروں کی نسبت لمبے ہوتے ہیں۔ دیمک کے دشمنوں میں پرندے، مینڈک، چھپکلیاں، کاکروچ، کنکھجورے، مکڑیاں اور چیونٹیاں شامل ہیں۔ دیمک کے سب سے بڑے دشمن چیونٹیاں ہیں۔ چیونٹیاں وہ واحد جاندار ہیں جو کہ باقاعدہ دیمک کے گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔چونکہ ان کی آنکھیں نہیں ہوتیں لہٰذا یہ جسم سے خارج ہونے والے خاص قسم کے کیمیکل جس کو pheromone کہا جاتا ہے، سے رابطہ کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے حالات میں یہ مختلف قسم کے pheromone خارج کرتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
منیلاسات ہزار سے زائد جزیروں پر مشتمل ملک کا دارالحکومت

منیلاسات ہزار سے زائد جزیروں پر مشتمل ملک کا دارالحکومت

کراچی سے جب ہم بنکاک اور ٹوکیو کیلئے عازم سفر ہوئے تو خیال تھا کہ ان دونوں شہروں کے درمیان پڑنے والے شہر منیلا پر بھی پڑائو ڈالا جائے گا جو سات ہزار سے زائد جزیروں پر مشتمل ملک فلپائن کا دارالحکومت ہے۔ جس نے بحرالکاہل میں شمالاً جنوباً پھیلے ہوئے جزیروں کو موتیوں کی ایک لڑی میں پرو کر ایک ہار کی شکل دے دی ہے اور اُس ہار کا نام فلپائن ہے۔ فلپائن کے یہ جزیرے شمال سے جنوب کی جانب 800 کلو میٹر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ فلپائن کا شمالی جزیرہ تائیوان سے 160 کلو میٹر یعنی سو میل اور جنوب میں انڈونیشیا کے جزیرے بورنیو سے صرف 24 کلو میٹر دور ہے۔ مشرق بعید کے تقریباً تمام ممالک سمندر کے کناروں پر آباد ہیں۔ کہیں سمندران ملکوں کے اندر تک چلا گیا ہے تو کہیں ان ملکوں نے سمندر کے سینے پر وسیع و عریض پل اور سڑکیں بچھا کر بے مہار سمندر کو نکیل ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس وجہ سے یہ ممالک سمندری خزینوں سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھا کر اپنی معیشت کومضبوط سے مضبوط تر بنا رہے ہیں۔ دُنیا کی مشہور ومعروف اور مصروف بندرگاہیں بحرا لکاہل کے اسی خطہ پر موجود ہیں۔ فلپائن کی مشہور بندرگاہ منیلا پورٹ بھی انھی بندرگاہوں میں سے ایک ہے۔ خلیج منیلا کے ارد گرد کوئی دوہزار اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی ہیں۔ مچھلی کے علاوہ چاول بھی منیلا کے لوگوں کی پسندیدہ خوراک ہے۔ چاول کی تحقیقات کا ایک بہت بڑا ادارہ انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRRI ) کا ہیڈ آفس بھی منیلا ہی میںہے۔ بنکاک میں دوران قیام ہمارا خیال تھا کہ کیوں نہ پہلے ٹوکیو جایا جائے اور پروگرام سے فی الحال منیلاگول کر دیا جائے۔ پھرہم نے اس خیال کو اس وجہ سے دل سے نکال دیا کہ جب ''بنکاک کے شعلے‘‘ ہمیں نہیں جُھلسا سکے تو وہاں ''منیلا کی بجلیاں‘‘ ہمارا بھلا کیا بگاڑ لیں گی۔اس خیال نے ہمارے ذہن کو مزید تقویت دی کہ اگر ہمیں بنکاک کے شعلوں سے دامن بچانا آتا ہے تو منیلاکی بجلیاں ہمارا بال بیکا بھی نہیں کر سکیں گی۔ سواِس خیال کے آتے ہی ہم نے منیلا کی فلائٹ کا انتخاب کر ہی لیا۔ منیلا سیاحت کیلئے کافی شہرت رکھتا ہے۔ اس لیے اس شہر میں سستے ہوٹل، گیسٹ ہائوس، تفریح گاہیں، پارک، سبزہ زار اور باغات کی بہتات ہے۔ یہاں کے میوزیم اور چڑیا گھر بھی بہت پر کشش ہیں۔ منیلا کی سرخ چھتیں، شاپنگ پلازے، مارکیٹیں، بازار، تھیٹر اور نائٹ کلب ہر وقت سیاحوں کی آمد کی منتظر رہتی ہیں۔ منیلا ملک کے انتہائی شمالی جزیرے لوزان (LUZON ) کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ رقبے کے لحاظ سے لوزان کا جزیرہ سب جزیروں سے بڑا اور نہایت ترقی یافتہ ہے۔ فلپائن7107 جزیروں پر مشتمل ہے۔ ان میں زیادہ تر جزائر آبادی سے محروم ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ملک کی 90 فیصد آبادی صرف گیارہ جزیروں میں آباد ہے۔ باقی صرف نام کے ہی جزیرے ہیں۔ حالیہ اعدادو شمار کے مطابق منیلا شہر کی آبادی 17لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔منیلا شہر خلیج منیلاکے مغربی ساحل پر دریائے پاسگ (RIVER PASIG) کے کنارے واقع ہے اور دُنیا کے گنجان آباد شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کا شرح خواندگی 94 فیصد ہے۔ مذہب کے لحاظ سے یہا ں پر کیتھولک 83فیصد ، پروٹسٹنٹ 9فیصد ، مسلمان 5فیصد، بدھ مت اور دوسرے مذاہب 3فیصد رہ رہے ہیں۔فلپینو یہاں کی قومی زبان ہے لیکن انگریزی بولی او رسمجھی جاتی ہے۔فلپائن کی کرنسی کا نام پیسو (PESO) ہے۔منیلا براعظم ایشیا ہی میں شامل ہے لیکن اس کا براعظم ایشیا کی MAIN LAND سے فاصلہ 1115 کلو میٹر ہے جہاں پر شمال میں ہانگ کانگ کا جزیرہ واقع ہے۔ منیلا سے بنکاک کا فاصلہ 2212 کلو میٹر، شمال میں شنگھائی کا فاصلہ 1841 کلو میٹر اور شمال ہی میں واقع بیجنگ کا فاصلہ 2839 کلو میٹر اور امریکہ کی انتہائی مغربی ریاست ہوائی کے دارالحکومت ہونو لولو کا فاصلہ 8537 کلو میٹر ہے۔ ہمارے شہر لاہور سے منیلا کا فاصلہ 5094 کلو میٹر ہے۔منیلا کیونکہ خطِ سرطان اور خط استوا کے تقریباً درمیان میں واقع ہے، اس لیے یہا ں کا موسم نہایت معتدل رہتا ہے۔ یہاں بارشیں خوب ہوتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ہر طرف سبزہ اور درختوں کی بھرمار ہے۔ سیاحت کیلئے بہترین مہینے نومبر سے مارچ تک ہیں۔ جب زیادہ گرمی اور حبس نہیں ہوتا اور بارش بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ منیلا میں بارش کی سالانہ اوسط 81 انچ ہے۔ منیلا کا اوسط درجہ حرارت23 سے 32 سینٹی گریڈ ہے۔ منیلا کے خوبصورت محل وقوع کی وجہ سے اس شہر کے دو نک نیم NICK NAME ہیں اس کو ''پرل آف دی پیسی فک‘‘(PEARL OF THE PACIFIC) اور ''پرل آف اورینٹ‘‘ (PEARL OF THE ORIENT) بھی کہا جاتا ہے۔  

کائنات کی میکانکی حقیقت!

کائنات کی میکانکی حقیقت!

وقت (زماں)، فاصلہ اور کمیّت(Mass) وہ تین چیزیں ہیں جو کائنات کی میکانکی حقیقت بیان کرنے کیلئے ضروری ہیں۔چونکہ وقت اور فاصلہ اضافی مقدار ہیں، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگاکہ کسی شے کی کمیّت، اس کی حرکت کی مناسبت سے ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ نظریۂ اضافیت کے عملی نتائج اسی اصول سے نکلے ہیں ،یعنی کمیّت کی اضافی صورت سے۔کمیّت کا تعلقعام بول چال میں ہم کسی شے کی کمیّت اور اس کے وزن کو ہم معنی سمجھتے ہیں۔مگر سائنس کی زبان میں لفظ ''کمیّت‘‘ سے مراد کسی شے کی وہ قوتِ مزاحمت (Resistance) ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی حرکت کو بدلنے سے روکتی ہے۔ مثال کے طورپر آپ کے سامنے مال سے لدی ہوئی ایک لاری کھڑی ہے اور پاس ہی ایک رکشا بھی۔ آپ کیلئے لاری کو حرکت میں لانا ممکن نہ ہوگا، لیکن معمولی قوت استعمال کرکے رکشا کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مال سے لدی ہوئی لاری اپنی کمیّت کی بدولت اپنی کیفیت کو بدلنے (یعنی حرکت میں لانے) میں زیادہ مزاحمت پیش کرتی ہے، رکشا کم کمیّت کی وجہ سے مزاحمت کم کرتا ہے۔ اب تک طبیعات میں جو اصول بتائے گئے، ان سے تو یہی سمجھا جاتا تھا کہ مال سے لدی ہوئی لاری کو چاہے فی گھنٹہ 60 میل کی رفتار سے چلایا جائے، یا 60ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے فضا میں اڑایا جائے، اس کی کمیّت برقرار رہے گی۔ رفتار کے بدل جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آئن سٹائن نے جہاں کئی دوسرے ''مسلّمہ‘‘ تصورات منہدم کر دیئے، وہیں یہ بھی ثابت کر دکھایا کہ یہ خیال غلط تھا۔متحرک شے کی اصل کمیّت باقی نہیں رہتی بلکہ رفتار کے ساتھ ساتھ بڑھتی گھٹتی ہے۔ اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ آخر ہمارے قدیم ماہرانِ طبیعات کو یہ بات کیوں نہیں سوجھی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان بیچاروں کے پاس ایسے نازک آلات کہاں تھے جن سے رفتار کی کمی بیشی کی بدولت کمیّت کا خفیف سے خفیف فرق معلوم کیا جا سکتا ہو! یہ فرق تو تب ہی معلوم ہو سکتا ہے جب کوئی شے، تقریباً روشنی کی رفتار سے حرکت میں ہو۔ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ روشنی کی لگ بھگ برابر رفتار سے پھینکی جانے والی سلاخ کی لمبائی میں کمی واقع ہوتی ہے، اور جب رفتار روشنی کی رفتار کے بالکل برابر ہو جائے تو سلاخ کی لمبائی صفر ہو جاتی ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رفتار بڑھائی جانے والی ایک شے کی لمبائی میں تو کمی واقع ہو جائے، لیکن کمیّت زیادہ ہوتی چلی جائے؟ ہاں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کسی سلاخ یا شے کی لمبائی کم یا زیادہ ہوتی ہے تو اس سے اس کی چوڑائی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔انقلابی نتیجہآئن سٹائن نے کمیّت میں اضافے کی پیمائش کیلئے جو مساوات تیار کیا،وہ اس کے نظریۂ اضافیت کے مساوات سے ملتا جلتا تھا۔ اس وقت تک طبیعات کے دو بڑے اہم کلیے تسلیم شدہ تھے: ایک ''بقائے توانائی‘‘ (Conservation of Energy) اور دوسرا ''بقائے کمیّت‘‘(Convervation of Mass) کا۔یہ دونوں کلیے ایک دوسرے سے بالکل غیر متعلق نظر آتے تھے۔ لیکن نظریۂ اضافیت نے ان دونوں کو مربوط کر دیا۔ کمیّت کی اضافیت سے آئن سٹائن جس نتیجے پر پہنچا، اس نے سائنس اورٹیکنالوجی کی دنیا میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا۔ اس مسئلے پر آئن سٹائن کے سوچنے کا انداز کچھ اس طرح تھا، کسی متحرک شے کی کمیّت کا انحصار اس شے کی رفتار پر ہوتا ہے۔ لیکن رفتار خود بھی ایک ''حرکی توانائی‘‘ (Kinetic Energy) ہے۔ اس لیے اس شے کی کمیّت میں جو تبدیلی ہوگی، وہ اس توانائی کی تبدیلی سے ہو گی۔ اس طریقۂ استدلال سے یہ انقلابی نتیجہ ظاہر ہوا کہ توانائی میں کمیّت ہوتی ہے! کیسا عجیب و غریب انکشاف! اب تک دنیا یہی مانتی چلی آئی تھی کہ بجلی ہو یا مقناطیس، روشنی ہو یا آواز یہ سب توانائی کی قسمیں ہیں، جن کا نہ کوئی وزن ہے اور نہ ان میں کمیّت پائی جاتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے کمیّت کی اضافیت کے نظریے سے یہ سارا طلسم یک لخت پاش پاش ہو گیا۔(سید شہاب الدین متعدد کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب '' آئن سٹائن :داستان ِ زندگی‘‘ سے مقتبس ہے)  

ترقی کا راز سادہ

ترقی کا راز سادہ

ایک صاحب نے تالے کی مارکیٹ میں دکان کھولی۔ وہ روزانہ دیکھتے تھے کہ بے شمار آدمی سڑک پر آرہے ہیں اور جا رہے ہیں۔ مگر ان کی اکثریت ان کی دکان کو دیکھتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ ایک روز ان کے ساتھ ایک واقعہ گزرا جس نے ان کو دکانداری کا راز بتا دیا۔ وہ کپڑا خریدنے کیلئے کپڑے کی مارکیٹ میں گئے۔ وہاں مسلسل بہت سی دکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ وہ ایک کے بعد ایک دکان سے گزر رہے تھے مگر ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کس دکان میں داخل ہوں۔ اتنے میں ایک دکاندار نے ان کو اپنی دکان کے سامنے دیکھ کر کہا: ''آئیے جناب اندر آکر دیکھئے۔‘‘ یہ سن کر وہ دکان کے اندر داخل ہو گئے۔اپنے اس تجربہ سے ان کی سمجھ میں آیا کہ مارکیٹ میں جو گاہک آتے ہیں ان کی اکثریت یا تو نئی ہوتی ہے یا کسی خاص دکان سے بندھی ہوئی نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ دکانوں کی لائن سے گزرتے ہیں تو ایک قسم کے تذبذب کا شکار رہتے ہیں۔ وہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ کس دکان میں داخل ہوں۔ ایسے وقت میں ایک شخص ہمدردانہ انداز میں اگر ان سے کہے کہ اندر تشریف لائیے تو گویا کہ اس نے ان کے تذبذب کو ختم کیا۔ اس نے ان کو فیصلہ کرنے میں مدد دی۔ ایسا آدمی بیشتر حالات میں چلنے والے آدمی کو اپنی دکان کے اندر بلانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ بیشتر لوگوں کے ذہن میں پہلے سے کوئی طے شدہ چیز موجود نہیں ہوتی۔ اگر آپ اس راز کو جان لیں تو معمولی دانش مندی سے بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنا سکتے ہیں۔ اس اصول کو انہوں نے اپنی دکان میں استعمال کرنا شروع کیا۔ وہ اپنی دکان کے بیرونی حصہ میں بیٹھ جاتے اور ہر آنے جانے والے کے چہرے کو پڑھتے۔ یہاں تک کہ ان کی نظر اتنی پکی ہو گئی کہ وہ کسی آدمی کو دیکھ کر فوراً پہچان لیتے کہ یہ تالے کا گاہک ہے یا کسی اور مقصد سے سڑک پر چل رہا ہے۔ جس کے متعلق وہ اندازہ کرتے کہ وہ تالے کی لائن کی چیز خریدنا چاہتا ہے، اس کو اپنی دکان کے اندر بلاتے۔ اس طرح ان کی دکانداری اچانک کافی بڑھ گئی۔ یہاں تک کہ وہ بازار میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے دکان دار بن گئے۔ترقی کا راز ہمیشہ سادہ اصولوں میں ہوتا ہے مگر انسان اسے ایسی چیز سمجھ لیتا ہے جو کسی بڑی چیز کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ آپ چند میٹھے بول سے، اپنے ہاتھ پاؤں کی محنت سے، اپنے محدود وسائل کو استعمال کرنے سے اور ایک کام کو مسلسل پکڑے رہنے سے کامیابی کے اعلیٰ مقامات تک پہنچ سکتے ہیں۔ حالانکہ ان میں سے کوئی چیز نہیں جو بہت بڑی ہو اور ایک عام آدمی اس کو حاصل نہ کر سکتا ہو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

گراہم سٹورٹ کا قتلگراہم سٹورٹ سٹینز ایک آسٹریلوی عیسائی مشنری تھا جسے 22 جنوری 1999ء کو اس کے دو بیٹوں فلپ ( 10سال )اور ٹموتھی (6 سال) کے ساتھ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کے ایک گرو بجرنگ دل کے ارکان نے جلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ 2003ء میں بجرنگ دل کے کارکن داراسنگھ کو قاتلوں کی قیادت کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔سٹینز 1965ء سے اڈیشہ میں ایک مشنری تنظیم کیلئے کام کر رہا تھا۔ یہ تنظیم اس علاقے کے قبائلی لوگوں کی دیکھ بھال کرتے تھے جو انتہائی غربت میں رہتے تھے۔ تاہم کچھ ہندو گروپوں نے الزام لگایا کہ اس دوران اس نے بہت سے ہندوؤں کو لالچ دے کر یا زبردستی عیسائیت اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ملتان محاصرے کا اختتام 22 جنوری 1849ء کو ملتان کے محاصرے کا اختتام ہوا جس کا آغاز 19 اپریل 1848ء کو ہوا تھا اور یہ تقریباً 9 ماہ تک جاری رہا۔ اس محاصرے کے نتیجے میں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی اور سکھ سلطنت کے درمیان شدید لڑائی ہوئی۔اس لڑائی کا آغاز ایسٹ انڈیا کمپنی کے مسلط کردہ ایک حکمران کے خلاف بغاوت سے ہواتھا جو دوسری اینگلو سکھ جنگ کی وجہ بنی۔ ملتان شہر کا محاصرہ اس وقت ختم ہوا جب شہر کے دفاع پر معمور آخری فوجی دستے نے برطانوی افواج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ایس ٹی ایس42-ایک گھنٹہ تاخیر سے روانہ کیا گیا۔اس مشن کا مقصد مختلف جانداروں پر مائیکرو گریویٹی کے اثرات کا مطالعہ کرنا تھا۔ خلائی شٹل ''ڈسکوری‘‘ 30جنوری 1992ء کوکامیابی کے ساتھ ایڈورڈز ائیر فورس بیس، کیلیفورنیا میں اتری۔ ''ایس ٹی ایس 42‘‘ کی کامیابی کے بعد اس سیریز کا اگلا مشن ''ایس ٹی ایس53‘‘ کو بھی لانچ کیا گیا جو 2 دسمبر 1992ء کو اپنے سفر پر روانہ ہوا۔گوانتا نامو کی بندش22 جنوری 2009ء کوامریکہ کے صدر اوباما نے حکم دیا کہ گوانتانامو بے کے قیدیوں کے مقدمات کو 120 دن کیلئے معطل کر دیا جائے تاکہ تمام قیدیوں کے مقدمات کا جائزہ لیا جا سکے کہ آیا ہر ایک قیدی پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے یا نہیں۔ ایک دن بعد، صدر اوباما نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس میں کہا گیا کہ گوانتانامو حراستی کیمپ کو سال کے اندر بند کر دیا جائے گا۔ اس کے منصوبے کو اس وقت دھچکا لگا جب اس کی انتظامیہ کے اہلکاروں نے یہ انکشاف کیا کہ بہت سے زیر حراست افراد کے بارے میں کوئی جامع فائلیں ہی موجود نہیں ہیں۔گوانتا نامو حراستی مرکز میں انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوںنے بھی امریکی حکومت کا اسے بند کرنے پر مجبور کیا۔ 

دنیا کے معروف شہروں کے نک نیم

دنیا کے معروف شہروں کے نک نیم

دنیا کے چند مشہور شہر اپنی منفرد خصوصیات، تاریخی اہمیت، ثقافتی ورثے اور معاشی یا سیاحتی اہمیت کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔اسی طرح کچھ شہر ایسے بھی ہیں جو اپنے اصل نام کے بجائے دیگر ناموں سے مشہور ہیں۔ جنہیں ہم ان کے نک نیم بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایسے شہروں کی فہرست تو بہت لمبی ہے ، جن میں سے ہم چند شہروں کا ذکر اپنے اس مضمون میں کریں گے۔ قاہرہ... ہزار میناروں کا شہر قاہرہ مصر کا وہ شہر ہے جو فنون، موسیقی اور فلم کا مرکز ہے۔اسے دنیائے عرب کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ جدید قاہرہ کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی اور یہ شہر اسلامی تعمیرات سے مالا مال ہے۔ مسلمانوں نے بہت سی مساجد تعمیر کیں اور مساجد میں میناروں کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی لیے قاہرہ ''ایک ہزار میناروں کا شہر‘‘ بھی کہلاتا ہے۔ کراچی...روشنیوں کا شہرآبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ''روشنیوں کا شہر‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ ملک کا صنعتی مرکز اور اہم ترین بندرگاہ ہے، اسی لیے زندگی کی گہماگہمی یہاں شب و روز جاری رہتی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل کراچی جب ایک چھوٹے سے قصبے سے بڑا شہر بننے کے سفر کی جانب گامزن تھا تو اس کی سڑکیں لیمپوں سے روشن رہتی تھیں۔ یہاں بجلی کا انتظام بھی قیام پاکستان سے قبل ہو چکا تھا۔نیویارک...بڑا سیبامریکی شہر نیویارک کے کئی نک نیم ہیں۔ جیسا کہ کبھی نہ سونے والا شہر، گوتھم،عالمی دارالحکومت اورنیا ایمسٹرڈیم۔ نیویارک کا سب سے مقبول عرفی نام غالباً ''بڑا سیب‘‘ (دی بِگ ایپل) ہے۔یہ اصطلاح 1900ء کی دہائی کے اوائل سے تحریر میں آ رہی تھی اور اسے سب سے پہلے ''دی وے فیئر اِن نیویارک‘‘ کے مصنف ایڈورڈ ایس مارٹن نے لکھا۔ لیکن اسے شہرت 1920ء کی دہائی میں ملی۔ صحافی جان جے فٹز گیراڈ نے گھڑدوڑ پر ایک کالم لکھنا شروع کیا جس کا نام ''بڑے سیب کے گرد‘‘ (اِراؤنڈ دی بگ ایپل) رکھا تھا۔ 1970ء کی دہائی میں سیاحت کے فروغ کے سلسلے میں چلائی جانے والی ایک مہم کے بعد اس عرفی نام نے ایک بار پھر مقبولیت پائی۔ ٹورنٹو...گدلا یارک آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کے سب سے بڑے شہر ٹورنٹو کا عرفی نام ''گدلا یارک‘‘ (مڈّی یارک) ماضی جتنا مقبول نہیں رہا اور اس کی وجہ بھی ہے۔ ماضی میں جب شہر کی نکاسی کا انتظام نہیں ہوا تھا تو یہاں کیچڑ وغیرہ بہت ہو جایا کرتی تھی۔ تب اسے زیادہ تر ''مڈی‘‘ یا گدلا کہا جاتا تھا۔ اس میں یارک کا اضافہ ان دنوں کی یادگار ہے جب شہر نوآبادی تھا اور شہزادہ فریڈرک، ڈیوک آف یارک کے اعزار میں شہر کا نام ''ٹاؤن آف یارک‘‘ رکھا گیا تھا۔سڈنی...بندرگاہ شہر آسٹریلیا کے مشرقی ساحل پر آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا شہر سڈنی واقع ہے۔ اس شہر نے بطور بندرگاہ بہت فائدہ اٹھایا ہے۔ اس کے وسیع ساحلوں سے لوگ چہل قدمی، سرفنگ اور کئی دیگر طریقوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ساحل پر بہت سی مشہور عمارتیں ہیں جن میں سڈنی اوپیرا ہاؤس کو عالم جانتا ہے۔لاس ویگاس...گناہوں کا شہرامریکی شہر لاس ویگاس رات کو جاگتا ہے اور اس دوران جواخانوں اور کلبوں میں گہماگہمی ہوتی ہے۔ سالانہ کروڑوں افراد اس طرح کی سرگرمیوں کے لیے یہاں آتے ہیں اور اسی لیے اسے گناہوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ پیرس...محبت کا شہرجانے سبب ''زبانِ محبت‘‘فرانسیسی ہے یا شہر کا رومانوی ماحول، پیرس محبت کے شہر کے عرفی نام سے جانا جاتا ہے۔ انسان، فن، ادب، سماجی علوم اور فلسفے سے محبت کے مارے پیرس کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں اور اسی لیے پیرس نے بہت سے نامور لوگ پیدا کیے۔ ویانا...خوابوں کا شہر آسٹریا کا شہر ویاناخوابوں کا شہر بھی کہلاتا ہے اور موسیقی کا شہر بھی۔ یہ آبادی کے لحاظ سے یورپ کے بڑے شہروں میں شامل ہے۔ اسے شاہی شہر بھی کہتے ہیں کیونکہ سلطنت کے مرکز کی حیثیت سے یہاں بادشاہوں نے قیام کیا۔ معروف ماہر نفسیات اور تحلیلِ نفسی کے بانی سگمنڈفرائڈ کا قیام یہیں تھا، اس لیے اسے خوابوں کا شہر کہتے ہیں۔ فرائڈ کے نظریات میں خوابوں کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اُشوایا... دنیا کا اختتام اگر جنوب کی طرف جائیں تو بالآخر آپ انٹارکٹیکا یا قطب جنوبی جا پہنچیں گے۔ وہاں قدم رکھنے سے قبل ارجنٹائن کا ایک شہر اُشوایا آئے گا۔ مقامی زبان میں اس کا عرفی نام ''ال فِن ڈل مونڈو‘‘ یعنی ''دنیا کا اختتام‘‘ ہے۔ اگرچہ اس سے آگے جنوب میں، کہیں چھوٹی آبادی پورٹو ولیمز (چلی) کے نام سے موجود ہے، لیکن مذکورہ عرفی نام سے مشہور یہی شہر ہے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ارجنٹائن کی حکومت اس نام کو خوب استعمال کرتی ہے۔

سرسٹیم فورڈریفلز سنگا پور کا بانی

سرسٹیم فورڈریفلز سنگا پور کا بانی

سٹیم فورڈ ریفلز (Stamford Raffles ) ایک برطانوی نوآبادیاتی منتظم اور سفارت کار تھے جو سنگاپور کے بانی کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ 19ویں صدی میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک نمایاں رکن تھے اورانہوں نے جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی مفادات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان کا پورا نام سر تھامس سٹیم فورڈ بینگلے ریفلز تھا۔ وہ 6 جولائی 1781ء کو پیدا ہوئے اور 5 جولائی 1826ء کو وفات پائی۔ انہیں 1816ء میں ''سر‘‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ قرض میں گھرے ہوئے ماحول میں پلا بڑھا۔ 14 برس کی عمر میں اسے سکول چھوڑنا پڑا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوا تاکہ اپنی ماں اور چار بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اگرچہ اس کی رسمی تعلیم ناکافی تھی، لیکن اس نے فارغ وقت میں سائنس اور بہت سی زبانوں کا مطالعہ کیا اور تاریخِ طبیعی (نیچرل ہسٹری) میں دلچسپی لینے لگا جس کے باعث بعدازاں اسے امتیازی مقام حاصل ہوا۔ اپنی محنت سے وہ اتنا نظروں میں آیا کہ 23 برس کی عمر میں نئی تشکیل پانے والی حکومتِ پینانگ میں اسسٹنٹ سیکرٹری تعینات کر دیا گیا، قبل ازیں یہ آبنائے ملاکا کے شمالی داخلی راستے پر ایک غیر معروف جزیرہ تھا۔ پینانگ کو ایسٹ انڈیز میں برطانویوں کے پاؤں جمانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ یہاں ریفلز نے بحرالجزائر میں پھیلے ملاوی لوگوں کی زبان، تاریخ اور ثقافت کے بارے میں گہرائی سے جان کاری حاصل کی، اسی سے بعدازاں اس کے کیرئیر کی تشکیل ہوئی۔ وہ تب گورنر جنرل انڈیا لارڈ منٹو کی نظروں میں آیا جب ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی کیونکہ نپولین جاوا کو برطانیہ کے سست رفتار سامان بردار جہازوں کی تباہی کے لیے پناہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہا تھا۔ منٹو جاوا سے فرانسیسی اثر ختم کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے تھا۔ منٹو نے بحری حملے کی تیاری کے لیے ریفلز کو اپنا ایجنٹ نامزد کیا۔ ریفلز نے ملاکا میں اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ اپنے غیر معمولی کام پر بطور انعام اسے منٹو کے سٹاف میں شامل کر لیا گیا۔ اس نے منٹو کے ساتھ جاوا کا بحری سفر بھی کیا، جہاں وہ کسی حادثے کا شکار ہوئے بغیر چھ اگست 1811ء کو پہنچے۔ ولندیزوں اور فرانسیسیوں سے مختصر مگر تند لڑائی کے بعد انہوں نے جزیرے پر قبضہ کر لیا۔ منٹو نے جیت کا خاصا کریڈٹ ریفلز کو دیا۔ وہ اسے پہلے ہی ''بہت چالاک، قابل، سرگرم اور سمجھ دار انسان‘‘ قرار دے چکا تھا لیکن اب اس کی دانشورانہ اور انتظامی اہلیت کا بھی قائل ہو گیا تھا۔ 11 اکتوبر کو اس نے اسے جاوا کا لیفٹیننٹ گورنر بنا دیا۔ کچھ عرصہ بعد 30 برس کی عمر میں ریفلز کو نہ صرف جاوا بلکہ بہت سے جزائر پر مشتمل اور کروڑوں کی آبادی والی سلطنت کا حاکم بنا دیا۔ ریفلز نے بڑے پیمانے پر اصلاحات کا آغاز کیا جن کا مقصد ولندیزی نوآبادیاتی نظام کو بدلنا اور مقامی آبادی کی حالت کو بہتر بنانا تھا۔ مگر اس کی اصلاحات منافع کو اولیت دینے والی تجارتی کمپنی کو بہت مہنگی پڑیں اور زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکیں۔ ساڑھے چار سال بعد زیادہ بیمار رہنے اور اپنی بیوی کے انتقال سے صدمے میں آنے کی وجہ سے اسے واپس بلا لیا گیا۔ منٹو کی موت کے بعد اس پر نجی حملے کیے گئے جن سے بچانے والا اب نہ رہا تھا۔ 25 مارچ 1816ء کو اس نے انگلستان کا بحری سفر کیا۔ اسے سابقہ اعتماد پھر کبھی نصیب نہ ہوا۔ لندن میں جدت پسند اور اہل علم دونوں حلقوں میں اسے کامیابیاں ملیں اور انہیں کی مدد سے اسے رائل سوسائٹی کا فیلو منتخب کیا اور ''سر‘‘ کا خطاب دیا گیا، اس نے مشرق میں سماٹرا کے مغربی ساحل پر بنگکولو کی بندرہ گاہ کے لیفٹیننٹ گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں مگر اس کے اختیارات محدود تھے۔ تاہم بنگکولو سے ہی اس نے انڈونیشیائی جزائر پر ولندیزوں کے دوبارہ قبضے اور مکمل کمرشل اجارہ داری کا مشاہدہ کیا۔ پھر اس نے جنوب مشرقی ایشیا میں برطانوی اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اگلا قدم اٹھایا۔ اس نے مشرقی امور میں اپنے وسیع علم اور قائل کرنے کی مہارت کو استعمال کرتے ہوئے لارڈ ہیسٹنگ کو راضی کیا مشرق بعید میں برطانوی تجارت کے تحفظ کے لیے فوری اور بھرپور کارروائی ضروری ہے۔ ہیسٹنگ اس وقت انڈیا کا گورنر جنرل تھا۔ سات دسمبر 1818ء کو اس نے کلکتہ کا سفر کیا۔ اس کے پاس ہیسٹنگ کا عطا کردہ اختیار نامہ تھا جس کے تحت آبنائے ملاکا کے مشرق کی طرف اس نے ایک قلعہ بند چوکی قائم کرنی تھی تاکہ چینی سمندروں کا راستہ محفوظ بن سکے۔ 29جنوری 1819ء کی صبح وہ ملایا کے جنوبی کونے پر ایک ایسے جزیرے پر اترا جس کی آبادی بکھری ہوئی تھی۔ اسے ولندیزوں سے ٹکراؤ کا خطرہ تھا، مگر اس نے ایک معاہدے کے تحت یہاں سنگاپور کی بندرگاہ قائم کر لی۔ اگرچہ وہ بنگکولو میں اپنے عہدے پر تین برسوں کے لیے واپس آ گیا، لیکن اکتوبر 1822ء میں واپس سنگاپور چلا گیا، جہاں اس نے انتظامیہ کی شاخوں کو ازسرنو منظم کیا۔ 1823ء میں اس کے جاری کردہ قواعد و ضوابط میں کہا گیا ہے، ''سنگاپور کی بندرگاہ آزاد بندرگاہ ہو گی، اور یہاں ہر ملک کی کشتیاں اور بحری جہاز آ سکتے ہیں، یہ سب کیلئے برابر اور ایک جیسی ہے‘‘۔17 مارچ 1824ء کو ولندیزی سنگاپور پر اپنے تمام دعوؤں سے دست بردار ہو گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب ریفلز کی صحت تیزی سے بگڑ رہی تھی، اسے سر میں شدید درد اٹھتے تھے۔ وہ 22 اگست 1824ء کو انگلستان واپس پہنچا۔ اس نے لندن کے چڑیا گھر کی بنیادیں رکھنے میں مدد دی۔ اسے اس چڑیا گھر کا پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ جولائی 1826ء کو دماغی رسولی سے اس کا انتقال ہوا۔