دیمک کا جہاں
دیمک (Termite) تین حصے والا کیڑا ہے جو چیونٹیوں سے کافی حد تک مماثلت رکھتا ہے۔ یہ کیڑے بھی چیونٹیوں کی طرح مل جل کر بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان کی جماعتوں میں کارکن زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نر اور ایک یا ایک سے زیادہ رانیاں ہوتی ہیں۔ کارکن دیمک سب سے چھوٹی اور پھرتیلی ہوتی ہے اور رانیاں سب سے بڑی۔ کارندہ دیمک کے پر نہیں ہوتے۔
دیمک روشنی سے نفرت کرتی ہے۔ پروں والے نر یا پردار رانیاں صرف برسات کے موسم میں گھروں سے باہر آتی ہیں اور ہوا میں اڑتی نظر آتی ہیں۔ بعض کے پر خود بخود گر جاتے ہیں۔ پرندے ان کے گرد منڈلاتے اور انہیں کھاتے ہیں۔ جو رانی مرنے سے بچ جائے وہ زمین پر گر پڑتی ہے۔ اس کے پر جھڑ جاتے ہیں یہ رانی پھر سے نئی بستی بناتی ہے۔ برسات میں نر اور رانیاں ہوا میں اڑتی ہیں، کارکن دیمکیں ان دنوں میں اپنے زمین دوز گھروں سے باہر نکلتی ہیں۔ مگر بہت کم دکھائی دیتی ہیں۔ اگر انھیں کبھی خوراک جمع کرنے کیلئے بل سے باہر آنا پڑے تو وہ پودوں اور ریشوں کو چبا کر اور پھر انھیں مٹی میں ملا کر چھوٹی چھوٹی سرنگیں بنا لیتی ہیں تاکہ اندر ہی اندر وہ اپنا کام سر انجام دے سکیں۔ کیونکہ ان کو روشنی سے سخت نفرت ہے۔
دیمک کی خوراک زندہ اور مردہ نباتات کے ریشے ہیں۔ سوکھی لکڑی اس کا من بھاتا کھانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں کے سامان اور کتابوں کو یہ بری طرح تلف کر دیتی ہے۔ غلے کو چٹ کر جاتی ہے۔ درختوں کو بھی سخت نقصان پہنچاتی ہیں۔ گنے کے ننھے پودوں اور گیہوں پر ٹوٹ پرتی ہے۔ آم کا درخت اس کو بہت مرغوب ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جب تک یہ کیڑے بہت نقصان نہ کر لیں۔ ان کا پتہ نہیں چلتا۔ پہلے زمین کے نیچے بل بناتے ہیں پھر وہاں سے سرنگیں کھود کر حملے کرتے ہیں۔ جب ان کی بنائی ہوئی چھتے دار سرنگ نظر آ جائے تو اس وقت ان کا پتا چلتا ہے۔
یہ کیڑے صرف ایک ہی چیز سے گھبراتے ہیں اور وہ چیز مٹی کا تیل ہے۔ جہاں جہاں یہ ظاہر ہوں وہاں مٹی کے تیل میں نیلا تھوتھا ڈال کر پمپ کر دینا چاہیے۔ فصل پر مٹی کا تیل ہرگز نہ ڈالا جائے۔ کھیتوں میں ان کے بل تلاش کرکے کھودے جائیں اور ان کے بل جلا دیے جائیں۔
پانچ میٹر تک لمبا دیمک کا ٹیلہ مٹی، گوبر اور دیمک کے لعاب سے بنتا ہے اور اسے بنانے میں چار سے پانچ برس لگ جاتے ہیں۔ چیونٹیوں کی طرح دیمک بھی سماجی جانور ہیں اور اس طرح کی متاثر کن عمارتیں بنانے کیلئے مل کر کام کرتی ہیں۔ اگرچہ ٹیلہ ٹھوس لگتا ہے تاہم حقیقت میں یہ مسام دار ہوتا ہے جس سے تمام جگہ ہوا گردش کرکے درجہ حرارت کو یکساں برقرار رکھتی ہے۔ مینار کو شمال اور جنوب کی سمت میں بنایا جاتا ہے تاکہ درجہ حرارت کو قابو کرنے میں مدد دے سکے۔ ہوا ٹیلہ میں ننھے خارجی سوراخوں سے داخل ہوتی ہے اور ڈھانچے میں گردش کرکے درجہ حرارت کو گراتی ہے اور کیڑوں کیلئے تازہ آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ جب ہوا گرم ہوتی ہے تو وہ اوپر اٹھ کر ٹیلے کی مرکزی چمنی سے خارج ہو جاتی ہے۔
اقسام و خوراک
دیمک کی 3100 سے زیادہ انواع دریافت ہو چکی ہیں اور مزید کی بھی پیش گوئیاں ہیں۔ دیمک کی خوراک میں زیادہ تر لکڑی، پودوں کے سڑے پتے، یا پودوں کا کوئی بھی حصہ جو گل سڑنے کے قریب ہو اور جانوروں کا فضلہ جیسے گوبر شامل ہیں۔ دیمک بہت سرد علاقے جیسے انٹارکٹکا کے علاوہ ہر قسم کے علاقوں میں رہتے ہیں۔
کچھ انواع خشک جگہوں پر رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ گیلے اور کچھ معتدل جگہوں پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دیمک کی کالونی میں سینکڑوں سے لے کر کروڑوں کی تعداد میں دیمک پائے جاتے ہیں۔
دیمک کی رہائش گاہیں
دیمک کی رہائش گاہ کی تین اقسام ہیں۔ (1)بالکل زیر زمین جسے Subterranean گھر کہا جاتا ہے۔(2) بالکل زمین کے سطح پر جس کو Epigeal گھر کہا جاتا ہے۔(3) زمین سے اوپر ہوتا ہے مگر زمین کے ساتھ رابط میں ہوتا ہے، جس کو Arboreal گھر کہا جاتا ہے اور جس چیز سے یہ گھر زمین کے ساتھ ربط میں ہوتا ہے اس کو shelter tubes کہا جاتا ہے۔
دیمک کا Epigeal گھر مٹی اور کیچڑ سے بنا ہوتا ہے جبکہ Arboreal گھر پودوں کے بقایا جات جو آدھ ہضم ہوتے ہیں سے بنایا جاتا ہے۔اکثر و بیشتر ان کا گھر زیر زمین ہوتا ہے جو کہ نظر نہیں آتا۔آج کل کے دیمک زیادہ تر لکڑی کے اندر گھونسلا بنا کر رہتے ہیں۔
دیمک کا گھر مختلف چیزوں سے بنا ہوتا ہے. ان کے فضلے میں ایسے اجزاء ہوتے ہیں جو گھر بنانے میں مدد دیتے ہیں۔دیمک کے کچھ انواع درخت یا دوسری لکڑیوں کے اندر راستے یعنی ٹنلز بنا کر اور درخت یا لکڑی کو اندر سے کھا کر اس میں گھر بناتے ہیں۔
دیمک کا گھر ان کو سورج کی تپش اور بیکٹیریا یا دوسرے دشمنوں سے تحفظ فراہم کرتی ہے چونکہ ان کا جسم بہت نازک ہوتا ہے اس لیے یہ سورج کی روشنی میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتے۔گھر کے اندر ملکہ کی تحفظ کے لئے الگ جگہ بنی ہوئی ہوتی ہے جس کو queen cell کہا جاتا ہے۔لکڑی میں رہنے والے دیمک پوری زندگی لکڑی کے اندر گزارتے ہیں اور کسی بھی صورت میں زمین کے اندر نہیں رہتے۔
دیمک کے گھر میں بادشاہ اور ملکہ، کارکن اور سپاہی ہوتے ہیں۔ بادشاہ اور ملکہ کی جسامت باقی سارے دیمک سے بہت بڑی ہوتی ہے جن کا کام صرف انڈے دینا ہوتا ہے۔کارکن گھر کو اچھی طرح چلانے کیلئے سب کام کرتے ہیں جبکہ سپاہیوں کا کام صرف دفاع کرنا ہوتا ہے۔
دیمک کا جسم
دیمک کی جسامت 4 سے 15 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔بہت سے دیمک کے انواع کے کارکن اور محافظ کی آنکھیں نہیں ہوتیں کچھ انواع کی بڑی آنکھیں ہوتی ہیں۔دیمک کا اینٹینا تسبیح کے دانوں کی طرح ہوتا ہے جس سے وہ سونگھنے، کسی چیز کو محسوس کرنے، ذائقہ معلوم کرنے، گرمی اور کسی چیز کی حرکت معلوم کرنے کا کام لیتے ہیں۔
دیمک کے دشمن
پروں والے دیمک کے اگلے اور پچھلے پر دونوں برابر ہوتے ہیں جبکہ چیونٹیوں کے اگلے پر پچھلے پروں کی نسبت لمبے ہوتے ہیں۔ دیمک کے دشمنوں میں پرندے، مینڈک، چھپکلیاں، کاکروچ، کنکھجورے، مکڑیاں اور چیونٹیاں شامل ہیں۔ دیمک کے سب سے بڑے دشمن چیونٹیاں ہیں۔ چیونٹیاں وہ واحد جاندار ہیں جو کہ باقاعدہ دیمک کے گھروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔چونکہ ان کی آنکھیں نہیں ہوتیں لہٰذا یہ جسم سے خارج ہونے والے خاص قسم کے کیمیکل جس کو pheromone کہا جاتا ہے، سے رابطہ کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے حالات میں یہ مختلف قسم کے pheromone خارج کرتے ہیں۔