جب پاکستانی شاہینوں نے رافیل طیاروں کو بے بس کر دیا

اسپیشل فیچر
بات شروع ہوتی ہے 29 اپریل سے‘ جب پاکستان کے وزیر اطلاعات کا ایک بیان سامنے آتا ہے کہ مصدقہ انٹیلی جنس اطلاعات ملی ہیں کہ بھارت اگلے 24 سے 36 گھنٹوں میں پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔ اس سے جہاں پوری دنیا میں ایک تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے وہیں سفارتی کوششوں میں بھی تیزی آ جاتی ہے۔ صورتحال دوبارہ فروری 2019ء والا رخ اختیار کر لیتی ہے جب بھارتی طیاروں نے رات کے اندھیرے میں پاکستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ بھارت کی آج تک کی سبھی جارحیتوں اور اس کی عسکری تاریخ کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہ تھا کہ بھارت رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔ ستمبر1965ء میں لاہور پر حملہ ہو یا فروری 2019ء میں بالاکوٹ کے مقام جابہ پر پے لوڈ گرا کر بھاگنے کا واقعہ۔ بھارت نے ہمیشہ وہی وقت چُنا جب بیشتر لوگ اپنے نرم بستروں میں سو رہے ہوتے ہیں مگر جنگی جنون میں مبتلا بھارت کی فسطائی قیادت کو شاید یہ معلوم نہ تھا کہ پاکستانی سرحدوں کے محافظوں کی آنکھیں کبھی بند نہیں ہوتیں۔ بہرکیف‘ جنگ کے الرٹ کے بعد نہ صرف سرحدی نگرانی مزید سخت کر دی گئی بلکہ پاکستانی طیاروں نے ملکی حدود میں پروازیں بھی شروع کر دیں۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ 29 اور 30 اپریل کی درمیانی شب‘ رات گئے انٹیلی جنس کی جانب سے یہ اطلاعات ملیں کہ بھارت کے انبالا فضائی اڈے پر کچھ ہلچل دیکھی گئی ہے۔ کچھ دیر بعد بھارت کے چار جدید رافیل طیارے نمودار ہوئے جو فضا سے زمین میں مار کرنے والے میزائلوں سے لیس تھے۔ماہرین کے مطابق عمومی فضائی نگرانی کے دوران طیاروں کو میزائلوں سے لیس نہیں کیا جاتا۔ رافیل طیاروں کا میزائلوں سے لیس ہونا ہی اس بات کی علامت تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں۔
بھارتی میڈیا اس سے قبل ہی چیخ چیخ کر اعلان کر رہا تھا کہ پاکستان پر محدود فضائی حملوں کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے اور بھارتی فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل اے پی سنگھ نے وزیراعظم نریندر مودی کو مغربی سرحد پر جاری جنگی مشقوں‘ لڑاکا طیاروں کی تیاری اور فضائی دفاعی نظام کی ہائی الرٹ حالت کے حوالے سے بریفنگ بھی دی ہے۔ اس سے قبل بھارتی بحریہ کے سربراہ ایڈمرل دنیش کے تریپاٹھی نے ایک علیحدہ ملاقات میں نریندر مودی کو جنگی تیاریوں سے آگاہ کیا تھا۔ بھارت کی جانب سے مغربی محاذ پر ایئر بیسز پر آپریشنل ریڈینس پلیٹ فارمز (ORPs) کی تعداد میں بھی اضافہ کر دیا۔ واضح رہے کہ ایک او آر پی (Operational Readiness Platform) میں عموماً دو سے تین مسلح لڑاکا طیارے شامل ہوتے ہیں جو ایئر بیس پر رن وے کے ساتھ بنے مخصوص حفاظتی بنکروں میں ہر وقت تیار حالت میں رہتے ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتِ حال میں فوری پرواز کر سکیں۔رافیل طیاروں کو 300 کلومیٹر رینج کے سکیلپ کروز میزائل اور 150 کلومیٹر مار کرنے والے میٹیور میزائلوں سے لیس کیا گیا۔
29 اور 30 اپریل کی درمیانی شب بھارت کے رافیل طیارے مقبوضہ کشمیر کی فضائی حدود میں 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہے تھے کہ پاکستان کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے Electronic Warfare Assets کے ذریعے رافیل طیاروں کے آن بورڈ سینسرز جام کر دیے‘ جس سے ان طیاروں کا آپس میں اور زمین سے رابطہ منقطع ہو گیا۔20 منٹ سے زائد عرصہ تک ان طیاروں کا کمیونیکیشن سسٹم منقطع رہا اور یہ مکمل طور پر بے سمت ہو گئے۔ اس دوران پاک فضائیہ کے جے ٹین سی (J10C) طیارے بھی فضا میں موجود تھے۔ماہرین کے مطابق جے ٹین سی طیاروں کا ریڈار KLJX-AESA ہے جو 1200 ٹرانسمٹ اور ریسیو ماڈیولز پر مشتمل ہے جو رافیل کے ریڈار TRM-838 کو جام کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پاک فضائیہ کی مؤثر جوابی کارروائی کے بعدبھارتی طیاروں نے فوراً اپنا رخ تبدیل کیااور واپس انبالا جانے کے بجائے سرینگر میں ہنگامی لینڈنگ کی۔
اس واقعے کو بعد بھارت سے خبر ملی کہ وائس ایئر چیف مارشل سجیت پشپکر دھارکر کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ وائس ایئر چیف مارشل ایس پی دھارکر نے رافیل طیاروں کو اڑانے والے بھارتی پائلٹس کی کارکردگی پر سخت عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور تسلیم کیا تھا کہ بھارتی رافیل طیارے پاکستان کے جدید ریڈار سسٹم کے سامنے بالکل بے بس دکھائی دیے اور اپنا راستہ تک کھو بیٹھے۔
بھارت نے حال ہی میں فرانس سے رافیل میرین طیاروں کے لیے 288 ملین ڈالر فی جہاز کا معاہدہ کیا ہے۔ 26 جہازوں کے اس معاہدے کی خاص بات ٹیکنالوجی کی منتقلی ہے۔ بھارت کا رافیل طیاروں کا یہ سودا ریڈار پر نظر نہ آنے والے جدید سٹیلتھ طیاروں سے بھی زیادہ مہنگا ہے مگر پاکستانی جانبازوں نے اپنی تیار کردہ جدید الیکٹرانک وارفیئر ٹیکنالوجی سے رافیل طیاروں کو مکمل بے اثر کر دیا۔ بلاشبہ پاک فضائیہ الیکٹرانک‘ سائبر اور سپیس وارفیئر کے شعبوں میں بھارت پر واضح برتری رکھتی ہے۔ اپنی انہی جدید صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے شاہینوں نے بھارتی عزائم کو ایک بار پھر خاک میں ملا دیا۔