علم ریاضی کی ترقی میں مسلم ریاضی دانوں کا حصہ
اسپیشل فیچر
ریاضی انسانی تہذیب کی قدیم ترین سائنسی شاخوں میں سے ایک ہے۔ مصری، بابل اور یونانی تہذیبوں میں اس علم کی بنیادیں رکھی گئیں مگر جس دور میں ریاضی نے منظم سائنسی اور نظریاتی ترقی کی وہ اسلامی تہذیب کا سنہرا دور تھا۔ ساتویں صدی سے لے کر تیرہویں صدی تک جب یورپ علمی زوال میں تھا اُس وقت مسلم دنیا میں بغداد، دمشق، بخارا، سمرقند، قاہرہ، قرطبہ اور غرناطہ جیسے علمی مراکز میں ریاضی کے نئے در وا ہو رہے تھے۔ مسلمانوں نے نہ صرف یونانی، ہندی اور ایرانی علوم کا ترجمہ کیا بلکہ ان میں اضافے اور اصلاحات کے ذریعے جدید ریاضی کی بنیاد رکھی۔
الخوارزمی: الجبرا کا بانی
محمد بن موسیٰ الخوارزمی (780-850ء) کو الجبرا کا بانی کہا جاتا ہے۔ وہ بغداد کے بیت الحکمہ میں مامون الرشید کے دور میں کام کرتے تھے۔ ان کی مشہور کتاب ''الکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ‘‘نے ریاضی کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ یہی وہ کتاب تھی جس سے لفظ ''الجبر‘‘ نکلاجو بعد میں یورپی زبانوں میں Algebra بن گیا۔الخوارزمی نے پہلی بار ریاضی کے مساواتی مسائل کو منظم طریقے سے حل کرنے کا طریقہ دیا۔انہی کے نام سے لفظ Algorithm بھی نکلا جو آج کمپیوٹر سائنس کی بنیادی اصطلاح ہے۔الخوارزمی کی دیگر تصانیف مثلاً ''کتاب الجمع و التفریق بالحساب الہندی‘‘ میں ہندسوں کے استعمال کا ذکر ہے جس کے ذریعے ہندسے (0 تا 9) عرب دنیا سے یورپ پہنچے اور آج کے Arabic numeralsکہلاتے ہیں۔
الکندی
ابویوسف یعقوب بن اسحاق الکندی (801-873ء) نے ریاضی کو فلسفیانہ تجزیے کا ذریعہ بنایا اور علمِ موسیقی، منطق اور طبیعیات میں ریاضیاتی اصولوں کا اطلاق کیا۔ الکندی نے ہندسوں کے تناسب، زاویوں اور اشکال کے باہمی تعلقات پر گہرے مطالعے کیے۔ ان کا شمار اُن اولین سائنسدانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کرپٹوگرافی یعنی رمزیات کی ریاضیاتی بنیاد رکھی۔
ثابت بن قرہ
ثابت بن قرہ (826-901ء) حرّان کے رہنے والے تھے اور یونانی ریاضی دان اقلیدس اور ارشمیدس کے نظریات کے نقاد و مفسر تھے۔ انہوں نے اعدادِ اوّلیہ، جیومیٹری اور میکانکس پر گرانقدر کام کیا۔ ثابت بن قرہ نےFriendly Numbers (دوستانہ اعداد) کا نظریہ پیش کیا جو بعد میں مغربی ریاضی میں بھی زیرِ بحث آیا۔
عمر خیام: الجبرا اور جیومیٹری
مشہور فارسی شاعر عمر خیام (1048- 1131ء) صرف شاعرنہ تھے ایک عظیم ریاضی دان، ماہر فلکیات اور فلسفی بھی تھے۔ ان کی کتاب ''رسالۃ فی شرح ما اشکل من مصادرات اقلیدس‘‘نے جیومیٹری میں نئے تصورات متعارف کروائے۔ عمر خیام نے مکعب مساوات (Cubic Equations) کے حل کے لیے جیومیٹری کا استعمال کیا اور ایسا طریقہ وضع کیا جو جدید الجبرا میں ایک سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ان کی تیار کردہ شمسی تقویم بھی اپنی درستگی کے لحاظ سے جدید گریگورین کیلنڈر سے بہتر تھی۔ اس کیلنڈر کا حساب بھی ریاضیاتی اصولوں پر مبنی تھا۔
البیرونی: ریاضی اور فلکیات
ابوریحان محمد بن احمد البیرونی (973-1048ء ) ریاضی، فلکیات، جغرافیہ اور طبیعیات کے جامع عالم تھے۔ انہوں نے زمین کے radius کا حساب حیرت انگیز درستگی کے ساتھ لگایا۔ البیرونی نے دائرے کے محیط اور زاویے کے باہمی تعلقات پر تحقیق کی اور ان کے کام نے بعد میں یورپ میں نیوٹن اور کیپلر جیسے سائنسدانوں کے لیے راہ ہموار کی۔
ابن الہیثم
ابوعلی الحسن بن الہیثم (965-1040ء) جنہیں لاطینی میں Alhazen کہا جاتا ہے Optics کے بانی شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے روشنی، عکس اور زاویہ انعکاس پر ریاضیاتی بنیادوں پر تحقیق کی۔ ان کی کتاب ''کتاب المناظر‘‘ نے یورپ میں صدیوں تک ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم کو متاثر کیا۔ انہوں نے Parabola اور جیومیٹرک ساختوں پر بھی کام کیا جو بعد میں کیمرہ، لینز اور ٹیلی سکوپ کی تیاری میں بنیادی حیثیت رکھتا تھا۔
نصیر الدین طوسی: مثلثات کا ماہر
خواجہ نصیر الدین طوسی (1201-1274ء) نے مثلثات کو ریاضی کی ایک علیحدہ شاخ کے طور پر متعارف کرایا۔ ان کی کتاب ''التحریر فی اصول اقلیدس‘‘ اور ''الزیج الایلخانی ‘‘فلکیات اور ریاضی دونوں میں بے حد اہم ہیں۔ انہوں نے سائن اور کوسائن کے قوانین کو واضح شکل دی جو آج بھی جیومیٹری اور فلکیات میں استعمال ہوتے ہیں۔ مغربی ریاضی میں ان کے نظریات کو بعد میں کوپرنیکس نے اپنی شمسی نظریہ میں استعمال کیا۔
ترجمہ اور تدریس
بغداد میں قائم بیت الحکمہ، قاہرہ میں دارالحکمہ اور اندلس میں قرطبہ و غرناطہ کی لائبریریاں علمی مراکز کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہوئیں۔ یہاں مسلمان علما نے یونانی اور سنسکرت ریاضی کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا اور ان پر اپنے تبصرے شامل کیے۔ یہ تراجم بعد میں لاطینی میں منتقل ہوئے اور یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے لیے علمی بنیاد بنے۔مسلمان ریاضی دانوں کی خدمات صرف ماضی کی یادگار نہیں بلکہ جدید سائنس کی بنیاد ہیں۔یہ تمام کاوشیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلم مفکرین نے ریاضی کو محض حساب کتاب نہیں سمجھا بلکہ اسے کائنات کی زبان جانا ۔ انہی کی بدولت یورپ علمی تاریکی سے نکل کر روشنی کی طرف آیا اور آج کی جدید سائنس انہی بنیادوں پر کھڑی ہے۔