وزیرِ اعظم ، وزیرِ اعظم بنیں

ریاست کا بنیادی تصورکمزور طبقات ، پسے ہوئے عوام اور جنگل کے قانون کے خاتمے کی خاطر دریافت ہوا۔ اسی لیے فارسی زبان میں ریاست کے بارے میں دو نظریات عالمی طور پر مانے جاتے ہیں۔ ایک مادر سِری اور دوسری پِدر سِری ریاست۔ میرے نزدیک دونوں کا مشترکہ مطلب یہ نکلتا ہے کہ ریاست ماں جیسی ممتا اور شہریوں سے پدرانہ شفقت کا مظاہرہ کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔ طے شدہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست کو منیجرز اور منتظم چلاتے ہیں۔ آج کا ایٹمی پاکستان نواز شریف کی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی غفلت اور غرورنے ملک کو جس بحران میں دھکیلا ہے، وزیرِ اعظم کا فرض ہے کہ وہ قوم کو اس بحران سے نجات دلائیں۔
ہمارے ہاں عجیب رواج ہے، سڑک بن جائے تو افتتاح کرتے وقت وزیرِ اعظم کی تقریر یوں شروع ہو گی : ''لوگو! دیکھو میں نے تمہیں سڑک دی۔ ہاتھ کھڑے کر کے بتائو موٹر وے دی یا نہیں دی‘‘۔ اس رویے نے شہریوں کو ریاست سے نہ صرف دُورکردیا بلکہ ان کے دل میں اپنے گھر اور اس کے خادموں کے خلاف نفرت کا طوفان پیدا کیا۔ نفرت کا اظہار شہر ی تب کرتے ہیں جب کوئی حکمران مصیبت میں پھنستا ہے یا اس کی حکومت ڈانواں ڈول ہوتی ہے۔ عوامی نفرت کی آگ پر تیل کے کنٹینر ڈالنے کے لیے گلو بٹ، پومی بٹ ایک طرف ، وزیر بٹ اور مشیر بٹ دوسری جانب جُت جاتے ہیں۔ میں نے تقریباً سو دن پہلے وکالت نامے میں لکھا تھا، اپوزیشن کا حکومت سے ایک ہی مطالبہ ہوتا ہے کہ یہ اُن سے لڑ پڑے۔ موجودہ حکومت نے اپوزیشن سے لڑائی کا مطالبہ فراخ دلی سے منظور کیا ہے۔ نتیجہ سامنے ہے، لاہور میدانِ جنگ، پنجاب قید خانہ اور اسلام آباد دوسرا غزہ بن کر رہ گیا ہے۔
اگر ہم فرض کر لیں، لڑائی کا آغاز حکومت کے اہلِ دانش اور بے دانش لوگوں نے نہیں کیا، تب بھی اس تباہ کن ماحول سے ملک کو نکالنا کسی اور کی نہیں صرف اور صرف وزیرِ اعظم کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ادا کرنے کے لیے وزیرِ اعظم ابھی تک وزیرِ اعظم نہیں بن پائے۔ ان کا کردار اپوزیشن کے خلاف اپوزیشن لیڈر جیسا ہے۔ اپوزیشن لیڈرکا کردار بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ وزیرِاعظم نے تباہ شدہ معیشت اور جنگ زدہ ملک کے لنگڑے لُولے اور معذور نظامِ حکومت کو بے یقینی سے نکالنے کے لیے ابھی تک جوکیا وہ انگریزی زبان میں ون لائنر سے واضح کیا جا سکتا ہے:
It's too little and too late .
حالیہ بدترین سیاسی کشیدگی کے خاتمے کے لیے حکومت کی حکمتِ عملی دیکھ لیجیے۔پہلی یہ کہ اپوزیشن کو ''پھَڑ لؤ‘‘۔ خالص پُلسی لغت میں اس کا دوسرا نام پکڑ دھکڑ ہے۔ سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت میں دو مرتبہ شہریوں کا قتلِ عام ہوا۔ مقتول فریق کی طرف سے ایف آئی آردرج نہ ہوئی بلکہ اندراجِ مقدمہ کی درخواستیں کئی ماہ سے کوہِ انصاف کے مائونٹ ایورسٹ پر چڑھنے کی کوشش میں پھسل پھسل کر لہو لہان ہو چکی ہیں۔ ہزاروں سیاسی مخالفوں کے خلاف قتل، بلوہ، اقدامِ قتل، غیر قانونی اجتماع جیسے سنگین الزامات کی درجنوںFIRsکاٹ دی گئیں۔ بے شمار سیاسی کارکنوں کے گھروں اور خاندانوں پر کریک ڈائون ہوا۔ کرائے کے تربیت یافتہ جتّھے، نہتے شہریوں پر حملہ آور ہوئے۔ ان کے جان و مال کے ساتھ ہو لی کھیلی گئی۔
حکومتی حکمتِ عملی کا دوسرا نمایاں پہلو shouting match یعنی ٹی وی چینلز پر چِلّانے اور شور مچانے کا مقابلہ ہے جہاں سرکار کے جغادری پہلوان ٹی وی اینکرخواتین و حضرات سے منہ ماری کر رہے ہیں۔ اکثر تو دورانِ گفتگو فون چھوڑکر بھاگتے ہیں یا مقابلہ چھوڑکر۔
حکومتی منصوبہ بندی کا تیسرا حصہ زیادہ خطرناک ہے جس کے مطابق سرکار نے عدلیہ کو سیاست میں گھسیٹنے والی مقدمہ بازی شروع کروا دی ہے۔ ہمارا نظامِ انصاف پہلے ہی ارسلان اور اُس کے ابّا کا بوجھ اٹھا اٹھا کر کُبڑا ہو چکا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے وزیرِ اعظم بے بس ہیں اور اُن کے اردگرد ریٹائرڈ بابوئوں، سیاسی بے روزگاروں اور شاہ مشرف کی کابینہ کے ارکان کا گھیرا تنگ ہوکر پھندا بنتا جا رہا ہے۔ اسی لیے ہر مشورہ الٹا اور ہر تدبیر بے نتیجہ ہے۔ شاعر نے کسی ایسے ہی بے بس حکمران اور اس کے مشیروں کی تصویر کشی یوں کی ہے:
اوج پر ہے کمالِ بے ہنری
باکمالوں میں گِھر گیا ہوں میں
روشنی روشنی کی دشمن ہے
کِن اُجالوں میں گِھر گیا ہوں میں
جب یہ سطریں لکھی جا رہی تھیں ، تب ووٹوں کے اعتبار سے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت اپنا سٹیج ریڈ زون کی طرف بڑھا رہی تھی جبکہ پارلیمنٹ سے باہر کی سب سے متحرک جماعت وزیرِ اعظم سمیت بہت سوں سے استعفیٰ مانگ رہی تھی۔ حکومت کے مشیر کہہ رہے تھے ہم ابھی انتظارکریں گے۔ اسی دوران حکومت کے واحد ثالث نے یہ کہہ دیا : حکومت پیچھے ہٹ جائے اور قربانی دے۔ یوں لگتا ہے جیسے آج کل سرکار صرف پی ٹی وی دیکھتی ہے جہاں نئے بھرتی ہونے والے اینکر پرانی ڈفلی پر حکومت کو متحرک کرنے کا ڈرامہ رچاتے ہیں۔ ورنہ اس ملک میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ سرکار کے ترجمان اور اپوزیشن کے رہنما اکٹھے بول رہے ہوں لیکن اپوزیشن میڈیا پر چھائی ہواور سرکاری ترجمان تلاشِ گمشدہ کا اشتہار بن جائیں۔
سرکاری گھبراہٹ اور حکومتی عہدیداروں کی بوکھلاہٹ کے دو شاہکار عالمی ریکارڈ ہیں۔ پہلے ان کا یہ خوف کہ کوئی تیسرا فریق یعنی فوج نہ آ جائے جس کا کھلا اظہار ان کی تقریروں اور فرمائشی پٹیشن دونوں سے ہوتا ہے جبکہ دوسرا ان کی طرف سے اپوزیشن کے موٹر سائیکل گِن کر دل کا رانجھا راضی کرنے جیسی تدبیروں سے ہے۔ اسی طرح کے مہمان سیاسی اداکار سے کسی نے پوچھا اس قدر ابہام میں آپ اول فول کیوں بولتے ہیں۔ فرمایا! چار ماہ بعد سینٹ کا الیکشن آ رہا ہے، یہ بیانات مجھے پنجاب سے سینیٹر بنوا دیںگے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت کہتی ہے دھرنے سے معیشت ڈوب چلی۔ اگر یہ سچ ہے تو وزیرِ اعظم ریڈ زون سے باہرکیوں نہیں نکل رہے۔ وہ بزنس مین ہیں، معیشت کو بچائیں اور بیمار معیشت کا جنازہ اُٹھ جانے کا انتظار بندکر دیں۔
جو لال بجھکڑ وزیرِ اعظم کو یہ بتاتا ہے کہ آج چوتھا دن ہے، پانچویں روز لوگ تھک ہار کر یا بیمار ہوکر گھروں کو چلے جائیں گے، اُس کی سوچ ناقص ہے۔ جب تک سیاسی بحران کا حل نہیں نکلے گا‘ ہر ہفتے جلسہ ہوگا‘ قوم‘ ملک اور معیشت عالمی تماشہ بنے رہیں گے۔ 
جن لوگوں نے 14اگست سے بین الاقوامی میڈیا دیکھنا شروع کیا ہے، انہیں معلوم ہے پاکستان کو شام، لیبیا، مصر اور تیونس بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ وزیرِ اعظم یاد رکھیں، ایٹمی پاکستان کو عالمی طاقتیں ایک لمحے کے لیے بھی نظر انداز نہیں کر سکتیں۔ باقی رہا پاکستانی جمہوریت کا برانڈ، اگر اس میں کسی کو دلچسپی ہوتی تو وہ جدہ یا امریکہ کے دورے کے بعد بحران کے خاتمے میں تیسرے درجے کا کردار توادا کرتا۔ ساتواں بحری بیڑا ہو یاآٹھواں طیارہ بردار، دونوں ہمیشہ اپنے پٹرول پر اپنی جنگ کے لیے روانہ ہوتے ہیں۔ وزیرِاعظم، وزیرِاعظم بن کر دکھائیں۔ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں، انہوں نے حلف لے رکھا ہے وہ عوام کی خدمت کریں گے۔ ابھی تک ہر خدمت لاٹھیوں، گولیوں، مقدموں، پتھروں، ریڈ زون کی ریڈ لائن والی دھمکیوں اور بیانوں سے ہو رہی ہے۔ یہ کیسے وزیرِاعظم ہیں جن کے ملک بھر سے آئے ہوئے عوام چار دن سے سڑکوں پر پڑے بارش میں بھیگ رہے ہیں اور وہ مورچوں، خندقوں، دیواروں اور بلٹ پروف حصار میں قید ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں