گئے زمانے ‘ ہوئے فسانے

حبیب جالب نے جس غریب طبقے کی آغوش میں جنم لیا ، اُسی طبقے کی محرومیوں کے خلاف اپنی پوری زندگی کانٹوں پرگزاردی۔اُس نے عمر بھر جیلوں میں دھکے کھائے، ہتھکڑیوں میں جکڑا سی کلاس میں گھسٹتا پھرا مگر اُس نے نہ کبھی جیل میں مچھر سے کٹنے کا گلہ کیا اور نہ کھٹملوں اور پِسوئوں کی خون آشامی کا شکوہ لب پر لایا۔ اس حالت میں بھی عوام کے دِلوںمیں اُس کی چاہت کا یہ عالم تھا کہ جس شہر میں قدم رکھتا، وہاں کی انتظامیہ اُس کا نام سُن کر دہل جاتی۔ وہ جدھر سے گزرتا لوگوں کے ٹھٹھ بندھ جاتے۔ جالب کی شہرت جنرل ایوب خان کے جابرانہ دور میں بامِ عروج پر پہنچی۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں آئین کو اپنے بھاری بوٹوں تلے مسلنے کے چھ سال بعد اپنا تیار کردہ دستور قوم کے سر پر لاد دیا۔ پوری قوم پر ایک سناٹا طاری تھا۔ یاد رہے کہ اس پوری قوم میں آج کا بنگلہ دیش بھی شامل تھا۔ کسی میں ہمت نہ تھی کہ جنرل ایوب خان کے خلاف اونچا سانس بھی لے سکے۔ اس دہشت کے عالم میں لاہور سے ایک باغیانہ آواز گونجی جس نے جنرل ایوب خان کی ڈکٹیٹر شپ کا پردہ چاک کر دیا اور عوام کو ایک نیا عزم اور حوصلہ بھی بخشا۔ جالب نے مری کے ایک مشاعرے میں ایوب خان کے دیے ہوئے دستور کو کچھ اس انداز میں رَد کیا کہ اس کا ہر لفظ عوام کی آواز بن گیا۔دستور کے نام سے اس کی یہ نظم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئی۔ ؎
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
جلد ہی جنرل ایوب کی حکومت نے جالب کی اس باغیانہ نظم پر پابندی عائد کر دی مگر اس پابندی کا نتیجہ اُلٹا نکلاکہ یہ نظم ملک کی ہر گلی کوچے، ہر شاہراہ اور ہر درسگاہ کا دستور بن گئی۔ 
1965ء کے صدارتی الیکشن میں 71 سالہ محترمہ فاطمہ جناح نے جنرل ایوب خان کا مقابلہ کرنے کا اعلان کیا۔ حبیب جالب، مادرِ ملت کی انتخابی مہم کے ہراول دستے میں شامل تھا۔ اُس کے بغیر نہ کوئی جلسہ سجتا تھا اور نہ جم پاتا تھا۔ مادرِ ملت جب لاہور کے جلسے میں تشریف لائیں تو اُن کی تقریر سے قبل اسٹیج سیکرٹری نے حبیب جالب کا نام پکارا۔ جب وہ نظم سرا ہوا تو سارا ہجوم سراپا آتش ہو گیا۔محترمہ کو اردو زبان پر کوئی خاص عبور حاصل نہیں تھا۔ انھوں نے اپنے انتخابی منیجر حسن اے شیخ کو بلوایا اور اُن سے شکوہ کیا کہ یہ کون آدمی ہے جسے آپ نے میری تقریر سے پہلے گانے پر لگا دیا ہے، یہ آدمی جلسے کا سارا ماحول غیر سنجیدہ کر دے گا۔ حسن اے شیخ اور دوسرے لیڈروں نے بڑی مشکل سے محترمہ کو اس آدمی (جالب) کی افادیت پر قائل کیا۔ تب وہ اس شرط پر جالب کو اپنا کلام پڑھنے کی اجازت دینے پر آمادہ ہوئیں کہ وہ جلسے میں اُن کی آمد سے پہلے پہلے اپنی نظم پڑھ لیا کرے۔ 
دوسری جانب بھٹو صاحب، جنرل ایوب خان کی کنونشن لیگ کے سیکرٹری تھے اور ان کی انتخابی مہم کے انچارج بھی! بھٹو صاحب نے جالب سے رابطہ کیا اور کہا کہ اگر وہ جنرل ایوب خان کی حمایت کرے تو اُسے اُس کی خواہش کے مطابق ہر شے ملے گی۔ جالب نے صاف انکار کر دیا ۔ اس پر جالب کو یہ کہا گیا کہ اگر وہ مہم میں حصہ لینے کے بجائے ہسپتال میں داخل ہو جائے تب بھی اس کے لیے یہی پیشکش موجود رہے گی مگر درویش صفت جالب نے یہ پیشکش بھی ٹھکرا دی۔ 
1969ء میں ہم نے جالب کو گورڈن کالج راولپنڈی کی ایک تقریب میں مہمانِ خصوصی کے طور پر بلوایا۔(میںتب گورڈن کالج سٹوڈنٹس یونین کا صدر تھا۔) حکومت نے ہمیں جالب کو بلوانے کی پاداش میں گرفتار کرنے اور کالج بدر کرنے کی دھمکیاں دیں ، مگر اب مسئلہ حکومت کے بس سے باہر تھا؛ چنانچہ جالب آیا اور تین دن تک ہم نے اسے ہوسٹل میں مہمان ٹھہرائے رکھا۔کالج کی تقریب میں تقریباً اڑھائی گھنٹے تک وہ اپنی انقلابی نظمیں سناتا رہا۔ اس کے ہر مصرعے پر کالج کے جوبلی ہال میں نعروں کا طوفان برپا ہو جاتا۔ 
اُنہی دنوں پنڈی پریس کلب میں ایک ترقی پذیر تنظیم 'لینن ڈے‘ منا رہی تھی۔ لگے ہاتھوں انہوں نے جالب کو بھی اس تقریب میں مدعو کر لیا۔ جالب نے گورڈن کالج کے ہوسٹل میں اِس تقریب کے لیے جو نظم لکھی اس کا مطلع اب تک میرے ذہن میں اُسی طرح موجود ہے ؎
عظیم لینن کی رہبری میں
دکھی دِلوں نے قرار پایا
گئے زمانے ہوئے فسانے
حقیقتوں نے رواج پایا
سچ کہنا، سچ لکھنا اور سچ بولنا جالب کے خون میں شامل تھا۔اُنہی دنوںمیاں محمود علی قصوری کے ہاں لینن ڈے کی تقریب منعقد ہوئی جس کی صدارت روسی سفیر کر رہے تھے۔ ان دنوں ویتنام کی جنگ پورے عروج پر تھی۔ روسی حکومت اِدھر ویتنام کی حمایت کر رہی تھی اور اُدھر امریکہ کے ساتھ امن مذاکرات میں بھی مشغول تھی۔ جالب اگرچہ سوشلسٹ روس کا حامی تھا مگر اس نے اس تقریب میں بھی روس پر تنقید کرنے سے گریز نہیں کیا۔ جالب نے امن اور جنگ کے عنوان پر اپنی اِس خوبصورت نظم سے فضا کو مترنم کر دیا اور سامعین جیسے اس کے سحر میں مدہوش سے ہو کر رہ گئے ؎
جھوٹے امن کے دیوانو
کیا ممکن ہے تمہی کو
ظلم رہے اور امن بھی ہو
1970ء میں جالب کراچی آیا تو بھٹو صاحب نے اسے اپنے گھر ڈنر پر بلوایا۔ جالب دیسی آدمی تھا اور -70کلفٹن میں اُس کا پالا غیر ملکی مشروب سے پڑ گیا۔ دوچار گھونٹ بھرنے کے بعد جالب نے اپنا رنگ پکڑ لیا۔ گفتگو کے دوران بھٹو صاحب نے کہا: ''جالب! تم ہماری پارٹی میں شامل کیوں نہیں ہو جاتے؟‘‘
جالب نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا: ''سمندر کبھی دریا میں شامل نہیں ہوا کرتے ، ہم سوشلسٹ ہیں، لہٰذا آپ ہماری پارٹی میں شامل ہو جائیں‘‘۔
اس محفل میں مخدوم طالب المولیٰ، ممتاز بھٹو، مصطفیٰ جتوئی اور چند دیگر وڈیرے موجود تھے۔ حسبِ توقع جالب سے کلام سنانے کی فرمائش کی گئی۔ جالب نے پہلا مصرعہ اُٹھایا: ''پاکستان کا مطلب کیا...لا الہ الااللہ‘‘
ملیں لٹیروں سے لے لو
کھیت وڈیروں سے لے لو
''کھیت وڈیروں سے لے لو‘‘پر جیسے اس کی سوئی اٹک کر رہ گئی ہو۔ اس نے ان گنت بار اس مصرعے کو دہرایا بالآخر بھٹو صاحب نے کہا: ''جالب! یہاں سبھی وڈیرے بیٹھے ہیں، انہیں کیوں ڈراتے ہو؟‘‘
جالب نے کہا: ''بھٹو صاحب! یہ آپ کی تقریر تو ہے نہیں جو لاہور میں اور ہو جاتی ہے اور کراچی میں اور...یہ میری نظم ہے، یہ 70 کلفٹن میں بھی وہی رہے گی اور نشتر پارک میں بھی وہی! میں اس کے الفاظ نہیں بدل سکتا‘‘۔ 
...اور ذرا تاریخ کی یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ فرماتے چلیے کہ جالب 1970ء کے انتخابات میں ایک آزاد اُمیدوار کے طور پر کھڑا ہو گیا مگر جالب کے باغیانہ نغمے گنگناتی پیپلز پارٹی نے اس کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کر کے اُسے ہروا دیا۔ بھٹو صاحب جانتے تھے کہ وہ نہ کبھی دبے گا نہ جھکے گا اور نہ بِکے گا۔ گویا پاکستان کے سیاسی کلچر میں جالب جیسے لوگوں کے لیے کبھی کوئی جگہ نہیں رہی۔ پنجابی کے شہرہ آفاق شاعر استاد دامنؔ نے ایک بار کہا تھا:''اگر تم میرا اردو کلام پڑھنا چاہو تو جالب کو پڑھ لو‘‘۔ 
جالب غزل کا بھی بہت خوبصورت شاعر تھا۔ اُس کی غزلیات اس کی نغزگوئی کی شاہد ہیں ؎ 
وہ جو ابھی اس راہگزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اُس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں
(یہ کالم حبیب جالب کی برسی کے موقع پر لکھا گیا)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں