نیب کے سوالات, قمرالسلام کے جوابات
نیب نے صاف پانی سکینڈل میں قمرالسلام سے کیا پوچھا ؟ انھو ں نے کیا جواب دیا ،اسکی تفصیلات حاصل کرلی گئی ہیں۔
( اجمل جامی ) صاف پانی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں آپ کیسے آئے ؟ مجھے اس کی اصل وجہ تو نہیں معلوم البتہ میرا خیال ہے کہ سول انجئینر ہونے کی وجہ سے مجھے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر بنایا گیا۔ صاف پانی کمپنی کیسے عمل میں آئی؟ اس کمپنی کا بنیادی مقصد کیا تھا؟ میں اس عمل کا حصہ نہیں رہا، نہ ہی میں کسی ایسی مشاورتی اجلاس کارکن رہا جہاں اس کمپنی کے قیام بارے صلاح مشورہ ہوا، لہٰذا کمپنی کے قیام کا کیا مقصد تھا، میں اس بارے کچھ نہیں جانتا۔ البتہ بورڈ آف ڈائریکٹر کا ممبر ہونے کے ناطے مجھے اندازہ ہوا کہ کہ اس کمپنی کا مقصد پنجاب کے عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا تھا۔ پانی کی فراہمی کیلئے پہلے سے موجود پبلک ہیلتھ انجئیرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ہوتے ہوئے اس کمپنی کے قیام کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ چونکہ مجھے کمپنی کے قیام کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹر کا رکن بنایا گیا لہذا مجھے اس بابت بھی کوئی علم نہیں کہ کیوں پہلے سے موجود ادارے کے باوجود یہ کمپنی بنائی گئی۔ لیکن ایک عام تاثر یہ ہے کہ کہ چونکہ مذکورہ ادارہ اس سلسلے میں موثر کارکردگی نہ دکھا سکا لہذا ایسی کمپنی کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔ کمپنی کے سی ای او کی تقرری کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کیا طریقہ کار اختیار کیا ؟ جب میں نے بورڈ کی پہلی میٹنگ اٹینڈ کی تو فراصت اقبال پہلے ہی سے کمپنی کے سی ای او تھے ۔ شاید انکا یہاں تبادلہ کچھ عرصہ پہلے ہی ہو چکا تھا کیونکہ وہ ایک سرکاری ملازم تھے ۔ لیکن ان کی تقرری ایک مسابقتی عمل کے ذریعے ہوئی۔ اس سلسلے میں اخبار میں اشتہار شائع ہوا، کمپنی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ نے انٹرویوز کئے اور پھر ستمبر دو ہزار چودہ میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کی منظوری سے سی ای او کا تقرر کیا۔ ایک ارب پندرہ کروڑ کا منصوبہ کیسے محض پائلٹ منصوبہ قرار دیا جاسکتا ہے ؟ ایک ارب ایک خطیر رقم ہے ، میرے خیال میں پائلٹ پراجیکٹ محض ایک اصطلاح ہے ۔ پلانٹس کی تنصیب کیلئے بولی کی دستاویزات ابتدائی طور پر کوالیفائی کرنے والے کنڑیکٹرز کو پروکیورمنٹ کمیٹی کی حتمی منظوری سے پہلے ہی اٹھارہ مارچ دو ہزار پندرہ کو کیوں فراہم کر دئیے گئے ؟ حالانکہ یہ منظوری تین اپریل دو ہزار پندرہ کو ہوئی؟ یہ ایک انتظامی عمل تھا، بورڈ ممبر ز کے پاس صرف وہی معلومات تھیں جو میٹنگ ایجنڈہ میں فراہم کی جاتی تھیں۔ اس بارے قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ کیا یہ ایک انتظامی سطح کی ناکامی تھی یا اس میں کوئی بددیاتنی کا عنصر کارفرما تھا۔ پلانٹس کی تنصیب کیلئے بولی کی دستاویزات بورڈ آف ڈائریکٹرز سے کیوں نہ منظور کرائی گئیں؟ میری دانست میں بورڈ صرف اسی مدعے کو منظور یا نا منظور یا اس پر بحث کر سکتا ہے جو اسے فراہم کیا جاتا ہے ۔ اس سلسلے میں ایجنڈا کمپنی مینجمنٹ طے کرتی تھی۔ ریکارڈ کو دیکھ کر اس بارے کچھ شواہد اکٹھے کئے جا سکتے ہیں۔ بورڈ نے اپنی تیروہویں میٹنگ میں کویں کے ایس بی پمپس نامی کمپنی کو ایک ارب چودہ کروڑ کی بجائے ننانوے کروڑ کا ٹھیکہ دینے کی منظوری دی؟ جبکہ پنجاب پروکیورمنٹ قوانین میں واضح لکھا ہے کہ پروکیورمنٹ کمیٹی کسی بھی بولی لگانے والی کمپنی سے کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی۔ کمپنی کے سی ای او کی دانست میں انہوں نے اس عمل میں بچت کی ہے ، اور اس بابت کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ سوال: منصوبے کی انجئینرنگ لاگت بارے تخمینے کی منظوری پروکیورمنٹ کمیٹی سے کیوں نہ لی گئی؟ آپ کی جانب سے بلائی گئی پروکیورمنٹ کمیٹی کے اجلاسوں میں اس بارے کیوں نہ مشاورت کی گئی؟ نیز ٹینڈر کا اشتہار انجنئرنگ تخمینے کی منظوری سے پہلے ہی کیوں مشتہر کیا گیا۔۔؟ انجیئرنگ کا تخمینہ پروکیورمنٹ کمیٹی یا بورڈ آف ڈائریکٹرز کے سامنے کبھی بھی پیش نہ کیا گیا۔ میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا کہ کہ تخمینہ ننانوے کروڑ تک کا ہے اور یہ بات میٹنگ منٹس کا حصہ ہے ۔ یہ تخمینہ خاصا تکنیکی ہوتا ہے اور یہ عمل بوڑد ممبر کی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ کمپنی کو اپنی ٹیکنیکل ٹیم پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ اس سارے عمل میں کمیٹی کو کمپنی انتظامیہ کی جانب سے فراہم کردہ معلومات پر ہی انحصار کرنا پڑا۔ ننانوے کروڑ سے زائد کا انجیئرنگ تخمیہ سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی سے منظور کیوں نہ کرایا گیا؟ مجھے سینٹرل ورکنگ پارٹی کے بارے آگاہی نہیں۔ لیکن مجھے اس منصوبے کے پی سی ون اور پی سی ٹو کے عمل بارے معلومات ضرور حاصل تھیں۔ میں نے اس بابت استفسار کیا تھا جس پر مجھے فنانس ڈیپارٹمنٹ کا ایک نوٹیفکیشن دکھایا گیا جس میں کہا گیا تھا کہ کمپنیاں سینٹرل ورکنگ پارٹی کے تابع نہیں ہیں۔ یہ نوٹیفکیشن کمپنی کے سی ای او نے دکھایا تھا۔ صاف پانی کیلئے بوڑد نے چوراسی کی بجائے ایک سو دو پلانٹس کی منظوری کیوں دی؟ انتظامیہ کے مطابق اس عمل میں بیس فیصد رعایت حاصل تھی اور اعلی افسران سمجھتے تھے کہ ان پلانٹس کی مزید ضرورت بھی ہو سکتی ہے لہذا رعایت سے مستفید ہونا چاہیے ۔ بورڈ کی چھبیسویں میٹنگ میں پنجاب صاف پانی کمپنی کو دو حصوں میں کیوں تقسیم کر دیا گیا تھا؟ میٹنگ منٹس دستیاب ہیں اور ان کے مطابق صاف پانی کے منصوبے کو مزید تیز کرنے کے لئے حکومت نے کمپنی کو دو حصوں یعنی شمالی اور جنوبی کے نام سے تقسیم کیا۔ انجیئنر قمر السلام سے پوچھے گئے کل تینتس سوالات اور ان کے جوابات پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹوز اور دیگر اعلی افسران کئی معاملات میں بورڈ ممبرز سے مشاورت نہیں کیا کرتے تھے ، اور اہم فیصلوں بارے بورڈ کو محض آگاہ کر دینے کے بعد آگے چل دیتے تھے ۔ صاف پانی کمپنی اسکینڈل میں چیف سیکرٹری پنجاب خود چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے اعتراف کر چکے ہیں کہ ا س منصوبے میں اب تک چار ارب روپے ضائع ہوئے ہیں اور بدلے میں ایک بوند صاف پانی بھی عوام کو فراہم نہ کی جاسکی۔