انگریزوں کی لکھی کتب

انگریزوں کی لکھی کتب

اسپیشل فیچر

تحریر : عامر ریاض


تیری تریخ تے نہیں عتبار مینوںاس تحریر کی چھوٹی سرخی کو محترم صوفی تبسم کے اس مشہور اور لازوال پنجابی میں ترجمہ کی گئی غالب کی غزل سے چرایا گیا ہے کہ اس کا مقصد آج آپ سب سے ایک مشترکہ دکھ سانجھا کرنا ہے۔ اس ’’دکھ‘‘ میں اصل کمال بلکہ جمال اس ’’آدھے سچ‘‘ کا ہے جس کے اسیر ہم سبھی ہیں۔ ویسے آپ نے ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ والا محاورہ تو سنا ہی ہو گا۔ بس ’’آدھے سچ‘‘ کے خطرناک اثرات کے بارے میںاس محاورے سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ’’آدھا سچ‘‘ ہے بدیسی لوگوں کی ہمارے خطوں، زبانوں، بادشاہتوں اور جنگوں کے بارے میں لکھی گئی کتب، جنہیں ہم اکثر اوقات صحیفوں سے بھی بڑا درجہ دے دیتے ہیں۔ کبھی انہوںنے سیاحت نامے لکھوائے تو کبھی سفرنامے، پھر گیزیٹیئر لکھوائے اور جانے کیا کیا کچھ۔ رپورٹوں کا تو شمار ہی نہیں کہ ایسا بھنڈار ہے کہ عمر اسی دشت میں گذر جائے۔ بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ دل واقعی داد دینے کو چاہتا ہے کہ ظالم لکھاری نے چپہ چپہ کے بارے میںمفصل لکھ ڈالا۔ ان تمام تر تحریروں کے لکھنے والوں میں پادری، سیاح، ماہر شماریات، ماہر عمرانیات، ماہر نباتات وغیرہ وغیرہ شامل تھے مگر ان سب کے پاس نقشہ سازی کا اضافی علم ضرور ہوتا تھا جو مقصد اولیٰ کی طرف واضح اشارے کرتا ہے۔ اپنے ندیم عمر تارڑ نے تو آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مقالہ بھی اسی گیزیٹیئر نما معلومات کا پردہ چاک کرنے کے حوالے سے لکھا ہے۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اس میں ’’سازش‘‘ کا عنصر حاوی نہیں تھا تو بھی اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان تحریروں میں سلطنت برطانیہ کے مفادات کی نگہبانی و پھیلائو کو لازمی مدنظر رکھا گیا تھا۔ ذاتوں برادریوں کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں درج ہیں کہ عام آرائیں، کشمیری، جٹ، راجپوت بھی ان کے غلط ہونے کے بارے میں نشان دہی کر سکتا ہے۔ ہمارے خطہ کے حوالے سے انگریزوں سے پہلے کی تاریخ کو انہوں نے ہندو اور مسلم ادوار میں تقسیم کر دیا کہ یہ تقسیم آپ کو انگریزوں سے پہلے لکھی گئی کتب یعنی البیرونی، فرشتہ، چچ نامہ، فتوح البلدان وغیرہ میں نظر ہی نہ آئے گی۔ مگر کمال ہوشیاری سے خود اپنے دور (انگریزوں کے عہد) کو مسیحی دور نہیں کہا۔ اب پرانے بادشاہ تو اول و آخر بادشاہ ہی تھے کہ ان کی مخالفت مسلمان کرتا یا ہندو وہ تخت دار ہی پر کھینچا جاتا۔ کتنی ہی مثالیں ہیں کہ دفتر سجایا جا سکتا ہے۔ وسط ایشیا و ایران سے آنے والوں کو ’’مسلم حملہ آور‘‘ لکھا گیا جبکہ یہ بھول گئے کہ اگر کوئی بنگال، مہاراشٹر وغیرہ سے لاہور یا دلی پر قبضہ کرلے (1750 کی دہائی میں لاہور پرمرہٹے قابض ہوئے تھے) تو اسے پھر ’’دیسی حملہ آور‘‘ کہا جائے گا؟ دلچسپ تضاد یہ ہے کہ سکندراعظم سے لے کرخود یعنی انگریزوں تک یورپ سے جو قابضین وارد ہوئے ان کے لیے ’’حملہ آور‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا ’’منع‘‘ تھا۔ انگریز لکھاری یہ بھی یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ پانچویں، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں صدیوں میں یہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہی نہیں تھی بلکہ بادشاہوں و راجوں نے بھی بدھ مذہب کو اپنایا تھا۔ مگر انہوں نے ان سب کو ہندوئوں کے کھاتے ڈال کر مسلمانوں سے پہلے کے عہد کو ہندو دور لکھ ڈالا۔ اس طرح انگریزوں سے قبل ہمارے ہاں زیادہ تر تجارت دریائی راستوں سے ہوتی تھی اس کے بارے میں کیونکہ انگریز لکھاریوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دیں اس لیے ہم نے بھی اس حوالے سے زیادہ غور نہیں کیا۔ اب ہمارے خطہ کا حال تو اور بھی زیادہ دگرگوں ہے کہ 1849 کے بعد انگریزوں کی پالیسی کا محور پنجاب، کشمیر، قبائلی علاقہ جات اور ہزارہ پختونخواہ کے علاقے ہی رہے۔ انہوں نے سکھوں، مسلمانوں اور ہندوئوں کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں کو بھی تفاخر و تعصب کی خوب ’’گوند‘‘ لگائی۔ اب ہم ایک دوسرے کے خلاف یا اپنی اپنی قوم پرستی کی تسکین کے لیے انگریزوں کی پھیلائی ہوئی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے خوب لڑتے ہیں۔ بھارت میں ’’سبالٹرن مطالعے‘‘ کے نام سے کچھ دانشور ضرور اٹھے تھے جنہوں نے انگریزی تاریخ کو چیلنج کرنا شروع کیا تھا مگر ان میں دو مسائل ایسے تھے کہ یہ تحریک پھل پھول نہ سکی۔ ایک تو وہ کانگرسی قوم پرستی کو بوجوہ چیلنج نہ کر سکے کہ بھارتی قوم پرستی سے خود کو الگ کرنا ان کے لیے مشکل امر تھا۔ دوسرا ان میں کوئی ہمارے خطوں کا نہیں تھا اس لیے وہ ہماری تاریخ کے حوالے سے بھی رواجی باتیں ہی کرنے پر مجبور تھے۔ اب ذرا بتائیں کہ پنجاب، کشمیر، قبائلی علاقہ جات اور ہزارہ پختونخواہ کے علاقوں میں تو مسلمان اکثریت میں تھے۔ اگر مہاراجہ رنجیت سنگھ ’’مسلم دشمن‘‘ ہوتا تو وہ چار سال بھی حکومت نہ کر سکتا۔ ’’لہور دربار‘‘ کے تو توپ خانہ کا انچارج میاں غوثا تھے۔ اس کے علاوہ فقیر خاندان کے پاس دو اہم ترین وزارتیں تھیں۔ مگر تاریخ ایسے رقم کروائی گئی کہ اس سے ایک طرف سکھوں اور مسلمانوں جبکہ دوسری طرف کشمیریوں، پنجابیوں اور پٹھانوں میں اختلاف کو ابھارا جائے۔ یاد رہے، انگریزوں کی لکھائی گئی کتب کے مصنف محض ’’گورے‘‘ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے دیسی بھی اس کام پر معمور رہے تھے۔ ان کتب میں ’’آدھا سچ‘‘ دیا گیا ہے مگر اس کے بارے میں دوبارہ سے غور کرنے کے لیے ہمارے یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور دانشوروں کو ازسرنوتاریخ لکھوانے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔٭٭٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
راکاپوشی:خوبصورتی میں بے مثال

راکاپوشی:خوبصورتی میں بے مثال

نگر قرار کے سینے میں آباد پاکستان کا وہ علاقہ جسے قدرت نے عجائبات و مناظر کا ایک اچھوتاامتزاج عطا کیا ہے۔بلند و بالا برف پوش چوٹیاں، شفاف پانی کی ندیاں، اپنی نوعیت کے منفرد ترین گلیشیئر، گھنے جنگلات، سبزہ زار اور آبشاریں، یہ تمام اجزاء جو کسی بھی خواب ناک خوب صورتی کی عکاسی کر سکتے ہیں نگر کو عطا ہوئے ہیں۔ انہی علامات حسن میں اپنی خوبصورتی میں بے مثال پہاڑی چوٹی جسے دنیا کی خوب صورت ترین چوٹیوں میں شمار کیا جاتا ہے''راکاپوشی‘‘ ہے۔راکا پوشی کی بلندی سات ہزار سات سو اٹھاسی میٹر (25550فٹ) ہے اور یہ پاکستان میں واقع بلند ترین چوٹیوں میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ گو دنیا میں اس سے بلند چوٹیوں کی تعداد چھبیس ہے لیکن اسے یہ انفرادیت حاصل ہے کہ گلمت(شاہراہ) قراقرم، نگر) کے مقام سے اسے دیکھا جائے تو یہ دنیاکی سب سے بلند غیر منقطع شدہ ڈھلوان ہے۔ اس مقام پر آب کی سطح سے لے کر راکاپوشی کی چوٹی تک ایک متواتر چڑھائی ہے جس کی اونچائی پانچ ہزار آٹھ سو اڑتیس میٹر ہے، جبکہ گلمت ہی سے اس کی چوٹی تک کا فاصلہ گیارہ کلو میٹر ہے۔ یہ وہ خصوصیت ہے جو دنیا کے کسی اور مقام کو حاصل نہیں۔ راکاپوشی پہاڑ کی چوڑائی بھی غیر معمولی ہے اور مشرقی سمت سے لے کر مغربی سمت تک اس کا عرض 20کلو میٹر تک ہے۔راکاپوشی تک جانے کے لئے گلگت پہلی منزل ہے۔ جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا صدر مقام ہے اور شمالی علاقہ جات کے اکثر علاقوں تک پہنچنے کیلئے نقطہ آغاز بھی۔ گلگت کا رقبہ 38021مربع کلو میٹر ہے۔ اور دنیا کے مشہور مقامات مثلاً شندور، یاسین، غذر، اشکومن، نلتر، استور، ہنزہ اور نگر وغیرہ کے مشہور علاقے گلگت میں ہی واقع ہیں۔ گلگت کے شمالی مغرب میں داخان جو کہ افغانستان کی ایک باریک پٹی ہے جس کی دوسری طرف تاجکستان واقع ہے۔ شمال اور شمال مشرقی اطراف میں چین کا صوبہ سنکیانگ ، شمالی مشرق میں مقبوضہ کشمیر اور شمال میں آزاد کشمیر واقع ہیں۔ گلگت میں زیادہ بولی جانے والی زبان شنیا ہے جبکہ بروشسکی زبان ہنزہ، نگر، واخی اور خواڑی زبانیں بھی گلگت کے اکثر علاقوں میں بھی بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیوں میں شمار کی جانے والی راکا پوشی کی بلندی 7ہزار788میٹر ہےگلگت سے مختلف گاڑیاں نگر اور ہنزہ کیلئے ہر وقت دستیاب ہیں اور علی آباد تک پہنچاتی ہیں۔ علی آباد ہنزہ اور نگر دونوں علاقوں کیلئے آسان اور عین شاہراہ قراقرم پر واقع مقام ہے لیکن راکاپوشی تک پہنچنے کا راستہ علی آباد سے پہلے ہی ایک گائوں پسن سے ہے۔ اگرچہ راکاپوشی جو کہ پہاڑی چوٹیوں کا ایک سلسلہ بھی ہے، کئی راستوں سے سیاحوں کی پہنچ میں ہے لیکن سب سے مشہور اور خوبصورت راستہ پسن اور مناپن گائوں سے ہی گزرتا ہے۔ سیاحت کا موسم دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو جاتا ہے لیکن جون سے پہلے زیادہ بلند علاقوں میں برف مکمل طور پر نہیں پگھلی ہوتی اور بعض جگہوں پر سفر میں مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔خوراک اور دیگر ضروری سامان گلگت، ہنزہ اور نگر کے بازاروں میں عام طور پر دستیاب ہے جبکہ پسنداور مناپن وغیرہ سے آٹا، دال، چاول اور بنیادی خوراک کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔ مناسب ترین طریقہ مکمل تیاری اور منصوبہ بندی کے ساتھ تمام ضروری سامان اپنے ساتھ لانا ہی ہے جو کہ دوران سفر غیر ضروری وزن، وقت اور اخراجات میں معاون ثابت ہوگا۔ اس سفر میں تیز رفتار و پرشور دریائے مناپن ماخذ مناپن گلیشیئر تک چلتا ہے۔ دریائے مناپن میں برف کے چھوٹے بڑے ٹکڑے بھی گلیشیئر سے پانی کے ساتھ آتے ہیں اور گائوں کے بچے تواضع کے طور پر سیاحوں کو پیش کرتے ہیں۔دو سے تین گھنٹے کی مسافت کے بعد راستے میں پتھروں سے بنے چھوٹے چھوٹے مکانات نظر آتے ہیں جہاں مناپن گائوں سے گرمیوں کا موسم گزارنے والے چند خاندان آباد ہیں۔ یہ لوگ گرمیوں کے موسم میں گائوں کے پالتو جانوروں کی افزائش، خوراک اور ان سے حاصل کردہ دودھ سے مکھن، پنیر، گھی اور لسی وغیرہ تیار کرتے ہیں اور ٹھنڈی ندیوں کے ساتھ زمین میں گڑھے بنا کر محفوظ کرتے رہتے ہیں۔تمام سفر میں نہایت حسین اور دلچسپ مناظر ایک لمحہ کے لئے بھی سیاحوں کی توجہ کسی اور جانب منتقل نہیں ہونے دیتے۔ اسی راستے پر نہایت دل فریب مناظر آپ کو اپنے پاس بہت دیر تک رکنے پر مجبور کرتے ہیں اور طبیعت میں آسودگی و لطافت کا باعث بنتے ہیں۔ چند منٹ بعد ایک تنگ اور مشکل راستے سے گزرتے ہوئے سیاح اچانک ایک تاحد نگاہ وسیع عریض جنت نظیر سبزہ زار میں داخل ہو جاتے ہیں اورسکون کا احساس ماحول کی پرکیف فضا میں ڈھل کر آپ کے تمام وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ وسیع و عریض ڈھلوانی سبزہ زار جو کہ اپنی اونچائی کی سمت ایک گھنے جنگل سے شروع ہو کر گھاس اور پھولوں سے مزین، شفاف پانی کے ٹھنڈے چشموں سے آراستہ ایک بڑے رقبے کا احاطہ کرتے ہوئے گہرائی میں مناپن گلیشیئر کی سلیٹی مائل سطح پر ختم ہوتاہے۔ سیاح عموماً اس مقام پر جو کہ ہپاکن کہلاتا ہے کم از کم ایک دن ضرور قیام کرتے ہیں۔سیاحت کا موسم دیگر شمالی علاقہ جات کی طرح یہاں بھی مئی سے شروع ہو کر ستمبر کے آخر میں ختم ہو جاتا ہے 

’’AI‘‘ کا انقلاب اور غلط معلومات کا سیلاب

’’AI‘‘ کا انقلاب اور غلط معلومات کا سیلاب

مصنوعی ذہانت یعنی ''آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ (AI) کے فوائد کا کوئی شمار نہیں۔یہ کہنا غلط نہیں کہ اس ٹیکنالوجی نے دنیا کے سوچنے اور کام کرنے کے طریقوں کو تبدیل کر دیا ہے۔ AIہمارے سوشل میڈیا سے لے کر تعلیم حاصل کرنے اور پیشہ ورانہ امور میں اہم خدمات انجام دے رہی ہے۔ تاہم اس دنیا میں جہاں ہر تکنیک کے فوائد ہیں وہ کچھ منفی صورتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ AIبھی اس سے محفوظ نہیں۔ورلڈ اکنامک فورم نے اپنے سالانہ رسک سروے میں بتایا ہے کہ AI سے پھیلنے والی غلط معلومات کو آئندہ دو سالوں میں سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔اس سروے میں کہا گیا ہے کہ جب بھارت اور امریکہ کے انتخابات میں تقریباً دو ارب ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے لگیں گے(یہ سروے بھارت میں رواں سال ہونے والے انتخابات سے پہلے آیا تھا) تو اس وقت اے آئی کے ذریعے پھیلنے والی جھوٹی معلومات اور سماجی بدامنی کے مابین ایک ربط قائم ہو جائے گا۔ آئی ایم ایف نے بھی خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی کا یہ انقلاب عالمی سطح پر تقریباً 40 فیصد ملازمتوں کو متاثر کرے گا جبکہ ترقی یافتہ معیشتوں میں یہ تخمینہ 60 فیصد تک لگایا گیا ہے۔اگرچہ مصنوئی ذہانت سے ترقی پذیر معیشتوں کو فوری طور پر کم رکاوٹوں کا سامنا ہوگا، تاہم آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ ایسے ممالک کو بنیادی ڈھانچے اور ہنر مند افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کے فوائد سے محروم رہنے کا خدشہ ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا نے ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس کے آغاز میں کہا تھا کہ مصنوعی ذہانت ممکنہ طور پر مجموعی عدم مساوات کو مزید بگاڑ دے گا۔ یہ ایک پریشان کن رجحان ہے اور انہوں نے پالیسی سازوں کو خبردار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے سماجی تناؤ کو مزید بڑھنے سے روکنے کیلئے فعال طور پر کردار ادا کرنا چاہیے۔AI سے جڑے بڑے خدشات میں سے ایک اس ٹیکنالوجی سے نسبتاً کم قیمت پر اعلیٰ معیار کے ڈیپ فیک تیار کرنا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں اپنے ڈیٹا کے بارے میں شفاف نہیں جو کہ ان کے لینگوئج ماڈلز جیسا کہ چیٹ جی پی ٹی کو چلانے میں کام آتا ہے۔سٹینفورڈ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے پروفیسر جیمز لینڈے کے مطابق یہ ابھی تک واضح نہیں کہAI کیلئے استعمال کیا جانے والا سارا ڈیٹا کس کمپیوٹر پروگرامنگ لینگویج سے لیا گیا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں ڈیٹا بنیادی طور پر مغربی نقطہ نظر سے استعمال ہو رہا ہے۔ اس سارے ڈیٹا میں شامل ثقافتی اقدار دیگر ثقافتوں کیلئے مناسب نہیں ہیں اور یہ سامراجیت کی ایک نئی شکل ہے۔پروفیسر لینڈے کے مطابق اے آئی ماڈلز سے غلط معلومات، ڈیپ فیک اور امتیازی سلوک جیسے خطرات لاحق ہیں۔AI کی ان خامیوں کے باوجود یہ ٹیکنالوجی کی صنعت کیلئے ایک بڑی گیم چینجر ہے۔ فرانس کی ایک کمپنی کے سربراہ نائجل واز کا کہناہے کہ مصنوعی ذہانت کی بدولت سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ میں 30 سے 40 فیصد تک بہتری آئی ہے۔ماہرین مصنوعی ذہانت کے ایجوکیشن سیکٹر میں ممکنہ فوائد کو بھی اہم قرار دیتے ہیں۔ اس سے بالخصوص سکولوں تک محدود رسائی رکھنے والے بچوں کو ایک دن ذاتی اساتذہ کی دستیابی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ گلوبل پارٹنرشپ فار ایجوکیشن کی سی ای او لورا فریجنٹی کا کہنا ہے اس وقت تقریباً 220 ملین بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ترقی یافتہ ممالک میں چوتھی جماعت کے ہر دس میں سے سات بچے ایک سادہ جملہ نہیں پڑھ سکتے اور نہ ہی ایک سادہ پیراگراف لکھ سکتے ہیں۔تاہم AI نے اساتذہ کو مستقبل کیلئے سیکھنے والوں کو تیار کرنے کیلئے ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔جنوبی کوریا کی وزارت تعلیم 2025ء سے شروع ہونے والے پرائمری اور سیکنڈری سکولوں میں AI سے چلنے والی ڈیجیٹل نصابی کتابیں متعارف کرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یہ تعلیمی عدم مساوات کے ساتھ ساتھ نجی تعلیم پر انحصار اور ملک کے انتہائی مسابقتی تعلیمی کلچر کو دور کرنے کی کوشش ہے کیونکہ AI میں انفرادی طلباکی صلاحیت کا اندازہ لگانے اور پھر ان کے سیکھنے کیلئے مواد کو اپنی مرضی کے مطابق بنانے کی صلاحیت ہے۔مساوی تعلیمی ماحول کی تشکیل متحدہ عرب امارات کی وزارت تعلیم کا بھی مطمح نظر ہے۔متحدہ عرب امارات میں ایک پراجیکٹ جو اس سال کے آخر میں شروع ہونے والا ہے، کا مقصد طلباکی تعلیمی کارکردگی کو بڑھانا اور AI سے چلنے والی ذاتی نوعیت کی تعلیم کے ذریعے سوچنے کی تنقیدی صلاحیتوں کو بڑھانا ہے۔ اس پراجیکٹ میں ایک AI ٹیوٹر اسباق کو انفرادی طلبا کی ضروریات اور سیکھنے کے انداز کے مطابق تیار کرے گا، جس کی انہیں ضرورت کی سطح پر مدد ملے گی۔ایک امریکی یونیورسٹی میں ڈیجیٹل تبدیلی کے ماہر رامایا کرشنن کا کہنا ہے کہ مقامی لیبر مارکیٹوں کی نگرانی کے ذریعے ملازمتوں میں کمی کے خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے تاکہ مارکیٹ کی بدلتی ہوئی ضروریات کو تیزی سے شناخت کیا جا سکے۔ان کا ماننا ہے کہ غلط معلومات سے متعلق کمپنیاں صارفین کو بہتر طریقے سے مطلع کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل کی جانب سےAI سے بنائی گئی تصاویر کی شناخت کیلئے SynthID نامی ایک ٹول تیار کیا گیا ہے جس سے تصویر پر واٹر مارک آ جاتا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ تصویر AI کی مدد سے تخلیق کی گئی ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

چین میں تباہ کن زلزلہچین کے صوبہ سیچوان میں 12 مئی 2008ء کو چین کے معیاری وقت کے مطابق ایک بجکر 28منٹ پر ایک زلزلہ آیا۔ 8 شدت کے اس زلزلے سے 69ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ زلزلے کے جھٹکے بیجنگ اور شنگھائی (1500 اور 1700 کلومیٹر دور) تک محسوس کئے گئے۔ زلزلے کا مرکز صوبائی دارالحکومت چینگدو سے 80 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع تھا، جس کی گہرائی 19 کلومیٹر تھی۔ زلزلے نے فالٹ لائن کو 240 کلومیٹر سے زیادہ تک پھاڑ دیا، جس کی سطح کئی میٹر تک پھیل گئی۔ شدید آفٹر شاکس کئی مہینوں تک علاقے کو ہلاتے رہے۔لیبیا فضائی حادثہ افریقہ ایئر ویز کی فلائٹ 771 ایک طے شدہ بین الاقوامی مسافر پرواز تھی جو 12 مئی 2010ء کو طرابلس بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب گر کر تباہ ہو گئی۔ جہاز میں سوار 104 مسافروں اور عملے کے اراکین میں سے 103 افراد ہلاک ہو گئے۔ زندہ بچ جانے والا واحد 9 سالہ ڈچ لڑکا تھا۔ تحقیقاتی ٹیم کے مطابق حادثے کی وجوہات کا علم نہیں ہو سکا کیونکہ کسی تکنیکی خرابی کا کوئی ثبوت ملا تھا نہ ہی ایندھن کی کوئی کمی تھی۔ عملے کی طرف سے کسی تکنیکی یا طبی مسائل کی اطلاع نہیں دی گئی تھی اور انہوں نے کسی مدد کی درخواست بھی نہیں کی تھی۔فلورنس نائٹ اینگیل کا یوم پیدائشبرطانوی سماجی کارکن، شماریات دان اور جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ اینگیل 12 مئی 1820ء کو پیدا ہوئیں۔ کریمیا کی جنگ کے دوران زخمی برطانوی فوجیوں کو استنبول کے سلیمیہ چھاونی میں لایا گیا تو ان کی دیکھ بھال کرنے کی وجہ سے انہیں ''نائٹ اینگیل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔کریمین جنگ کے دوران نرسوں کی مینیجر اور ٹرینر کے طور پر خدمات انجام دیں۔انہوں نے حفظان صحت اور معیار زندگی کو بہتر بنا کر اموات کی شرح میں نمایاں کمی کی۔ جارج ششم اور ملکہ الزبتھ کی تاج پوشی12 مئی 1937ء کو برطانیہ کے بادشاہ اور ملکہ کی حیثیت سے جارج ششم اور ان کی اہلیہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی۔ جارج ششم اپنی 41ویں سالگرہ سے تین دن پہلے 11 دسمبر 1936ء کو اپنے بھائی ایڈورڈ ہشتم کے دستبردار ہونے پر تخت نشین ہوئے تھے۔ وہ اپنی وفات یعنی 6فروری 1952ء تک برطانیہ کے بادشاہ رہے۔ وہ 1936ء سے ہندوستان کے آخری شہنشاہ بھی رہے۔ برطانوی راج اگست 1947ء میں تحلیل ہو گیا تھا اور 1949ء کے لندن ڈیکلریشن کے بعد دولت مشترکہ کے پہلے سربراہ بھی تھے۔

گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

گیت، پانی اور سرمستی (تھائی لینڈ کا منفرد تہوار)

تھائی لینڈ کی سرزمین ایک ایسی جادو کی نگری ہے جو اپنی ثقافت، تہذیب اور خوبصورتی میں قدرت کی فیاضی سے مالا مال ہے۔ ندیوں، دریائوں اور سمندر میں گھرا یہ ملک اپنے اندر جنگلوں کی صورت میں سبزے کے کئی قطعات رکھتا ہے، جہاں ہر نسل کے جنگلی حیوانات پائے جاتے ہیں۔ اپنی روایات کے حوالے سے بھی تھائی لینڈ منفرد ہے، یہاں کے لوگ زندہ دل اور ہنس مکھ ہیں۔ وہ اپنے سال نو کا آغاز اپریل، مئی کے درمیان کرتے ہیں اور اس کو ایک انوکھے انداز سے مناتے ہیں۔ تمام لوگ نئے کپڑے پہنے مقامی مندروں کا رخ کرتے ہیں اور مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد اپنے بڑوں سے مل کر ان کی دعائیں حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بعدتمام نوجوان اپنا رخ گلیوں اور سڑکوں کی جانب موڑتے ہیں، جہاں وہ دنیا کی سب سے بڑی پانی کی لڑائی میں حصہ لیتے ہیں۔ اس رسم کو ''سونگ کران‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان دنوں میں لوگ گاڑیوں پر سوار یا پیدل چلتے ہوئے بھی ایک دوسرے پر پانی کی برسات کرتے نظر آتے ہیں۔ اس دن کوئی شخص گیلا ہوئے بغیر گھر واپس نہیں آ سکتا۔ بڑوں پر پانی پھینکنے کیلئے ان سے پہلے اجازت طلب کی جاتی ہے اور پھر ان کو بھی پانی میں نہلا دیا جاتا ہے۔چھوٹے بچے اپنی رنگ برنگی پانی کی بندوقیں پکڑے ہوئے ایک دوسرے پر پانی برساتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کئی جگہ پر ہاتھی بھی اپنی سونڈ کے ذریعے پانی کی بوچھاڑ سے گزرنے والوں کو گیلا کر رہے ہوتے ہیں۔ہر طرف خوشی اور شادمانی کی ایک کیفیت ہوتی ہے جو ہر بشر کے چہرے پر نظر آتی ہے، ایک طمانیت اور سرخوشی کے عالم میں منایا جانے والا یہ میلہ لوگوں کو ان کی روز مرہ زندگی کے مسائل سے دور لے جاتا ہے اور ایک دوسرے کے قریب لا کر برداشت اور محبت کا مادہ پیدا کرتا ہے۔ برف ملا پانی جب کسی پر پھینکا جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کے چہرے پر سفید رنگ کا ایک پائوڈر بھی مل دیا جاتا ہے، نعروں اور چیخوں کے ساتھ سال نو کی مبارک باد دی جاتی ہے۔ گلیوں اور چوکوں پر کھانے پینے کا وافر انتظام ہوتا ہے جبکہ رات ہوتے ہی مشعل بردار جلوس گلیوں کا رخ کرتا ہے، جس کے ساتھ لوگوں کی ایک بڑی تعداد گانے بجاتے شامل ہوتی چلی جاتی ہے۔ ہر برس سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہ میلہ دیکھنے کیلئے تھائی لینڈ کا رخ کرتی ہے اور خوشی و شادمانی کے اس تہوار سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ 

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

روشنی کی کہکشاں اور موسیقی (گلاسٹون بری فیسٹیول)

''گلاسٹون بری فیسٹیول‘‘ برطانیہ کا ایک اہم پرفارمنگ آرٹس میلہ ہے جس میں پیش کئے جانے والے گانے، رقص، کامیڈی، تھیڑاور سرکس اس کی مقبولیت کا باعث ہیں۔ ہر برس جون کے آخری ویک اینڈ پر پانچ روز کیلئے منعقد ہونے والا یہ میلہ برطانیہ کی معیشت کو سالانہ سوملین پائونڈ کا فائدہ پہنچاتا ہے۔ گزشتہ برس پیش کئے جانے والے اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ اسی ہزار افراد کا اجتماع دیکھنے میں آیا جس میں پرفارمنگ آرٹس سے متعلق365ایونٹس پیش کئے گئے۔ اس میلے میں80اسٹیج تیار کئے گئے تھے تاکہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد بیک وقت منعقد ہونے والے پروگرامز کا مزا اٹھا سکے۔ اس میلے میں سب سے زیادہ انتظار میوزک کنسرٹس کا ہوتا ہے اور گزشتہ برس یوٹو، کولڈ، پلے، بیونسے اور بی بی کنگ جیسے سپر اسٹارز کی پرفارمنس موسیقی کے شعبے میں رکھی گئی تھیں۔ خوبصورتی سے سجائے گئے اسٹیج پر روشنیوں کی کہکشاں میں جب موسیقاروں نے اپنے ساز چھیڑے اور گلوکاروں نے اپنے فن کا سحر بکھیرا تو شائقین فرط مسرت سے ان کے ساتھ جھومنے اور ناچنے لگے۔ میڈیا نے ان کنسرٹس کو ٹی وی چینلز پر براہ راست پیش کیا، جن کو گھر بیٹھے کروڑوں شائقین نے بھی دیکھا۔موسیقی کے علاوہ گلاسٹون بری فیسٹول میں رقص بھی شامل تھا جو لوگوں کی بھرپور توجہ کا مرکز بنا۔ اس میلہ میں باقاعدہ مقابلوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں پروفیشنل ڈانسرز کے علاوہ عام لوگوں نے بھی حصہ لیا۔ اس میلے کی مقبولیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب گزشتہ برس اس کی ایک لاکھ اسی ہزار ٹکٹوں کی فروخت انٹرنیٹ کے ذریعے شروع کی گئی تو محض تین گھنٹوں کے اندر یہ تمام ٹکٹس بک ہو چکی تھیں۔ پانچ دہائیوں سے منعقد ہونے والے اس میلے نے جس خوبی سے آرٹ کی خدمت کی ہے، اس کے معترف اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا بھر میں پرفارمنگ آرٹ کے شائقین بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گلاسٹون بری فیسٹیول کو دنیا کے مختلف ممالک میں بھی منعقد کیا جائے تاکہ اس سے زیادہ وہ لوگ فیض یاب ہو سکیں۔ 

قابلِ تجدید توانائی   عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی عالمی مستقبل کی ضامن

قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع ہم مستقبل کو محفوظ بنا سکتے ہیں، توانائی کی کمی کو دور کر سکتے ہیں ، توانائی کی قیمتیں مستحکم رکھ سکتے ہیں اور توانائی کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔قابل تجدید توانائی کا سب سے اہم فائدہ ماحولیات پر اُن منفی اثرات سے بچاؤ ہے جو توانائی کے دیگر وسائل خاص طور پر فوسل فیول سے توانائی کی پیداوار سے ماحول پر مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم توانائی کے قابل تجدید وسائل کیلئے حکومتوں اور سوسائٹی کا تعاون بے حد اہم ہے، جیسا کہ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو نے کہا ہے کہ اگر حکومتوں کا تعاون حاصل ہو تو قابل تجدید توانائی کے سستے اور ماحول دوست ذرائع تک عام اور مساوی رسائی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔ قابل تجدید توانائی سے مراد ایسی توانائی ہے جس کو استعمال کرنے سے اس میں ہونے والی کمی متواتر پوری ہوتی رہے۔ مثال کے طور پر شمسی، ہوائی اور پن بجلی۔یہ سستی، قابل بھروسا، پائیدار اور توانائی کے جدید وسائل تمام لوگوں کیلئے رسائی یقینی بناتے ہیں اور اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ساتواں ہدف بھی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے مطابق حکومتوں کو توانائی کے قابل تجدید ذرائع کی جانب منتقلی کی جانب راغب کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں لیکن حکومتیں اس معاملے میں عزائم اور دعوؤں کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی بہت پیچھے ہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ بین الاقوامی تعاون کا کوئی طریقہ کار اختیار کیا جائے۔ گزشتہ سال COP28میں شریک ممالک نے اس حوالے سے ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا جس کا توانائی تک رسائی، اس کے تحفظ اور توانائی کے ماحول دوست ذرائع کی ترقی کے لیے سٹریٹیجک حل ڈھونڈنا تھا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ بین الاقوامی سطح پر اس حوالے سے منظرنامہ تبدیل کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں بہت سے ممالک خود منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور دیگر ممالک کو بھی قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو تیزی سے ترقی دینے کے منصوبوں کی تیاری میں مدد فراہم کر رہے ہیں‘ اس طرح باہم مل کر قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے بین الاقوامی تعاون کا ایک نیا طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں۔ قابل تجدید توانائی کیلئے بین الاقوامی ادارے (IRENA) کے ڈائریکٹر جنرل فرانسسکو لا کیمیرا کے مطابق ترقی یافتہ دنیا کو نظام تبدیل کرنا ہو گا تاہم ترقی پذیر ممالک بھی اس معاملے میں بڑا قدم اٹھا سکتے ہیں اور توانائی کے نئے نظام کی جانب پیشرفت کر سکتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے پاس توانائی کے شعبے میں تبدیلیاں لانے کیلئے درکار ذرائع اور مالی وسائل موجود ہیں لیکن ترقی پذیر دنیا کو کئی طرح سے مدد کی ضرورت ہے۔ ان ممالک کو اپنے تجربات، مالی وسائل اور ٹیکنالوجی کے تبادلے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں تبدیلی کی رفتار تیز کرنے میں حائل رکاوٹوں پر بھی قابو پانا ہو گا۔ ماہرین کے مطابق افریقہ غالباً دنیا میں قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست ہائیڈروجن (صاف اور قابل تجدید توانائی کی حامل) کی پیداوار کے اعتبار سے اہم ترین خطہ ہے تاہم اس کے پاس اپنی اس صلاحیت سے اپنے لوگوں اور دنیا بھر کو فائدہ پہنچانے کیلئے درکار بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے جبکہ بندرگاہوں، پائپ لائنوں اور شہری بنیادی ڈھانچے کا اس میں فیصلہ کن اور اہم کردار ہوتا ہے۔ ایشیائی ممالک بھی اس میں قابل ذکر ہیں جہاں سورج کی روشنی اور دریاؤں کا پانی ایسے وسائل ہیں کہ جو بہت سے ممالک کیلئے ضرورت کی توانائی پیدا کرنے کیلئے کافی ہیں، تاہم وسائل تک رسائی میں رکاوٹوں کی وجہ سے ان وسائل سے استفادہ نہیں کیا جارہا۔ پاکستان کی مثال ہی کافی ہونی چاہیے جہاں پچھلے کچھ سالو ں کے دوران شمسی توانائی کے وسائل تک نسبتاً آسان رسائی کی وجہ سے گھروں اور نجی و سرکاری عمارتوں میں شمسی توانائی کے حصول کا نظام نصب کرنے سے کافی بڑی تبدیلی آنا شروع ہوئی ہے۔ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کی رفتار تیز کرنے کیلئے ہمیں بعض بنیادی رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔ اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کی کمی پہلی رکاوٹ ہے۔جہاں ضرورت ہو وہاں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور پہلے سے موجود نظام کو جدت دینا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔اس حوالے سے موجودہ قانونی نظام کے معاملے میں بھی مسائل درپیش ہیں، چنانچہ ایسا نظر آنے لگا ہے کہ توانائی کی منڈی کی موجودہ شکل قابل تجدید توانائی کے لیے سازگار نہیں۔حال ہی میں پاکستان میں شمسی توانائی کے حوالے سے حکومتی سطح پر زیر بحث آنے والی نئی پالیسی اس کی ایک مثال ہے کہ اب بھی معدنی ایندھن کے منصوبوں کو بڑے پیمانے پر حمایت ملتی ہے، جس کا فوری خاتمہ ہونا چاہیے۔ علاوہ ازیں بجلی کی خریداری کے معاہدے اس طرح ترتیب دیے جاتے ہیں جس سے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ترقی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، مثال کے طور پر پاکستان میں کپیسٹی پیمنٹ ، جس نے شمسی توانائی کی حوصلہ شکنی کا جواز پید اکیا ہے۔مگرتوانائی کی قیمتوں کا یہ طریقہ کار قابل تجدید توانائی کے لیے ہر گز موزوں نہیں ہے کیونکہ اسے مہیا کردہ بجلی اور اس کی قیمت کے معاملے میں استحکام اور تحفظ کے حصول کے لیے طویل مدتی معاہدے درکار ہیں۔ ہمیں قابل تجدید توانائی کو ترقی دینے کے لیے باصلاحیت پیشہ ور افراد اور ہنرمند افرادی قوت کی بھی ضرورت ہے۔اگر ہم دبئی میں ہونے والی COP28 میں کیے گئے وعدوں کے مطابق معدنی ایندھن کا استعمال واقعتاً ترک کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تین رکاوٹوں پر قابو پانا ہو گا۔قابل تجدید توانائی کے حق میں ہمارے تمام فیصلوں کا مقصد توانائی کے معاملے میں مزید بہتر استعداد کا حصول ہونا چاہیے، لیکن اس حوالے سے ایسا قانونی ماحول سب سے زیادہ اہم ہے جہاں ہم محض اسے اخلاقی ذمہ داری قرار دے کر اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے بلکہ ضروری ہے کہ ہر کوئی یہ سمجھے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب مراجعت اس کی ذمہ داری ہے۔