انگریزوں کی لکھی کتب
تیری تریخ تے نہیں عتبار مینوںاس تحریر کی چھوٹی سرخی کو محترم صوفی تبسم کے اس مشہور اور لازوال پنجابی میں ترجمہ کی گئی غالب کی غزل سے چرایا گیا ہے کہ اس کا مقصد آج آپ سب سے ایک مشترکہ دکھ سانجھا کرنا ہے۔ اس ’’دکھ‘‘ میں اصل کمال بلکہ جمال اس ’’آدھے سچ‘‘ کا ہے جس کے اسیر ہم سبھی ہیں۔ ویسے آپ نے ’’نیم حکیم خطرہ جان‘‘ والا محاورہ تو سنا ہی ہو گا۔ بس ’’آدھے سچ‘‘ کے خطرناک اثرات کے بارے میںاس محاورے سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ’’آدھا سچ‘‘ ہے بدیسی لوگوں کی ہمارے خطوں، زبانوں، بادشاہتوں اور جنگوں کے بارے میں لکھی گئی کتب، جنہیں ہم اکثر اوقات صحیفوں سے بھی بڑا درجہ دے دیتے ہیں۔ کبھی انہوںنے سیاحت نامے لکھوائے تو کبھی سفرنامے، پھر گیزیٹیئر لکھوائے اور جانے کیا کیا کچھ۔ رپورٹوں کا تو شمار ہی نہیں کہ ایسا بھنڈار ہے کہ عمر اسی دشت میں گذر جائے۔ بعض تفصیلات ایسی ہیں کہ دل واقعی داد دینے کو چاہتا ہے کہ ظالم لکھاری نے چپہ چپہ کے بارے میںمفصل لکھ ڈالا۔ ان تمام تر تحریروں کے لکھنے والوں میں پادری، سیاح، ماہر شماریات، ماہر عمرانیات، ماہر نباتات وغیرہ وغیرہ شامل تھے مگر ان سب کے پاس نقشہ سازی کا اضافی علم ضرور ہوتا تھا جو مقصد اولیٰ کی طرف واضح اشارے کرتا ہے۔ اپنے ندیم عمر تارڑ نے تو آسٹریلیا سے پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مقالہ بھی اسی گیزیٹیئر نما معلومات کا پردہ چاک کرنے کے حوالے سے لکھا ہے۔ اگر یہ بات تسلیم بھی کر لی جائے کہ اس میں ’’سازش‘‘ کا عنصر حاوی نہیں تھا تو بھی اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ان تحریروں میں سلطنت برطانیہ کے مفادات کی نگہبانی و پھیلائو کو لازمی مدنظر رکھا گیا تھا۔ ذاتوں برادریوں کے حوالے سے ایسی ایسی باتیں درج ہیں کہ عام آرائیں، کشمیری، جٹ، راجپوت بھی ان کے غلط ہونے کے بارے میں نشان دہی کر سکتا ہے۔ ہمارے خطہ کے حوالے سے انگریزوں سے پہلے کی تاریخ کو انہوں نے ہندو اور مسلم ادوار میں تقسیم کر دیا کہ یہ تقسیم آپ کو انگریزوں سے پہلے لکھی گئی کتب یعنی البیرونی، فرشتہ، چچ نامہ، فتوح البلدان وغیرہ میں نظر ہی نہ آئے گی۔ مگر کمال ہوشیاری سے خود اپنے دور (انگریزوں کے عہد) کو مسیحی دور نہیں کہا۔ اب پرانے بادشاہ تو اول و آخر بادشاہ ہی تھے کہ ان کی مخالفت مسلمان کرتا یا ہندو وہ تخت دار ہی پر کھینچا جاتا۔ کتنی ہی مثالیں ہیں کہ دفتر سجایا جا سکتا ہے۔ وسط ایشیا و ایران سے آنے والوں کو ’’مسلم حملہ آور‘‘ لکھا گیا جبکہ یہ بھول گئے کہ اگر کوئی بنگال، مہاراشٹر وغیرہ سے لاہور یا دلی پر قبضہ کرلے (1750 کی دہائی میں لاہور پرمرہٹے قابض ہوئے تھے) تو اسے پھر ’’دیسی حملہ آور‘‘ کہا جائے گا؟ دلچسپ تضاد یہ ہے کہ سکندراعظم سے لے کرخود یعنی انگریزوں تک یورپ سے جو قابضین وارد ہوئے ان کے لیے ’’حملہ آور‘‘ کی اصطلاح استعمال کرنا ’’منع‘‘ تھا۔ انگریز لکھاری یہ بھی یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ پانچویں، چھٹی، ساتویں اور آٹھویں صدیوں میں یہاں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہی نہیں تھی بلکہ بادشاہوں و راجوں نے بھی بدھ مذہب کو اپنایا تھا۔ مگر انہوں نے ان سب کو ہندوئوں کے کھاتے ڈال کر مسلمانوں سے پہلے کے عہد کو ہندو دور لکھ ڈالا۔ اس طرح انگریزوں سے قبل ہمارے ہاں زیادہ تر تجارت دریائی راستوں سے ہوتی تھی اس کے بارے میں کیونکہ انگریز لکھاریوں نے زیادہ تفصیلات نہیں دیں اس لیے ہم نے بھی اس حوالے سے زیادہ غور نہیں کیا۔ اب ہمارے خطہ کا حال تو اور بھی زیادہ دگرگوں ہے کہ 1849 کے بعد انگریزوں کی پالیسی کا محور پنجاب، کشمیر، قبائلی علاقہ جات اور ہزارہ پختونخواہ کے علاقے ہی رہے۔ انہوں نے سکھوں، مسلمانوں اور ہندوئوں کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ پٹھانوں، پنجابیوں، بلوچوں کو بھی تفاخر و تعصب کی خوب ’’گوند‘‘ لگائی۔ اب ہم ایک دوسرے کے خلاف یا اپنی اپنی قوم پرستی کی تسکین کے لیے انگریزوں کی پھیلائی ہوئی معلومات پر انحصار کرتے ہوئے خوب لڑتے ہیں۔ بھارت میں ’’سبالٹرن مطالعے‘‘ کے نام سے کچھ دانشور ضرور اٹھے تھے جنہوں نے انگریزی تاریخ کو چیلنج کرنا شروع کیا تھا مگر ان میں دو مسائل ایسے تھے کہ یہ تحریک پھل پھول نہ سکی۔ ایک تو وہ کانگرسی قوم پرستی کو بوجوہ چیلنج نہ کر سکے کہ بھارتی قوم پرستی سے خود کو الگ کرنا ان کے لیے مشکل امر تھا۔ دوسرا ان میں کوئی ہمارے خطوں کا نہیں تھا اس لیے وہ ہماری تاریخ کے حوالے سے بھی رواجی باتیں ہی کرنے پر مجبور تھے۔ اب ذرا بتائیں کہ پنجاب، کشمیر، قبائلی علاقہ جات اور ہزارہ پختونخواہ کے علاقوں میں تو مسلمان اکثریت میں تھے۔ اگر مہاراجہ رنجیت سنگھ ’’مسلم دشمن‘‘ ہوتا تو وہ چار سال بھی حکومت نہ کر سکتا۔ ’’لہور دربار‘‘ کے تو توپ خانہ کا انچارج میاں غوثا تھے۔ اس کے علاوہ فقیر خاندان کے پاس دو اہم ترین وزارتیں تھیں۔ مگر تاریخ ایسے رقم کروائی گئی کہ اس سے ایک طرف سکھوں اور مسلمانوں جبکہ دوسری طرف کشمیریوں، پنجابیوں اور پٹھانوں میں اختلاف کو ابھارا جائے۔ یاد رہے، انگریزوں کی لکھائی گئی کتب کے مصنف محض ’’گورے‘‘ ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے دیسی بھی اس کام پر معمور رہے تھے۔ ان کتب میں ’’آدھا سچ‘‘ دیا گیا ہے مگر اس کے بارے میں دوبارہ سے غور کرنے کے لیے ہمارے یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں اور دانشوروں کو ازسرنوتاریخ لکھوانے کا بندوبست کرنا پڑے گا۔٭٭٭