کیا قائداعظم کے اجداد پنجابی تھے؟

کیا قائداعظم کے اجداد پنجابی تھے؟

اسپیشل فیچر

تحریر : عامر ریاض


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

1898 میں نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں پیدا ہونے والے’’ ہیکٹربولیتھو‘‘ کا شمار ان اولین سوانح نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح لکھی۔ یہ کتاب 1952 کے لگ بھگ حکومت پاکستان کی ایماء پر لکھوانی شروع کی گئی تھی۔یہ ابتدئی زمانہ تھا کہ ابھی تک ایسی بہت سی شخصیات زندہ تھیں جو براہ راست قائداعظم سے بارہا مل چکی تھیں تاہم ناظم الدین سرکار کی وجہ سے قائداعظم کے بہت سے درینہ ساتھی خصوصا محترمہ فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، میاں افتخارالدین، ممتاز دولتانہ، کھوڑو کو اس کاوش کے بارے میں بجا طور پر تحفظات تھے۔فاطمہ جناح کے پاس محفوظ قائداعظم کے کاغذات تک بوجوہ رسائی نہ ہونے کے باوجود زیرک بولیتھو نے بہت سے ایسے انگریزوں اور دیسی لوگوں سے براہ راست ملاقاتیں کیں جو قائداعظم سے مل چکے تھے۔ یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے جو بعدازاں قائداعظم کی سوانح لکھنے والوں کو بوجوہ نصیب نہ ہو سکی۔ 1954 میں کتاب چھپ گئی مگر اس کتاب کو اُردو میں ترجمہ ہوتے ہوتے گیارہ سال بیت گئے۔ یوں 1965 میں یہ کتاب اُردو میں چھپی۔ 2001 میں اُردو سائنس بورڈ نے اسے دوبارہ چھاپا مگر زہیرصدیقی کا ترجمہ ناقص ہی نہیں بلکہ اکثر جگہوں پر گمراہ کن بھی ہے۔ ایک مثال انگریزی لفظ Communal کی ہے جو انگریزی میں تو ’’گروہی‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں جب بھی برصغیر کی تاریخ میں لفظ Communal Politics استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہندو-مسلم، ہندو-سکھ سیاست وغیرہ ہی ہوتا ہے۔ یوں یہ اصطلاح بذات خود دو یا دو سے زائد مذاہب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے۔ تاہم لفظ Sectrarian فرقہ پرستی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس سے مراد ایک ہی مذہب کے مکاتب فکر یعنی فرقوں میں تعصبات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ اب اگر آپ Communal کا لفظی ترجمہ فرقہ وارانہ کر ڈالیں گے تو پھر وہی کنفیوژن پھیلے گی جس کا آج کل ہم عمومی طور پر شکار ہیں۔ اب قائداعظم کو بعض لکھاری (Muslim) Communal Leader لکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ (مسلم) گروہی سیاست کے علمبردار تھے۔ اب اگر اس کا آج یہ ترجمہ کر دیا جائے کہ قائداعظم فرقہ وارانہ سیاست کے علمبردار تھے تو معاملہ کنفیوژن کو بڑھائے گا۔ اصطلاحوں کو گڈمڈ کرنے کا کام اکثر ’’نظریاتی‘‘ ہرکارے سرانجام دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھارت کی چھپی کتب میں مذہبی گروہی سیاست اور فرقہ واریت کی اصطلاحیں گڈمڈ کی ہوئی ملتی ہیں۔کچھ ایسا ہی ترجمہ ہیکٹربولیتھو کی کتاب کا کیا گیا ہے اور اُسے اُردو سائنس بورڈ نے چھاپ بھی رکھا ہے جو سرکاری ادارہ ہے۔خیر کتاب کے حوالے سے جو بات آپ سے سانجھی کرنی ہے اس کا تعلق قائداعظم کے اجداد سے ہے۔ اُردو کی کتاب کے صفحہ 14اور انگریزی کی کتاب کے صفحہ 2 پر اس بارے لکھا ہے کہ اس کی راوی ’’فاطمہ بائی‘‘ ہیں جو رشتے میں قائداعظم کی بھابھی تھیں۔ ویسے یہی بات قائداعظم کے دیرینہ ساتھی نواب اسماعیل خان نے بھی اپنے اک انٹرویو میں بھی کہی تھی مگر اب ہیکٹربولیتھو نے اسے ایک اور مستند حوالہ سے لکھا ہے۔ بولیتھو نے خود فاطمہ بائی سے ملاقات کی تھی کہ اس میں ان کا بیٹا’’ محمد علی گانجی‘‘ بھی موجود تھا۔1884 میں جب فاطمہ بائی محمد علی جناح کے کراچی کے آبائی مکان میں آئیں تو وہ 16 سال کی دلہن تھیں۔ اس وقت محمد علی جناح کی عمر لگ بھگ سات سال ہو گی۔ جب بولیتھو ماں بیٹے کو ملنے گئے تو گانجی نے ماں کی الماری سے کاغذات کی ایک گٹھڑی نکالی۔ ان کے مطابق محمد علی جناح کے قریبی اجداد میمن تھے اور ہندوستان کے اکثر مسلمانوں کی طرح ان کا سلسلہ نسب ہندوئوں سے ملتا تھا۔ اس کا مطلب تو یہی ہے ان کا خاندان بھی عام پاکستانیوں کی طرح کا مسلمان تھا یعنی وہ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ کئی نسل پہلے جناح کا خاندان پنجاب کے شہر ملتان کے علاقے سے ہجرت کر کے کاٹھیاواڑ آیا تھا۔ بقول نواب اسماعیل خان یہ ساہیوال کے قریب کا علاقہ تھا مگر بولیتھو نے ملتان کا علاقہ ہی لکھا ہے۔ کتاب انگریزی میں 1954 میں چھپ گئی مگر اسے اُردو میں ترجمہ نہیں کروایا گیا کیوں؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔ اب ہمارے ہاں تو قائداعظم کے نام پر بہت سے ادارے کام کرتے ہیں، بہت سے ایسے دانشور ہیں جو قائداعظم کے بارے میںصبح شام لکھتے ہیں مگر ان کے اجداد کے بارے میںبھلا کون تحقیق مکمل کرے گا۔ شاید اس تحریر کی وجہ سے کوئی محقق ازخود یہ راز ڈھونڈنے کے لیے سرگرداں ہو جائے بس اسی لیے بولیتھو کی کتاب سے یہ تحریر نقل کر دی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

معدنی نمک ،پاکستان نمک کی پیداوار میں دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے

اگر چہ پاکستان کو قدرت نے نمک کے بہت وسیع ذخائر سے نوازا ہے لیکن بد قسمتی سے ابھی تک پاکستان نمک کے ان ذخائر کوٹھیک طریقے سے استعمال نہیں کر سکا ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں بہت سے ملکوں سے پیچھے ہے۔ پاکستان نمک کی پیداوار میں 24 لاکھ ٹن سالانہ کے ساتھ دنیا میں بیسویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں چین سالانہ 6 لاکھ کروڑ ٹن کی نمک کی پیداوار کے ساتھ دنیا میں پہلے نمبر پر ہے پاکستان میں صنعتی شعبہ کمزور ہونے کے باعث بھی نمک سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھایا جاتا۔نمک کا تکنیکی نام سوڈیم کلورائیڈ (NaCl) ہے۔ بظاہر کم قیمت اور معمولی سمجھا جانے والا نمک در حقیقت قدرت کا انتہائی اہم معدنی تحفہ ہے جو کھانوں کو ذائقہ بخشنے کے علاوہ بہت سے صنعتوں میں انتہائی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پاکستان میں نمک کے 6 ارب سے زائد ذخائر موجود ہیں۔ ضلع جہلم میں کھیوڑہ کی نمک کی کان دنیا کی دوسری بڑی نمک کی کان ہے پاکستان میں کھیوڑہ کے علاوہ نمک کی کانیں واڑچھا ضلع خوشاب، کالا باغ ضلع میانوالی اور بہار خیل ضلع کو ہاٹ میں بھی پائی جاتی ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانی نمک کی شناخت ''ہمالین سالٹ ‘‘کے نام سے ہے۔ اس کو ''پنک سالٹ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں پایا جانے والا نمک 99 فیصد خالص ہے اس میں کیلشیم میگنیشیم ، زنک، آئرن اور کئی دوسرے منرلز پائے جاتے ہیں۔نمک کا سب سے اہم استعمال کھانوں کی تیاری میں ہوتا ہے جو نہ صرف کھانوں کو خوش ذائقہ بناتا ہے بلکہ جسمانی نظام اور صحت کو برقرار رکھنے میں میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ نمک خلیوں کی کارکردگی اور فعالیت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ بطور الیکٹرولائٹ بھی بہت ضروری ہے نمک جسمانی توازن اور بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے۔ آئیوڈین والا نمک جسم میں آئیوڈین کی ضرورت کو پورا کرتا ہے، جس سے تھائرائیڈ ہارمون بنتا رہتا ہے اور گلہر کی بیماری سے بچاؤ ممکن ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر نمک انسانی جسم کے افعال کے لیے اس قدراہم ہے کہ ڈائیریا کے مرض کی وجہ سے جسم میں نمکیات اور پانی کی کمی ہونے کی وجہ سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ نمک کے استعمال میں احتیاط ضروری ہے کیونکہ نمک کی زیادتی ہائی بلڈ پر یشر اور دل کے امراض کی وجہ بن سکتی ہے۔نمک کا استعمال صرف کھانوں کی تیاری تک محدود نہیں۔ نمک بہت کسی کیمیائی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو صنعتی پیمانے پر کاسٹک سوڈا بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا صابن اور سرف بنانے کے لئے انتہائی اہم جزو ہے۔ اس کے علاوہ اس کو کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دیگر صنعتی اشیاء تیار کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا بنانے کے عمل سے ہی کلورین بھی پیدا ہوتی ہے۔ کلورین کو بڑے پیمانے پر پانی کو جراثیم سے پاک کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کاسٹک سوڈا اور کلورین کے علاوہ بھی نمک کو کیمیکل انڈسٹری میں بہت وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ تقریباً آدھے سے زائد کیمیکلز کی تیاری میں کسی نہ کسی مرحلے پر نمک لازماً استعمال کرنا پڑتا ہے۔نمک کو پینٹ ، رنگ اور ڈائیاں بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ گلاس، پولی ایسٹر ، ربڑ، پلاسٹک اور کپڑے کی صنعت میں بھی نمک استعمال کیا جاتا ہے۔ چمڑا بنانے کے کارخانوں میں بھی نمک کو جانوروں کی کھالوں کو گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ صنعتیں جو ملکی معشیت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں، نمک کے بغیر نہیں چل سکتیں۔صنعتوں سے باہر بھی نمک بہت سے اہم کاموں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نمک کو تیل کے کنویں کی مٹی کو پائیدار بنانے اور کنویں کو گرنے سے بچانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ نمک سٹرکوں پر جمی برف ہٹانے، کھارے پانی کو میٹھا کرنے اور دھاتیں صاف کرنے کے بھی کام آتا ہے۔ نمک کو فارماسیوٹیکل انڈسٹری میں سیلائن سولیوشنز ، گولیاں اور آئنمنٹس بنانے کیلئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نمک کی پیداوار بڑھانے کے لیے اقدامات کرے۔ صنعتی شعبے کی ترقی کیلئے صنعت کاروں کو مراعات دی جائیں اور جن صنعتوں میں نمک استعمال ہوتا ہے ان کوٹیکس میں خصوصی چھوٹ دی جائے تا کہ پاکستانی اشیاء عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر سکیں اور ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہو۔ انہی اقدامات سے ممکن ہو سکے گا کہ پاکستان اللہ کے دیئے گئے نمک کے تحفے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے۔ 

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

قرطاجنہ خوبصورت قدیم شہر

شمالی افریقہ میں خلیج تیونس کے کنارے ایک تکونی جزیرہ نما واقع ہے۔ اس پر قدیم زمانے میں فونیقی قوم نے ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا تھا۔ اس کا نام قرطاجنہ (Carthage) تھا۔ یہ شہر ترقی کر کے ایک شہری ریاست بن گیا تھا۔ قرطاجنہ کے ابتدائی آبادکار جو فونیقی شہر صور (Tyre) سے تعلق رکھتے تھے، پہلے پہل بارہویں صدی قبل مسیح میں یہاں پہنچے تھے۔ ان کا مقصد ایک نوآبادی قائم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اسباب تجارت کے لیے ایک منڈی تلاش کرنا بھی تھا۔ تعمیر روم کے افسانے کی طرح قرطاجنہ کی تعمیر بھی افسانوی طور پر 814 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ اس افسانوی روایت کے مطابق صور کی شہزادی ڈیڈو (Dido) جب اپنے بھائی شاہ پگمالیون (صور کی تاریخ میں اس نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے) کے مظالم سے بھاگ کر شمالی افریقہ پہنچی تو اس نے خلیج تیونس کے کنارے اس مقام پر ایک شہر کی تعمیر کے لیے مقامی لوگوں سے ایک کھال کے برابر جگہ حاصل کی، پھر شہزادی نے چالاکی سے کھال کو باریک اور پتلی پٹیوں میں کاٹنے کا حکم دیا۔ بعدازاں ان باریک پٹیوں کی مدد سے ایک بڑے رقبے پر قبضہ کر لیا۔ اسی رقبے پر قرطاجنہ کی تعمیر ہوئی۔ قرطاجنہ شہر کے عین درمیان میں ایک چٹان پر ایک قلعہ تھا جو بیرصہ (Byrsa) کہلاتا تھا۔ اسی قلعے کے اردگرد قرطاجنہ کا پورا شہر آباد تھا۔ یہ شہر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قدیم دنیا کا ایک اہم شہر بن گیا اور روم کے ہمسر کے طور پر ابھرا۔ رومی اس شہر کے باشندوں کو پیونی (Poeni) کہتے تھے، جو فونیقی (Phoenician)کی ایک بدلی ہوئی شکل تھی۔ اسی لفظ کی وجہ سے بعدازاں روم اور قرطاجنہ کے درمیان تیسری اور دوسری صدی قبل مسیح میں لڑی جانے والی جنگیں پیونک جنگیں کہلاتی ہیں۔ قرطاجنہ کے سنگ بنیاد رکھے جانے کی مذکورہ تاریخ غالباً خود قرطاجنی باشندوں نے اپنی مبالغہ آرائی سے قائم کی تھی۔ جدید آثار قدیمہ کی تحقیق کی روشنی میں جو ثبوت دستیاب ہوئے ہیں وہ اس تاریخ سے موافقت نہیں رکھتے۔ اثریاتی کھدائیوں سے کوئی چیز ایسی دستیاب نہیں ہوئی جس کا تعلق آٹھویں صدی قبل مسیح کے آخر سے پہلے کے زمانہ سے بنتا ہو۔ قرطاجنہ کے بارے میں سب سے قدیم حوالہ ہمیں 509 قبل مسیح میں ملتا ہے، جب روم اور قرطاجنہ میں تجارتی مراعات کے بارے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں اہل قرطاجنہ نے سسلی فتح کرنے کی ناکام کوشش کی جس کی وجہ سے اہل روم سے مخاصمت کا آغاز ہوا۔ بعد میں سسلی ہی پر اہل قرطاجنہ کی یورشوں سے پیونک یا قرطاجنی جنگیں پیش آئیں۔ ان کے آخر میں 146 قبل مسیح میں رومی جنرل سیپیوایفرایکٹس اصغر نے قرطاجنہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور شہر کو جلا کر مسمار کرایا۔ 122 قبل مسیح میں رومی سینیٹ نے دو رومی امیروں گایوس گریکس (Gaius Gracchus) اور مارکوس فلویس فلیکس کو قرطاجنہ کے کھنڈرات پر ایک رومی نوآبادی قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی لیکن کوشش بارآور نہ ہو سکی۔ اس کے بعد جولیس سیزر نے روم کے ایسے شہریوں کو یہاں آباد کیا جن کے پاس زمینیں نہ تھیں۔ 29 قبل مسیح میں شہنشاہ آگسٹس نے افریقہ میں رومی مقبوضات کے انتظامی امور کے لیے قرطاجنہ کا انتخاب کیا۔ اس کا آباد کردہ قرطاجنہ (Colonia Julia Carthago) کہلاتا تھا۔ جلد ہی یہ قرطاجنہ سکندریہ اور دوسرے کئی رومی نوآبادیاتی شہروں سے زیادہ ترقی کر گیا اور ان کا ہم پلہ قرار پایا۔ اگرچہ کسی بھی رومی شہنشاہ نے یہاں قیام نہیں کیا مگر بیشتر رومی شہنشاہ اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس کے بعد روم کی سلطنت کے زوال تک قرطاجنہ کی تاریخ پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ البتہ دوسری صدی عیسوی کے آخر تک یہاں عیسائیت اتنی پھل پھول چکی تھی کہ یہاں کی کلیسائی شخصیات میں فادر ترتولین (Father Tertullian) اور سینٹ سائپرین کے نام نمایاں ہیں۔ 439ء میں ونڈال حکمران گائیسرک بغیر کسی مزاحمت کے فاتحانہ طور پر قرطاجنہ میں داخل ہو گیا اور یہاں ونڈال سلطنت قائم ہو گئی، جو تقریباً سو سال تک قائم رہی۔ گیلمیر یہاں کا آخری ونڈال حکمران تھا۔ اسے 533ء میں بازنطینی جنرل بیلیساریوس (Belisarius) نے شکست دی۔ 705ء تک یہاں بازنطینی حکومت قائم رہی اور اس سال اس تاریخی شہر کو مسلم عربوں نے فتح کیا جس کے بعد اس کے ایک قریبی شہر تیونس کو عروج حاصل ہوا اور یہ شہر گہناتا چلا گیا۔ رومی قرطاجنہ بھی قدیم شہر کی طرح بالآخر تباہ ہو گیا مگر اس کے آثار اب تک موجود ہیں۔ ان آثاروں میں رومی آبراہ اور کئی قلعوں کے آثار نمایاں ہیں۔ سابقہ قلعہ بیرصہ کے مقام پر رومی عہد میں جو پیٹر اور مزوا دیوی کا مندر تعمیر ہوا، اس کے علاوہ یہاں ایک غلام گردش بھی تعمیر کی گئی تھی۔ اس غلام گردش کے آثار سے رومی عہد کی سنگ تراشی کے بہترین نمونے دریافت ہوئے ہیں۔ قرطاجنہ کے بازنطینی عہد میں یہاں کئی خوبصورت کلیسا بھی تعمیر ہوئے تھے، مگر اب ان کے آثار مفقود ہیں۔   

آج کا دن

آج کا دن

جرمنی کاڈنمارک پر قبضہ9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک اور ناروے پر حملہ کرتے ہوئے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ بظاہر یہ حملہ ایک منصوبہ بندی کے مطابق کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ جرمنی نے ناروے پر فرانس اور برطانیہ کے قبضے کو دیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حملہ کیا ہے۔اس منصوبے کو ''پلان4R‘‘کا نام دیا گیا۔ ان دونوں ممالک کے درمیان جغرافیہ، محل وقوع اور آب و ہوا میں نمایاں فرق نے فوجی کارروائیوں کو بھی بہت مختلف بنا دیا۔اس حملے کے دوران جرمنی کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام1945ء میںآج کے دن امریکی اٹامک انرجی کمیشن کا قیام عمل میں آیا۔اسے عام طور پر ''AEC‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کی ایک ایجنسی تھی جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی کانگریس نے ایٹمی سائنس اور ٹیکنالوجی اور امن کو فروغ دینے اور کنٹرول کرنے کیلئے قائم کیا تھا۔ صدر ہیری ایس ٹرومین نے 1946ء میںاٹامک انرجی ایکٹ پر دستخط کیے اور جوہری توانائی کا کنٹرول فوج سے سویلین حکومت کو منتقل کردیا۔یہ حکم یکم جنوری 1947 سے نافذ العمل ہے۔''بوئنگ 737‘‘نے پہلی اڑان بھری 9اپریل 1967ء کوبوئنگ 737 نے اپنی پہلی اڑان بھری۔ یہ ایک تنگ جسامت والا ہوائی جہاز تھا، جسے بوئنگ کمپنی کی جانب سے واشنگٹن میں تیار کیا گیا۔ فروری 1968ء میں Lufthansa کی طرف سے اسے کمرشل سروس میں شامل کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب لمبی جسامت والا 737 کمرشل سروس میں شامل ہوا۔ یہ چار مختلف اقسام میں تیار کیا گیا۔ جس میں 85 سے 215 مسافروں تک کو لے جانے والی مختلف اقسام مارکیٹ میں پیش کی گئیں۔جارجیا نے آزادی کا اعلان کیا9 اپریل 1991ء کو جارجیا نے سوویت یونین سے آزادی کا اعلان کیا۔ یہ اعلان سوویت یونین کے ٹوٹنے سے کچھ دیر پہلے کیا گیا۔ جارجیا کی سپریم کونسل نے 31 مارچ 1991ء کو منعقدہ ریفرنڈم کے بعد پوری دنیا کے سامنے خود کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے پیش کیا۔26 مئی 1991 ء کو '' زویاد گامسخردیا‘‘ آزاد جارجیا کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ واضح رہے کہ سوویت فوج کی مداخلت کے باعث جارجیا اپنی آزادی کھو بیٹھا تھا اور سوویت یونین کا حصہ بن گیا تھا۔ 

اے آئی ایپس میں اینیمیشن کا فیچر

اے آئی ایپس میں اینیمیشن کا فیچر

کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنااخلاقاً درست نہیںجدید دور میں ٹیکنالوجی نے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو نئی جہت دی ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI) یعنی مصنوعی ذہانت اب صرف سادہ ٹاسکس کے لیے ہی نہیں بلکہ تصویری تخلیقات، اینی میشن، اور ویژول آرٹ کے میدان میں بھی نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ خاص طور پر اے آئی پر مبنی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر تخلیقی دنیا میں انقلاب برپا کر چکا ہے۔اینی میٹڈ تصاویر ایسی تصاویر ہوتی ہیں جو حرکت کرتی ہیں یا جن میں مخصوص جزو (مثلاً آنکھیں، ہونٹ، بال، یا پس منظر) متحرک ہوتے ہیں۔ یہ عام طور پر GIF، ویڈیو کلپ یا شارٹ اینی میشن کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ اب تک یہ کام پروفیشنل اینی میشن سافٹ ویئر کے ذریعے ماہرین انجام دیتے تھے، مگر اب یہ سب اے آئی ایپس کے ذریعے عام صارفین کیلئے ممکن ہو گیا ہے۔حال ہی میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) پلیٹ فارم چیٹ جی پی ٹی اور گروک سمیت متعدد اے آئی اور دوسرے تصاویر بنانے والے پلیٹ فارمز نے اینی میٹڈ تصاویر بنانے کے فیچرز پیش کئے گئے ہیں۔چیٹ جی پی ٹی نے حال ہی میں جاپان کے معروف اینی میٹڈ اسٹوڈیو 'غیبلی اسٹوڈیو‘ (Studio Ghibli) کے انداز کی تصاویر بنانے کے مفت فیچر تک صارفین کو محدود رسائی دی ہے۔چیٹ جی پی ٹی کے صارفین یومیہ تین تصاویر کو مفت میں غیبلی اسٹوڈیو انداز کی اینیمیشن میں بنا سکتے ہیں۔اے آئی ایپس کا کردارمصنوعی ذہانت سے چلنے والی کئی ایپس نے اینی میٹڈ تصویروں کیلئے حیرت انگیز فیچرز متعارف کروائے ہیں۔ کچھ مشہور اے آئی ایپس درج ذیل ہیں:''مائی ہیرٹیج ‘‘(MyHeritage ): یہ ایپ پرانی تصاویر کو اینیمیٹ کر کے ایسے بناتی ہے جیسے تصویر میں موجود شخص مسکرا رہا ہو، آنکھیں جھپک رہا ہو یا سر ہلا رہا ہو۔''اے آئی وومبو‘‘ (Wombo AI): صارفین اپنی تصویر اپ لوڈ کر کے مختلف گانوں پر لب ہلاتی ہوئی اینی میشن بنا سکتے ہیں۔''ٹاکنگ ہیڈز‘‘ (Tokking Heads): یہ ایپ کسی بھی پورٹریٹ کو متحرک کر کے اسے گفتگو یا تاثرات دینے کے قابل بناتی ہے۔''ری فیس‘‘ او ر ''اے آئی لینزا‘‘: چہروں کو مختلف انداز سے متحرک کر کے تفریحی اور دلکش شارٹ ویڈیوز بناتی ہیں۔یہ فیچر کیسے کام کرتا ہے؟اے آئی اینی میشن فیچر دراصل مشین لرننگ، ڈیپ فیک ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر وژن کے امتزاج سے کام کرتا ہے۔ یہ تصاویر میں انسانی چہرے کی شناخت کر کے اس کے مختلف پہلوؤں کو متحرک کرتا ہے، جیسے چہرے کے تاثرات میں تبدیلی، آنکھوں، ہونٹوں، اور بھنوؤں کی حرکت، پس منظر کو متحرک بنانا، آواز یا موسیقی کے مطابق ہونٹوں کو ہلانا، یہ تمام مراحل چند سیکنڈز میں مکمل ہو جاتے ہیں اور نتیجہ حیرت انگیز طور پر حقیقت سے قریب تر ہوتا ہے۔تخلیقی دنیا کیلئے فوائد٭...اینی میٹڈ تصاویر سے سوشل میڈیا پوسٹس کو جاندار بنایا جا سکتا ہے۔ لوگ اپنی ساکن تصویروں کو دلچسپ اور مزاحیہ ویڈیوز میں تبدیل کر کے شیئر کرتے ہیں۔٭... برانڈ یا پروڈکٹس کی ترویج کیلئے اینیمیٹڈ بصری مواد استعمال کر سکتے ہیں جو ناظرین کی توجہ کھینچتا ہے۔٭...تاریخی شخصیات یا ادب کی مشہور ہستیوں کی متحرک تصاویر تعلیم کو دلچسپ بنانے میں مدد دیتی ہیں۔٭...آرٹسٹ اپنے کام کو متحرک کر کے نئی جہت دے سکتے ہیں۔ ساکن فن پاروں میں زندگی ڈالنے کا تصور حقیقت بن چکا ہے۔چیلنجز اور خدشاتاگرچہ یہ ٹیکنالوجی حیرت انگیز ہے، لیکن اس کے ساتھ کچھ چیلنجز اور اخلاقی پہلو بھی جڑے ہیں۔تصاویر یا ویڈیوز کو جعلسازی کیلئے استعمال کرنا ممکن ہو گیا ہے، جس سے غلط فہمی یا بدنامی کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کسی کی تصویر کو بغیر اجازت متحرک کر کے شیئر کرنا قانوناً اور اخلاقاً درست نہیں۔ حقیقت اور تخیل کے درمیان فرق مٹنے لگا ہے، جو بعض اوقات ذہنی الجھن یا اعتماد کے فقدان کا باعث بنتا ہے۔مستقبل کا منظرنامہاے آئی اینی میشن ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، لیکن مستقبل میں اس کی ایپلی کیشنز مزید بہتر، حقیقت پسندانہ اور اخلاقی لحاظ سے ذمہ دار بننے کی امید ہے۔ ہم ایک ایسے دور کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں ہر شخص چند کلکس میں اپنی خیالات کو اینی میشن کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر سکے گا۔اے آئی ایپس میں اینی میٹڈ تصاویر بنانے کا فیچر محض تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ تخلیقی اظہار، ڈیجیٹل آرٹ، اور کمیونیکیشن کا نیا باب ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ہمیں اپنی یادوں، خیالات، اور جذبات کو ایک نئے انداز سے دیکھنے، سمجھنے اور پیش کرنے کی طاقت دیتی ہے، لیکن اس کا استعمال شعور اور ذمے داری کے ساتھ کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔  

سی این ٹاور

سی این ٹاور

دنیا کے بلند ترین مقام پر بنی ہوئی گیلری سے زمین کا نظارہ نہ صرف انسانی دل کو فرط جذبات سے لبریز کر دیتا ہے بلکہ وہ ترقی کے اس شاہکار پر حیران و ششدر بھی رہ جاتا ہے۔کینیڈا کے شہر ٹورنٹو کی بلند و بالا خوبصورت عمارتوں کے درمیان پروقار انداز میں کھڑا کینیڈین نیشنل ٹاور بھی دور جدید کے عجائبات میں شمار ہوتا ہے۔ اس کی بلندی 534میٹر تک ہے۔ملکی و غیر ملکی سیاحوں کیلئے سی این ٹاور بہت کشش رکھتا ہے۔ہر سال یہاں مختلف ممالک سے 20لاکھ افراد آتے ہیں خصوصاً مشاہداتی گیلری میں جہاں طاقتور دوربینوں سے دیکھنے والے مناظر کسی حسین خواب کا حصہ معلوم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں جدید سہولتوں سے مزین کشادہ گھومنے والے ہوٹل اور کمپلیکس بھی اپنی مثال آپ ہیں۔فروری 1973ء میں جب سی این ٹاور کی تعمیر شروع ہوئی تو کینیڈا کی حکومت نے اس کام کیلئے کسی انفرادی ادارے کی بجائے تعمیراتی شعبے کے ماہرین کی ایک کمیٹی قائم کی جنہوں نے مختلف ممالک میں بنی ہوئی بلند ترین عمارتوں خصوصاً فرانس کے ایفل ٹاور اور امریکہ کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کے علاوہ روس کے اوٹینکو ٹاور کا معائنہ کیا اور فن تعمیر کے ان عظیم شاہکاروں پر تکنیکی اعتبار سے ایک رپورٹ مرتب کی ۔ جس کے بعد سی این ٹاور کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا کہ یہ نہ صرف اپنے وقت کا بلند ترین ٹاور ہو بلکہ یہاں آنے والے سیاحوں کی سہولتوں، گنجائش اور تفریح و طبع کا بھی انتظام ہو۔سی این ٹاور کی سب سے زیادہ پر تجسس جگہ یہاں کی مشاہداتی گیلری ہے جسے ''Sky pod‘‘کہا جاتا ہے۔ اس کی زمین سے اونچائی 447میٹر(1465فٹ) ہے۔ یہ گیلری جہاں طاقتور دوربینیں جو وقفے وقفے سے گھوم کر اپنے مناظر تبدیل کرتی ہیں دیکھنے والوں کو ایک بالکل انوکھا تجربہ فراہم کرتی ہیں۔ یہاں سے نہ صرف ٹورنٹو شہر کا نظارہ کیا جاتا ہے بلکہ اس سے ملحق 100میل تک پھیلا ہوا علاقہ بھی بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے نیچے بنا ہوا خوبصورت ہوٹل 351میٹر (1151فٹ) بلندی پر واقع ہے۔ کھانے کی ہر میز کو کچھ اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ شیشے کی بڑی دیواروں سے بدلتے مناظر دیکھ کر انسانی عقل ورطہ حیرت میں کھو جاتی ہے۔ کمزور دل والے سیاحوں کو یہاں آنے سے قبل خصوصی بریفنگ دی جاتی ہے۔دنیا کی ہر بلند عمارت کی طرح جب اسے بنایا گیا تو ابتداء میں اس کے ڈیزائنر، آرکیٹکٹ، انجینئروں اور دیگر متعلقہ شعبہ سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ کسی ایک کمپنی یا شخصیت کی بجائے حکومت نے ہر شعبے کیلئے ماہرین کی ٹیم کو اسے تعمیر کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس طرح سی این ٹاور کا کریڈٹ کسی فرد واحد کی بجائے پوری ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔سی این ٹاور میں 6لفٹیں لگائی گئیں جن کی رفتار 6میٹر (20فٹ) فی سیکنڈ ہے۔اس طرح ٹاور کی انتہائی بلندی تک پہنچنے کیلئے صرف58سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً ایک گھنٹے میں 1200افراد ایک لفٹ سے چڑھتے اور اترتے ہیں۔ 

طنزو مزاح اور آنا گھر میں مرغیوں کا

طنزو مزاح اور آنا گھر میں مرغیوں کا

عرض کیا، ''کچھ بھی ہو، میں گھر میں مرغیاں پالنے کا روادار نہیں۔ میرا راسخ عقیدہ ہے کہ ان کا صحیح مقام پیٹ اور پلیٹ ہے اور شاید‘‘ ۔''اس راسخ عقیدے میں میری طرف سے پتیلی کا اور اضافہ کرلیجیے‘‘۔ انہوں نے بات کاٹی۔ پھر عرض کیا، ''اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں کوئی مرغی عمر طبعی کو نہیں پہنچ پاتی۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا کہ ہماری ضیافتوں میں میزبان کے اخلاص و ایثار کا اندازہ مرغیوں اور مہمانوں کی تعداد اور ان کے تناسب سے لگایا جاتا ہے‘‘ ۔فرمایا، ''یہ صحیح ہے کہ انسان روٹی پر ہی زندہ نہیں رہتا۔ اسے مرغ مسلّم کی بھی خواہش ہوتی ہے۔ اگر آپ کا عقیدہ ہے کہ خدا نے مرغی کو محض انسان کے کھانے کیلئے پیدا کیا تو مجھے اس پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ صاحب! مرغی تو درکنار۔ میں تو انڈے کو بھی دنیا کی سب سے بڑی نعمت سمجھتا ہوں۔ تازے خود کھائیے۔ گندے ہو جائیں تو ہوٹلوں اور سیاسی جلسوں کیلئے دگنے داموں بیچئے۔ یوں تو اس میں، میرا مطلب ہے تازے انڈے میں!''ہزاروں خوبیاں ایسی کہ ہر خوبی پہ دم نکلے ‘‘مگر سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پھوہڑ سے پھوہڑ عورت کسی طرح بھی پکائے یقینا مزے دار پکے گا۔ آملیٹ، نیم برشت، تلا ہوا، خاگینہ، حلوا‘‘۔اس کے بعد انہوں نے ایک نہایت پیچیدہ اور گنجلک تقریر کی جس کا ماحصل یہ تھا کہ آملیٹ اور خاگینہ وغیرہ بگاڑنے کیلئے غیر معمولی سلیقہ اور صلاحیت درکار ہے جو فی زمانہ مفقود ہے۔ اختلاف کی گنجائش نظر نہ آئی تو میں نے پہلو بچا کر وار کیا، ''یہ سب درست! لیکن اگر مرغیاں کھانے پر اتر آئیں تو ایک ہی ماہ میں ڈربے کے ڈربے صاف ہو جائیں گے۔‘‘ کہنے لگے، ''یہ نسل مٹائے نہیں مٹتی۔ جہاں تک اس جنس کا تعلق ہے دو اور دو چار نہیں بلکہ چالیس ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود حساب کرکے دیکھ لیجیے۔ فرض کیجیے کہ آپ دس مرغیوں سے مرغبانی کی ابتدا کرتے ہیں۔ ایک اعلیٰ نسل کی مرغی سال میں اوسطاً دو سو سے ڈھائی سو تک انڈے دیتی ہے۔ لیکن آپ چونکہ فطرتاً قنوطی واقع ہوئے ہیں۔ اس لیے یہ مانے لیتے ہیں کہ آپ کی مرغی ڈیڑھ سو انڈے دے گی‘‘ ۔میں نے ٹوکا، ''مگر میری قنوطیت کا مرغی کی انڈے دینے کی صلاحیت سے کیا تعلق؟‘‘ بولے، ''بھئی آپ تو قدم قدم پر الجھتے ہیں۔ قنوطی سے ایسا شخص مراد ہے جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے آنکھیں رونے کیلئے بنائی ہیں۔ خیر، اس کو جانے دیجیے۔ مطلب یہ ہے کہ اس حساب سے پہلے سال میں ڈیڑھ ہزار انڈے ہوں گے اور دوسرے سال ان انڈوں سے جو مرغیاں نکلیں گی وہ دو لاکھ پچیس ہزار انڈے دیں گی۔ جن سے تیسرے سال اسی محتاط اندازے کے مطابق، تین کروڑ سینتیس لاکھ پچاس ہزار چوزے نکلیں گے۔ بالکل سیدھا سا حساب ہے‘‘۔ ''مگر یہ سب کھائیں گے کیا؟‘‘ میں نے بے صبری سے پوچھا۔ ارشاد ہوا، ان کی خوبی یہی ہے کہ اپنا رزق آپ تلاش کرتے ہیں۔ آپ پال کر تو دیکھئے۔ دانہ دنکّا، کیڑے مکوڑے، کنکر، پتھر چگ کر اپنا پیٹ بھرلیں گے‘‘ ۔