کیا قائداعظم کے اجداد پنجابی تھے؟
1898 میں نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں پیدا ہونے والے’’ ہیکٹربولیتھو‘‘ کا شمار ان اولین سوانح نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی سوانح لکھی۔ یہ کتاب 1952 کے لگ بھگ حکومت پاکستان کی ایماء پر لکھوانی شروع کی گئی تھی۔یہ ابتدئی زمانہ تھا کہ ابھی تک ایسی بہت سی شخصیات زندہ تھیں جو براہ راست قائداعظم سے بارہا مل چکی تھیں تاہم ناظم الدین سرکار کی وجہ سے قائداعظم کے بہت سے درینہ ساتھی خصوصا محترمہ فاطمہ جناح، حسین شہید سہروردی، میاں افتخارالدین، ممتاز دولتانہ، کھوڑو کو اس کاوش کے بارے میں بجا طور پر تحفظات تھے۔فاطمہ جناح کے پاس محفوظ قائداعظم کے کاغذات تک بوجوہ رسائی نہ ہونے کے باوجود زیرک بولیتھو نے بہت سے ایسے انگریزوں اور دیسی لوگوں سے براہ راست ملاقاتیں کیں جو قائداعظم سے مل چکے تھے۔ یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے جو بعدازاں قائداعظم کی سوانح لکھنے والوں کو بوجوہ نصیب نہ ہو سکی۔ 1954 میں کتاب چھپ گئی مگر اس کتاب کو اُردو میں ترجمہ ہوتے ہوتے گیارہ سال بیت گئے۔ یوں 1965 میں یہ کتاب اُردو میں چھپی۔ 2001 میں اُردو سائنس بورڈ نے اسے دوبارہ چھاپا مگر زہیرصدیقی کا ترجمہ ناقص ہی نہیں بلکہ اکثر جگہوں پر گمراہ کن بھی ہے۔ ایک مثال انگریزی لفظ Communal کی ہے جو انگریزی میں تو ’’گروہی‘‘ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں جب بھی برصغیر کی تاریخ میں لفظ Communal Politics استعمال ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہندو-مسلم، ہندو-سکھ سیاست وغیرہ ہی ہوتا ہے۔ یوں یہ اصطلاح بذات خود دو یا دو سے زائد مذاہب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے استعمال ہوتی ہے۔ تاہم لفظ Sectrarian فرقہ پرستی کے لیے استعمال ہوتا ہے جس سے مراد ایک ہی مذہب کے مکاتب فکر یعنی فرقوں میں تعصبات کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ اب اگر آپ Communal کا لفظی ترجمہ فرقہ وارانہ کر ڈالیں گے تو پھر وہی کنفیوژن پھیلے گی جس کا آج کل ہم عمومی طور پر شکار ہیں۔ اب قائداعظم کو بعض لکھاری (Muslim) Communal Leader لکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ (مسلم) گروہی سیاست کے علمبردار تھے۔ اب اگر اس کا آج یہ ترجمہ کر دیا جائے کہ قائداعظم فرقہ وارانہ سیاست کے علمبردار تھے تو معاملہ کنفیوژن کو بڑھائے گا۔ اصطلاحوں کو گڈمڈ کرنے کا کام اکثر ’’نظریاتی‘‘ ہرکارے سرانجام دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیں بھارت کی چھپی کتب میں مذہبی گروہی سیاست اور فرقہ واریت کی اصطلاحیں گڈمڈ کی ہوئی ملتی ہیں۔کچھ ایسا ہی ترجمہ ہیکٹربولیتھو کی کتاب کا کیا گیا ہے اور اُسے اُردو سائنس بورڈ نے چھاپ بھی رکھا ہے جو سرکاری ادارہ ہے۔خیر کتاب کے حوالے سے جو بات آپ سے سانجھی کرنی ہے اس کا تعلق قائداعظم کے اجداد سے ہے۔ اُردو کی کتاب کے صفحہ 14اور انگریزی کی کتاب کے صفحہ 2 پر اس بارے لکھا ہے کہ اس کی راوی ’’فاطمہ بائی‘‘ ہیں جو رشتے میں قائداعظم کی بھابھی تھیں۔ ویسے یہی بات قائداعظم کے دیرینہ ساتھی نواب اسماعیل خان نے بھی اپنے اک انٹرویو میں بھی کہی تھی مگر اب ہیکٹربولیتھو نے اسے ایک اور مستند حوالہ سے لکھا ہے۔ بولیتھو نے خود فاطمہ بائی سے ملاقات کی تھی کہ اس میں ان کا بیٹا’’ محمد علی گانجی‘‘ بھی موجود تھا۔1884 میں جب فاطمہ بائی محمد علی جناح کے کراچی کے آبائی مکان میں آئیں تو وہ 16 سال کی دلہن تھیں۔ اس وقت محمد علی جناح کی عمر لگ بھگ سات سال ہو گی۔ جب بولیتھو ماں بیٹے کو ملنے گئے تو گانجی نے ماں کی الماری سے کاغذات کی ایک گٹھڑی نکالی۔ ان کے مطابق محمد علی جناح کے قریبی اجداد میمن تھے اور ہندوستان کے اکثر مسلمانوں کی طرح ان کا سلسلہ نسب ہندوئوں سے ملتا تھا۔ اس کا مطلب تو یہی ہے ان کا خاندان بھی عام پاکستانیوں کی طرح کا مسلمان تھا یعنی وہ کہیں باہر سے نہیں آئے تھے۔ کئی نسل پہلے جناح کا خاندان پنجاب کے شہر ملتان کے علاقے سے ہجرت کر کے کاٹھیاواڑ آیا تھا۔ بقول نواب اسماعیل خان یہ ساہیوال کے قریب کا علاقہ تھا مگر بولیتھو نے ملتان کا علاقہ ہی لکھا ہے۔ کتاب انگریزی میں 1954 میں چھپ گئی مگر اسے اُردو میں ترجمہ نہیں کروایا گیا کیوں؟ یہ ایک الگ سوال ہے۔ اب ہمارے ہاں تو قائداعظم کے نام پر بہت سے ادارے کام کرتے ہیں، بہت سے ایسے دانشور ہیں جو قائداعظم کے بارے میںصبح شام لکھتے ہیں مگر ان کے اجداد کے بارے میںبھلا کون تحقیق مکمل کرے گا۔ شاید اس تحریر کی وجہ سے کوئی محقق ازخود یہ راز ڈھونڈنے کے لیے سرگرداں ہو جائے بس اسی لیے بولیتھو کی کتاب سے یہ تحریر نقل کر دی ہے۔