ٹلہ جوگیاں، بھرتری ہری اور اقبالؔ

اسپیشل فیچر
علامہ اقبالؔ کی شاعری کی کتاب ’’بال جبریل‘‘ 1935 میں چھپ کے آئی تو بہت سے لوگوں نے یہ سوال ضرور سوچا ہو گا کہ آخر یہ ’’بھرتری ہری‘‘ کون ہے؟ اس فلسفی شاعر اور گرائمر کے ماہر شخص کا شعر اقبال نے بال جبریل میں شائع کیوں کیا تھا۔ شعر تو آپ سب نے ہی پڑھا ہو گا جو اُردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ترجمہ اقبال کا اپنا ہے یا نہیں، اس بارے اقبال پر تحقیق کرنے والے محققین کو بتانا چاہیے۔ البتہ قیاس یہی ہے کہ اقبال نے ہی اس کا ترجمہ کیا ہے۔ یہ بھی بتانا چاہیے کہ 20ویں صدی کے چوتھے عشرے میں اقبال نے بھرتری ہری کو یاد رکھنا کیوں ضروری گردانا۔ پہلے آپ شعر پڑھیں:پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگرمردِ ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثربھرتری ہری کے کام یعنی کچھ شاعری اور دیگر چیزیں تو ملتی ہیں مگر ان کی عظمت و شہرت کی تصدیق 7ویں صدی میں ہمارے خطہ میںآنے والے چینی سیاح زینگ ون (Yi-Jing) نے کی تھی۔ چین میں اس وقت ’’تانگ‘‘ پادشاہی تھی۔ وہ ’’بدھ‘‘ مذہب کا پیروکار جوگی سیاح تھا جو ہر اس جگہ جانا چاہتا تھا جہاں یہ مذہب پھیلا تھا۔ بس اسی تلاش میں وہ ہمارے خطہ میں بھی سفر کرتا رہا۔ بھرتری ہری کی شاعری کی تین کتب ’’ستک ترے‘‘ ملتی ہیں جن میں ہر ایک سو اشعار پر مشتمل ہے۔ اس کے کئی تراجم انگریزی میں ہو چکے ہیں۔ اپنے زبیر شفیع غوری بڑے گنی انسان ہیں۔ انہوں نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ جب وہ جوانی میں ’’ٹلہ جوگیاں‘‘ کی زیارت کو گئے تھے تو وہاں بھرتری ہری کی سمادھی موجود تھی۔ یہ ٹلہ جوگیاں ہمارے ہزاروں برس کی تاریخ کااک نادر نمونہ ہے جو ہماری روایتی عدم توجہ کا شکار ہے۔ یہ ٹلہ کتنی صدیوں سے کان چھدوانے یعنی ’’کن پھٹے‘‘ جوگیوں یا یوگیوں کا ٹھکانہ ہے کہ باوا گورکھ ناتھ کے ماننے والے تو ایشیا بھر میں پھیلے ہوئے تھے۔ بال ناتھ اور بھرتری ہری صاحب ان کے شاگرد خاص تھے۔ یہ بات تو ہر پنجابی جانتا ہے کہ رانجھا بھی کن چھدوانے اسی ٹلہ پر گیا تھا اور وارث شاہ نے اس بارے مہر تصدیق لگا دی ہوئی ہے۔ ہمارا پرانا علم، فلسفہ و تاریخ تو قصوں کہانیوں ہی میں محفوظ ہے کہ پورن بھگت کے قصہ میں بھی سیالکوٹی شہزادے کو کنوئیں سے نکالنے گورکھ ناتھ ہی آئے تھے۔ اب ذرا غور تو کریں کہ ٹلہ جوگیاں کو بہت سے رستے جاتے ہیں کہ چاہے آپ پنڈی کے نزدیک لاہور آتے ہوئے ’’مندرہ‘‘ سے اندر جائیں تو چاہے قلعہ روہتاس سے ہوتے ہوئے تھوڑا آگے چلے آئیں۔مگر نہ تو اب تک وہاں پنجاب ٹورازم والوں نے ٹھکانہ بنایا ہے نہ ہی سڑک۔ البتہ اس قدر بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے اس مقام عظیم کو پنجاب کے کتنے ہی شہروں جیسے منڈی بہائو الدین ، چکوال،گجرات اور جہلم سے دیکھا جا سکتا ہے۔ اب بال جبریل تو 1935 میں شائع ہوئی تھی اور تین سال بعد اقبال راہی ملک عدم ہوئے مگر جانے سے قبل وہ ہمیں بھرتری ہری کا پتہ یاد دلاتے گئے۔ اب ہم اقبال کو محض ’’کوزے‘‘ میں بند کرنے کی جستجو میں لگے رہیں تو اس میں اقبال کا تو کوئی قصور نہیں۔ یوگا کرنے والے یوگیوں یا جوگ جگانے والے جوگیوں کی ہر کوئی عزت تو کرتا ہے مگر 1891 میں انگریزوں نے ان بارے اعدادوشمار اکٹھے کیے۔ اس زمانے میں جب 2 لاکھ 14 ہزار جوگیوں بارے اعدادوشمار اکٹھے ہوئے تو معلوم ہوا ان کی بڑی تعداد یعنی 92 ہزار تو پنجاب ہی میں ہیں جبکہ ان میں 40 ہزار سے زائد مسلمان جوگی ہیں۔ ٹلہ جوگیاں، بھرتری ہری، وارث شاہ اور اقبال، یہ ہمارا وہ تسلسل ہے جو کچھ لوگوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر علم و عرفان کے اسی تسلسل نے ہمیں پیار محبت اور فقر سے جوڑے رکھا ہے کہ ہزارہا جنگوں اور مارکٹائیوں کے باوجود ہم انسانیت کو آج بھی مقدم رکھتے ہیں۔ بس اسی تسلسل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ تحریر لکھی گئی ہے کہ پھول کی پتی سے واقعی ہیرے کا جگر کٹ سکتا ہے۔