ولایتی بیویاں اور ہمارا سماج
آج کل دہری شہریت اک وبال جاں مسئلہ بن چکا ہے کہ عدالتیں بھی اس گتھی کو سلجھانے میں لگی ہوئیں ہیں مگر اس کی دم پھر بھی ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی ہے اور بوجوہ رہے گی بھی۔ خیر اس وقت آپ کو اپنی تاریخ کی ان ولایتی یعنی یورپی خواتین سے متعارف کرواتے ہیں جنھوں نے ہمارے ہاں راج دربار میں حصہ بقدر جثہ ڈالا۔ یہ کہانی جس کتاب سے مستعار ہے اس کا نام ہے ’’ مشاہداتِ فرنگ‘‘ اور اسے مغربی پاکستان اردو اکیڈمی نے چھاپا ہے۔ ’’مغربی پاکستان‘‘ کی طرح یہ اکیڈمی بھی قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے ۔ کتاب ’’میر محمد حسن لندنی‘‘ کا سفر نامہ یورپ ہے جو 18ویں صدی میں یورپ یاترا کو گئے تھے۔ تاہم اس کتاب کی تدوین و تقویم حکیم سید محمود احمد برکاتی اور ترتیب و تعارف اختر شیرانی کے فرزند اور فارسی کے استاد مظہر محمودشیرانی نے سرانجام دیا ہے۔ کتاب میں سفرنامہ کے ساتھ ساتھ بہت سی اضافی معلومات جمع کر دی گئی ہیں جو خاصے کی چیز ہے۔ ولایتی بیویوں کے حوالہ سے جو کھرا نکالا گیا ہے وہ ٹیکسلا (پنجاب) کے چندر گپت موریا سے شروع ہوتا ہے جس کا دور 340 تا 298 قبل مسیح بنتا ہے۔ سکندر مقدونی کے جانے کے بعد اس کے بہت سے لشکری یہیں رہ گئے تھے اور انہی کی نسل سے سیلوکس بھی تھا۔ گندھارا کے راجہ چندرگپت موریا نے اس کی بیٹی سے بیاہ کیا تھا۔ چندرگپت موریا کے عہد کے بعد یورپیوں کا آنا تھم گیا تھاکہ اس کے بعد یہ مخلوق مغل دور میں وارد ہونا شروع ہوئی۔ چندرگپت کے بعد جس بادشاہ نے ولایتی بیوی رکھی اس کا نام جلال الدین اکبر لکھا ہے جس نے ’’گوا‘‘ کے پرتگالی حاکم ولیم کی بیٹی ’’میری‘‘ کو اپنے محل میں رکھا تھا۔ کہتے ہیں یہ ولیم ہی تھا جس نے اکبر کو انجیل مقدس اور توریت وغیرہ بھیجیں تھیں۔ اکبر کے بیٹے دانیال کے حرم میں بھی اک فرنگی بیوی تھی اور خود برنیز کے بقول دانیال نے اپنے چچا شہنشاہ جہانگیر کی اجازت سے خود بھی مسیحیت اختیار کر لی تھی۔تھامس رو نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ دانیال کی اولاد پہلے مسیحی ہو گئی تھی اور بعدازاں دوبارہ مسلمان۔ درباروں اور امراء و راجوں نوابوں کے ہاں یہ سب چلتا تھا۔ یہی اس زمانے میں لارڈ وغیرہ بھی کرتے تھے۔ اس طرح اورنگ زیب عالمگیر کے فرزند ارجمند معظم کے ساتھ اک پرتگالی طبیبہ جڑی ہوئی تھی جس کا نام ’’جولیانہ‘‘ تھا۔ کتاب میں ان دو ہاتھیوں کا ذکر بھی ہے جن کے پیٹ پر سفید صلیب بنی ہوئی تھی اور وہ جولیانہ کی سواری کے پیچھے چلتے تھے۔ جولیانہ کے راج دربار میں اثر بارے بھی کتاب واضح اشارے کرتی ہے۔ اس کے بعد جس حکمران کے کھاتے ولایتی بیوی آئی اس کا نام احمد شاہ تھا جس کے پاس 1748 میں اک تاجر آیا جو چند دن بعد مر گیا۔ بس اس کی یتیم بیٹی روز (Rose) کو احمد شاہ نے حرم میں رکھ کر اس کا نام ’’نورجہاں‘‘ قرار دیا۔ بعدازاں ’’نورجہاں‘‘ قیمتی ہیرے جواہرات لے کر اک دن لندن بھاگ گئی۔ اسی طرح شاہ عالم ثانی نے بھی ولایتی بیویوں والی پرکھوں کی روایت برقرار رکھی اور محترمہ ’’ہینڈی‘‘ کو حرم میں رکھا۔ لکھنؤ کے نواب غازی الدین حیدر کے گھر میں اک مجہول النسب فرنگی خاتون کا پتہ بھی کتاب دیتی ہے جسے نواب صاحب نے ’’مریم بیگم‘‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ نواب صاحب کے مرنے کے بعد اس نے ریذیڈنٹ کو لکھا کہ وہ تو اب بھی مسیحی ہے۔ نواب صاحب کے لواحقین نے کوشش کی کہ جائیداد سے اس کا حصہ نکلوا دیا جائے مگر وہ ناکام رہے۔ نہ صرف اس کے پاس جائیداد رہی بلکہ اسے 1849 کو مسیحی قبرستان ہی میں دفنایا گیا۔ انھی نواب صاحب کے ہاں ایک اور فرنگی عورت بھی تھی جسے ’’رنگ محل‘‘ کا خطاب دے رکھا تھا۔ یہیں کے نواب نصیرالدین کا قصہ بھی ہے جنھوں نے ’’ہیلن‘‘ کو مسلمان کر کے شادی کی اور پھر اس کی حرکات و سکنات دیکھ کر چھوڑ دیا۔ میر حسن لندنی کا بھی ذکر خیر ہے جو انگلستان سے ایک عورت کو یہ کہہ کر بیاہ لائے کہ حضرت مجرد ہیں۔ جب میر حسن لکھنؤ واپس آئے تو ولایتی بیگم کو معلوم پڑ گیاکہ حضرت کے پہلے ہی بیوی بچے ہیں۔ اس جھوٹ کو وہ برداشت نہ کر سکی اور واپس چلی گئی۔ واپس جا کر اس نے دو جلدوں میں لکھی کتاب میں ’’لندنی‘‘ صاحب کو آڑے ہاتھوں لیا۔اکبر شاہ ثانی کے پوتے مرزا مظفر نے بھی اجداد کی رسم نبھائی اور ’’سپلی بیگم‘‘ سے عقد کیا۔ بریلی کے سید عبداللہ کا ذکر بھی ہے جنھیں ’’گارساد تاسی‘‘ نے سرسید کا ہم پلہ کہا تھا۔ یہ صاحب لندن گئے اور ایک ولایتی عورت سے شادی بھی کی اور خود بھی مسیحی ہو گئے۔ ولایتی بیگمات کی کہانیاں سبق آموز بھی ہیں اور دلچسپ و عجیب و غریب بھی۔ مگر تاریخ کے اس اہم باب بارے کیونکر بالعموم انگریز مورخین نے خاموشی اختیار کیے رکھی اس لیے ہمارے لیے بھی اسے بند رکھنا لازم تھا۔ بھلا ہو مغربی پاکستان اکیڈمی کا کہ اس نے طلسم نور افشاں کا پردہ سرکانے کی جرأت راندانہ کی۔٭…٭…٭