اُردو کا مقام ، تعین کب ہو گا؟
قیام پاکستان کے بعد تادم تحریر ’’زبانوں کی سیاست‘‘ کے ذریعے حزب ِاقتدار و حزب ِختلاف نے خوب نام کمایا۔ پاکستان کے پہلے وزیرتعلیم فضل الرحمن تو شریف آدمی تھے کہ انہوں نے پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ نومبر 1947ء میں برملا نومولود پاکستانی ثقافت کو صوبوں میں بولی جانے والی قدیمی و تاریخی مادری زبانوں، ثقافت اور صوبوں کے تاریخی تسلسل سے نتھی کر دیا تھا۔ اپنی تقریر میں ان کا استدلال تھا کہ پنجابی، بنگالی، سندھی، پشتو اور بلوچ زبانوں کے سوتوں سے فیض پا کر ہی ’’پاکستانی ثقافت‘‘ تشکیل پائے گی، مگر قائداعظم کی وفات کے بعد سرکار کو آئی سی ایس افسران کی کھیپ نے ’’اُردو زبان‘‘ کو استعمال کرنے کا درس دیا۔ قائداعظم کی مشرقی بنگال میں کی گئی مشہور تقریر کو اپنے مقاصد کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا حالانکہ اس تقریر میں قائداعظم نے اُردو کو ’’واحد قومی زبان‘‘ نہیں بلکہ ’’رابطہ کی زبان‘‘ کہا تھا جبکہ مشرقی بنگال کی اسمبلی کے صوبہ میںدفتری، تعلیمی و کاروباری سطح پر وہی زبان اختیار کرنے کے حق میں بات کی تھی جو اسمبلی منظور کرے۔ یہ وہی ویژن تھا ،جو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال 1930ء میں دے چکے تھے۔ خطبہ الٰہ آباد میں لسانی و ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ ریکارڈ کا حصہ ہے، مگر آئین کے پہلے ڈرافٹ1950ء اور دوسری تعلیمی پالیسی1951ء منعقدہ کراچی میں اُردو کو واحد قومی زبان بنانے کی بات کی گئی، جو اقبال و جناح کے خیالات سے متصادم تھا۔ اس کے ردعمل میں بنگالی زبان کی تحریک نے جنم لیا ،جسے حزبِ اختلاف نے بوجوہ بڑھاوا دیا۔ مشرقی بنگال میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ’’جگتو فرنٹ‘‘ بنایا، جس نے بنگالی کو اُردو کے ہمراہ تخت پر بٹھانے کی بات کی۔ 1954ء میں محمد علی فارمولا پر بالآخر سمجھوتہ ہوا ،جس میں بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی سمیت جگتو فرنٹ والے بھی شریک تھے۔ اس میں ایک طرف ون یونٹ اور دوسری اُردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو تخت نشینی دینے پر اتفاق ہوا۔ 1956ء کے آئین میں اس سمجھوتے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا، مگر اس سے پاکستانی مادری زبانوں کا مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی چلا گیا۔ وجہ صاف تھی کہ ملک میں ایک سے زیادہ مادری زبانیں تھیں۔دو قومی زبانوں والے فیصلہ سے یہ تاثر بھی مضبوط ہوا کہ جو زبان زیادہ ’’کھپ‘‘ ڈالے گی اسے تخت شاہی میں جگہ مل جائے گی۔ مرکزیت پسند اور انگریزی زبان کے حمایتی اس لڑائی میں تیل ڈالتے رہے کہ اُردو اور پاکستانی مادری زبانوں میں جتنے اختلافات ہوں گے اس کے نتیجہ میں بیوروکریسی اور انگریزی زبان کی حاکمیت کی طرف تو کوئی دیکھے گا ہی نہیں۔ دوسری طرف اُردو کے منچلے تھے، جو جناح و اقبال کے خیالات سے رجوع کرنے کی بجائے محض اُردو کی حاکمیت کے لیے اسے واحد قومی زبان کے طور پر بحال کروانا چاہتے تھے۔ تیسری طرف پاکستانی مادری زبانوں کے حمایتی تھے ،جن میں سب سے طاقتور گروہ بنگالی زبان کے حمایتیوں کا تھا۔ یہ گروہ اُردو کے ساتھ بنگالی کی تخت نشینی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا ،مگر پاکستانی مادری زبانوں کے مسئلہ کو حل کرنے کا ویژن ان میں بھی مفقود تھا۔ یہ تو محض اپنی سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے ’’لسانی کھاتے‘‘ استعمال کرتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں بھارت نے 1948ء میں ’’ڈار کمیشن‘‘ بنایا، جس نے بھارتی آئین ساز اسمبلی کو ایک طرف یہ بتایا گیا کہ بھارت میں کتنی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں تو دوسری طرف ان مادری زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد بتائی گئی۔ اس رپورٹ کے تحت اسمبلی نے فیصلہ دیا کہ بھارت میں 96 زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان میں 26 ایسی ہیں ،جن کے بولنے والے 5 ہزار سے زیادہ ہیں، ان زبانوں میں پرائمری تعلیم دی جا سکتی ہے۔ البتہ انگریزی کی حاکمیت کو ’’ڈار کمیشن‘‘ بھی بوجوہ چیلنج نہ کر سکا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انگریزی کی حاکمیت کے حوالے سے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش بوجوہ ایک ہی جیسے مخمصوں کا شکار ہیں۔ البتہ ’’ڈار کمیشن‘‘ سے بھارتی قوم پرستی مضبوط ہوئی، مگر ہمارے ہاں مادری زبانوں کے حوالے سے تحفظات ہی رہے۔ 1971ء میں بنگالیوں سے ہماری جان ’’چھڑوا‘‘ دی گئی، مگر مادری زبانوں کے حوالے سے ریاست کا ’’خلل‘‘ برقرار رہا اور اس پر سیاستیں بھی جاری رہیں۔ اب انہوں نے سوچا کہ باقی ماندہ پاکستان میں بنگالی زبان جیسی تحریک پیدا ہی نہ ہو کہ اس کے لیے مادری زبانوں کو ایک دوسرے سے لڑانا اور زبانوں و لہجوں کے درمیان منافرت کو بڑھانا اولیت قرار دیا گیا۔ ضیاء الحق کے زمانے سے پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت تک یہ سیاست برقرار رہی اور تاحال یہ مسئلہ وفاق پاکستان کی درد سر بنا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پی کے کی پچھلی سرکار نے صوبہ کی زبانوں کے حوالے سے جو قانون بنایا تھا ،وہ بھی جگتو فرنٹ کی طرح محض ردعمل کی پیداوار تھا، جس نے خود صوبہ میں اختلافات کو بڑھایا ہی۔ پاکستانی مادری زبانوں کو سلجھانے کے لیے جس ویژن کی ضرورت تھی۔ وہ اے این پی کی گذشتہ حکومت میں بھی مفقود رہا۔ پاکستانی زبانوں کے مسئلہ کو صوبہ کی سطح کی بجائے وفاق کی سطح پر حل کرنے ہی سے بات آگے بڑھے گی۔ اس کا حل یہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی معاونت کے لیے پاکستانی زبانوں کے حوالہ سے قومی کمیشن بنایا جائے ،جو ایک طرف پاکستانی مادری زبانوں کی نشاندہی کرے، ان کے اعدادوشمار بتائے اور انگریزی اور اردو کے مقام کا تعین بھی کرے۔دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہیں اور ایسے بہت سے ممالک بھی جو ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ حل تو یہی ہے کہ آپ گہری سوچ بچار کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے اس دیرینہ اختلافی مسئلہ کو ایسے حل کریں کہ کوئی طالع آزما یا قبضہ گیر اسے مستقبل میں استعمال نہ کر سکے۔ پارلیمان کی معاونت کے لیے اعلیٰ کمیشن بنایا جائے ،جس میں پاکستانی مادری زبانوں اور ان سے منسلک ثقافتوں کے ماہرین بھی ہوں اور اُردو و انگریزی کے ماہرین بھی، تعلیم سے وابستہ محقق بھی اور انتظامیہ کے نمائندے بھی، کمیشن لسانیات کے بین الاقوامی ماہرین سے بھی مدد لے کہ پھر اس رپورٹ کی بنیاد پر پارلیمان فیصلہ کرے اور اسے آئین کا حصہ بنائے۔ اس سے پاکستان نہ صرف ایک دیرینہ اختلافی مسئلہ کو ختم کر سکے گا بلکہ وفاق پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔٭…٭…٭