اُردو کا مقام ، تعین کب ہو گا؟

اُردو کا مقام ،  تعین کب ہو گا؟

اسپیشل فیچر

تحریر : عامر ریاض


قیام پاکستان کے بعد تادم تحریر ’’زبانوں کی سیاست‘‘ کے ذریعے حزب ِاقتدار و حزب ِختلاف نے خوب نام کمایا۔ پاکستان کے پہلے وزیرتعلیم فضل الرحمن تو شریف آدمی تھے کہ انہوں نے پہلی تعلیمی کانفرنس منعقدہ نومبر 1947ء میں برملا نومولود پاکستانی ثقافت کو صوبوں میں بولی جانے والی قدیمی و تاریخی مادری زبانوں، ثقافت اور صوبوں کے تاریخی تسلسل سے نتھی کر دیا تھا۔ اپنی تقریر میں ان کا استدلال تھا کہ پنجابی، بنگالی، سندھی، پشتو اور بلوچ زبانوں کے سوتوں سے فیض پا کر ہی ’’پاکستانی ثقافت‘‘ تشکیل پائے گی، مگر قائداعظم کی وفات کے بعد سرکار کو آئی سی ایس افسران کی کھیپ نے ’’اُردو زبان‘‘ کو استعمال کرنے کا درس دیا۔ قائداعظم کی مشرقی بنگال میں کی گئی مشہور تقریر کو اپنے مقاصد کے لیے توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا حالانکہ اس تقریر میں قائداعظم نے اُردو کو ’’واحد قومی زبان‘‘ نہیں بلکہ ’’رابطہ کی زبان‘‘ کہا تھا جبکہ مشرقی بنگال کی اسمبلی کے صوبہ میںدفتری، تعلیمی و کاروباری سطح پر وہی زبان اختیار کرنے کے حق میں بات کی تھی جو اسمبلی منظور کرے۔ یہ وہی ویژن تھا ،جو خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال 1930ء میں دے چکے تھے۔ خطبہ الٰہ آباد میں لسانی و ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم کرنے کا مطالبہ ریکارڈ کا حصہ ہے، مگر آئین کے پہلے ڈرافٹ1950ء اور دوسری تعلیمی پالیسی1951ء منعقدہ کراچی میں اُردو کو واحد قومی زبان بنانے کی بات کی گئی، جو اقبال و جناح کے خیالات سے متصادم تھا۔ اس کے ردعمل میں بنگالی زبان کی تحریک نے جنم لیا ،جسے حزبِ اختلاف نے بوجوہ بڑھاوا دیا۔ مشرقی بنگال میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ’’جگتو فرنٹ‘‘ بنایا، جس نے بنگالی کو اُردو کے ہمراہ تخت پر بٹھانے کی بات کی۔ 1954ء میں محمد علی فارمولا پر بالآخر سمجھوتہ ہوا ،جس میں بنگالی رہنما حسین شہید سہروردی سمیت جگتو فرنٹ والے بھی شریک تھے۔ اس میں ایک طرف ون یونٹ اور دوسری اُردو کے ساتھ ساتھ بنگالی کو تخت نشینی دینے پر اتفاق ہوا۔ 1956ء کے آئین میں اس سمجھوتے کو قانون کا درجہ دے دیا گیا، مگر اس سے پاکستانی مادری زبانوں کا مسئلہ سلجھنے کے بجائے الجھتا ہی چلا گیا۔ وجہ صاف تھی کہ ملک میں ایک سے زیادہ مادری زبانیں تھیں۔دو قومی زبانوں والے فیصلہ سے یہ تاثر بھی مضبوط ہوا کہ جو زبان زیادہ ’’کھپ‘‘ ڈالے گی اسے تخت شاہی میں جگہ مل جائے گی۔ مرکزیت پسند اور انگریزی زبان کے حمایتی اس لڑائی میں تیل ڈالتے رہے کہ اُردو اور پاکستانی مادری زبانوں میں جتنے اختلافات ہوں گے اس کے نتیجہ میں بیوروکریسی اور انگریزی زبان کی حاکمیت کی طرف تو کوئی دیکھے گا ہی نہیں۔ دوسری طرف اُردو کے منچلے تھے، جو جناح و اقبال کے خیالات سے رجوع کرنے کی بجائے محض اُردو کی حاکمیت کے لیے اسے واحد قومی زبان کے طور پر بحال کروانا چاہتے تھے۔ تیسری طرف پاکستانی مادری زبانوں کے حمایتی تھے ،جن میں سب سے طاقتور گروہ بنگالی زبان کے حمایتیوں کا تھا۔ یہ گروہ اُردو کے ساتھ بنگالی کی تخت نشینی کو برقرار رکھنا چاہتا تھا ،مگر پاکستانی مادری زبانوں کے مسئلہ کو حل کرنے کا ویژن ان میں بھی مفقود تھا۔ یہ تو محض اپنی سیاست کو بڑھاوا دینے کے لیے ’’لسانی کھاتے‘‘ استعمال کرتے تھے۔ اس کے مقابلہ میں بھارت نے 1948ء میں ’’ڈار کمیشن‘‘ بنایا، جس نے بھارتی آئین ساز اسمبلی کو ایک طرف یہ بتایا گیا کہ بھارت میں کتنی مادری زبانیں بولی جاتی ہیں تو دوسری طرف ان مادری زبانوں کو بولنے والوں کی تعداد بتائی گئی۔ اس رپورٹ کے تحت اسمبلی نے فیصلہ دیا کہ بھارت میں 96 زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان میں 26 ایسی ہیں ،جن کے بولنے والے 5 ہزار سے زیادہ ہیں، ان زبانوں میں پرائمری تعلیم دی جا سکتی ہے۔ البتہ انگریزی کی حاکمیت کو ’’ڈار کمیشن‘‘ بھی بوجوہ چیلنج نہ کر سکا۔ طرفہ تماشہ یہ ہے کہ انگریزی کی حاکمیت کے حوالے سے بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش بوجوہ ایک ہی جیسے مخمصوں کا شکار ہیں۔ البتہ ’’ڈار کمیشن‘‘ سے بھارتی قوم پرستی مضبوط ہوئی، مگر ہمارے ہاں مادری زبانوں کے حوالے سے تحفظات ہی رہے۔ 1971ء میں بنگالیوں سے ہماری جان ’’چھڑوا‘‘ دی گئی، مگر مادری زبانوں کے حوالے سے ریاست کا ’’خلل‘‘ برقرار رہا اور اس پر سیاستیں بھی جاری رہیں۔ اب انہوں نے سوچا کہ باقی ماندہ پاکستان میں بنگالی زبان جیسی تحریک پیدا ہی نہ ہو کہ اس کے لیے مادری زبانوں کو ایک دوسرے سے لڑانا اور زبانوں و لہجوں کے درمیان منافرت کو بڑھانا اولیت قرار دیا گیا۔ ضیاء الحق کے زمانے سے پیپلز پارٹی کے تیسرے دور حکومت تک یہ سیاست برقرار رہی اور تاحال یہ مسئلہ وفاق پاکستان کی درد سر بنا ہے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خیبر پی کے کی پچھلی سرکار نے صوبہ کی زبانوں کے حوالے سے جو قانون بنایا تھا ،وہ بھی جگتو فرنٹ کی طرح محض ردعمل کی پیداوار تھا، جس نے خود صوبہ میں اختلافات کو بڑھایا ہی۔ پاکستانی مادری زبانوں کو سلجھانے کے لیے جس ویژن کی ضرورت تھی۔ وہ اے این پی کی گذشتہ حکومت میں بھی مفقود رہا۔ پاکستانی زبانوں کے مسئلہ کو صوبہ کی سطح کی بجائے وفاق کی سطح پر حل کرنے ہی سے بات آگے بڑھے گی۔ اس کا حل یہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی معاونت کے لیے پاکستانی زبانوں کے حوالہ سے قومی کمیشن بنایا جائے ،جو ایک طرف پاکستانی مادری زبانوں کی نشاندہی کرے، ان کے اعدادوشمار بتائے اور انگریزی اور اردو کے مقام کا تعین بھی کرے۔دنیا میں بہت سے ممالک ہیں جہاں ایک سے زیادہ قومی زبانیں ہیں اور ایسے بہت سے ممالک بھی جو ایک ہی زبان بولتے ہیں۔ حل تو یہی ہے کہ آپ گہری سوچ بچار کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعے اس دیرینہ اختلافی مسئلہ کو ایسے حل کریں کہ کوئی طالع آزما یا قبضہ گیر اسے مستقبل میں استعمال نہ کر سکے۔ پارلیمان کی معاونت کے لیے اعلیٰ کمیشن بنایا جائے ،جس میں پاکستانی مادری زبانوں اور ان سے منسلک ثقافتوں کے ماہرین بھی ہوں اور اُردو و انگریزی کے ماہرین بھی، تعلیم سے وابستہ محقق بھی اور انتظامیہ کے نمائندے بھی، کمیشن لسانیات کے بین الاقوامی ماہرین سے بھی مدد لے کہ پھر اس رپورٹ کی بنیاد پر پارلیمان فیصلہ کرے اور اسے آئین کا حصہ بنائے۔ اس سے پاکستان نہ صرف ایک دیرینہ اختلافی مسئلہ کو ختم کر سکے گا بلکہ وفاق پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

ماحول دوست بجلی پیدا کرنے والے مثالی ممالک

دور حاضر میں تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی دنیا بھر کی اقوام کیلئے ایک چیلنج بن چکا ہے۔ ماہرین بیشتر بیماریوں کا ذمہ دار جن میں معمول کی موسمی بیماریوں کے علاوہ پھیپھڑوں اور چھاتی کا کینسر ، نمونیا ، امراض قلب اور فالج سمیت دیگر متعدد بیماریاں شامل ہیں، فضائی آلودگی کو قرار دیتے ہیں۔ اس حقیقت سے اب انکار ممکن نہیں کہ آلودگی کا بڑا سبب فضا میں گرین ہاوس گیسوں کا بے جا اخراج ہے اور ان گیسوں کے اخراج کی سب سے بڑی وجہ فوسل فیول کا اندھا دھند استعمال ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں بڑی تیزی سے ماحول دوست توانائی کے استعمال کی حقیقت کو تسلیم کیا جانے لگا ہے ، تاہم اب بھی دنیا کے تین چوتھائی سے زیادہ ممالک روایتی ایندھن کے استعمال کو چھوڑنے پر تیار نظر نہیں آتے۔ آج ہم دنیا کے جن تین ممالک کا ذکر کرنے جارہے ہیں وہ پانی، ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی بنا کر نہ صرف خود کفیل ہو چکے ہیں بلکہ زائد بجلی فروخت کر کے زرمبادلہ بھی کما رہے ہیں۔ کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے والا منفرد ملک یونان کے جنوب مشرقی سمندر ایگین میں واقع بیشتر دوسرے جزائر کی طرح ''تیلاس‘‘ کا جزیرہ بھی ان دور افتادہ جزائر میں شامل ہے جن کے زیادہ تر ساحلی علاقے ویران پڑے ہیں۔ شواہد کے مطابق اس جزیرے پر گزشتہ 500سالوں سے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ تیلاس کے اردگرد 200 کے لگ بھگ چھوٹے چھوٹے جزیرے ایسے بھی ہیں جہاں پر آبادی موجود ہے۔ تیلاس تک پہنچنے کا واحد ذریعہ سمندری راستہ ہے۔ اس دور دراز علاقے تک پہنچنے کیلئے یونان سے 15 گھنٹوں کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ اس دوردراز علاقے کو سال کے بیشتر حصے میں متعدد مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے جس میں سرفہرست سردیوں میں پانی اور بجلی کی پیداوار میں کمی ہے۔ جس کا حل انہوں نے کوڑا کرکٹ سے بجلی پیدا کر کے نکالا ہے کیونکہ یہاں ہر سال اوسطاً تیس ہزار اور پڑوسی جزیرے رہوڈیس میں 20 لاکھ سیاح متوقع ہوتے ہیں ، جبکہ بجلی سپلائی کا دارومدار جزیرہ تیلاس پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ تیلاس جزیرہ پر اس وقت پانچ سو سے چھ سو خاندان بستے ہیں۔تیلاس باقی دنیا کے برعکس اپنا کوڑا کرکٹ زمین میں دفن کرنے کی بجائے اسے ری سائیکل کر رہا ہے اور اس سے بجلی بھی بنا رہا ہے ۔اس کے علاوہ ہوائی چکیوں ( ونڈ ٹربائین ) اور شمسی توانائی کے ذریعے نہ صرف اپنی ضرورت کی بجلی پیدا کررہا ہے بلکہ زائد بجلی کو پڑوسی ملکوں میں فروخت بھی کررہا ہے۔ تیلاس کی بندرگاہ سے اترتے ہی آپ کو باربرداری اور آمدورفت کیلئے بجلی سے چلتی گاڑیاں نظر آتی ہیں جبکہ سڑکوں کنارے نصب رہنمائی کرتے بورڈ شمسی توانائی پر چلتے نظر آتے ہیں۔تیلاس جزیرہ خود انحصاری کی ایک خوبصورت مثال کے طور دنیا بھر میں اپنی شناخت بنا چکا ہے۔ کیونکہ 90 کے عشرے میں اس جزیرے کیلئے اس وقت بڑے مسائل کھڑے ہو گئے تھے جب یہاں وسائل اور ضروریات زندگی کی عدم دستیابی کے باعث یہاں کی کثیر آبادی نے یہاں سے انحلا کرنا شروع کر دیا تھا اور گھٹتے گھٹتے یہاں کی آبادی محض 270 افراد رہ گئی۔یہاں پیدائش کی شرح بھی بہت کم تھی جس کے سبب یہاں کاواحد سکول بھی بند ہونے لگا اور ایسے لگ رہا تھا جیسے یہ جزیرہ بہت جلد ویران ہو جائے گا۔یہاں کے باسیوں نے رضاکارانہ طور پر اس جزیرے کو تباہی سے بچانے کیلئے خود انحصاری کو تقویت دی اور آج تیلاس میں بجلی سے لے کر ہر اشیا ء ضروریہ تک ان کی رسائی ہے۔ہوا کے ذریعے وسیع پیمانے پر بجلی پیداوار ڈنمارک کے حکام نے تین سال قبل اعلان کیا تھا کہ ڈنمارک خشکی پر ہوا کی ذریعے بجلی پیدا کرنے والا پہلا ملک ہے ۔ اس کے بعد ہم ساحل سمندر پر بھی ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے ابتدائی چند ممالک میں شامل ہیں اور اب ہم سمندر کے اندر اپنا الگ ایک ''توانائی جزیرہ‘‘ قائم کرنے جا رہے ہیں جو ڈنمارک کے مشرق میں بورہولم کے قریب بحیرہ بالٹک میں ہو گا۔ جو نہ صرف ڈنمارک کی بجلی کی ضروریات پوری کرے گا بلکہ وافر بجلی ایکسپورٹ بھی کرے گا۔ اس جزیرے سے جرمنی ، بلجئیم اور ہالینڈ کو بجلی برآمد کرنے کے معاہدے کئے جائیں گے۔ یہ منصوبہ بنیادی طور پر ڈنمارک کے 30لاکھ خاندانوں کو بجلی فراہم کرنے کا ایک منصوبہ ہے جو ایک وسیع و عریض مصنوعی جزیرے پر قائم کیا جا رہا ہے جو ساحل سمندر سے 80 کلومیٹر سمندر کے اندر تعمیر کیا جارہا ہے ۔یہ اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا ''توانائی جزیرہ‘‘ ہے۔ یہ ڈنمارک کی تاریخ کاسب سے بڑا منصوبہ ہے جس پر 34ارب ڈالر تخمینہ متوقع ہے۔ اس جزیرے کا ابتدائی رقبہ ایک لاکھ 20 ہزار مربع میٹر ہو گا جو بتدریج بڑھا کر 4لاکھ 60ہزار مربع میٹر کر دیا جائے گا۔ اس منصوبے کے ذریعے ایک مصنوعی جزیرے پر 200 کے لگ بھگ دیو ہیکل ہوا سے چلنے والے ٹربائن لگائے جائیں گے۔ سمندری لہروں سے بجلی کی پیداوار دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصہ سے اس نظرئیے پر کام کر رہے تھے کہ یہ کرۂ ارض جو 70فیصد پانی پر مشتمل ہے ، جب ہوا ، روشنی ، تیل اور دیگر ذرائع سے بجلی بنائی جا سکتی ہے تو سمندری لہروں اور موجوں سے کیوں نہیں بنائی جا سکتی۔ ویسے تو موجوں اور لہروں سے توانائی پیدا کرنے والا آلہ دوسو سال سے بھی زیادہ پہلے تیار کر لیا گیا تھا لیکن باقاعدہ طور پر اس آلے کی افادیت کو بروئے کار لانے میں پہل یورپ میں یورپی یونین کی مدد سے 2003ء میں سکاٹ لینڈ کے گرد و نواح کے پانیوں سے ہوئی۔ سکاٹ لینڈ کے مغربی ساحل سے بحیرہ اوقیانوس کی لہریں پوری طاقت کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ اس مقام پر '' اکوا میرین پاور اوئسٹر 800‘‘ نامی ایک آلہ دو دو میٹر بلند لہروں کے ساتھ حرکت کرتا نظر آتا ہے۔پانی سے باہر اس آلے کا صرف اوپر کا حصہ نظر آتا ہے۔پانی پیدا کرنے والا اصل نظام سمندر میں پندرہ میٹر کی گہرائی میں ایک پلیٹ فارم کے ساتھ منسلک ہے۔ لہروں اور موجوں کی حرکت کے نتیجے میں پانی بہت زیادہ پریشر کے ساتھ جا کر ان ٹربائنز کو چلاتا ہے جو ساحل پر بنی ایک عمارت میں موجود ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا پاور سٹیشن ہے جس کے ڈھانچے کے اندر ہی لہروں کی طاقت سے بجلی پیدا کرنے کا نظام موجود ہے جس کے ذریعے یہاں پیدا ہونے والی بجلی کو خشکی پر بھیجا جاتا ہے۔

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عظیم مسلم سائنسدان عباس بن سعید الجوہری اور خالد بن عبدالملک المروزی

عباس بن سعید الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون اس کو بہت چاہتا تھا اور اپنے پاس اسے رکھتا تھا۔ الجوہری نے علم ہیئت میں مہارت پیدا کر لی تھی۔ اس نے اپنے مالک کو ایک رصد گاہ کی تعمیر پر آمادہ کیا، مامون نے اس کی خواہش کے مطابق دو رصد گاہیں تعمیر کرا دیں جس کے منتظم حکیم یحییٰ منصور تھے۔مامون نے عباس کو آزاد کردیا تھا مگر اس نے مامون کے قریب ہی زندگی گزار دی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتعباس بن سعید الجوہری علم ہیئت کا ماہر اور باکمال ریاضی دان تھا۔ عباس الجوہری مامون الرشید کا غلام تھا۔ مامون الرشید اس کو بہت چاہتا تھا اس نے اسے آزاد کردیا، لیکن الجوہری نے مامون سے الگ ہونا پسند نہ کیا اور پوری عمر شاہی محل میں گزاری۔ مامون کے قریب ترین مصاحبوں میں سے تھا۔الجوہری کی صلاحیتوں اور علمی قابلیت سے مامون متاثر تھا اور اسے ہمیشہ قریب رکھتا تھا۔ عباس الجوہری آرام پسند نہ بنا بلکہ اس نے فرصت کے اوقات سے پورا پورا فائدہ اٹھایا وہ شاہی محل میں مطالعہ میں مصروف رہتا تھا۔علمی خدمات اور کارنامےعباس الجوہری علم ہیئت کا ماہر تھا۔ دربار میں بہت سے قابل لوگ جمع تھے۔ الجوہری نے مامون کو رضد گاہ کے قیام کیلئے مشورہ دیا، مامون خود بھی چاہتا تھا اس لئے فوراً آمادہ ہو گیا۔ الجوہری نے رصد گاہ کیلئے آلات کی صنعت پر توجہ کی کئی آلات اس نے تیار کئے اور آلات رصدیہ کی صفت میں اس نے کمال پیدا کیا۔مامون الرشید کے حکم سے دور صدگاہیں تعمیر ہوئیں، ایک بغداد میں شماسہ کے مقام پر دوسری ملک شام میں دمشق کے قریب قاسیون میں، دونوں رصد گاہوں کے لئے آلات صدیہ کو نصب کرنا اور ان کی دیکھ بھال الجوہری کے ذمے تھی۔ الجوہری تعمیرات کا نگران بھی تھا۔عباس الجوہری نے اپنے تجربات اور مشاہدات ایک کتاب کی صورت میں مرتب کئے۔خالد بن عبدالملک المروزی خالد بن عبدالملک ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ وہ تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف رہتا تھا اور اس حیثیت سے وہ دربار مامونی میں پہنچا۔ رصد گاہ جب بغداد میں تعمیر ہوئی تو وہ اس کا انچارج تھا۔ پھر جب قاسیون میں ایک اور رصد گاہ تعمیر ہوئی تو اسے انچارج بنا کر قاسیون بھیجا گیا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقاتی کیں۔ اس نے زیچ مامونی مرتب کیا۔ اس دور میں بیک وقت چار سائنسدان ماہرین کی جماعت موجود تھی، جن کو سائنس کے عناصر اربعہ کہا گیا۔ اس نے 849ء میں وفات پائی۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتخالد بن عبدالملک بھی ہیئت دانوں میں مشہور تھا۔ اس کا خاندان بغداد میں پہلے سے علمی حیثیت کا مالک تھا۔ خالد نے اپنے علمی ذوق و شوق نیز محنت اور مستعدی کے سبب اس فن میں کمال پیدا کیا اور کامیاب علمی زندگی گزاری، جب اس کی رسائی دربار میں ہوئی تو اپنی اعلیٰ قابلیت اور عمدہ صلاحیتوں کے سبب وہ ترقی کرکے سائنس دانوں کی جماعت میں شامل ہو گیا۔رصد گاہ جب تعمیر ہو گئی تو سائنس دانوں کی جماعت میں خالد بھی شامل تھا۔ وہ بھی تحقیق اور ریسرچ کے کاموں میں مصروف اور مشغول رہا۔ خالد بڑا خوش قسمت ہے کہ اس نے مامون الرشید المعتصم بن الرشید، الواثق بن العستصم اور آخر میں المتوکل ان سب کا زمانہ دیکھا اور ان سب کے دربار میں وہ عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔خالد کو قاسیون(ملک شام) کی رصدگاہ میں انچارج بنا کر بھیجا گیا اور کچھ روز بعد وہ انتقال کر گیا۔علمی خدمات اور کارنامےخالد کو علم ہیئت خصوصاً اجرام فلکی سے بڑی دلچسپی تھی۔ وہ تحقیق و ریسرچ کے کاموں میں ہمیشہ مصروف رہتا تھا۔ اس نے سورج سے متعلق نئی نئی تحقیقات کیں۔حکیم یحییٰ منصور نے جب زیچ مامونی مرتب کی تو خالد کے تجربات سے بھی فائدہ اٹھایا۔خالد اس دور میں سائنس کے عناصر اربعہ میں شامل تھا۔ 

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

انسانی خوبصورتی ظاہر سے باطن تک !

اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت خوبصورت تخلیق کیا۔ کسی کو مرد اور کسی کو عورت بنایا اور دونوں کو اپنے اپنے انداز میں حسین بنایا۔ عورت سے کائنات کا حسن ہے تو مرد سے زندگی کی روانی۔ لیکن اصل خوبصورتی صرف جسمانی یا ظاہری نہیں بلکہ انسان کے باطن، اس کے کردار، اور اس کی اخلاقیات میں پوشیدہ ہے۔انسان کی تخلیق میں جو سب سے بڑی نعمت ہے وہ اختیار ہے۔ یہ اختیار کہ وہ اپنے ظاہر اور باطن کو کیسا رکھتا ہے۔ ظاہری خوبصورتی کا پسند کیا جانا ایک فطری امر ہے، لیکن اگر اس کے ساتھ باطن کی خوبصورتی نہ ہو تو ظاہری حسن بھی کھوکھلا محسوس ہوتا ہے۔ اصل خوبصورتی یہ ہے کہ انسان اپنا دل پاکیزہ رکھے، اپنے ارادے مضبوط کرے اور اپنے عمل کو نیک اور پرخلوص بنائے۔آج کے دور میں سوشل میڈیا کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔ لوگ اپنی خوبصورت تصاویر، عمدہ کھانوں، مہنگے لباسوں اور خوشحال زندگی کی جھلکیاں شیئر کرتے ہیں۔ یہ سب دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا بہت حسین ہے اور لوگ مثالی زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب حقیقت میں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو بعض اوقات ان کی اصل شخصیت اس چمکتی دمکتی تصویر سے مختلف نکلتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کی اصل خوبصورتی کا امتحان ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص سوشل میڈیا پر تو خوش اخلاق اور مہذب دکھائی دے، لیکن اپنے گھر والوں، دوستوں یا دفتر میں بداخلاقی کا مظاہرہ کرے تو وہ خوبصورت نہیں کہلایا جا سکتا۔ خوبصورتی صرف چہرے یا الفاظ میں نہیں بلکہ انسان کے کردار میں ہوتی ہے۔ایک خوبصورت انسان وہ ہے جو اپنی حقیقی زندگی میں بھی اتنا ہی خوبصورت ہو جتنا وہ سوشل میڈیا پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے، اپنے شریکِ حیات کو عزت دے، اپنے بچوں کی تربیت میں دلچسپی لے اور اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے لیے ایک اچھا انسان ثابت ہو۔یہی حقیقی کامیابی اور خوبصورتی ہے کہ انسان نہ صرف اپنے ظاہری وجود کو نکھارے بلکہ اپنے باطن کو بھی بہتر بنائے۔ اپنی زندگی میں ایسے اصول اپنائے جو نہ صرف دنیاوی فائدے کے لیے ہوں بلکہ آخرت میں بھی کامیابی کی ضمانت بنیں۔ اس طرح ایک انسان دنیا اور آخرت دونوں میں خوبصورت اور کامیاب کہلائے گا۔یاد رکھیں، سوشل میڈیا پر تو کوئی بھی خوبصورت نظر آ سکتا ہے، لیکن حقیقی زندگی میں خوبصورت بننا اور رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اپنا کردار ایسا بنائیں کہ لوگ آپ کو نہ صرف ظاہری طور پر پسند کریں بلکہ آپ کے باطن، آپ کی اخلاقیات، اور آپ کی انسانیت کو بھی سراہیں۔ یہی حقیقی خوبصورتی ہے۔

تاریخی حادثہ: لندن سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا

تاریخی حادثہ: لندن سمندر کے گہرے پانیوں میں ڈوب گیا

29دسمبر1865ء کو برطانیہ کا ''لندن‘‘ نامی مشہور بحری جہاز مشرقی ہند سے آسٹریلیا کیلئے روانہ ہوا۔ یہ دوخانی جہاز حال ہی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس سے پہلے اس نے دو مرتبہ آسٹریلیا کا سفر کیا تھا۔ جہاز کے یہ دونوں سفر نہایت کامیاب رہے تھے اور جہاز نے خاصی نیک شہرت کمائی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس مرتبہ روانگی سے ایک ماہ پہلے ہی جہاز کی تمام نشستیں ریز رو ہو چکی تھیں۔353افراد کو لے کر جب جہازاپنے جان لیوا سفر پر روانہ ہوا تھاتو موسم تقریباً پر سکون تھا لیکن جب جہاز کھلے سمندر میں پہنچا تو موسم کے تیور بدلنے لگے۔ جلد ہی جہاز کو تیز ہوا اور ہر لحظہ بلند ہوتی ہوئی لہروں نے گھیر لیا۔ بہرحال حالات کچھ ایسے خراب نہیں تھے کہ جہاز کی واپسی کے بارے میں سوچا جاتا۔ جہاز مخصوص رفتار سے ''منزل‘‘ کی طرف رواں دواں رہا۔ اگلے روز ہوا کا زور قدرے کم ہو گیا۔ اس دن شام کے وقت مسافر اپنے کیبنوں سے نکلے اور مختلف تفریحات میں حصہ لیا۔ اتوار کی شام سے موسم پھر خراب ہونا شروع ہو گیا، تیز ہوا کے ساتھ بارش کی بوچھاڑ بھی شروع ہو گئی۔ اس روز مسافر جہاز کے بڑے کمرے میں جمع ہوئے اور وہاں انہوں نے عبادت میں حصہ لیا۔ منگل کے روز تک ہوا کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ جہاز کے کپتان مارٹن نے حکم دیا کہ جہاز پر سے تمام بادبان اتار لئے جائیں اور جہاز کو انجنوں کی طاقت سے صرف دو ناٹ کی رفتار سے چلایا جائے۔ بادبانوں کے اتارے جانے کے بعد سمندری لہروں نے جہاز کو اور بھی شدت سے اچھالنا شروع کردیا۔ ہر ہچکولے کے ساتھ لہریں جہاز کے اوپر سے ہو کر گزر جاتیں۔ صبح تقریباً سات بجے کے قریب ایک بہت بڑی لہر آئی اور اس نے جہاز پر بندھی ہوئی حفاظتی کشتیوں کو زبردست نقصان پہنچایا۔ اس لہر کی وجہ سے جہاز کا سامنے والا نوکدار حصہ اتنی قوت سے پانی کے ساتھ ٹکرایا کہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بے پناہ سردی اور گھمبیر تاریکی میں سمندر کی وحشی لہریں سارا دن جہاز کی آہنی چادروں سے ٹکراتی رہیں۔ سہ پہر کے وقت جب جہاز کے مسافر چائے پی رہے تھے ایک خوفناک لہر عرشے کے اوپر سے ہوتی ہوئی ہال کمرے میں گھس آئی۔ ہال کمرہ عورتوں اور بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر چیخ و پکار کرنے لگے اتنے میں ایک اور لہر آئی اور اس نے ہال کمرے کی ہر شے کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیا۔انتظامیہ نے ملاحوں کو حکم دیا کہ وہ ہال کمرے سے بالٹیوں کے ذریعے پانی نکالنے کی کوشش کریں۔اسی اثناء میں نہایت کمزور سی ہلکی ہلکی دھوپ بھی نکل آئی، مسافروں کے چہروں پر اطمینان کے آثار نظر آنے لگے لیکن یہ اطمینان وقتی تھا۔ جوں جوں دن ڈھلتا گیا موسم بتدریج خراب ہوتا چلا گیا۔ آثار بتا رہے تھے کہ جہاز کو اب ایک اور طوفانی رات کا سامنا کرنا ہوگا۔ جہاز کے سہمے ہوئے مسافر دیکھ رہے تھے کہ جنوب مغرب سے سیاہ بادلوں کا لشکر تیزی سے بڑھا چلا آ رہا ہے۔ تقریباً رات نو بجے تک طوفان میں بے پناہ شدت پیدا ہو چکی تھی۔ مسافروں میں زبردست اضطراب پایا جاتا تھا کچھ مسافر تو اپنے اپنے کیبنوں میں بند ہو کر عبادت میں مصروف ہو گئے تھے۔ کیپٹن مارٹن نے اندازہ لگایا کہ اگر جہاز کے انجن اسی طرح طوفانی لہروں میں جہاز کو کھینچتے رہے تو بہت جلد وہ گرم ہو کر کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ کپٹن نے عملے کو حکم دیا کہ جہاز کے انجن بند کر دیئے جائیں۔ہوا کے منہ زور تھپیڑوں نے چند ہی لمحوں میں بادبان کو چیتھڑوں میں تبدیل کرکے رکھ دیا۔ مجبوراً ایک بار پھر جہاز کے انجنوں کو سٹارٹ کیا گیا لیکن اب جہاز کے انجنوں کی کارکردگی بادبان کے بغیر بہت کم رہ گئی تھی۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ آج کی رات جہاز کو انجنوں اور بادبانوں کے بغیر سمندر کی لہروں پر کھلا چھوڑ دیا جائے لیکن بہت جلد افسروں کو اپنا یہ فیصلہ بھی واپس لینا پڑا۔رات کے 10بجے تک جہاز کے ہال کمروں میں تقریباً دو دو فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ تقریباً ساڑھے دس بجے ایک دیو قامت لہر درمیانی دروازے کو توڑتی ہوئی انجن روم میں گھس آئی۔ سیکڑوں ٹن برفیلا پانی انجن روم میں داخل ہو گیا۔ انجنوں نے فوراً کام کرنا چھوڑ دیا اور انجن روم کا عملہ بمشکل تمام اپنی جانیں بچا کر نکل سکا۔اب جہاز کے انجن لوہے کے بیکار ٹکڑوں کی مانند تھے۔ عملے کے ارکان بالٹیوں اور دستی نلکوں کے ذریعے پانی کو مسلسل جہاز میں سے باہر نکال رہے تھے۔ جہاز کا ہر مسافر جی جان سے عملے کے ارکان کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔طوفان کی شدت بڑھتی چلی گئی۔ رات کے پچھلے پہر چار بجے کے قریب پانی کا ایک اور زبردست ریلہ جہاز کے اندر داخل ہو گیا۔ کیپٹن مارٹن جہاز کے چیف انجینئر کے ساتھ انجن روم کا معائنہ کرنے کیلئے گیا۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ تقریباً پندرہ فٹ پانی جمع ہو چکا تھا۔ جب کیپٹن مارٹن معائنے کے بعد واپس آیا تو لوگوں نے اس کو گھیر لیا اس نے نہایت گھمبیر لہجے میں کہا '' میں آپ کو مایوس کرنا نہیں چاہتا لیکن ہمارے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی۔ اب کوئی معجزہ ہی ہم کو بچا سکتا ہے۔ جہاز پر اس وقت صرف ایک بڑی کشتی اور تین چھوٹی حفاظتی کشتیاں قابل استعمال تھیں۔ کیپٹن مارٹن کے حکم پر ایک چھوٹی کشتی کو تجرباتی طور پر سمندر میں اتارا گیا۔کشتی کے مسافروں میں تین انجینئر ایک کیڈٹ اور عملے کے بارہ ارکان تھے۔ مسافروں کی تعداد صرف تین تھی۔ کیپٹن مارٹن نے کشتی کو الوداع کہتے ہوئے کہا: ''جائو، خدا تمہاری مدد کرے‘‘ اور پھر چند ہی لمحے بعد عظیم الشان جہاز ''لندن‘‘ سمندر میں غائب ہونا شروع ہو گیا۔پہلا ناخوشگوار واقعہخراب موسم کے پیش نظر''بلائی مائوتھ‘‘ کی بندرگاہ پر جہاز کو روک لیا گیا جہاںجہاز کے مسافروں کو پہلے ناخوشگوار واقعہ کا سامنا کرنا پڑا۔ ہوا یوں کہ ایک ماہی گیر کشتی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہوئی آئی اور قریب پہنچ کر الٹ گئی۔ کشتی میں دو افراد سوار تھے جو سمندر کے یخ بستہ پانی میں غوطے کھانے لگے۔ جہاز کے عرشے پر سے سیکڑوں افراد اندوہناک منظر دیکھ رہے تھے۔ جہاز کے عملے نے فوری طور پر امدادی کشتی سمندر میں اتارنا چاہی لیکن بعض تکنیکی وجوہ کی بناء پر کشتی کو بروقت سمندر میں نہ اتارا جا سکا۔ اس تاخیر کی وجہ سے ایک شخص لہروں کی نذر ہو گیا۔جسے اللہ رکھے۔۔۔۔۔۔! جہاز پر سفر کرنے والے ایک سیاح کے دل میں نہ جانے کیا خیال آیا کہ اس نے فوری طور پر اپنا سفر ملتوی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنے ہمراہیوں کے بہت سمجھانے کے باوجود وہ نہ مانا اور واپس چلا گیا۔ جہاز پر سوار ایک اور نوجوان کو بھی زندگی نے موت کے مسافرں میں سے الگ کر لیا۔ یہ نوجوان اپنے والدین سے ناراض ہو کر آسٹریلیا جا رہا تھا۔ اس کے والدین نے اس کی گمشدگی کے ''دی ٹائمز‘‘ میں اشتہارات دیئے اور اپنے بیٹے سے گھر واپس آنے کی درخواست کی۔ ان اشتہارات کی وجہ سے جہاز کے مسافروں کو لڑکے کے بارے میں پتہ چلا۔ انہوں نے اسے سمجھایا بجھایا اور منت سماجت کرکے اسے سفر ترک کرنے پر رضا مند کر لیا۔ بعد میں ایک ذمے دار شخص کی وساطت سے اس نوجوان کو اس کے گھر روانہ کر دیا گیا۔ 

خشک میوہ جات

خشک میوہ جات

خشک میوہ جات موسم سرما کا ایک انمول تحفہ ہیں۔ یہ خوش ذائقہ اور صحت بخش ہوتے ہیں۔ یہ مختلف بیماریوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال کا کام سر انجام دیتے ہیں۔یہ نہ صرف جسمانی صحت کیلئے مفید ہوتے ہیں بلکہ بہت سے طبی امراض کو بھی دور کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ خشک میوہ جات موسم سرما میں جسم کے درجہ حرارت میں توازن قائم کرتے ہیں۔ اگرچہ ان میوہ جات میں تیل وافر مقدار میں موجود ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ جسم کو توانائی مہیا کرتے ہیں۔ یہ صحت بحال کرنے اور جسم کو طاقتور بنانے کیلئے اہم ہیںالبتہ ان کا اعتدال سے استعمال نہایت ضروری ہے۔ خشک میوہ جات غذائیت اور لذت سے بھرپور ہونے کی وجہ سے بچوں، بوڑھوں سب کی من پسند سوغات ہیں۔بادامبادام صدیوں سے قوتِ حافظہ اور بینائی کیلئے مفید قرار دیا جاتا رہا ہے۔اس میں وٹامن اے،بی کے علاوہ روغن اور نشاستہ بھی موجود ہوتا ہے۔یہ اعصاب کو طاقتور بناتا ہے۔دماغی کام کرنے والوں کیلئے اس کا استعمال ضروری قرار دیا جاتا ہے۔ماہرین غذائیت کے مطابق ایک سو گرام بادام کی کیلشیئم کی مقدار میں254ملی گرام، فولاد2.4ملی گرام،فاسفورس475ملی گرام اور حرارے 597ہوتے ہیں۔ یہ خشک پھلوں میں بے پناہ مقبولیت کاحامل ہے۔ یہ صحت مند چکنائی سے بھرپور ہونے کے سبب خون میں کولیسٹرول کی سطح کم کرتا ہے اور یوں اس کا استعمال دل کی تکلیف میں فائدے مند ثابت ہو سکتا ہے نیز اس کی بدولت عارضہ قبل میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی کم ہو جاتے ہیں۔اس حوالے سے ایک تحقیق کے مطابق تین اونس بادام کا روزانہ استعمال انسانی جسم میں کولیسٹرول کی سطح کو 14فیصد تک کم کرتا ہے۔ بادام ایک خشک بیج والا پھل ہے۔ بادام کی نو یا گیارہ گریاں رات کو پانی میں بھگو دیں اور صبح نہار منہ ان کا چھلکا اُتار کر کھائیں تو دماغی قوت میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔یہ رگوں کی خشکی اور دماغی گرمی کو زائل کرتا ہے۔اس کا حلوہ نزلہ ،زکام اور سر درد کیلئے مفید ہے۔پستہسردیوں کے موسم میں نمک لگے ہوئے پستے کھانے کا مزہ ہی کچھ اور ہے،لیکن ہائی بلڈ پریشر کے مریض ان سے اجتناب برتیں کیونکہ نمک کا ضرورت سے زیادہ استعمال ان کی صحت کیلئے مناسب نہیں۔پستے میں وٹامن بی پایا جاتا ہے، اس کے علاوہ کیلشیئم اور پوٹاشیم بھی اچھی خاصی مقدار میں ہوتے ہیں۔خوش ذائقہ ہونے کے باعث پستے کو مٹھائیوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ پستہ حافظے اور دماغ کو طاقت دیتا ہے،جسم کو فربہ کرتا ہے ،معدے اور گردوں کو تقویت بخشتا ہے۔اس کے علاوہ جسمانی قوت کو بڑھاتا ہے، خون صاف کرتا ہے،کھانسی دور کرنے اور بلغم صاف کرنے میں بھی مفید ہے۔مٹھی بھر پستہ روزانہ کھانے سے امراضِ قلب کے خطرے سے کافی حد تک محفوظ رہا جا سکتا ہے۔تحقیق کیلئے ماہرین نے ایک گروہ کو روزانہ تقریباً نوے گرام پستے کھلائے۔ ایک ماہ کے بعد معلو م ہوا کہ ا ن کے مجموعی کولیسٹرول میں8.4فیصد کمی واقع ہوئی ہے،جبکہ مضر صحت کولیسٹرول بھی کم ہوا۔جن غذائوں میں پستہ شامل کیا جاتا ہے ان غذائوں کو استعمال کرنے والوں میں مفید صحت کولیسٹرول کے مقابلے میں مضر صحت کولیسٹرول کی مقدار کم رہتی ہے۔پستے میں کیلشیئم، پوٹاشیم او ر حیاتین بھی اچھی خاصی مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔وہ لوگ جو باقاعدگی سے گری دار میوے مثلاً پستہ کھاتے ہیں ان کا جسمانی وزن کم رہتا ہے اور ان میں خطر ناک قسم کے امراض میں مبتلا ہونے کا اندیشہ بھی کم رہتا ہے۔پستے جسم میں حرارت بھی پیدا کرتے ہیں،جبکہ قوتِ حافظہ،دل،معدے اور دماغ کیلئے بھی مفید ہیں۔اخروٹاخروٹ کی شکل بالکل انسانی دماغ کی طرح ہوتی ہے۔یہ وہ غذائی جزو ہے جو دماغ کو صحت مند طور پر کام کرنے کے قابل رکھنے کیلئے بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔اخروٹ کھانے سے حراروں میں اضافہ ہوتا ہے۔اس کے تیل کی مالش فالج اور لقوہ میں مفید ہے۔سردیوں کے موسم میں اکثر جوڑوں کے درد کی تکلیف رہتی ہے۔دل اور دورانِ خون کے نطام میں بھی فائدے مند ہے۔معالج کے مشورے سے اخروٹ کھانے سے کولیسٹرول نارمل رہتا ہے۔اس کے علاوہ کینسر کے ممکنہ حملے کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔بڑی آنت کے کینسر، چھاتی کے کینسر کے خطرے کو کم کرتا ہے۔اخرو ٹ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کے حصول کا اہم ذریعہ ہے۔کاجوکاجو ایک خوش ذائقہ میوہ ہے۔ اس کی بو تیز اور مغز میٹھا ہوتا ہے۔ شوگر کے مریضوں کیلئے اس کا باقاعدہ استعمال ضروری ہے۔ اس کو فرائی کرکے بھی کھایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کاجو کے بیج میں ایسے قدرتی اجزا پائے جاتے ہیں جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے مغز کا مربہ دل و دماغ کو طاقتور بناتا ہے اور دانتوں کے درد میں کمی پیدا کرتا ہے۔ اس کا تیل پھوڑے پھنسی پر لگایا جاتا ہے۔ کاجو میں موجود معدنیات سے جسمانی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔ بچوں کی ہڈیاں مضبوط بنانے کیلئے کاجو بہت مفید ہے اگر اس کو اعتدال کے ساتھ کھایا جائے تو یہ بہت فائدہ دیتا ہے۔خشک میوہ جات کھانے میں احتیاط ضروری٭...بادام بغیر بھگوئے کھانے سے قبض کی شکایت ہوتی ہے، ،کڑوے بادام کھانے سے آنکھوں کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ کڑوے بادام کھانے سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔٭...اخروٹ مقدار میں کم کھانے چاہئیں کیونکہ یہ گلے میں خراش اور منہ میں چھالے بننے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اخروٹ دن کے بجائے رات سونے سے قبل کھائیں، اخروٹ کھانے کے بعد چائے پینا نقصان دہ ہے ثابت ہو سکتا ہے۔٭...چلغوزہ ہمیشہ کھانے کے بعد استعمال کریں ورنہ بھوک ختم ہوجائے گی۔ 20 گرام سے زائد چلغوزے سر اور جسم کے مختلف حصوں میں درد کی شکایت پیدا کر سکتے ہیں۔٭...کھجور نہایت میٹھا پھل ہے اسی لیے شوگر کے مریضوں کو اس سے دور رہنا چاہیے، ایک وقت میں تین سے زیادہ کھجوریں کھانا شوگر لیول بڑھا سکتا ہے جبکہ اس سے پیٹ بھی خراب ہو سکتا ہے۔٭...کشمش کا استعمال دانتوں کو مضبوط بناتا ہے مگر گرم تاثیر رکھنے کے سبب اس کے زیادہ استعمال سے پیٹ خراب، متلی، نکسیر کا پھوٹنا اور چہرے پر دانوں کا ہونا شامل ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ23 دسمبر 1971ء کو صدر اور سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی کابینہ نے حلف اٹھایا۔ یہ پاکستان کی پہلی منتخب کابینہ تھی جس کے تمام ممبران الیکشن جیت کر آئے تھے۔ اس کابینہ میں بزرگ سیاستدان نورالامین اور راجہ تری دیو رائے بھی شامل تھے جنہوں سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان میں رہنا پسند کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان دونوں کی حب الوطنی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ نور الامین کو پاکستان کی تاریخ میں واحد نائب صدر کا عہدہ دیا گیا تھا جو محض ایک علامتی اور اعزازی عہدہ تھا۔ راجہ تری دیو رائے کو اقلیتی امور کی وزارت دی گئی تھی۔جنگ عظیم دوئم: امریکی فوج کی پسپائیویک آئی لینڈ کی جنگ دوسری جنگ عظیم کی بحرالکاہل مہم کی ایک جنگ تھی، جو ویک آئی لینڈ پر لڑی گئی۔ لڑائی کا آغاز8 دسمبر 1941ء کو پرل ہاربر پر حملے سے ہوا اور 23 دسمبر کو جاپان کی سلطنت کے سامنے امریکی افواج کے ہتھیار ڈالنے پر ختم ہوئی۔ یہ جاپانی سلطنت کی فضائی، زمینی اور بحری افواج کے ذریعے امریکہ کے خلاف ایک بڑی کارروائی تھی۔ ٹرانسیسٹر کی رونمائی1947ء میں آج کے روز ''بیل لیبارٹریز‘‘ میں پہلی بار ٹرانسسٹر کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا۔ ٹرانزسٹر ایک سیمی کنڈکٹر ڈیوائس ہے جو برقی سگنلز اور پاور کو بڑھانے یا تبدیل کرنے کیلئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ جدید الیکٹرانکس کی بنیادی چیزوں میں سے ایک ہے۔ یہ سیمی کنڈکٹر مواد پر مشتمل ہوتا ہے۔ بیشتر ماہرین اسے 20ویں صدی کی عظیم ترین ایجادات میں سے ایک سمجھتے ہیں۔گردے کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ1954ء میں آج کے روز گردے کا پہلا کامیاب ٹرانسپلانٹ کیا گیا۔ یہ آپریشن امریکن ماہر یورالوجسٹ ڈاکٹر جے ہارٹ ویل ہیریسن اور ماہر پلاسٹک سرجن جوزف مرے کی مشترکہ کاوش تھا۔گردے کی پیوند کاری کو عام طور پر مردہ عطیہ دہندہ یا زندہ عطیہ کنندہ ٹرانسپلانٹیشن کے طور پر عطیہ کرنے والے عضو کے ماخذ کی بنیاد پر درجہ بندی کی جاتی ہے۔ زندہ عطیہ کرنے والے گردے کی پیوند کاری کو مزید جینیاتی طور پر متعلقہ یا غیر متعلقہ ٹرانسپلانٹس کی خصوصیت دی جاتی ہے۔ اس بات پر منحصر ہے کہ عطیہ دہندہ اور وصول کنندہ کے درمیان حیاتیاتی تعلق موجود ہے یا نہیں۔