حقّا کہ بنائے لاالہ است حسینؓ
محرم ،کربلا اور حسین ؓ کا نام آتے ہی آنکھیں وضو کرنے لگتی ہیں ۔ بے شک یہ ایام صراطِ مستقیم،دین کی سر بلندی ،فلسفہ قربانی اورمقصدِ حیات سمجھنے کے ہیں ۔ کربلامیں اہل ِ بیتؓ کی قربانیوں نے دین کو نئی زندگی عطا کی ۔اسلام اور توحید کو سمجھنے کیلئے امام ِ عالی مقامؓ کے چند ارشادات کا مطالعہ کرلینا ہی کافی ہے ۔ آپ ؓ فرماتے ہیں کہ’’معبود، جوچیزیں اپنے وجود میں تیری محتاج ہیں ان سے تیرے لئے کیونکر استدلال کیا جا سکتا ہے؟ کیاکسی کے لئے اتناظہور ہے جوتیرے لئے ہے؟ تاکہ وہ تیرے اظہار کا ذریعہ بن سکے،(بھلا) توغائب ہی کب تھاکہ تیرے لئے کسی ایسی دلیل کی ضرورت پڑے جو تیرے اوپر دلالت کرے؟ اورتوکب دورتھا تاکہ آثارکے ذریعے تجھ تک پہنچاجاسکے؟ اندھی ہوجائیں وہ آنکھیں جو تجھے نہ دیکھ سکیں حالانکہ توہمیشہ ان کاہم نشین تھا۔ (دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 226)۔مظلوم ِ کربلا ایک اور مقام پر فرماتے ہیں کہ’’ جس نے تجھ کوکھودیااس کوکیاملا؟ اورجس نے تجھ کوپالیاکون سی چیزہے جس کواس نے نہیں حاصل کیا؟ جوبھی تیرے بدلے میں جس پربھی راضی ہوا،وہ تمام چیزوں سے محروم ہوگیا‘‘۔(دعائے عرفہ ،بحار/ج 98 ص 22۔ آپ ؓ کے ارشادات میں تو حید کی انتہائی آسان اور مختصر الفاظ میںتشریح ملتی ہے کہ’’ اس قوم کوکبھی فلاح حاصل نہیں ہوسکتی جس نے خداکوناراض کرکے مخلوق کی مرضی خریدلی۔(مقتل خوارزمی،ج 1 ص 239) ۔ قیامت کے دن اسی کوامن وامان حاصل ہوگا جو دنیا میں خداسے ڈرتارہاہو۔(بحار/ج 44 ص 192)۔ خداوندعالم نے امربہ معروف ونہی ازمنکرکواپنے ایک واجب کی حیثیت سے پہلے ذکرکیاکیونکہ وہ جانتاہے کہ اگریہ دونوں فریضے (امربمعروف ونہی ازمنکر) اداکئے گئے توسارے فرائض خواہ سخت ہوںیانرم،قائم ہوجائیں گے کیونکہ یہ دونوں انسانوں کواسلام کی طرف دعوت دینے والے ہیں اورصاحبان حقوق کے حقوق ان کی طرف پلٹانے والے ہیں اورظالموں کومخالفت پرآمادہ کرنے والے ہیں۔(تحف العقول ص 237)۔ لوگو! رسولؐ خداکاارشادہے : جودیکھے کسی ظالم بادشاہ کوکہ اس نے حرام کوحلال کردیاہے، پیمان الہٰی کوتوڑدیاہے سنت رسولؐ کی مخالفت کرتاہے، بندگان خداکے درمیان ظلم وگناہ کرتاہے اورپھربھی نہ عمل سے اورنہ قول سے اس کی مخالفت کرتاہے توخداپرواجب ہے کہ اس ظالم بادشاہ کے عذاب کی جگہ اس کوڈال دے۔(مقتل خوارزمی،ج 1 ص 234)۔ لوگ دنیاکے غلام ہیں ،اوردین ان کی زبانوں کے لئے چٹنی ہے ،جب تک (دین کے نام پر) معاش کادارومدارہے دین کانام لیتے ہیں لیکن جب مصیبتوں میں مبتلاہوجاتے ہیں تو دینداروں کی تعدادبہت کم ہوجاتی ہے۔تحف العقول ص 445)۔ جوشخص خداکی نافرمانی کرکے اپنامقصدحاصل کرنا چاہتاہے اس کے حصول مقصدکاراستہ بندہوجاتاہے اوربہت جلدخطرات میں گھرسکتاہے۔ (تحف العقول ص 24۔ کیاتم نہیں دیکھ رہے ہوکہ حق پرعمل نہیں ہورہاہے ،اورباطل سے دوری نہیں اختیارکی جا رہی ہے،ایسی صورت میں مومن کاحق ہے کہ لقائے الہی کی رغبت کرے۔(تحف العقول ص 245)‘‘۔کربلا میں توحید کے پروانوں نے وہ دادِ شجاعت دی جو قیامت تک کوئی نہ دے سکے گا ۔ خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ذبح ِ عظیم کے بارے میں ہی کہا تھا کہ ’’حقّا کہ بنائے لاالہ است حسین‘‘۔ امام عالی مقام ؓ کی نظر میں موت سعادت کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ ؓکا فرمان ہے کہ ’’ میں موت کوسعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کواذیت سمجھتا ہوں۔ (تحف العقول ص 245)۔کربلا کے شہیدوں کو ہمارا سلام …دین پر مر مٹنے والوں کو ہمارا سلام …توحید کے رکھوالوں کو ہمارا سلام …لرزے نہیں ، تڑپے نہیں ، ثابت قدم رہے حسین ؓ کے لشکر میں یہ کیسے سوار تھے تَر کربلا کو کر گئے بچے رسول ؐ کے بھوکے رہے ، پیاسے رہے ، حق کی فرات تھے زینبؓ ذلیل کر گئی تخت ِ یزید کو نیزے پہ جو بلند ہوئے وہ اِمام ؓتھے اصغر تمہاری پیاس پہ کوثر بھی رو پڑی فوجِ یزید میں سبھی زر کے غلام تھےقاسم کے ٹکڑے دیکھ کے حیدر ؓ نے یہ کہا کربل کے سب شہید میرے ہمکلام تھے ٭…٭…٭