لفظ جھیل کے ساتھ ہی انسان کے ذہن میں ایک خوبصورت اور خوشگوار تاثر جنم لیتا ہے۔ جھیل فطری طور پر موجود پانی کا ایک بڑا مگر ساکت ذخیرہ ہوتا ہے۔جھیلیں عام طور پر دو طرح کی ہوتی ہیں۔ایک قدرتی اور دوسری مصنوعی۔ قدرتی جھیلیں پہاڑی علاقوں، خوابیدہ آتش فشانی دھانوں ،سرسبز میدانی ودایوں اور گلیشئرز والے علاقوں میں عام طور پر پائی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زائد جھیلیں پھیلی ہوئی ہیں جن میں زیادہ تعداد قدرتی جھیلوں کی ہے۔ ان میں بہت ساری جھیلیں عالمی شہرت کی وجہ سے سارا سال دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہیں۔دنیا بھر میں ایسی جھیلوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے خطرناک محل وقوع اور پیچیدہ ساخت کی وجہ سے باقاعدہ طور پر مقامی انتظامیہ کی طرف سے ''ممنوعہ علاقے ‘‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اس کے باوجود بھی دنیا بھر سے آئے جنونی اور مہم جو سیاح تمام خطرات کو بالائے طاق رکھ کر انہیں دیکھنے پہنچ جاتے ہیں۔ ذیل میںایسی ہی کچھ خطرناک جھیلوں کا ذکرہے۔کیوو جھیل کانگو جمہوریہ کانگو اور روانڈا کی سرحد کے بیچوں بیچ افریقہ کی ایک بڑی اور خطرناک جھیل واقع ہے جس کی شہرت ''کیوو کانگو جھیل‘‘ کے نام سے ہے۔ یہ جھیل اپنے اندر زہریلی میتھین گیس کے وسیع ذخائر کی وجہ سے ماہرین کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ اس پراسرار جھیل میں ایک اندازے کے مطابق 60 ارب کیوبک میٹر میتھین گیس اور 300 کیوبک میٹر کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس تحلیل ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اسی پر ہی بس نہیں ہے بلکہ اس خطرناک گیس کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس گیس کا منبہ اس جھیل کے قریب ایک آتش فشاں ہے جس کے بار بار پھٹنے اور جھیل کیوو کی تہہ میں موجود بیکٹیریا کے گلنے سڑنے کے عمل کے دوران یہ گیس پیدا ہو رہی ہے۔ماہرین ایک عرصہ سے کانگو حکومت کے اکابرین کو متنبہ کرتے آرہے ہیں کہ میتھین گیس کی یہ غیر معمولی مقدار کسی ایٹم بم کی طرح انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔گیس کے بڑھتے اس خطرناک عمل کو ماہرین نے ''اوور ٹرن‘‘کا نام دیا ہے۔جبکہ سائنسی زبان میں اسے ''لمنک ایریپشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔یہ عمل تب وقوع پذیر ہوتا ہے جب جھیل کی تہہ میں موجود پانی کے دبائو کی وجہ سے گیس کا پریشر بھی بڑھ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں تکنیکی ردعمل وجود میں آتا ہے جس سے قریب کی آبادیوں کیلئے جان لیوا خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تاہم یہاں سائنسدانوں کی یہ کوشش لائق تحسین ہے جس کے ذریعے وہ اس گیس سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر غور کر رہے ہیں۔ رامری جزیرہبرما کے قریب ایک ویران جزیرہ کو ''رامری جزیرہ ‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے، اس کی وجہ شہرت یہاں پر موجود ایک جھیل میں غیرمعمولی تعداد میں موجود آدم خور مگر مچھوں کی موجودگی ہے ۔ جس کی وجہ سے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اس جزیرے کو اس روئے زمین پر جانوروں کے ہاتھوں سب سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصان اور ہلاکتوں کو قرار دیا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانیوں نے امریکی فوج کے حملوں سے بچنے کیلئے اس خفیہ مقام کو محفوظ سمجھتے ہوئے اس جزیرے کا رخ کیا تھا جو اس حقیقت سے لاعلم تھے کہ یہ مقام آدم خور مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ چنانچہ ایک اندازے کے مطابق اس دوران جاپان کے 900کے لگ بھگ فوجی ان مگرمچھوں کی بھینٹ چڑھ کر موت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ یہ روایات بھی ہیں کہ اس دوران صرف چند ایک فوجی زندہ بچ پائے تھے۔ جہاں تک اس جزیرے کی اس خونی جھیل کے مگر مچھوں کی تعداد کا تعلق ہے، اگرچہ صحیح تعداد کا دعویٰ یوں تو آج تک سامنے نہیں آیا لیکن واقفان حال کے اندازوں کے مطابق یہ جھیل۔ 30 ہزار سے زائد مگر مچھوں کا مسکن ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے اس علاقے کو خطرناک علاقہ قرار دیا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہر سال متعدد جنونی اور مہم جو سیاح ان مگر مچھوں کی خوراک بنتے رہتے ہیں۔ خونی جھیل جاپان کے ایک شہر بیپو میں سرخ رنگ کے اُبلتے ہوئے پانی کی ایک جھیل سیاحت کے اعتبار سے خاصی شہرت کی حامل ہے۔ یہ جھیل جاپان کے غیر معمولی درجہ حرارت والے گرم پانی کے چشموں اور جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس جھیل کے پانی کا درجہ حرارت 194 فارن ہائیٹ تک رہتا ہے۔ جہاں تک اس کے خون کی رنگت والے سرخ پانی کا تعلق ہے تو ماہرین کے مطابق چونکہ اس جھیل کی تہہ میں فولاد اور نمک کہ وافر مقدار موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے پانی کی رنگت سرخ ہے۔اس جھیل کا سرکاری نام جاپانی زبان میں ''Chinoike Jigoku‘‘ ہے جس کے معنی''جہنم کی خونی جھیل ‘‘کے ہیں۔اس لئے عرف عام میں اس جھیل کو خونی جھیل بھی کہتے ہیں ، جس کے نام کی کشش کی وجہ سے دور دور سے لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔اس جھیل بارے صدیوں پرانی سینہ بہ سینہ چلتی سیکڑوں مقامی روایات بھی جڑی ہوئی ہیں جن میں ایک مقبول روایت کے مطابق دیوتا ناراضگی کی صورت میں اپنے پجاریوں کو اس جھیل میں پھینک دیا کرتے تھے۔ او کفنوکی جھیلامریکی ریاست جارجیا کے شمال مشرق میں واقع 438000 ایکڑ کے وسیع رقبے پر پھیلی گہرے سیاہ رنگ کی ایک خوفناک جھیل جو اب رفتہ رفتہ ایک ایسی خوفناک دلدل میں بدل چکی ہے جس کا سب کچھ ہی انتہائی خطرناک ہے۔ یہاں تک کہ یہاں موجود بیشتر پودے بھی گوشت خور نسل کے ہیں جو ہر لمحہ انسانی خون کے پیاسے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس دلدل کے اردگرد گھنی جھاڑیاں اور خود رو پودوں کے اندر کالے سیاہ مچھر ہر وقت منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ماہرین کے مطابق یہاں ہزاروں کی تعداد میں زہریلے سانپ ، موٹے تازے مینڈک اور کالے سیاہ رنگ کے مگر مچھ پانی کی سیاہ رنگت کی وجہ سے نظر نہیں آتے۔ اگرچہ سیاحوں کو اس جھیل سے دور رہنے کیلئے جگہ جگہ تحریری طور پر متنبہ کیا جاتا ہے لیکن اکثر و بیشتر کچھ جنونی مہم جو جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کی اس وادی تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر موجود خود رو گھاس بھی اس قدر خطرناک ہے کہ اس دلدل کے قرب و جوار میں موجود سڑکوں اور عمارات تک کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ جیکبس ویل جھیلامریکی ریاست ٹیکساس میں واقع یہ کرسٹل کی طرح چمکدار اور صاف شفاف پانی کی ایک خوبصورت قدرتی جھیل ہے جس کی گہرائی لگ بھگ 30فٹ ہے۔یہ اپنی خوبصورتی کے برعکس دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں شمار ہوتی ہے کیونکہ اس کی تہہ میں خطرناک ، گہری اور پراسرار غاروں کا جال بچھا ہوا ہے۔ اگر کوئی غلطی سے اس جھیل میں غوطہ زن ہو کر غاروں کے قریب پہنچ جائے تو ماہرین کے بقول اس کی واپسی کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں۔مشی گن جھیل امریکہ کی یہ جھیل بھی انتہائی خطرناک جھیل ہے کیونکہ یہاں بہت کم غوطہ خور اس میں تیراکی کے بعد واپس آتے ہیں۔ اس جھیل کو ایک پر اسرار اور خطرناک جھیل کی شہرت اس لئے ہے کہ یہ ہر سال سیکڑوں ہلاکتوں کا باعث بنتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سو غوطہ خوروں میں سات سے آٹھ افراد جاں کی بازی ہار جاتے ہیں۔ماونٹ اریبس جھیلانٹارکٹکا میں واقع یہ جھیل نہ صرف ایک عجوبہ عالم ہے بلکہ دنیا کی چند خطرناک ترین جھیلوں میں سے بھی ایک ہے۔ عجوبہ جھیل اسے اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کے پانی کے اوپر والے حصے کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ پانی کے اندر کا درجہ حرارت 1700 ڈگری سینٹی گریڈ کے آس پاس ہوتا ہے۔یہ چونکہ آتش فشاں کے لاوے کے ذریعے وجود میں آنے والی ایک جھیل ہے جس کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت غیرمعمولی رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا کی خطرناک ترین جھیلوں میں سے ایک ہے۔ اس کے قریب جانا خطرے سے خالی اس لئے نہیں ہے کہ اس آتش فشاں کا لاوا کسی بھی لمحہ پھٹ سکتا ہے اور آناً فاناً دس سے بیس فٹ فاصلے کے درمیان چیزوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ کھولتی ہوئی جھیل ڈومینیکا کے پہاڑوں کے درمیان واقع ایک جھیل ایسی ہے جس کا پانی زیادہ تر ابلتا رہتا ہے۔ اس کا اوسط درجہ حرارت 198 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ انتظامیہ نے اس جھیل میں اترنے یا اس میں نہانے پر پابندی لگا رکھی ہے۔ مقامی لوگوں نے اس جھیل کو ''ابلتی جھیل‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔