حزیں قادری…پنجابی فلموں کے ماتھے کا جھومر
ان جیسا نابغہ روزگار شاعر اور کہانی نویس پنجابی فلموں کو اب تک نہیں مل سکا**********اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں بڑے اعلیٰ درجے کی پنجابی فلمیں بنائی گئیں۔ یہ پنجابی فلمیں پوری دنیا میں اپنی شہرت کا ڈنکا بجاتی رہیں۔ کچھ پنجابی فلمیں ایسی بھی تھیں جنہیں بھارت میں ریلیز کیا گیا تو وہ وہاںایک لمبے عرصے تک نمائش پذیر رہیں۔ ان فلموں کی شاندار کامیابی میںجہاں ہدایتکار اداکار اور گلوکار اہم کردار ادا کرتے تھے وہاں اس فلم کی موسیقی، سکرپٹ اور نغمات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے تو پنجابی فلموں کی کہانیوں کے حوالے سے کئی نام سامنے آتے ہیں اور اسی طرح پنجابی گیت نگاروں نے بھی خوب نام کمایا۔ ایک نام ایسا تھا جو پنجابی فلموں کی کہانیوں اور گیت نگاری میں اپنا ایک الگ مقام رکھتا تھا، آج بھی پنجابی فلموں کو ان کا متبادل نہیں مل سکا… یہ نام تھا حزیں قادری۔حزیں قادری کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ انہوں نے ان گنت فلموں کے گیت بھی لکھے اور سکرپٹ بھی۔ ان کی کامیاب فلموں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ وہ پنجابی فلموں کی شان سمجھے جاتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر کہتے تھے کہ ان کی کونسی فلم سلور جوبلی کرے گی اور کونسی گولڈن جوبلی۔ وہ ایک بہت عمدہ نعت گو بھی تھے۔ 1926ء میں گوجرانوالہ کے گائوں راجہ تمولی میں پیدا ہونے والے حزیں قادری غربت و افلاس کے سبب اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ وہ صرف پرائمری پاس تھے۔ لیکن اس پرائمری پاس کو قدرت نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انہوں نے ان صلاحیتوں کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ ایک عالم نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا۔حزیں قادری کو سب سے پہلے ریڈیو پاکستان میں گانے کا موقع ملا جہاں ان کا پہلا گیت ہی بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بول کچھ یوں تھے ’’اکھیاں توں رہن دے اکھیاں دے نال‘‘ پاکستانی فلمی صنعت کے نامور ہدایت کارانور کمال پاشا نے 1950ء میںانہیں اپنی کامیاب فلم ’’دو آنسو‘‘ میں موقع دیا۔1960ء سے 1970ء کی دہائی بلاشبہ حزیں قادری کے نام ہے۔ اس پورے عشرے میں وہ مصروف ترین پنجابی فلموں کے گیت نگار اور کہانی نویس تھے۔ 1955ء میں انہیں فلم ’’ہیر‘‘ سے بریک تھرو ملا ،جب ان کا لکھا ہوا گیت ’’اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے‘‘ مقبولیت کی تمام حدیں پار کرگیا اور کمال کی بات یہ ہے کہ 60 برس گزرنے کے باوجود اس گیت کی شہرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اس لازوال گیت کو زبیدہ خانم نے گایا تھا اور موسیقی بابا چشتی نے ترتیب دی تھی۔ ان کی یادگار فلموں میں ’’ہیر، پاٹے خان، پتن، ماہی منڈا، نوراں، چھومنتر، موج میلہ، پھنے خان، جماں جنج نال، چن مکھناں، بائو جی، سجن پیارا، جنٹرمین، ماں پتر،سجناں دور دیا، خان چاچا، سلطان، مستانہ ماہی ‘‘اور کئی دوسری فلمیں شامل ہیں۔ انہوں نے مذکورہ بالا فلموںکے گیت بھی لکھے اور ان میں سے کئی فلموں کے سکرپٹ بھی تحریر کیے ۔ وہ 1970ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’سجناں دور دیا‘‘ کے پروڈیوسر بھی تھے۔ ہم اپنے قارئین کیلئے ان کے چند مشہور ترین پنجابی نغمات کا ذکر کریں گے۔-1 اساں جان کے میٹ لئی اکھ وے(ہیر)-2رناں والیاں دے پکن پراٹھے (ماہی منڈا)-3برے نصیب میرے (چھومنتر) -4ٹانگے والا خیر منگدا (ڈاچی)-5چن میرے مکھناں (چن مکھناں)-6سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا (مستانہ ماہی)-7ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں (ملنگی)-8سجناں نیں بوہے اگے چک تان لئی(بھریا میلہ)-9اپنابناکے، دل لاکے چھڈ جائیں ناں (جنٹرمین)-10 دلدار صدقے، لکھ وار صدقے (سلطان)حزیں قادری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں دوبار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ اعزاز انہیں فلم ’’ضدی‘‘ (1973ء) اور’’غازی علم دین شہید‘‘(1978ء) کا سکرپٹ لکھنے پر ملا۔ ’’ضدی‘‘ کو آج بھی پاکستان کی چند بہترین پنجابی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔حزیں قادری نے بھٹی پکچرز کیلئے بھی گرانقدر خدمات سرانجام دیں۔ ’’چن مکھناں‘‘، ’’سجن پیارا اورجند جان‘‘ کے کہانی نویس اور گیت نگار حزیں قادری ہی تھے۔ ان تینوں فلموں نے عدیم النظیر کامیابی حاصل کی اور ہرطرف بھٹی پکچرز کا طوطی بولنے لگا۔بھٹی پکچرز کے روح رواں عنایت حسین بھٹی گلوکار بھی تھے اور اداکار بھی۔ وہ بڑے زیرک اور دانا شخص تھے۔ ان کی ایک اور بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ مردم شناس تھے اور جوہر قابل کی قدرومنزلت کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے حزیں قادری کو بہت احترام دیا۔ یہاں تک کہ بھٹی پکچرز کی ہر فلم کے آغاز پر یہ لکھا ہوتا تھا۔ ’’حزیں قادری پیش کرتے ہیں‘‘۔ عنایت حسین بھٹی کے چھوٹے بھائی کفایت حسین بھٹی المعروف کیفی کو بھی حزیں قادری نے ’’سجن پیارا‘‘ میں متعارف کرانے کی تجویز دی تھی۔ اس سے پہلے یہ کردار اداکار حبیب کو سونپا گیا تھا۔ حزیں قادری کے زمانے میں بھٹی پکچرز پر دولت کی بارش ہونے لگی۔ لیکن یہ مرد درویش ہمیشہ حرص اور لالچ سے دور رہا۔ حزیں قادری کو ان کی اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔1989ء میں انہیں ایک اور اعزاز سے نوازا گیا جب انہیں 25 سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ 19 مارچ 1991ء کو حزیں قادری راہی ملک عدم ہوئے۔ ان کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ پنجابی فلموں کے ماتھے کا جھومر تھے۔… ان جیسا شاید اب کوئی نہ آئے۔٭…٭…٭