کورونا:فوج کا بھی 15 روز کو اہم قرار دینا سنجیدگی کا متقاضی

تجزیے

تجزیہ : سلمان غنی


عمران خان سمیت حکومتی ذمہ د اران کنفیوژن سے باہر آئیں ،پھر یکسوئی عوام پر لازمانٹرنل سکیورٹی الائونس نہ لینا یکجہتی کا اظہار،بھارتی قیادت کا طرزعمل بے نقاب کردیا

مسلح افواج کی جانب سے کورونا ڈیوٹی پر انٹرنل سکیورٹی الاؤنس نہ لینے کا اعلان دراصل کورونا کے متاثرین اور کورونا کے ہاتھوں مسائل زدہ عوام سے یکجہتی کا اظہار ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں مسلح افواج اپنے عوام کے ساتھ کھڑی ہیں ۔مسلح افواج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے پریس بریفنگ میں جہاں بھارتی فوجی لیڈرشپ کے غیرذمہ د ارانہ طرزعمل اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنا موقف ظاہر کیا وہاں انہوں نے کورونا کے حوالے سے آنے والے 15 روز کو بھی اہم قرار دیتے ہوئے محتاط رہنے اور گھروں کو ہی مسکن بنانے پر زور دیا ۔فوجی ترجمان کی جانب سے بھی آنے والے 15 روز کو اہم قرار دینا نہایت سنجیدگی کا متقاضی ہے ، کیونکہ حکومتی ذمہ داران اور ڈاکٹرز کمیونٹی بھی یہ باور کراتی آرہی ہے کہ لاک ڈاؤن کے حوالے سے آدھاشکر، آدھا پنیر والی صورتحال رہی تو ہمیں علاج کیلئے سڑکوں پر کام کرنا ہوگا ۔اب فوجی ترجمان کا یہ کہنا کہ 15 روز اہم ہیں سب کیلئے کسی بڑے پیغام سے کم نہیں ، اس کی روشنی میں اپنے اپنے طرزعمل پر نظرثانی کرتے ہوئے سنجیدگی پیدا کرنا ہوگی ، خصوصاً وزیراعظم عمران خان سمیت حکومتی ذمہ د اران کو کنفیوژن سے باہر آنا ہوگا ، پھر یکسوئی عوام پر لازم ہوگی۔فوجی ترجمان نے اپنی بریفنگ میں بھارتی فوجی قیادت کے طرزعمل کو بھی بے نقاب کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ بھارتی فوجی قیادت کے حالیہ بیان ان کے اندرونی حالات پر مایوسی کا اظہار ہے ۔ ایک جانب مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور وہاں ان کے غیرانسانی رویہ کے باعث انہیں شرمندگی کا سامنا ہے اور دوسری جانب بھارت کے اندر کی صورتحال نے بھی حکومت اور فوج دونوں کو دفاعی محاذ پر لاکھڑا کیا ہے ۔ مسلح افواج کے ترجمان کی جانب سے کورونا کے سدباب کیلئے اقدامات اور بھارتی طرزعمل پربیان حقیقت پسندانہ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مسلح افواج اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ملک و قوم کو درپیش ہر چیلنج میں اپنا بھرپور اور موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

وزیراعظم کی یکسوئی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اہم

وزیراعظم عمران خان کے آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب اور اس میں اٹھائے جانے والے نکات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وزیراعظم نہ صرف خود کشمیر کاز کے حوالے سے یکسو اور سنجیدہ ہیں بلکہ ان کی حکومت مسئلے کی عالمی حیثیت کے حوالے سے طے شدہ پلان پر گامزن ہے ، جس کے نتیجے میں کشمیر کی آزادی کی جدوجہد فیصلہ کن ہو سکتی ہے ۔ وزیراعظم کی یکسوئی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے اہم ہے ۔ وزیراعظم نے اپنا بیانیہ کھول کر رکھ دیا اور 5 اگست کے بھارتی اقدام پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا مذکورہ اقدام کا مقصد طے شدہ ایجنڈا کے ساتھ دہشت پھیلانے اور کشمیریوں کی آواز دبانے کا منظم عمل تھا لیکن یہ بھارت کو الٹا پڑا اور یہ آوازیں دبنے کے بجائے مزید ابھریں۔ وزیراعظم کی جانب سے ایک اہم اعلان جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کے رہنما علی گیلانی کے لیے نشانِ پاکستان تھا۔ علی گیلانی جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر میں بنیادی کردارکے حامل ہیں اور پاکستان سے ان کی کمٹمنٹ کا عالم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں پاکستان اقتصادی و معاشی لحاظ سے مضبوط ہو گا تو جدوجہدِ آزادی میں اپنا کردار ادا کر سکے گا۔ سید علی گیلانی کے لیے نشانِ پاکستان کے اعزاز کے اعلان کے مقبوضہ وادی میں زبردست اثرات ہوں گے کیوں کہ ان کو وہاں تمام طبقات خصوصاً نوجوانوں میں زبردست پذیرائی حاصل ہے ۔ وزیراعظم کے خطاب کو آزادیٔ کشمیر کی جدوجہد اور اس کی نتیجہ خیزی کے حوالے سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان کے اندر 5 اگست کے حوالے سے پیدا شدہ اتحاد و یکجہتی کی فضا کو برقرار رکھا جائے اور اسی سپرٹ کو پاکستان کی اقتصادی و معاشی ترقی کے لیے بروئے کار لایا جائے کیوں کہ مضبوط، مستحکم پاکستان زیادہ مؤثر انداز میں کشمیر کی آزادی کے حوالے سے اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ عمران خان مسئلہ کشمیر کی عالمگیریت کے قائل ہیں اس کے لیے انہیں مؤثر حکمت عملی کے تحت ایسے سفارت کار اور سیاست دانوں کو بیرونی محاذ پر بروئے کار لانا پڑے گا جو مسئلے کی اہمیت کو جانتے ہوئے اپنا کیس دنیا کے سامنے رکھ سکیں۔ کشمیر پر مذاکرات کا عمل ہمارے لیے فائدہ مند رہے گا کیوں کہ ہمارا سیاسی کیس ہے ، جب کہ بھارت مذاکرات سے گریزاں ہی اس لیے ہے کہ اس کا کوئی سیاسی کیس نہیں۔کشمیریوں کی جدوجہد فیصلہ کن بنانے کے لیے ضروری ہے کہ عالمی اور علاقائی طور پر ہر پلیٹ فارم پر کشمیر کاز پر بات کی جائے ۔

سرینگر کی منزل جدوجہد کی متقاضی، مربوط پالیسی بنائیں

حکومت نے بھارت کی جانب سے پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے دن کو یوم استحصال کے طورپر منانے کے اعلان کے ساتھ واضح کیا ہے کہ ہماری منزل سرینگر ہے ، جس جامع مسجد کو تالے لگائے گئے ہیں وہ تالے ٹوٹیں گے ، بھارت نے ایک سال میں دیکھ لیا کہ دس لاکھ فوج تعینات کرنے کے بعد بھی وہ یہاں اپنا تسلط قائم نہیں کر سکا اور کشمیری کرفیو اور لاک ڈاؤن کے باوجود بھی اپنی آزادی ، حق خودارادیت کیلئے میدان عمل میں موجود ہیں۔ ہر شہید کا جنازہ بھارت سے نفرت کی علامت کے طور پر بڑی احتجاجی ریلی میں تبدیل ہوتا نظر آتا ہے کشمیری نوجوان بھارتی افواج کیلئے تر نوالہ بننے کو تیار نہیں ، ان کے پاس اب آزادی کے حصول کیلئے مزاحمت کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا ، 5 اگست 2019 سے 5 اگست 2020 تک کا سفر ظاہر کرتا ہے کہ کشمیریوں نے سرنڈر نہیں کیا وہ اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوئے وہ حق خود ارادیت پر سمجھوتے کیلئے تیار نہیں اور وہ مر سکتے ہیں مگر بھارتی تسلط قبول نہیں کر سکتے ۔ پاکستان کے اہل سیاست کشمیریوں کی جدوجہد سے یکجہتی کا اظہار تو کرتے نظر آتے ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اس نازک گھڑی میں اپنے نجی معاملات میں الجھنے کے بجائے مصیبت میں گھری اس محکوم، مظلوم اور نہتی قوم کی مدد کیلئے آگے آئیں،پاکستان غیرسنجیدگی کا شکار ہو کر ذاتی مصلحتوں کے گرداب میں پھنسا رہا تو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ ہمارے وزیر خارجہ سرینگر کو منزل تو قرار دیتے نظر آتے ہیں مگر منزل کے حصول کیلئے کرنا کیا ہو گا ،یہ بتاتے نظر نہیں آتے ، یہ منزل نعروں، تقریروں کی نہیں جدوجہد کی متقاضی ہے ،کشمیر کا مقدمہ پاکستان میں لڑنے کے بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کا مکروہ، شرمناک اور بھدا چہرہ دنیا کو دکھایا جائے ،5 اگست کے موقع پر حکومت پاکستان کی جانب سے اپنے سرکاری نقشہ میں مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے کا اعلان کشمیر کاز سے اپنی کمٹمنٹ کا اظہار اور اس بات کا واضح اعلان ہے کہ کشمیر ہمارا ہے اور سارے کا سارا ہے ،لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے عملی رنگ دینے کیلئے ایک مؤثر اور مربوط پالیسی اختیار کی جائے تا کہ عالمی سطح پر اس کیلئے فضا سازگار ہو اور پھر کشمیریوں کو مستقبل کے تعین کیلئے حق خود ارادیت مل سکے ۔

مقامی حکومتوں کا سسٹم زیادہ تر ڈکٹیٹرشپ میں پلا بڑھا

 شدید بارشوں کے عمل کے نتیجہ میں ملک بھر کے اہم شہروں خصوصاً کراچی میں پیدا شدہ صورتحال اور تباہی و بربادی کے عمل نے ملک بھر میں مقامی حکومتوں کے موثر فعال اور مضبوط سسٹم کی ضرورت و اہمیت کو اور اجاگر کیا ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کہ اگر واقعتاً شہری حکومتیں اپنے اصل مقاصد کے حوالے سے منظم اور سرگرم عمل ہوتیں تو نہ تو نالے بند ہوتے اور نہ ہی نالوں پر قائم کی جانے والی جھونپڑیاں اور مکان تباہ و برباد ہوتے ۔ بارشوں کے نتیجہ میں پیدا شدہ حالات و واقعات اور تباہی کے عمل کے حوالے سے یہ تاثر تو عام ہوا ہے کہ یہ کام اور ذمہ داری نہ تو وفاقی حکومت ادا کر سکتی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں اس سارے عمل کو کنٹرول کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں اور نہ ہی ملک بھر میں دیگر اداروں کو اس کے سدباب کی ذمہ داری مل سکتی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں بلدیاتی انتخابات اور مقامی حکومتوں کا سسٹم زیادہ تر ڈکٹیٹرشپ میں پلا بڑھا اور اس کے انتخابات ممکن ہوئے جبکہ جمہوری حکومتوں اور اسمبلیوں کا ان اداروں سے تعلق محض سوتن کا رہا ہے ۔کراچی جیسے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں حالیہ بارشوں سے پیدا شدہ صورتحال نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ مقامی حکومتیں موجود ہوں اور بے اختیار ہوں تو اسے مقامی حکومت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آج بھی کراچی کے عوام کراچی میں پیدا شدہ صورتحال پر نعمت اﷲ خان، عبدالستار افغانی اور فاروق ستار کے ادوار کو یاد کرتے نظر آتے ہیں مگر آج کی کراچی کی حکومت صرف نام کی حد تک ہے مگر وہ ہروقت اختیارات اور فنڈز کی عدم فراہمی کا رونا روتی نظر آتی ہے اور اس بنیاد پر وہ خود کو جوابدہ نہیں سمجھتی اور حالیہ بارشوں کے نتیجہ میں یہ ثابت ہوا ہے کہ مقامی حکومتوں کے سسٹم کو فعال اور مضبوط بنائے بغیر ان مسائل کا حل ممکن نہیں اور یہ ذمہ داریاں نہ تو وفاق ادا کر سکتا ہے اور نہ ہی صوبائی حکومتیں یا دیگر ادارے ، اس حوالے سے اٹھارویں ترمیم کا جائزہ لیا جائے تو اٹھارویں ترمیم میں طے پایا تھا کہ وفاق فنڈز کی فراہمی صوبوں کو اور صوبے آگے اضلاع کو منتقل کریں گے مگر عملاً دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سیاسی حکومتوں میں فنڈز کی فراہمی صوبوں کو تو کی گئی مگر صوبوں کے آگے فنڈز اضلاع میں فراہم نہیں کئے جس سے ترقیاتی عمل اور خصوصاً صحت و صفائی کا نظام عمل معطل ہو کر رہ گیا اور اسی بنیاد پر اب اٹھارویں ترمیم پر نظرثانی کے حوالہ سے آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں ۔اگر اسلام آباد میں بیٹھ کر صوبوں کو نہیں چلایا جا سکتا تو پھر کراچی میں بیٹھ کر سندھ ،لاہورمیں بیٹھ کر پنجاب ، کوئٹہ میں بیٹھ کر بلوچستان اور پشاور میں بیٹھ کر پختوانخوا کو کیسے چلایا جا سکتا ہے لہٰذا یہ سارا عمل تب ہی ممکن ہوگا جب گورننس یقینی بنائی جائے گی ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جن ایشوز پر ہمارے حکمران اور سیاستدان اصولاً اتفاق کرتے نظر آتے ہیں مگر عملاً وہ ان پر پیش رفت سے گریزاں نظر آتے ہیں۔دنیا بھر پر نظر دوڑا کر دیکھیں تو نیویارک، پیرس، برطانیہ،ایران اور ترکی جیسے کئی ممالک میں مسند اقتدار پر پہنچنے والے اکثر حکمران کسی نہ کسی سطح پر مقامی اور شہری حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اور انہوں نے بنیادی جمہوریت کے ان اداروں کے ذریعے ہی تجربہ حاصل کر کے ملکی سطح پر کامیاب سسٹم چلایا ۔

بڑی تحریک کیلئے فضل الرحمن کے سوا کوئی سنجیدہ نہیں

لاہور اپوزیشن کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنتا نظر آ رہا ہے ، اپوزیشن کی تین بڑی جماعتوں کے سربراہان کی ملاقاتوں اور مشاورت کے عمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ حکومت کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں ، وہ اب اس سے نجات میں ہی قوم و ملک کا مفاد سمجھتے ہیں، اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف کسی تحریک یا جدوجہد میں کس حد تک سنجیدہ ہیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے وہ آپس میں کتنی مخلص ہیں۔ کیا ان کا مطمع نظر صرف وزیراعظم عمران خان سے نجات ہے یا وہ ان ہاؤس تبدیلی کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ زمینی اور سیاسی حقائق یہی ہیں کہ حکومت عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ گورننس کا خواب حقیقت نہیں بنا۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر دباؤ ان کا سیاسی حق ہے اور سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف مختلف نکات پر اکٹھی ہوتی رہی ہیں لیکن کسی بھی تحریک کے نتیجہ میں کسی وزیراعظم نے استعفیٰ نہیں دیا۔ جہاں تک عوامی مسائل کا سوال ہے تو اب تک تو اپوزیشن اور بڑی جماعتوں نے عوام کے بڑے مسائل خصوصاً مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کو بڑا ایشو نہیں بنایا اور ان کا ردعمل اور احتجاج محض ٹویٹس اور اخباری بیانات تک محدود رہا۔ فی الحال کسی بڑی احتجاجی تحریک کے حوالے سے سوائے مولانا فضل الرحمن کے اور کوئی سنجیدہ نہیں۔ ن لیگ کے صدر شہباز شریف کسی بڑی مہم جوئی کے خواہاں نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کا جارحانہ انداز دراصل مستقبل کی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے اور وہ اپنی والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایشوز کی بنیاد پر محاذ گرم رکھنے کے خواہاں ہیں مگر وہ یہ نہیں چاہیں گے کہ اپوزیشن کی کسی تحریک یا احتجاج کے نتیجہ میں گیم ہی ان کے ہاتھ سے نکل جائے اور ویسے بھی پیپلز پارٹی اس سسٹم میں سندھ حکومت ہونے کے باعث سٹیک ہولڈر بھی ہے ۔اپوزیشن کی تیاریوں کو مذاق قرار دینے والی حکومت کو اس عمل کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا اور اپوزیشن سے ڈیڈ لاک توڑنے کی ذمہ داری بھی حکومت کی ہوتی ہے ۔ آج حکومت جو بات ماننے سے انکاری ہے ،ہو سکتا ہے کہ آنے والے چند ہفتوں میں وہ اس کیلئے تیار ہو،لہٰذا اس مرحلہ پر جب عوامی سطح پر مایوسی، بے چینی پائی جا رہی ہے حکومت اور اپوزیشن کوسیاسی معاملات کا حل مل جل کر نکالنا چاہیے ۔ ایک دوسرے پر چڑھائی کا عمل دونوں کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔  

مودی سرکارکی دہشتگرد پالیسیاں بھارت کیلئے بھی خطرہ

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کو نہایت اہمیت کا حامل اور حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے خطہ میں دہشت گردی کے رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت میں موجود دہشت گرد تمام پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ ہیں۔ پاکستان میں افغانستان سے دہشت گردی ہوتی ہے اور کالعدم تحریک طالبان اور جماعت الاحرار پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ مذکورہ رپورٹ کو دو نکات کے حوالہ سے اہم قرار دیا جا سکتا ہے ۔ ایک تو افغان سرزمین پر دہشت گردوں کی موجودگی اور دوسرا بھارت کی مختلف ریاستوں میں داعش کی سرگرمیاں لیکن سب سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا جس میں کہا گیا کہ بھارت میں موجود دہشت گردی عناصر پڑوسی ممالک کیلئے خطرہ ہیں کیونکہ کوئی بھی ہمسایہ ملک ایسا نہیں جس نے بھارت پر اپنے اندرونی استحکام کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ نہ کہا ہو کہ بھارت سرکار کی پالیسیاں اور اقدامات خود ان کیلئے خطرہ کا باعث ہیں اور اس کی بڑی وجہ وہاں کی انتہا پسند اور شدت پسند سرکار ہے جس نے اب ریاستی اداروں کو بھی اپنی پالیسی کا تابع بناتے ہوئے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل پر لگا رکھا ہے جس کی ایک بڑی مثال ہندوستان میں اقلیتوں پر زندگی اجیرن کرنے میں ان کا کردار ہے ۔ ہندوستان کے اندر شائع ہونے والی رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ انتہا پسندی کے ریاستی مظاہرے ملک میں دہشت گردی کا باعث بن سکتے ہیں اور اب یہ سلسلہ ہندوؤں تک محدودنہیں رہا اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی اپنی بقا اور سلامتی کیلئے ہتھیار اٹھا رہے ہیں اور یہ سلسلہ آنے والے وقت میں ہندوستان کی وحدت کیلئے خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جہاں تک افغان سرزمین پر دہشت گردی کا سوال ہے تو یہ سرزمین سالہا سال سے اس آگ میں جل رہی ہے اور اس کی تپش نے پاکستان کو بھی متاثر کیا ہے لہٰذا پاکستان نے اپنے علاقائی کردار اور معاشی مفادات کے تحت افغانستان میں امن کو اپنے استحکام کے ساتھ مشروط کیا اور اس حوالہ سے کوشش شروع کی اور بالآخر عالمی طاقتیں جو کبھی پاکستان کو اس حوالہ سے موردالزام ٹھہرا رہی تھیں انہیں پاکستان کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ افغان امن عمل میں پاکستان کا کردار ڈھکا چھپا نہیں جبکہ افغان سرزمین کا دہشت گردی کیلئے استعمال کے واضح شواہد موجود ہیں کہ بھارت اس میں بنیادی کردار ادا کرتا آیا ہے ۔ اس مقصد کیلئے را اور این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ تھا۔ ٹی ٹی پی اور پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو بھی اس کی آشیرباد حاصل تھی۔ عالمی ادارہ نے اپنی رپورٹ میں بھارت اور افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی اور ان کے ہاتھوں ہمسایہ ممالک میں خطرات اور خدشات کی بات کی ہے تو اسے سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے ۔ خطہ میں امن تبھی ممکن ہوگا جب ریاستی سطح پر اس مائنڈسیٹ کا علاج کیا جائے جو انتہا پسندی اور شدت پسندی کو بروئے کار لا کر ریاستی اداروں کو دہشت گردی پر اکساتا ہے اور خصوصاً خطہ کو درپیش سلگتے مسائل خصوصاً کشمیر جیسے ایشو کے حل کیلئے عالمی طاقتوں اور عالمی اداروں کو آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ کسی بھی بے بس نہتی قوم کے خلاف طاقت اور قوت کا استعمال ردعمل کا باعث بنتا ہے ۔ اگر حکومتیں خود کو انتہا پسندی اور شدت پسندی سے الگ کر لیں اور مسائل کا سیاسی حل نکالنے پر تیار ہوں تو خطے کو دہشت گردی سے پاک اور پر امن کیا جا سکتا ہے ۔

سیاست میں بلاول کی کامیابی کافیصلہ زرداری کا کردار کریگا

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اہم ایشوز پر سیاسی محاذ پر گرجتے برستے نظر آ رہے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ وہ کوئی سیاسی سرگرمی نہ کرتے ہوں اور میڈیا کے ذریعے اہم قومی ایشوز پر اظہار خیال کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ہوں، جبکہ دوسری جانب سندھ حکومت پیپلز پارٹی کے پاس ہے مگر طویل عرصہ سے سندھ میں برسراقتدار رہنے کے باوجود کیا پیپلز پارٹی سندھ میں ترقی و خوشحالی کے عمل، گورننس اور انصاف کے میدان میں ڈلیور کر پائی، بہت سے ایسے نکات ہیں جن پر پیپلزپارٹی جیسی قومی جماعت کے بارے میں جاننا ضروری ہے ، اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کون سی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر پیپلز پارٹی جیسی قومی جماعت صرف سندھ تک محدود ہو گئی۔ پنجاب میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو کو ملنے والی زبردست پذیرائی کے بعد کون سی وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر پنجاب میں اس نے سیاسی و عوامی محاذ پر بہت کچھ کھویا اور کیا اب وہ یہاں اپنی پوزیشن بحال کر پائے گی۔ بلاول کی سیاست پرجوش بھی ہے اور جرأتمندانہ بھی ، مگر ان کے مستقبل میں کامیابی کا فیصلہ پیپلز پارٹی اور اقتدار کے ایوانوں میں آصف علی زرداری کا کردار طے کرے گا، موجودہ حکومت تمام بحرانوں کے ساتھ اصل نقصان جمہوری نظام کا کر رہی ہے ،پارلیمنٹ کا کوئی بڑا کردار نہ ہونا، فیصلہ کن عہدوں پر غیرمنتخب ٹیکنو کریٹس کا براجمان ہونا، جمہوری اقدار خصوصاً آزادی اظہار رائے پر سمجھوتا اور سب سے بڑھ کر اقتدار اور اختیار کی مرکزیت جس سے جمہوری نظام کی کھلے عام نفی ہو رہی ہے ، اس سارے منظر نامے پر بلاول متحرک ہے تو صرف پریس بریفنگز یا ٹویٹ بیانات کی حد تک، مراد علی شاہ کی وزارت اعلیٰ میں پیپلز پارٹی یہ تاثر دینے میں تو کامیاب رہی ہے کہ اب قائم علی شاہ کا دور عملاً ختم ہو چکا ہے ،مگر دہائیوں کی بری طرز حکمرانی نے انہیں بہت پریشان کر رکھا ہے ، اندرون سندھ گورننس کا یہ بحران بلاول کیلئے موقع بھی ہے اور آزمائش بھی،بلاول نے وفاق کی سیاست کرنی ہے اور پنجاب میں جگہ پھر سے حاصل کرنی ہے تو پھر انہیں نئے پاکستان سے پہلے نیا سندھ ضرور بنانا ہوگا، اس کیلئے رائے عامہ کے میدان میں آصف علی زرداری اور ان کے سیاسی یاروں کو بھی نظر سے غائب کرنا ہوگا،دوسرا اہم کام انہیں حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے پارلیمنٹ میں تقریروں کے بجائے گورننس اور معیشت کا متبادل پلان دینا ہوگا، ملک میں سیاسی اور معاشی بحران ہے اور لوگ عمران خان کی حکومت سے بہتری کی توقع چھوڑ چکے ہیں اس لیے ایک زبردست عوامی تحریک برپا کرنی ہوگی،اس سے تین کام ہوں گے ، پہلے مرحلے میں حکومت پر دباؤ بڑھے گا اور شاید معاملات اس دباؤ کے نتیجے میں کچھ بہتری کی طرف چلے جائیں ، یوں لوگوں کا سسٹم پر کھویا ہوا اعتماد بحال ہوگا کیونکہ لوگ سوچیں گے کہ حکومت ناکام ہو رہی تھی تو اپوزیشن کے دباؤ پر اصلاح و احوال بھی ہوئی،یوں جمہوریت مضبوط ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں بلاول کی قومی سیاست کی راہ ہموار ہوگی اور پنجاب میں پیپلز پارٹی کو بھٹو صاحب کے زمانے والی پذیرائی نہیں تو کم از کم خاطر خواہ عوامی تائید ضرور مل سکتی ہے ،پنجاب نواز لیگ کا سیاسی گڑھ ہے اور اب اس میں تحریک انصاف بھی اپنا اثرو رسوخ بڑھا چکی ہے مگر عمران خان کی حکومت اپنی کارکردگی سے اس حمایت سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ اس منظر نامے میں بلاول سندھ میں حکمرانی کا بہتر ماڈل متعارف کرانے میں کامیاب رہتے ہیں تو پھر پنجاب سے بھی پیپلز پارٹی کچھ نہ کچھ تائید ضرور حاصل کر لے گی اور یہی ایک زبردست آغاز ہو سکتا ہے ، کیا بلاول اس راستے پر اپنے قدم بڑھائیں گے ؟ اس کا فیصلہ بلاول بھٹو کی طرف سے اس سیاسی بحران میں ضرور آنا چاہیے ۔