کورونا:بروقت موثر فیصلے نہ کئے تو معاملات بے قابو ہوسکتے ہیں
تجزیے
اقتصادی معاملات کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے ،حکومت کو مشکل صورتحال کا سامنا منڈیاں سکڑ رہی ہیں ،دنیا معاشی بحالی کیلئے فکرمند لیکن ہماری تیاری نظر نہیں آ رہی
(تجزیہ:سلمان غنی)عیدالفطر کے بعد حکومت کو سیاسی محاذ پر کسی مشکل صورتحال کا سامنا ہو یا نہ ہو البتہ معاشی بحران اور کورونا کے طوفان کا سامنا ہے جس کے حوالے سے خطرات اور خدشات پہلے سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوچکے تھے ، اس حوالہ سے حکومت نے مضبوط اور موثر فیصلے نہ کئے تو معاملات اس کی گرفت سے نکل سکتے ہیں اور اس کے اثرات خود حکومت پر نظر آئیں گے ۔ کیا حکومت اس صورتحال سے عہدہ برا ہو پائے گی۔ کیا بجٹ کا سلسلہ احسن انداز سے پایہ تکمیل کو پہنچے گا ۔ معاشی صورتحال سے نمٹنے کیلئے حکومت کے پاس کوئی مربوط حکمت عملی ہے ؟۔ کورونا کے بڑھتے اثرات اور شرح اموات کے آگے بند باندھا جا سکے گا؟۔ مسائل اور مہنگائی زدہ عوام کیلئے دال روٹی کا بندوبست چلتا رہے گا اور کسی بھی جانب سے ان کیلئے کوئی ریلیف ہوگا؟۔ زمینی حقائق کا جائزہ لیا جائے تو ملکی معیشت اور اقتصادی معاملات کوئی اچھی خبر نہیں دے رہے ۔ عوام کے اندر بے چینی اور ملکی سطح پر بے یقینی محسوس کی جا رہی ہے اور حکومت کو مشکل صورتحال کا سامنا ہے ۔ کورونا کے باعث حکومت دباؤ میں ہے اور بجٹ تیارکرتے ہوئے حکومت طے کر چکی ہے کورونا وبا کی وجہ سے مکمل ہونے والے سال میں ترقی کی شرح 1.9 پر ختم ہوگی اور آئندہ مالی سال میں ترقی کی شرح دو فیصد ہو سکتی ہے جس کا کھلا اور صاف مقصد یہ ہے کہ ملک میں بے روزگاری بڑھے گی۔ برآمدات ٹیکس ریونیو میں واضح کمی آئے گی اور حکومت کی جانب سے اب تک سامنے آنے والے اعلانات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ آدھا بجٹ تو تیار ہے اور دو فیصد ترقی بھی مشروط ہے ۔ امریکا کورونا وائرس سے نمٹنے کیلئے جن دس ممالک کی امداد کرے گااس میں پاکستان بھی شامل ہے ۔ آئی ایم ایف سے 1.4ارب ڈالر اور جی ٹوئنٹی ممالک سے تقریباً 1.8ارب ڈالر کی ریلیف کی فراہمی ہوگی ۔ عملاً سارا بجٹ وعدے وعید اور ادھار پر بن رہا ہے لیکن اس بجٹ سے عوام کو کیا ملے گا یا عوام کو اس بجٹ سے کیا توقعات ہیں اس حوالہ سے جواب تو نفی میں ہوگا مگر منتخب حکومت کی حیثیت سے بجٹ پر عوامی رنگ لانا اور چڑھانا تو پڑے گا ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا بھر کی منڈیاں سکڑ رہی ہیں اور وہ اپنی معاشی بحالی کے حوالہ سے فکرمند ہیں لیکن ہماری تیاری نظر نہیں آ رہی۔ حکومت اور کاروباری طبقات میں کشمکش کے باعث ملک میں غربت بڑھ رہی ہے ۔ ساری صورتحال میں اگر کسی کو کوئی فائدہ مل رہا ہے تو وہ تعمیراتی شعبہ ہے جو بے بنیاد اعدادوشمار دے کر حکومت سے متعدد مراعات سمیٹ چکا ہے ۔ دلیل دی گئی کہ اس سے چالیس صنعتیں وابستہ ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایسی مراعات زراعت کیلئے کیوں نہیں ،زراعت سے پچاس شعبہ جات منسلک ہیں یہ حکومت کو بجٹ کے موقع پر ضرور سوچنا ہوگا ملک کو آگے لے جانا ہے تو زراعت کو ترجیح دینا ہوگی۔ 18ویں ترمیم اور قومی مالیاتی وسائل کا فارمولا سیاسی قوتوں کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا رہا ہے لیکن اگر حکومت سیاسی قوتوں پر احتساب کا کوڑا چلا کر اس کمزوری کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہے تو صورتحال کوئی اور رخ اختیار کرے گی جو ملک کیلئے اچھی نہ ہوگی۔ جہاں تک عیدالفطر کے بعد کورونا کے رجحان کا تعلق ہے تو اس سے سامنے آنے والے شدید اثرات اور شرح اموات بتا رہی ہے کہ معامالات ریڈزون میں ہیں۔ حکومت کے ہاتھ کھڑے ہیں۔ اسے اس حوالہ سے بڑے اور موثر فیصلے کرنا ہوں گے ۔پاکستان کے حالات میں ایک حقیقت تو سامنے آئی ہے کہ بروقت لاک ڈاؤن کے فیصلے سے کورونا کے نتائج اتنے خطرناک نہیں ہوئے جتنے دیگر ممالک میں دیکھے گئے ہیں ۔عیدالفطر گزرنے کے بعد اب کورونا کا بحران بڑے طوفان کا رخ اختیار کر سکتا ہے جس پر غوروخوص کی ضرورت ہے اور اگر حالات حکومت کے کنٹرول میں نہ آئے تو پھر سخت اور موثر لاک ڈاؤن قومی ضرورت بن جائے گا جس سے معیشت کاروباری سرگرمیوں اور لوگوں کے معمولات پر اثرات مرتب ہوں گے جو نئی مایوسی’بے چینی اور بے یقینی کو جنم دیں گے حکومت کو چیلنج سے نمٹنے کا بندوبست کرنا ہوگا ۔