کورونا کاجن پھر بوتل سے نکل کر عوام کو شکار بناتا نظر آ رہا
تجزیے
اموات اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی کا کیا سوال صحت کے دشمن وائرس کو شکست دینے کیلئے لاک ڈاؤن ضروری قرار دے رہے ہیں
(تجزیہ:سلمان غنی) عیدالفطر سے پہلے لاک ڈاؤن میں نرمی کے حکومتی اعلان پر جن خطرات اور خدشات کا اظہار ہو رہا تھا وہ اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔ کورونا وائرس کا جن جیسے شروع میں لاک ڈاؤن کی بنیاد پر بوتل میں بند کیا گیا تھا۔ اب وہ بوتل سے نکل کر دندناتا اور عوام کو شکار بناتا نظر آ رہا ہے مگر اس کے سدباب کیلئے اب ہمارے پاس ایسا کوئی آپشن نہیں کہ ہم اس کے آگے بند باندھ سکیں۔ حکومت ہے کہ مصر ہے کہ لاک ڈاؤن میں نرمی رہے گی بلکہ مزید شعبہ جات خصوصاً ریسٹورنٹس بھی کھولنے کی تجویز زیر غور ہے اور بغیر کسی اعلان کے ریسٹورنٹس کے مالکان نے تیاریاں شروع کردی ہیں۔ سب سے اہم سوال جو عوام کو کنفیوژ کئے ہوئے ہے کہ اگر شرح اموات اور متاثرین کی تعداد میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے تو پھر لاک ڈاؤن میں نرمی کا کیا سوال ہے اور یہ کہ جب خود وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ کورونا پر خطرہ ہمارے اندازوں سے بڑھ کر ہے اور عالمی مسئلہ کیلئے دنیا کو مشترکہ اقدامات کرنا ہوں گے ۔ شرح اموات بڑھتی جا رہی ہے اور ہم اس پر سنجیدگی اور یکسوئی اختیار کرنے کو تیار نہیں اور اب نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 24گھنٹے کے دوران تقریباً اڑھائی ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے اور اب تصدیق شدہ کیسز کی تعداد ساڑھے چھیاسٹھ ہزار تک پہنچ گئی ہے جبکہ ایک دن میں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 78 ہے جس کے بعد اموات کی تعداد چودہ سو ہو چکی ہے ۔ لہٰذا مذکورہ اعدادوشمار کی روشنی میں آخر ہم نوشتہ دیوار کیوں نہیں پڑھ رہے اور کیوں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت اس معاملہ سے بری الذمہ ہو رہی ہے اور وہ یہ سمجھنے لگی ہے کہ اب خود عوام کو اس صورتحال کا مقابلہ کرنا ہوگا جس کا اظہار خود مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرزا بھی کر چکے ہیں کہ اگر معاملہ آگے بڑھتا ہے تو ذمہ دار عوام ہوں گے ۔دنیا بھر کے ماہرین کی طرح پاکستانی ماہرین بھی یہ کہتے نظر آ رہے تھے کہ صحت کے دشمن وائرس کو شکست دینے کیلئے لاک ڈاؤن ضروری ہے اور چین وہ پہلا ملک تھا جس نے یہ حکمت عملی اپنائی۔ لاک ڈاؤن کا دائرہ پھیلتا گیا اور پھر دنیا بند ہو کر رہ گئی اور پھر جب معیشت اور نوکریاں ڈوبتی نظر آئیں تو پھر لاک ڈاؤن کے وکیل عوام دوست ہو گئے اور پھر بھوک’ غربت کی دہائی شروع ہو گئی اور کہا جانے لگا کہ لاک ڈاؤن کے نتیجہ میں عوام بھوک سے مریں گے تو ہم عوام کو بھوک اور غربت کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے اور اس کنفیوژن میں معاشی صورتحال بھی ابتر ہوتی گئی اور شرح اموات بھی بڑھتی نظر آئی اور اب تو صورتحال بہت گھمبیر اور سنجیدہ ہو رہی ہے ۔ اسے محدود کرنے کی کوششیں اور امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے ۔ حکومت جمہوری ہو یا ڈکٹیٹرشپ کبھی بڑے انسانی جانوں کے ضیاع کی متحمل نہیں ہو سکتی کیونکہ اسے ذمہ داری لینا پڑتی ہے اور احساس ذمہ داری نہ ہو تو انسانی جانوں کا ضیاع پھر دیگر انسانوں میں بڑے ردعمل کا باعث بن جاتا ہے اور حالات حکومت کی د سترس میں نہیں رہتے ۔عیدالفطر کے موقع پر ان ایس او پیز کی دھجیاں ہوا میں اڑتی نظر آئیں اور جس انتظامی مشینری کو خصوصاً پولیس کو ان ایس او پیز پر عملدرآمد کی ذمہ داری دیتے ہوئے بڑے بڑے پلازوں’ مارکیٹوں اور بازاروں میں تعینات کیا گیا تھا انہوں نے عملدرآمد پر زور دینے کے بجائے اپنی جیبیں گرم کیں اور خوب کیں اور اب بھی نرم لاک ڈاؤن میں دکانوں کے شٹر گرانے اور اٹھانے کا بھتہ کہیں ڈھکا چھپا نہیں رہا اور دکاندار یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر اس ہنگامی صورتحال میں ہم کمائی کر رہے ہیں توا س کا ٹیکس پولیس کو دینے میں کیا حرج ہے لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر گیند حکومت کی کورٹ میں ہے اور اس ضمن میں کل پیر کے روز ہونے والے این سی سی کے اجلاس میں اہم فیصلے ہونے ہیں اور اس میں سوچنے والی بنیادی بات یہی ہوگی کہ کیا عوام کو کورونا کے رحم و کرم پر چھوڑ کر تاجروں اور صنعتکاروں کے مفادات کو ترجیح دی جائے اور اگر لاک ڈاؤن ممکن نہیں تو پھر بتایا جائے کہ حکومت کے پاس متبادل کیا ہے ۔ کیا حکومت اسی انتظار میں رہے گی کہ لوگ مرتے چلے جائیں اور وہ حالات سے صرف نظر برتتی رہے ۔ پاکستان بڑے پیمانے پر متاثرین اور اموات کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اس سے نبردآزما ہونے کیلئے ہمارے پاس بندوبست ہے اور نہ ہی وسائل ہیں لہٰذا ابھی سے یکسوئی اور سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے موثر اور نتیجہ خیز پالیسی ترتیب دی جائے ورنہ حالات حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو جائیں گے جو ملک و قوم کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔