"ABA" (space) message & send to 7575

Three-Ways American Dream

اسی سال 26 اکتوبرکو چھپنے والا وکالت نامہ تب لکھا گیا، جب امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ، جو بائیڈن سے انتخابی دوڑ میں آگے نظر آرہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صدارتی الیکشن کی امریکن ڈریم اس قدر کمزور بھی ہو سکتی ہے۔ اسے ایک اور دھچکا 48 گھنٹے پہلے اسلام آباد میں لگا‘ تب جب امریکی صدر کے خلاف ایک (ن) لیگی ٹویٹر اکائونٹ سے جاری ہونے والا ٹویٹ آفیشل امریکن ایمبیسی کے ٹویٹر اکائونٹ سے ری ٹویٹ کر دیا گیا۔ ٹویٹ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف ڈی جے ٹرمپ جیسے جذبات کا اظہار کیا گیا تھا۔ ساری دنیا کی نمبرداری کے دعویدار ملک کے ٹویٹر کے خواب نارووال تک بکھرتے ہوئے نظر آئے۔ ایسا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کہاں چاچا سام اور کہاں دیسی ٹویٹس کی تیز گام۔
امریکن ڈریم کا دوسرا لنک دہلی سے بھی جا جُڑتا ہے۔ یہی نواز شریف صاحب کی سیاست کا مرکزی نکتہ بھی ہے۔ پاکستان میں 2013 کے انتخابات کے بعد یہ راز کھل کر سامنے آ گیا کہ چونکہ واشنگٹن ڈی سی اور ہندوتوا والے بھارتی مودی کے بڑے قریبی تعلقات ہیں‘ اس لئے آپ جس قدر دہلی کو خوش رکھیں گے، اسی حساب سے آپ کی گورنمنٹ اسلام آباد میں مضبوط ہو گی۔ نواز شریف صاحب کی تیسری حکومت کے لئے امریکن ڈریم ٹیم میں شامل ہونے کے لئے نئی دہلی قریب ترین مرکز بن کر سامنے آیا۔ اسی وجہ سے پہلے ڈان لیک 1، پھر ڈان لیک 2، پھر کلبھوشن یادیو پر خاموشی، پھر پٹھان کوٹ میں بھارت کے مشکوک وقوعہ کی ایف آئی آر، سی ٹی ڈی گوجرانوالہ، پاکستان میں درج کرانا۔ مودی اور را چیف کی جاتی امرا میں دعوت، غیر ملکی ہوٹل میں مودی سے اکیلے ایک گھنٹے کی ملاقات۔ یہ سارے واقعات آپس میں جُڑے ہوئے ہیں۔ (ن) لیگ کی آخری حکومت کے سپیکر قومی اسمبلی سے جو کچھ فلور پر کہلوایا گیا، یہ بھی دہلی کی خوشی کے لئے جاری پروگرام کی تازہ قسط کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس میں کسی کو کیا شک ہو سکتا ہے کہ نواز شریف صاحب کو یہ کس نے کہا ہو گا کہ آپ یہ لائنز پاکستان کی پارلیمنٹ میں کہلوا دیں۔ اس سوال کا جواب سیدھا اور صاف یہی ہے کہ یہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی بالاکوٹ سٹرائیک پر Narrative Shaping کی بنیادی ضرورت تھا تاکہ بھارت آگے بڑھ کر سائوتھ ایشیا کے اندر ایک نیا بیلنس آف پاور نافذ کرتا ہوا دکھائی دے۔ اسی حوالے سے ایک بہت عجیب واقعہ بھی رونما ہوا جسے بعض حلقوں نے جان بوجھ کر کارپٹ کے نیچے دبایا ہوا ہے۔ انتہائی باخبر لوگ کہتے ہیں، ہوا یوں کہ جونہی بھارت کی جانب سے بالاکوٹ سٹرائیک ہوئی، اس کے فوراً بعد امریکہ، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا نے پاکستان سے مطالبہ کیاکہ اب اسے اس سٹرائیک کو قبول کر لینا چاہیے اور پاکستان کو اس سٹرائیک کا جواب ہرگز نہیں دینا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ہندوستان اور اس کی فوج کی صورتحال Wounded Ego والی ہے‘ اس لئے ہندوستان کی حکومت کے لئے بڑا ضروری تھا کہ وہ اس طرح کی ایئر سٹرائیک کرتے۔ مگر پاکستان ڈٹ گیا‘ جس کے نتیجے میں کائونٹر سٹرائیک کے لئے پاکستان ایئر فورس کے ذریعے 1 یا 2 نہیں، بلکہ 6 مقامات پر حملہ کیا گیا۔ اس وقت پاکستان ساری دنیا میں اکیلا کھڑا تھا۔ ملک کی 72 سالہ تاریخ میں اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اس لمحے جب پاکستان کی آبرو دائو پر لگی ہوئی تھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اکٹھے کھڑے تھے۔ پاکستان نے تھری پلس کا فامولا فلوٹ کردیا تھا۔ ایک حملے کے بدلے 6 پوائنٹس پر جوابی حملہ ایسی کامیاب سٹریٹیجی تھی، جس نے بھارت کی فوجی حکمت عملی کو Neutralize کرکے رکھ دیا۔
بات ہو رہی تھی یو ایس صدر کے الیکشن کی۔ جو بائیڈن 8 سال تک اوبامہ کے نائب صدر رہے۔ اُن کا یہ تیسرا اقتدار ہے۔ جناب نواز شریف بھی پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہے۔ دونوں میں چھوٹا سا موازنہ، وہ بھی کسی ناول سے نہیں، بلکہ جو بائیڈن کی سچی کہانی سے کرنا بڑا مناسب رہے گا۔ سابق امریکی نائب صدر نے اپنے عہدے کی مدت ختم ہونے سے چند روز پہلے انکشاف کیا کہ دوسال پہلے جب اُن کے جواں سال بیٹے کو کینسر نے گھیر لیا تو وہ علاج کیلئے پیسے پیسے کا محتاج ہو گئے تھے؛ چنانچہ انہوں نے اپنا واحد اثاثہ 4 ہزار سکوائر فٹ (گز اور کنال نہیں) کا گھر اونے پونے بیچنے کا فیصلہ کر لیا۔ قرض نہ لینے کی دو وجوہ بتائیں۔ ایک تو قرض کی شرائط بہت سخت تھیں۔ دوسرا، ان کی تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ وہ مدت ملازمت کے بعد بھی قرض کی قسطیں ادا کر سکیں۔ گھر کی فروخت کا سودا تقریباً ہو چکا تھا کہ صدر اوبامہ کو کسی طرح سے پتہ چل گیا۔ اوبامہ نے اپنے پرسنل بینک اکائونٹ سے جو بائیڈن کی مدد کرکے اس کا گھر بکنے سے بچا لیا۔ یاد رہے دونوں (جو اور اوبامہ) وکیل بھی ہیں، اور دوست بھی۔ یہ باتیں اوبامہ کی الوداعی تقریب میں جو نے آبدیدہ لہجے میں بتائی تھیں۔
پاکستانی سیاست کے معیار سے دیکھا جائے تو جو بائیڈن کس قدر بے وقوف تھا، نہ کھاتا تھا نہ لگاتا تھا۔ بینک سے قرضہ لے کر معاف نہ کروا سکا بلکہ یہ نااہل پانامہ میں آف شور کمپنی تک نہ بنا سکا۔ نہ ہی اس کا بیٹا 16 سال کی عمر میں پارک لین جیسے علاقے میں حسن نواز کی طرح اربوں ڈالر کی جائیداد کا مالک بن سکا۔
ان دنوں امریکن ڈریم کے آئین کی ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ امریکہ کے قانون دان اور پولیٹیکل کمنٹیٹر بتا رہے ہیں کہ ڈی جے ٹرمپ وائٹ ہائوس میں ووٹ جیتے بغیر بھی رہنے کا راستہ بنا سکتے ہیں۔ یہ بحث بھی پہلی دفعہ عام ہوئی ہے کہ امریکہ میں صدر کو منتخب کرنے کا پراسیس خاصا پیچیدہ ہے بلکہ اسے جمہوری ہونے کیلئے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا تھا۔ یو ایس آئین کہتا ہے، مختلف سٹیٹس صدارتی انتخاب کے '' الیکٹرز‘‘ چنیں‘ جو بعد میں اکٹھے ہوکر صدر کیلئے ووٹ ڈالتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سٹیٹس نے ایسے لا پاس کئے، جن سے یہ بات یقینی بنالی کہ ان کے سٹیٹ کا صدارتی پاپولر ووٹ، الیکٹر طے کرے گا؛ اگرچہ یہ آئینی فرض نہیں۔ اس لئے اگر ریپبلکن پارٹی والے پوسٹل ووٹ پر اعتراض فائل کرتے ہیں، تو ڈیموکریٹس کائونٹر سوٹس فائل کریں گے۔ ایسے الجھائو کو سلجھانے کے لئے قانون ساز سٹیٹس، الیکٹرز کو خود منتخب کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ جو بائیڈن کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ 9 سوئنگ سٹیٹس میں سے 8 میں ریپبلکن قانون ساز ادارے ہیں۔ اگر ان میں سے ایک یا اس سے زیادہ کہہ دیں کہ پوسٹل بیلٹس وصول کرنے سے بدنظمی اور بدضابطگیاں پیدا ہوئی ہیں، تو وہ اپنے مطابق جائز الیکٹر بھیج سکتے جو 100 فیصد ریپبلکن ہوں گے۔ ڈیموکریٹس پھر عدالت جائیں گے۔ کچھ گورنرز اور وزیر خارجہ اپنے الیکٹرز، واشنگٹن بھیج سکتے ہیں۔ اگلے سال 6 جنوری کے دن جب کانگریس ووٹ ٹیلی کرنے کے لئے بیٹھے گی، تو کچھ الیکٹرز کے جائز ہونے پر سوال اُٹھ سکتے ہیں۔ ریپبلکنز متنازع سٹیٹس کو گنتی سے نکالنے کا فیصلہ بھی کرسکتے ہیں۔ فرض کریں اگر مشیگن سٹیٹ کے ووٹ اِن ویلیڈیٹ ہو جائیں، تو پھر دونوں امیدواروں میں سے کوئی بھی 270 الیکٹورل ووٹس تک نہیں پہنچ سکے گا۔ یہی امریکن ڈریم کے لئے سہ طرفہ کیچ 22 ہے۔ ایسے موقع پر آئین صاف کہتا ہے کہ ایوان کے نمائندگان صدارتی انتخاب کا فیصلہ کریں گے۔ ہر سٹیٹ ایک بیلٹ ڈال سکتی ہے، اگر تعداد یہی رہی تو 26 سٹیٹس ریپبلکن اور 23 ڈیموکریٹ ہوں گے جبکہ ایک ٹائی ہوگا۔ امریکی آئین کے کچھ گُرو کہتے ہیں، یوں ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو سکتے ہیں اور یہ کام عین آئینی ہوگا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں