"AIZ" (space) message & send to 7575

حیا کی اہمیت

دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو اپنے ماننے والوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں کامل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام میں عقائد کی اصلاح اور عبادات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ معاملات کی بہتری کے حوالے سے بھی نہایت احسن انداز میں توجہ دلائی گئی ہے۔ کتاب وسنت میں جہاں کاروباری معاملات اور انسانوں کے حقوق وفرائض کا ذکر ہے‘ وہیں شرم وحیا کے حوالے سے بھی نہایت احسن اور بلیغ انداز میں رہنمائی ملتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ نور میں شرم و حیا کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے برائی سے بچنے کے لیے بہت سے اہم نکات کو نہایت احسن انداز میں واضح فرما دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کی روک تھام کے لیے جن اہم تدابیر کو سورۂ نور میں بیان کیا ہے‘ ان میں سے بعض اہم درج ذیل ہیں:
1۔ نگاہوں کو جھکانا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ نور کی آیت نمبر 30 میں مومن مردوں کو اپنی نگاہیں جھکانے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''مومن مردوں سے کہہ دیجئے (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی‘ یہ زیادہ پاکیزہ ہے ان کے لیے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ نور میں مومن عورتوں کو بھی اپنی نگاہوں کو جھکانے کا حکم دیا۔ سورۂ نور کی آیت نمبر31 میں ارشاد ہوا: ''اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی‘‘۔
2۔ عورتوں کو پردے کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں مردوزن کو اپنی نگاہوں کو جھکانے کا حکم دیا‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایمان والی عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا بھی حکم دیا۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ نورکی آیت نمبر 31میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور کہہ دیجئے مومن عورتوں سے (بھی) (کہ) وہ نیچی رکھیں اپنی نگاہیں اور وہ حفاظت کریں اپنی شرمگاہوں کی اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت کو مگر جو (خود) ظاہر ہو جائے اس میں سے اور چاہیے کہ وہ ڈالے رکھیں اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر اور نہ وہ ظاہر کریں اپنی زینت (بناؤ سنگھار) کو مگر خاوندوں کے لیے یا اپنے باپوں (کے لیے) یا اپنے خاوندوں کے باپوں (کے لیے) یا اپنے بیٹوں (کے لیے) یا اپنے شوہروں کے (دیگر) بیٹوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں (کے لیے) یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں (بھتیجوں کے لیے) یا اپنے بہنوں کے بیٹوں (بھانجوں کے لیے) یا اپنی (جیسی)عورتوں (کے لیے) یا (ان کے لیے) جن کے مالک بنے ان کے دائیں ہاتھ (یعنی زرخرید غلاموں کے لیے) یا تابع رہنے والوں (خدمت گار) مردوں میں سے (جو) شہوت والے نہیں (ان کے لیے) یا ان بچوں (کے لیے) جو نہیں واقف ہوئے عورتوں کی چھپی باتوں پر‘‘۔ اگر پردے کا صحیح طریقے سے اہتمام کیاجائے تو معاشرے سے بے راہ روی اور بے حیائی کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
3۔ نکاح کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کو روکنے کے لیے جہاں آنکھوں کو جھکانے اور پردہ داری کا حکم دیا‘ وہیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نکاح کا بھی حکم دیا۔ بہت سے لوگ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے نکاح کو مشکل تصور کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر مردوزن کا نکاح کر دیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو غنی فرما دے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا)اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہاری لونڈیوں (میں سے)‘ اگر وہ ہوں گے محتاج (تو ) غنی کر دے گا اُنہیں اللہ اپنے فضل سے‘‘۔
4۔ پاک دامن عورتوـں پر الزام تراشی کرنے والوں کے لیے کڑی سزا کا حکم: کسی بھی معاشرے میں برائی اور بے راہ روی کے فروغ میں افواہ سازی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ جب مختلف پاک دامن عورتوں کے بارے میں افواہیں اڑائی جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے راہ روی پھیلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے افواہوں کا گلا گھونٹنے کے لیے بغیر ثبوت کے تہمت طرازی اور بہتان تراشی کی سخت مذمت کی ہے اور ایسے لوگوں کو 80 کوڑوں کی سزا کا مستحق قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نورکی آیت نمبر 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں پاک دامن عورتوں پر‘ پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں اسّی (80) کوڑے اور نہ قبول کرو ان کی گواہی کو کبھی بھی‘‘۔
5۔ کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے داخل نہ ہونا: معاشرے میں بے راہ روی اور برائی کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ غیر محرم لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ اچانک ٹکراؤ بھی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس ٹکراؤ اور اختلاط کو روکنے کے لیے اہلِ ایمان کو اس بات کی نصیحت کی ہے کہ جب وہ کسی کے گھر میں داخل ہوں تو بلا اجازت داخل نہ ہوں۔ اگر وہ کسی کے گھر میں جائیں توا ن کو گھر میں داخلے سے پہلے اجازت لینی چاہیے تاکہ وہ گھر کی پرائیویسی میں مداخلت نہ کریں۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورۂ نور کی آیات 27 تا 29 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! نہ داخل ہوا کرو (دوسرے) گھروں میں اپنے گھروں کے علاوہ یہاں تک کہ تم انس حاصل کر لو (یعنی اجازت لے لو) اور سلام کر لو ان کے رہنے والوں کو‘ یہی بہتر ہے تمہارے لیے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ پھر اگر تم نہ پاؤ ان میں کسی ایک کو تو تم نہ داخل ہو ان میں یہاں تک کہ تم کو اجازت دی جائے اور اگر تم سے کہاجائے: واپس ہو جاؤ‘ تو واپس ہو جایا کرو۔ وہ پاکیزہ ہے تمہارے لیے‘ اور اللہ اس کو جو تم عمل کرتے ہو‘ خوب جاننے والا ہے۔ نہیں ہے تم پر کوئی گناہ کہ تم داخل ہو جاؤ (ایسے ) گھروں میں (کہ ) رہائش نہیں کی گئی ان میں (اور ان میں) تمہارے فائدے کی کوئی چیز ہو‘ اور اللہ جانتا ہے جو تم ظاہر کرتے ہو اور تم چھپاتے ہو‘‘۔
6۔ خلوت کے اوقات میں بچوں اور ملازمین کے بغیر اجازت رہائشی کمروں میں داخلے کی ممانعت: اللہ تبارک وتعالیٰ نے برائی کی روک تھام کے لیے کم سن بچوں اور ملازموں کو ایسے مناظرکو دیکھنے سے بچانے کے لیے بھی بڑے خوبصورت احکامات نازل کیے ہیں کہ جن کو دیکھنے کے بعد بچوں اور ملازموں کے ذہنوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تین اوقات کو خلوت کے اوقات قرار دے کر ان میں بلااجازت داخلے کو منع فرمایا ہے۔ سورۂ نور کی آیت نمبر 58 میں ارشاد ہوا: ''اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! چاہیے کہ اجازت طلب کریں تم سے وہ لوگ جن کے مالک بنے تمہارے دائیں ہاتھ اور وہ لوگ (بھی) جو نہ پہنچے ہوں بلوغت کو تم میں سے‘ تین مرتبہ (یعنی تین اوقات میں) فجر کی نماز سے پہلے اور جب تم اتار دیتے ہو اپنے کپڑے دوپہر کو اور عشاء کی نماز کے بعد (یہ) تینوں پردے (خلوت) کے اوقات ہیں تمہارے لیے‘‘۔
7۔ برائی کے ارتکاب پر سنگین سزاؤں کا حکم: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ نور میں برائی کے مرتکبین کے لیے سو100 کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے، جبکہ احادیث مبارکہ میں شادی شدہ بدکرداروں کے لیے سنگسار کی سزا مقرر کی گئی ہے۔
مذکورہ بالا احکامات پر عمل پیرا ہو کر یقینا معاشرے میں بے راہ روی اور بے حیائی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں بے راہ روی اور فحاشی کی روک تھام کے لیے احکامات کا نزول فرمایا‘ وہیں ان لوگوں کی شدید انداز میں مذمت بھی کی جو لوگ معاشرے میں فحاشی کا فروغ چاہتے ہیں۔ سورہ نور کی آیت نمبر 19 میں ارشاد ہوا: ''بے شک وہ لوگ جو پسند کرتے ہیں کہ پھیلے بے حیائی ان لوگوں میں جو ایمان لائے ہیں‘ان کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں‘‘۔
قرآن مجید میں جہاں برائی کو پھیلانے والوں کی شدید انداز میں مذمت کی گئی ہے وہیں ان لوگوں کو کامیاب بھی قرار دیا گیا ہے جو تزکیہ اور طہارت کو اختیار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد میں منہمک رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعلیٰ کی آیات 14 تا 15میں ارشاد فرماتے ہیں: ''یقینا کامیاب ہو گیا جو پاک ہو گیا اور اس نے یاد کیا اپنے رب کا نام؛ پس نماز پڑھی‘‘۔
قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ احادیث مبارکہ میں بھی حیا کی اہمیت کو نہایت خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے تین اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک آدمی سے سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہا تھا تو آپﷺ نے فرمایا: ''(حیا سے مت روکو) حیا ایمان میں سے ہے‘‘۔
2۔ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے‘‘۔
3۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عمران بن عصینؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ''حیا خیر ہی لاتی ہے‘‘۔ ایک اور روایت میں ہے ''حیا تو سراپا خیر ہے‘‘۔
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں ہر حال میں حیا اور پاکدامنی کو اختیار کرنا چاہیے۔ 14 فروری کو دنیا بھر میں ویلنٹائن ڈے کے نام پر جس انداز سے اختلاط اور بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے اس حوالے سے اہلِ اسلام کو کتاب وسنت کی تعلیمات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان رویوں کا مظاہر ہ کرنے کے بجائے حیا اور پاکدامنی کے کلچر کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حیا اور پاکدامنی کی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں