"AIZ" (space) message & send to 7575

والد گرامی

دنیا میں انسان کے جتنے بھی اعزہ و اقارب ہیں‘ ان میں والدین کا مقام سب سے منفرد ہے۔ والدین انسان پر جس قسم کے احسانات کرتے ہیں‘ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا۔ بچوں کی ولادت کے عمل سے گزرتے ہوئے والدہ کو شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچے کی ولادت سے لے کر اس کے ایام طفولیت تک اور ایام طفولیت سے لے کر اس کی جوانی تک‘ والدین ہر موقع پر اولاد کی خیر خواہی والے امور سرانجام دیتے رہتے ہیں۔ بچوں کے خور و نوش، لباس اور تربیت کا انتظام جس انداز میں والدین کرتے ہیں‘ یقینا یہ ان ہی کا خاصا ہے اور کوئی دوسرا شخص اس اعتبار سے ان کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیات 23 تا 24 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے (کا حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو‘ ان دونوں میں سے ایک یا دونوں‘ تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمد لی سے اور کہہ (اے میرے) رب! رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان میں بھی والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی کہ اگر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی بات نہ ماننے کے باوجود ان کے ساتھ دنیاوی امور میں حسن سلوک کرو۔ سورہ لقمان کی آیات 14 تا 15 میں ارشاد ہوا: ''اور ہم نے وصیت (تاکید) کی انسان کو اپنے والدین کے ساتھ (حسن سلوک کی)۔ اُٹھائے رکھا اُسے اس کی ماں نے کمزوری اور کمزوری (کے باوجود) اور اُس کا دودھ چھڑانا دو سالوں میں (اور) یہ کہ تُو شکر کر میرا اور اپنے والدین کا میری ہی طرف (تم سب کو) لوٹنا ہے۔ اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اُس کا علم تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف، پھر میری ہی طرف تمہارا لوٹنا ہے تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس) کی جو تم عمل کرتے تھے‘‘۔
ان آیات مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر والدین اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو اس امر میں ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے لیکن دنیاوی معاملات میں ان سے حسنِ سلوک کو پھر بھی ترک نہیں کرنا چاہیے۔ والدین کی خدمت کی حوالے سے بہت سی احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں۔ والدین کی خیر خواہی ایک ایسی حقیقت ہے جسے کسی بھی طور پر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وہ اولادیں خوش نصیب ہیں جنہیں اپنے والدین کی محبت، پیار اور شفقت میسر آتے ہیں اور وہ لوگ بدنصیب ہیں جو اپنے والدین کی نافرمانی کرکے ان کے غصے اور ناراضی کو سمیٹ لیتے ہیں۔
مجھے بھی پچپن ہی سے اپنے والدین کی محبت اور پیار حاصل ہوتا رہا۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ہم سے گھر میں شفقت اور محبت والا سلوک کیا کرتے تھے۔ گھر میں رہتے ہوئے گو اُن کے وقت کا ایک بڑا حصہ اپنی لائبریری میں گزرا کرتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ ہمارے تعلیمی معاملات سے بھرپور طریقے سے آگہی حاصل کیا کرتے تھے۔ بالخصوص جس سال وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے‘ اس سال آپ میرے میٹرک کے بورڈ کے امتحان کے حوالے سے بہت متفکر تھے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ میں میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کروں۔ تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ آپ ہمیں گاہے گاہے سیر کے لیے بھی پہاڑی علاقوں میں لے جایا کرتے تھے اور ہماری خواہشات کو پورا کرنے کا احسن طریقے سے التزام کیا کرتے تھے۔ آپ نے ایک دور میں گھڑ سواری کو بھی اپنا معمول بنا رکھا تھا۔ سکول جانے سے قبل آپ ہمیں ہارس رائیڈنگ کلب میں اپنے ہمراہ لے کر جاتے اور گھڑ سواری کرانے کے بعد اچھے طریقے سے ناشتے کروا کر ہمیں سکول پہنچا دیا کرتے تھے۔ آپ جب زیادہ مصروف ہو گئے اور آپ کے پاس گھڑ سواری کا وقت نہ رہا تو آپ جسمانی ورزش کے لیے صبح کچھ وقت کے لیے سائیکل چلایا کرتے تھے۔ آپ نے چھٹی جماعت کے بعد مجھے بھی سکول جانے کے لیے سائیکل لے کر دی تھی۔ کئی مرتبہ آپ اپنی سائیکل کو میری سائیکل کے ساتھ جوڑ کر مجھے سکول چھوڑ آیا کرتے تھے۔ جب آپ مجھے سکول چھوڑنے کے لیے جاتے تو سکول کا چوکیدار اور دیگرعملہ آپ کی طرف بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ لپکتا اور آپ کا استقبال کیا کرتا تھا۔
آپ اپنے حلقہ احباب میں انتہائی گرمجوش تھے اور دوستوں کے ساتھ پیار اور محبت والا برتاؤ کیا کرتے اور ان کے دکھ، درد اور خوشیوں میں بڑے بھرپور انداز میں شریک ہوا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو تونگر ی عطا کی تھی۔ آپ اپنے مال کو غرباء اور مساکین کی بحالی کے لیے بھرپور انداز سے استعمال کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو دینی اور دنیاوی علم سے نوازا تھا؛ چنانچہ آپ علم کی نشر و اشاعت کے لیے زندگی بھر مشغو ل رہے۔ ملک کے طول و عرض میں بڑے بڑے جلسوں اور اجتماعات کے انعقاد کے ساتھ ساتھ اپنے فارغ وقت میں قلمی طور پر دین کی خدمت کرتے رہے۔ آپ نے حرمت رسولﷺ، عقیدۂ ختم نبوتﷺ اور عظمت صحابہ کرامؓ کی نشر و اشاعت کے لیے خطابت اور قلم کے ذریعے بھر پور انداز سے اپنا کردار ادا کیا اور جہاں کہیں بھی‘ کسی فورم پر آپ مدعو کیا گیا‘ آپ اپنے خیالات اور جذبات کا برملا اظہار کرتے رہے۔
آپ مایہ ناز عالم اور پکے حافظِ قرآن تھے، زندگی کی مشغولیات کے باوجود آپ نے کبھی بھی قرآن مجید سنانے میں تساہل سے کام نہیں لیا اور ہر سال رمضان المبارک میں تراویح کی نمازکی امامت کروا کر قرآن مجید سے اپنے تعلق کی تجدید کرتے رہے۔ زندگی کے مصروف اور مشغول روز و شب کے باوجود آپ اپنے اہلِ خانہ اور اولاد کی تربیت سے کبھی بھی غافل نہ ہوئے اور ہمہ وقت ہمیں نماز اور ارکانِ اسلام کی بجاآوری کی نہایت احسن انداز سے تلقین کرتے رہے۔ میری عمر اس وقت 11 برس کے لگ بھگ تھی جب میں والد گرامی کے ہمراہ سفرِ حج پر روانہ ہوا۔ اس سفر کے دوران میں نے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی میں مسلسل مشغول پایا۔ آپ میدانِ عرفات، مزدلفہ اور منیٰ میں مسلسل اللہ تبارک وتعالیٰ کی یاد میں گریہ زاری کرتے رہے۔ آپ مسجد نبوی میں بڑی عقیدت اور احترام کے ساتھ نمازوں کو ادا کیا کرتے اور نبی کریمﷺ کے روضہ پر نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ درود شریف پڑھا کرتے تھے۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر سیاسی اعتبار سے بھی نڈر اور بے باک رہنما تھے۔ آپ ملک میں انسانی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے زبردست حامی تھے۔ آپ کے نزدیک اداروں کا کردار ملک کے داخلی اور بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کرنے تک محدود تھا اور آپ سیاسی عمل میں کسی بھی طور پر ان کی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہ ہوا کرتے تھے۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بے مثال جرأت سے نوازا تھا اور آپ اپنے موقف پر استقامت کے ساتھ کاربند رہا کرتے تھے۔ آپ کو ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق کے ادوار میں قید و بند کی صعوبتوں کو سہنا پڑا لیکن آپ نے ان صعوبتوں کو نہایت خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور اپنے موقف پر سختی سے کاربند رہے۔ آپ نے ملک میں چلنے والی بہت سی ملی تحریکوں میں حصہ لیا اور تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفیﷺ میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا۔ آپ اپنی زندگی کے آخری ایام میں رابطہ عوام مہم میں بڑی شدت سے مصروف اور مشغول رہا کرتے تھے۔ اسی سلسلے میں راوی روڈ پر ہونے والی ایک سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے 23 مارچ 1987ء کو آپ کے جلسے میں بم دھماکا ہوا جس سے آپ شدید زخمی ہو گئے۔ آپ کے کئی قریبی رفقاء موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گئے جن میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی، مولانا عبدالخالق قدوسی، مولانا محمد خان نجیب اور مولانا احسان الحق کے نام نمایاں ہیں۔ آپ شدید زخمی ہوئے اور کئی دن تک میو ہسپتال لاہور میں آپ کاعلاج ہوتا رہا۔ عراق اور سعودی عرب میں آپ کو سرکاری سطح پر علاج کی پیشکش کی گئی، آپ نے سعودی عرب میں علاج کرانے کو ترجیح دی۔ علاج کی غرض سے آپ کو ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ زخموں کی تاب نہ لا کر 30 مارچ کو اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کا جنازہ سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز ابن باز نے ریاض کی مسجد الکبیر میں ادا کیا‘ جس میں علماء کرام اور سرکاری شخصیت نے شرکت کی۔ بعد ازاں آپ کی میت کو مدینہ طیبہ منتقل کر دیا گیا۔ مسجد نبوی شریف میں آپ کی نمازِ جنازہ کو ادا کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں علماء کرام اور طلبہ نے شرکت کی اور بعد ازاں آپ کو مدینہ طیبہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر کو رخصت ہوئے 36 برس کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن آپ کے دوست احباب آج بھی آپ کو یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح زندگی کے طویل روز و شب کے دوران میں بھی ہمہ وقت والد گرامی کی شفقت اور محبت کو یاد کرتا رہتا ہوں اور ہرخوشی اور غم کے موقع پر آپ کی کمی کو محسوس کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے لیے دعاگو بھی رہتا ہوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی خطاؤں کو معاف کرکے آپ کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں