انسان کی یہ بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ مستقبل قریب پر تو نظر رکھتا ہے لیکن مستقبل بعیدکے معاملات کو بالعموم نظر انداز کر دیتا ہے۔ جن حقائق کو انسان فراموش کر دیتا ہے اُن میں سرفہرست موت اور اس کے بعد کی زندگی ہے۔ تمام انسانیت کا جس حقیقت پر اتفاق ہے وہ یقینا موت ہی ہے۔ عقائد، افکار اور نظریات کے حوالے سے ہر دور میں انسانیت مختلف طبقات میں تقسیم رہی ہے، لیکن موت کے حوالے سے کبھی بھی کوئی دوسرا نقطۂ نظر سامنے نہیں آ سکا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ‘ جو کسی بھی مذہب کے پیروکار نہیں ہیں اور اپنے آپ کو دہریا کہتے ہیں‘ وہ بھی موت کو ماننے پر مجبور ہیں۔ ہر انسان نے اپنی زندگی میں بہت سے لوگوں کومرتے اور جنازوں کو اٹھتے دیکھا ہے۔ بہت سے لوگوں کے دادا، دادی، نانا اور نانی ان کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جبکہ کئی ایسے بھی ہیں جو اپنے والدین کو خود اپنے ہاتھوں سے قبروں میں اُتار چکے ہیں لیکن اس کے باوجود نجانے کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے حوالے سے اس غلط فہمی کا کیوں شکار رہتا ہے کہ وہ موت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں نیک اور بد‘ جتنے لوگ بھی آئے اُنہیں موت کا مزہ چکھنا پڑا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجیدکے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ قصص کی آیت نمبر 88میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر چیز فنا ہونے والی ہے، مگر اسی کا چہرہ(اور ذات)‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الرحمن کی آیت نمبر 26 میں ارشاد فرمایا: ''زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ آلِ عمران میں اس حقیقت کو بھی بیان فرمایا کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا پڑے گا اور دنیا میں کیے جانے والے کاموں کے حوالے سے اُسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ آلِ عمران کی آیت نمبر 185 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے اور قیامت کے دن تم اپنے بدلے پورے پورے دیے جاؤ گے۔ پس جو شخص آگ سے ہٹا دیاجائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے بے شک وہ کامیاب ہو گیا اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کی جنس ہے‘‘۔
موت کی حقیقت کے بارے میں یقین رکھنے کے باوجود انسان جس طرح اپنی ذات کے حوالے سے یہ گمان کرتا ہے کہ شاید وہ ہمیشہ زندہ رہے گا ‘ اسی طرح موت کے بعد دوبارہ جی اُٹھنا ایک ایسی حقیقت ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کتاب اللہ میں اور حضرت رسول اللہﷺ نے اپنی احادیث مبارکہ میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا۔ لیکن اس حوالے سے بھی بہت سے لوگ بے یقینی کا شکار ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں آخرت پر یقین رکھنے کو نہایت ضروری قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ کی طرف اُتارا گیا اور جو اُتارا گیا آپ سے پہلے اور وہ آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں‘‘۔ آخرت کے دن پر یقین رکھنے کے لیے عقیدۂ توحید کا درست ہونا بڑا ضروری ہے۔ انسان کا اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اُس کے لیے مردہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس حقیقت کو قرآنِ مجیدکے متعدد مقامات پر بیان فرمایا۔
سورہ یٓس کی آیات 78 تا 79میں ارشاد ہوا: ''اور اس نے ہمارے لیے مثال بیان کی اور اپنی (اصل) پیدائش کو بھول گیا، کہنے لگا: ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے؟آپ جواب دیجئے کہ اُنہیں وہ زندہ کرے گا جس نے انہیں اول مرتبہ پیدا کیا ہے‘ جو سب طرح کی پیدائش کا بخوبی جاننے والا ہے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اس بات کو بھی بیان کیا کہ انسان ہڈیوں کے دوبارہ زندہ ہونے کے بارے میں بدگمانی کا شکار ہے جبکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طاقت اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ القیامہ کی آیات 3 تا 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جمع کریں گے ہی نہیں، ہاں‘ ضرور کریں گے‘ ہم تو قادر ہیں کہ اس کی پور پور تک درست کر دیں‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بنی اسرائیل میں بھی اس حقیقت کو بہت ہی خوبصورت انداز میں واضح فرما یا کہ انسان کسی بھی مخلوق میں تبدیل ہو جائے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے اس کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل کی آیات 50 تا 51 میں ارشاد ہوا: ''جواب دیجئے کہ تم پتھر بن جاؤ یالوہا یا کوئی اور اسی خلقت (کی چیز) جو تمہارے دلوں میں بہت ہی سخت معلوم ہو‘ پھر وہ یہ پوچھیں کہ کون ہے جو دوبارہ ہماری زندگی لوٹائے ؟ جواب دیں کہ وہی اللہ جس نے تمہیں اول بار پیدا کیا ‘‘۔
قرآنِ مجید کی ان آیات پر غوروفکر کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے انسانوں کودوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں موت کے بعد قیامت کے دن انسانوں کو زندہ کرنے کا ذکر کیا‘ وہیں قرآنِ مجید میں کچھ ایسے واقعات بھی بیان کیے جن میں انسانوں کو لمبا عرصہ سُلانے کے بعد دوبارہ زندہ وبیدار کردیاگیا۔ ان واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے انسانوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۂ بقرہ میں حضرت عزیز علیہ السلام کے واقعے کو بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ ایک بستی سے گزر رہے تھے تو اُن کے ذہن میں بستی کااُجڑا پن دیکھ کر خیال آیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بستی کو کیسے زندہ کرے گا؟
سورۃالبقرہ کی آیت نمبر 259میں ارشاد ہوا: ''یا اس شخص کی مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا، جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وہ کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زندہ کرے گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسے مار دیا سو سال کے لیے، پھر اسے اُٹھایا، پوچھا: کتنی مدت تم پر گزری ؟ کہنے لگا: ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا: بلکہ تو سو سال تک (سویا) رہا‘ پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ‘ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ‘ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اُٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا: میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔
اسی طرح اللہ تبار ک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں اصحاب کہف کا واقعہ بیان کیا جنہیں اللہ تبارک وتعالیٰ تین سو نو سال تک سلا کر دوبارہ زندہ کر دیا۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ اس حقیقت کا بیان سورہ کہف کی آیت نمبر 25میں کچھ یوں فرماتے ہیں: ''وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور نو سال اور زیادہ گزارے‘‘۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعے کو بھی بڑی شرح وبسط سے بیان کیا کہ جب انہوں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی کہ آپ مُردو ں کو کیسے زندہ کریں گے؟ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 260میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پروردگار ! مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زندہ کرے گا؟ (اللہ تبارک وتعالیٰ نے ) فرمایا: کیا تمہیں ایمان نہیں ؟ جواب دیا: ایما ن تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا: چار پرندے لو، اُن کے ٹکرے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکرا رکھ دو، پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے‘ حکمتوں والا ہے‘‘۔
اِن تمام واقعات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ پروردگار جو دنیا میں انسانوں اور اپنی مخلوقات کو دوبارہ زندہ کرنے پر قادر ہے اُس کے لیے قیامت کے دن انسانوں کو دوبارہ زندہ کرنا کچھ مشکل نہیں۔ چنانچہ انسانوں کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ ایک دن اُن کو اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہو کر جواب دینا ہو گا۔ اُس موقع پر وہی شخص کامیاب ہو گا جس کا دایاں پلڑا بھاری ہو گا اور وہ شخص ناکام ونامراد ہو جائے گا جس کا بایاں پلڑا بھاری ہو ا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ القارعہ کی آیات 6 تا 9 میں بیان فرماتے ہیں: ''پھر جس کے (نیکیوں کے) پلڑے بھاری ہوں گے وہ تو دل پسند آرام کی زندگی میں ہو گا۔ اور جس کے (نیک اعمال کے) پلڑے ہلکے ہوں گے اُس کا ٹھکانہ ہاویہ ہو گا‘‘۔
اِن آیاتِ مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کے دائیں پلڑے کا بھاری ہونااس کی کامیابی کی ضمانت اور بائیں پلڑے کا بھاری ہونا اس کی ناکامی کی علامت ہے؛ چنانچہ انسانوں کو اس دنیا میں رہتے ہوئے ابھی سے آخرت کی تیاری کرنی چاہیے تاکہ کل قیامت کے روز ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں اس انداز میں پیش ہوں کہ کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہو کر اس کی جنت اور رضا کے حصول میں کامیاب ہو سکیں اور اس کی ناراضی، غصے اور عذاب سے محفوظ رہ سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین !