5 جنوری کا دن ایک دردناک خبر کو اپنے جلو میں لیے ہوئے نمودار ہوا اور اس خبر نے ملک میں کثیر تعداد میں عوام اور علماء کرام کے دلوں پر غم کی کیفیت طاری کر دی۔ خبر یہ تھی کہ سنی علما کونسل کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا مسعود الرحمن عثمانی کو موٹرسائیکل سوار دہشت گردوں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا اور مولانا جام شہادت نوش کر گئے۔ ایک عالم دین کی شہادت کا واقعہ پاکستان کی تاریخ کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ یہاں علماء کرام کئی عشروں سے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ اس خبر کو سنتے ہی میرے دماغ کی سکرین پر بہت سے واقعات چلنا شروع ہو گئے جو ہر اعتبار سے قابلِ مذمت اور متعدد اقدامات کے متقاضی تھے لیکن ان واقعات کے تدارک کے لیے کوئی مضبوط اور ٹھوس منصوبہ بندی نہ کی جا سکی جس کی وجہ سے دہشت گردی کا معاملہ تاحال جاری و ساری ہے۔
میری عمر اُس وقت محض 15 برس تھی جب والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ ایک بم دھماکے کے نتیجے میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ وہ صحت مند اور پُرجوش انسان تھے اور ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ وہ آناً فاناً اس دارِ فانی سے کوچ کر جائیں گے۔ جس جلسہ میں آپ بم دھماکے کا نشانہ بنے‘ اس جلسے میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد بڑے انہماک سے آپ کی گفتگو کو سن رہی تھی مگر اچانک ایک بم دھماکا ہوا اور اس کے نتیجے میں بہت سے علماء کرام موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جبکہ والدِ محترم شدید زخمی ہوئے۔ چند دن ملک میں زیرِ علاج رہنے کے بعد آپ کو ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا مگر آپ زخموں سے جانبر نہ ہو سکے۔ اس کے بعد بھی ملک میں علما کرام کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری و ساری رہا اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا اعظم طارق، مولانا حق نواز اور مولانا علی شیر حیدری سمیت بہت سے علماء کرام دہشت گردی کے نتیجے میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ گزشتہ چند برس سے اس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کی لہر ایک مرتبہ پھر زور پکڑ چکی ہے۔
مولانا سمیع الحق ملک کے قد آور سیاسی و دینی راہ نما تھے اور دینی تحریکوں میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے تھے۔ وہ دفاعِ پاکستان کونسل کے سربراہ بھی تھے۔ انہوں نے ملک میں ہمیشہ شعائرِ دین کی پاسداری کرنے والی تحریکوں کی حمایت کی تھی۔ اچانک ایک دن یہ خبر آئی کہ اسلام آباد میں مولانا کو قتل کر دیا گیا ہے۔ مولانا کے قاتلوں کو گرفتار کرنے کے لیے ہر مکتبِ فکر نے مطالبات کیے لیکن اس حوالے سے کوئی خاص پیش رفت سامنے نہ آ سکی۔ ڈاکٹر عادل شہید ایک جید عالم تھے اور وہ ہمہ وقت درس و تدریس میں مصروف رہا کرتے تھے۔ وہ اپنی تدریسی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف تھے کہ اچانک اس بات کی اطلاع ملی ''ڈاکٹر عادل کو شہید کر دیا گیا ہے‘‘۔ مولانا ضیاء الرحمن جامعہ ابی بکر کراچی کے ناظم اور معروف ماہرِ تعلیم تھے‘ ان کو بھی اسی طرح شہید کر دیا گیا۔ مولانا مسعود الرحمن عثمانی بھی ایک متحرک عالم دین تھے اور ہمہ وقت درس و تدریس اور تحریکی سرگرمیوں میں مصروف رہا کرتے تھے۔ اچانک ان کی ناگہانی موت کی خبر سن کر پاکستان کے تمام محبِ دین لوگ سوگوار ہو گئے ہیں اور ہر ایک نے یہ بات محسوس کی ہے کہ یہ سانحے اور حادثات کسی بھی اعتبار سے ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہیں۔
اگر ہم پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو وہ بھی لہو میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا، اس کے بعد سابق وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو بھی ایک سانحے کے نتیجے میں اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔ پاکستان کے ممتاز ماہرِ تعلیم‘ گورنر سندھ اور طب کی دنیا میں خصوصی امتیاز رکھنے والے حکیم محمد سعید بھی ایک دہشت گردانہ کارروائی کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ صحافیوں میں سے ایک ممتاز شخصیت صلاح الدین کی تھی جو تحقیقی صحافت میں ایک بلند مقام رکھتے تھے۔ ان کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بننا پڑا۔ اتنی قیمتی شخصیات اور جانوں کا ضیاع کسی بھی طور ملک و ملت کے مفاد میں نہیں لیکن ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس حوالے سے مؤثر اقدامات کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ چند اہم اور مؤثر اقدامات جو ان واقعات کے تدارک اور سدباب میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں‘ درج ذیل ہیں:
(1) مجرموں کی شناخت اور ان کو کڑی سزائیں دینا: دنیا میں سراغ رسانی کا شعبہ بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے۔ موبائل ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کی ترقی نے مجرموں کی شناخت کے معاملے کو مزید آسان بنا دیا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردوں کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنا، ان کو پکڑنا اور قرار واقعی سزا دینا حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے لیکن دکھ اور تاسف کا مقام ہے کہ حکومتیں اس حوالے سے خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر رہیں۔ جب ہم نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کڑی سزائیں دی جاتی تھیں۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ! ہم مویشی والے لوگ ہیں ہم اہلِ مدینہ کی طرح کاشت کار نہیں ہیں۔ مدینہ کی آب و ہوا انہیں موافق نہیں آئی تھی؛ چنانچہ آنحضرتﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ مدینہ سے باہر چلے جائیں اور ان اونٹوں کا دودھ وغیرہ پئیں۔ وہ لوگ چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہو گئے اور آنحضرتﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے۔ جب آنحضرتﷺ کو اس واقعے کی خبر ملی تو آپﷺ نے ان کی تلاش میں آدمی دوڑائے، انہیں جب پکڑ کر لایا گیا تو آپﷺ نے ان کو سزا سنائی اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی اور ان کے ہاتھ کاٹ دیے گئے (انہوں نے چرواہے کو بھی اسی طرح قتل کیا تھا)۔ پھر انہیں حرہ کے کنارے چھوڑ دیا گیا اور وہ اسی حالت میں مر گئے۔
2۔ سنن نسائی میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کی بالیاں اتار لیں اور پھر اس کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا۔ لوگوں نے لڑکی کو دیکھا تو اس میں کچھ جان باقی تھی۔ وہ لوگ اس کے سامنے مختلف اشخاص کا نام لے کر پوچھنے لگے: وہ فلاں تھا؟ وہ فلاں تھا؟ آخر (اس یہودی کے نام) پر لڑکی نے ہاں کا اشارہ کیا۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا اور اس یہودی کا سر بھی اسی طرح دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
نبی کریمﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خلفائے راشدینؓ نے بھی سنگین جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو کڑی سزائیں دیتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں رونما ہونے والا ایک اہم واقعہ‘ جو کتبِ احادیث میں مذکور ہے‘ درج ذیل ہے۔
3۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اصیل نامی ایک لڑکے کو دھوکے سے (یمن کے علاقے صنعا میں) قتل کر دیا گیا۔ مغیرہ بن حکیم نے اپنے والد کے حوالے سے بیان کردہ روایت میں کہا کہ چار آدمیوں نے اس بچے کو قتل کیا تھا تو حضرت عمرؓ نے ان سب کو قتل کی سزا سنائی۔ بعض افراد کی جانب سے ایک قتل پر چار لوگوں کو سزائے موت سنانے کے فیصلے پر اعتراض کرنے پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر سارے اہلِ صنعا (یمن کے لوگ) اس کے قتل میں شریک ہوتے تو میں سب کو قتل کرا دیتا۔
مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سنگین نوعیت کے جرائم میں کڑی سزائیں دینی چاہئیں اور اس سلسلے میں مجرموں کے ساتھ کسی بھی قسم کی رو رعایت برتنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
(2) علماء کرام کی سکیورٹی اور تحفظ کو یقینی بنانا: جہاں مجرموں کو کڑی سزائیں دینا ضروری ہے وہیں اس طرح کے واقعات کے سدباب کے لیے ملک کے قیمتی اذہان کی سکیورٹی کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وہ لوگ جو دین اور درس و تدریس کے شعبوں میں ممتاز حیثیت کے حامل ہیں‘ اگر ان کی بروقت اور بھرپور سکیورٹی کا انتظام کیا جائے تو ناخوشگوار واقعات کا سدباب ہو سکتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت کے اہم عہدیداران کی بھرپور سکیورٹی کا مؤثر انتظام تو کیا جاتا ہے لیکن علمائے دین کو اس حوالے سے لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے اور کئی مرتبہ دِین کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والی شخصیات انتہائی ناگفتہ بہ حالات کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کو تنہا، لاچار اور بے بس دیکھ کر مجرمانہ ذہن رکھنے والے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اکثر وہ علما کو آسان ہدف سمجھتے ہوئے قتل کرنے کے بھیانک منصوبے بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
جہاں ان واقعات کے تدارک کے لیے بھرپور اور مؤثر کردار ادا کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے وہیں پسماندگان کی کفالت کرنا بھی حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں بنیادی انسانی ضروریا ت کو پورا کرنے کے لیے سوشل ویلفیئرکا نظام موجود ہے۔ پاکستان میں اس قسم کا نظامِ کفالت تو موجود نہیں لیکن کسی شخص کی موت کے بعد اس کے بچوں کا بنیادی تعلیم اور بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہو جانا‘ ہر اعتبار سے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں حکومت سے اس بات کا بھرپور مطالبہ کرنا چاہیے کہ مولانا مسعود الرحمن عثمانی کی اولاد کی کفالت کے لیے بھرپور انتظام کیا جائے اور اس قسم کے واقعات اور حادثات میں نشانہ بننے والے لوگوں کے بچوں کی عملی زندگی میں قدم رکھنے تک بھرپور انداز سے کفالت کی جائے۔ اس حوالے سے کی جانے والی کوئی بھی کوتاہی ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سرزمینِ پاکستان کو امن، اطمینان اور سکون کا گہوارہ بنائے اور مملکتِ خداداد کو دہشت گردوں کی چیرہ دستیوں اور کارروائیوں سے محفوظ فرمائے، آمین!